• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’جب سے موجودہ بحران پیدا کیا گیا ہے، دبے دبے لفظوں میں وہی با تیں ہو رہی تھیں، جن کو صرف سمجھنے والے ہی سمجھتے ہیں۔ عوام کی نظروں میں تو انقلاب آ رہے تھے، ملک 68 سال بعد دوبارہ آزاد ہونے والا تھا، لیکن جاننے والے جانتے تھے کہ دراصل انقلاب اور آزادی کے تھیلوں سے وہی چیزیں نکلنےوالی ہیں جو پاکستان میں ہر سویلین حکومت کے دورِ میں وقفے وقفے سے نکلا کرتی ہیں۔سو آہستہ آہستہ وہی مطالبات سامنے آنا شروع ہو گئے جو پاکستانی تاریخ میں آمروں کےپسندیدہ رہے ہیں۔سب سے پہلے عمران خان نے پردہ اٹھایا اور ٹیکنو کریٹ حکومت کا مطالبہ کر ڈالا۔ اس کے بعد چوہدری شجاعت نے قومی حکومت کا مطالبہ کر دیا اورپھر طاہر القادری کے انقلاب سے بھی یہی مطالبہ برآمد ہوا۔کچھ بھی ہو جائے تان یہیں آ کر ٹوٹتی ہے کہ قومی حکومت بنا دیں، ٹیکنوکریٹ حکومت بنا دیں۔ بظاہر مطالبہ جو بھی ہو لیکن پس ِ پردہ اصل مقصد یہی ہوتا ہے کہ جمہور کو حقِ حکمرانی نہیں دیا جا سکتا‘‘۔

یہ اقتباس میرے کالم ’’قومی حکومت کا شگوفہ‘‘ سے لیا گیا ہے جو 22 اگست، 2014 کو روزنامہ جنگ میں چھپا تھا۔ اگست 2014 سے مارچ 2022 تک ہماری ’’جمہوریت‘‘ کا ارتقا یہاں تک پہنچا ہے کہ اب قومی حکومت کا مطالبہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کر رہے ہیں۔ انکی تجویز کردہ ’’قومی حکومت‘‘ میں تحریک انصاف کے علاوہ ساری جماعتیں ہونگی، جو پانچ سال تک قوم کی خدمت کرے گی (اور غالباً جس کے خادم اعلیٰ بھی وہ خود ہونگے)۔ جس طرح بچوں کو بہلانے والا جادوگر ہیٹ میں سے اچانک کبوتر نکال لاتا ہے اسی طرح شہباز شریف صاحب بھی ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ میں سے اچانک ’’قومی حکومت‘‘ برآمد کر لائے ہیں اور ہمارے ’’جمہوریت پسند‘‘ بچوں کی طرح تالیاں بجا رہے ہیں۔

’’قومی حکومت‘‘ کے بارے میں البتہ چند سوالات ہیں، جن کے جواب درکار ہیں۔ مجوزہ ’’قومی حکومت‘‘ آئین کے کس آرٹیکل کے تحت قائم ہوگی اور اسکو کون منتخب کرے گا؟ آئین کے آرٹیکل 52 کے تحت قومی اسمبلی جو وفاقی حکومت کو منتخب کرتی ہے، وفاقی حکومت قومی اسمبلی کی موجودگی میں قائم رہ سکتی ہے جسکی اپنی مدت پانچ سال تک ہو سکتی ہے۔ البتہ اس سے پہلے وفاقی حکومت کو عدم اعتماد اور قومی اسمبلی کو آئین میں درج طریقہ کار کے مطابق تحلیل کیا جا سکتا ہے۔ آرٹیکل 224 کے مطابق مدت پوری کرنے یا تحلیل، ہر دو صورت میں ساٹھ دنوں کے اندر اندر دوبارہ قومی انتخابات کرانے ہونگے۔ آئینی بندوبست میں تو صرف اور صرف پاکستانی عوام کو پانچ سال تک وفاقی حکومت منتخب کرنے کا اختیار ہے، شہباز شریف صاحب عوام کی منتخب کردہ وفاقی حکومت کے برعکس کسی سے ’’قومی حکومت‘‘ منتخب کروانا چاہ رہے ہیں۔ آئین میں وفاقی حکومت کی اصطلاح سو سے زیادہ مرتبہ استعمال ہوئی ہے لیکن ’’قومی حکومت‘‘ کی اصطلاح ایک دفعہ بھی استعمال نہیں ہوئی، تو کیا شہباز شریف آئین میں ترمیم کا ارادہ رکھتے ہیں؟ یا پھر آئین کو دل سے تسلیم نہ کرنے والی قوتوں والا کوئی پلان انکے زیر غور ہے؟ اگلا سوال یہ ہے کہ نام نہاد ’’قومی حکومت‘‘ سے وہ اپنے تئیں تحریک انصاف کو کیسے نکال سکتے ہیں؟ کیا تحریک انصاف قوم کا حصہ نہیں ہے؟ اور اس ’’قومی حکومت‘‘ کیلئے پانچ سال کی مدت کس نے طے کی ہے؟ اگر تو انکی مراد نئے انتخابات کے بعد بننے والی حکومت ہے تو اسکے لیے نہ تو آئین نے ’’قومی حکومت‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے، نہ ہی ہمارے ہاں سیاسی بحث میں یہ اصطلاح استعمال ہوتی ہے اور نہ ہی ہونی چاہئے۔ ’’قومی حکومت‘‘ کی اصطلاح ہمارے ہاں ایک خاص قسم کی حکومت کیلئے مستعمل ہے جسے عوام کی بجائے کسی اور نے منتخب کیا ہو، جو عوام کی بجائے کسی اور کو جوابدہ ہو اور جو عوام کی بجائے کسی اور کی منشا کے تابع ہو۔ اگر دوبارہ ایسی ہی حکومت بننی ہے تو موجودہ حکومت میں اوراس مجوزہ حکومت میں کیا فرق ہو گا؟ ہمارے آئین میں ایسی ’’قومی حکومت‘‘ کی کوئی گنجائش نہیں۔ بہتر ہے کہ مسلم لیگ (ن) اس طرح کے مطالبوں سے کنفیوژن پھیلا کر اپنی ساکھ متاثر نہ کرے۔

تازہ ترین