• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

اس ایشو پر میں یہ چوتھا کالم لکھ رہا ہوں، گزشتہ کالم میں‘ میں نے اس ایشو کے خطرات سے اعلیٰ سطح پر حکومت کو آگاہ کرنے کیلئے سینیٹ کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین پروفیسر ساجد میر کی طرف سے اس وقت ملک کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو 11 مارچ 2015 ء کو لکھے گئے ایک خط کا ذکر کیا جس میں اسٹینڈنگ کمیٹی کی طرف سے سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو سمندری جارحیت (Sea Intrusion) سے بچانے کے لئے کئی سفارشات مرتب کیں جو اس خط کے ساتھ وزیر اعظم کو ارسال کی گئی تھیں۔ میں نے تین سفارشات کا ذکر بھیکیاتھا جبکہ باقی دو سفارشات اس کالم میں پیش کررہا ہوں۔

(1) دریائے سندھ سے پانی کے زیادہ بہائو کو یقینی بنانے کے لئے پاکستان کے صوبوں میں دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کے بارے میں کئے گئے معاہدے پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے اور ساتھ ہی بیراجوں اور سارے ڈیموں کی بھل صفائی کی جائے۔ (2) سمندر میں ذوالفقار آباد کے پاس دیوار کی تعمیر کے پروجیکٹ پر آنے والے اخراجات کا 50 فیصد وفاقی حکومت سندھ کی حکومت کو فراہم کرے۔ (3) اسٹینڈنگ کمیٹی نے یہ بھی سفارش کی کہ پاکستان کے ساحلی علاقوں سے متصادم سمندری جارحیت (Sea Intrusion) والے ایشو پر ترجیحی طور پر صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کی موجودگی میں مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے اجلاس میں غور کیا جائے اور اس سلسلے میں منصوبہ بندی کمیشن کو بھی اعتماد میں لیا جائے مگر افسوس کہ کچھ سال پہلے سینیٹ کمیٹی نے جو سفارشات کی تھیں ان کا حکومت کے اعلیٰ اداروں نے کوئی نوٹس نہ لیا۔ چونکہ یہ ایشو انتہائی حساس نوعیت کا تھا لہٰذا 28 مارچ 2016 ء کو نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشنو گرافی‘ حکومت پاکستان کے زیرِ اہتمام سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت میں ایک اجلاس منعقد کیا گیا جس میں حکومت کی طرف سے جاری کیے گئے ’’وژن 2025 ء ‘‘ کی روشنی میں سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو سمندری جارحیت (Sea Intrusion) سے محفوظ رکھنے کے لئے ضروری اقدامات،امکانی حل اور سفارشات کے سلسلے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔ منصوبہ بندی اور ترقیات کے بارے میں سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے کنوینر و سینیٹر ڈاکٹر کریم خواجہ نے اس ایشو پر تفصیلی غور و فکر کرنے کے لئے کئی سینیٹرز، سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں اور مرکزی حکومت کے نمائندوں کو مدعو کیا کہ وہ اس ایشو پر اپنی رائے دیں۔

اس اجلاس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے نمائندوں اور سینیٹرز کے علاوہ کچھ سیاسی رہنمائوں اورمجھ سمیت دیگر صحافیوں کو بھی مدعو کیا گیا جبکہ جن سیاسی شخصیات کو مدعو کیا گیا ان میں جماعت اسلامی کے سراج الحق اور ایم کیو ایم کے رہنما بھی شامل تھے۔ اجلاس سے، سب سے پہلے سینیٹ کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر کریم خواجہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ اسٹینڈنگ کمیٹی نے اس ایشو کو ایک سال قبل اٹھایا تھا مگر اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ایشو پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ لاکھوں سال سے عظیم دریائے سندھ سے بڑی تعداد میں دریائی ریت سمندر میں شامل ہورہی ہے۔ اس صورتحال کے حل موجود ہیں مگر اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے لئے کون سا حل کارآمد ثابت ہوگا۔ ٹیکنیکل بریفنگ کے دوران پاکستان نیوی کے کمانڈر اور ڈپٹی ہائیڈرو گرافر سلمان احمد خان نے سامعین کو بتایا کہ ساحلی علاقوں میں سمندری پانی کی جارحیت (Sea Intrusion) عالمی منظر کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی طرف سے کئے گئے مطالعاتی سروے کے مطابق بشمول کراچی 20 بڑے ساحلی شہر سمندری جارحیت (Sea Intrusion) کے نشانے پر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’مختلف مقامات پر سمندری جارحیت کی سطح مختلف ہے‘‘۔ اس سلسلے میں سب سے بدترین صورتحال جنوبی ایشیاء یعنی پاکستان‘ ہندوستان اور بنگلہ دیش کی ہے جہاں 2080 ء کے بعد ہر سال 5 کروڑ لوگ سیلاب کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حال ہی میں کئے گئے مطالعاتی سروے سے یہ پتہ چلا ہے کہ سمندری سطح کے بلند ہونے سے انڈس ڈیلٹا کے نزدیک واقع گجرات کا سمندری ساحل سب سے زیادہ سمندری جارحیت کے نشانہ پر ہے۔ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشنو گرافی (این آئی او) کی ابتدائی کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے کمانڈر سلمان نے ایک تصویر کا حوالہ دیا جس کا دنیا کے ایک ممتاز تحقیق کار نے عالمی Deltas کے حوالے سے ذکر کیا تھا اس ریسرچر کا نام ڈاکٹر جیمس سائوسکی ہے۔

(جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین