• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

4اپریل، جب بھی آتا ہے بھٹو صاحب کی پھانسی پہ فہمیدہ ریاض کا جملہ یاد آجاتا ہے۔ اس نے کہا تھا ’’آج بھٹو کو نہیں جمہوریت کو پھانسی دے دی گئی‘‘ اس جملے پر ضیاء الحق حکومت نے فہمیدہ ریاض پر غداری کا مقدمہ بنایاتھا۔ وہ بیزار ہو کر ملک چھوڑ گئی۔ اب جمہوریت کے تازہ قتل کے بعد، معلوم نہیں کتنوں کو غدار قرار دیا جائے گا۔ دنیا کی نظروں میں، ویسے تو پاکستان پہلے ہی غلاموں کا غلام رہا ہے اس نظریے کے خلاف بولنے والوں کو کوڑے، پھانسی اور ملک بدری جیسے سانحات سہنے پڑے ہیں۔ ابھی تو پہلا ورق کھلا ہے اور فرح بی بی جو سر ڈھکے نیک پروین نظر آتی تھیں جہاز کی سیٹ پر جینز پہنے نظر آئیں اور سب سے بڑھ کرایک صاحب، جو لاہور کے ٹائیکون گز شتہ 25برسوں سے ہیں، نے بھی اپنی فیاضی کا مرثیہ، کشتی ڈوبنے کےبعدکہنا شروع کیا ہے۔4اپریل کو ویسے تو بلاول میاں سندھ، سکھر اور شاید لاڑکانہ میں بھی تقریریں کر رہے تھے۔ یہ دن تو سیاست کے ہاتھوں اور آمروں کے حکم پہ بھٹو صاحب کو پھانسی دینے کا دن تھا۔ باقی سیاست تو ساری عمر کرتے رہو گے۔انہیں یاد رکھو جن کے طفیل خاندان لازوال ٹھہرا، مجھے بہت عجیب لگا، جبکہ لندن میں ہونے والی نشست میں انکی بیٹی بھی شریک ہوئیں۔

4اپریل سے پہلے7مارچ کو ملنے والے خط کا معمہ تھا بھی نہیں اور تھا بھی۔ اس کو حل کرنے کو حامد میر نے باقاعدہ تفتیش کی اسکے باوجود ’’میں نہ مانوں ‘‘،بالکل ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی طرح نعرے بازی جاری ہے۔اس نعرے بازی سے پہلے ہی ہماری عزیز شاعرہ نورالہدی شاہ نے نظم میں کہا ’’یہ خط میں نے لکھا تھا،’’ نظم اس سے زیادہ لمبی ہے جو ہر روز عمران خان، دل کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں مگر نظم بہت زبردست اشارہ ہے کہ ہر زمانے میں، ہر کرسی سے اتر جانے والے، اپنی معصومیت کیسے ظاہر کرتے رہے ہیں۔آجکل رمضان ہیں اور سنا ہے بلکہ پڑھا ہے کہ شیطان اس مہینے میں قید کر دیا جاتا ہے۔ شاید پیرول پر رہا کر کے اسلام آباد بھیج دیا گیا ہو کہ جس وقت لوگ تراویح کیلئے مسجدوں کی سمت روانہ ہوتے ہیں۔ ڈی چوک میں جانثار، جشن مناتے ہوئے رقص کر رہے ہوتے ہیں۔ اس پر تنبیہ مولانا اشرفی بھی نہیں کر رہے اور ریاستِ مدینہ کا وردکرنے والوں کے ہاتھ میں تسبیح بھی نہیں دکھائی دے رہی۔ کیا رمضان میں یہ سارے جھوٹ بولنے والوںکے چہرے نہ دکھائے جائیں، یا پھر سب صرف یہ پڑھتے دکھائی دیں، ’’میرے مولا بلا لے مدینے مجھے‘‘، ویسے تو اب سعودی عرب میں آزادیاں بہت ہو گئی ہیں۔ کوئی دن جاتا ہے کہ بیت المقدس کے رہنے والے بھی حضرت موسیٰؑ کی باتیں، ہمارے سارے چینلوں پر بیان کر رہے ہونگے۔

یہیں مجھے یاد آنے لگی میری دوست سارا سلہری، جس نےاپنی پہلی کتاب پرنٹ کرنے سے پہلے مجھ سے میری کچھ نظموں کو استعمال کرنے کی اجازت لی تھی۔ یہ دوستی اس زمانے میں بھی رہی جب اس نے ایک امریکی ٹائیکون سے شادی کر لی تھی۔ فطرت اور خدا کو اسکا یہ فیصلہ پسند نہیں آیا۔ جسمانی طور پر اسکو بے پناہ دولت بھی نہ بچا سکی۔ وہ جب تک ہمت رہی، پڑھاتی رہی، لکھتی رہی۔ اسکی پہلی کتاب نے دنیا بھر میں شہرت حاصل کی۔ اسے اپنے ملک اور ثقافت کو آپس میں مربوط کرنے کا سلیقہ آتا تھا۔اسکی امریکن دوست شیرون کیمرون کا یہ کہنا بہت پسند تھا کہ وہ، سارا کے ناولٹ کو غزل کی طرح پڑھتی اور لفظوں کے ذائقے کووہ بہت پسند کرتی تھی۔ جب بھی سارا سے بات ہوتی وہ کہتی ’تم بولتی جائو مجھے اچھی اردو سنے بہت دن ہو گئے۔مجھے تو پنجابی زبان میں لطیفے بھی سننے کا بہت شوق رہا ہے۔ وہ ہر روز اور ہر گفتگو میں لاہور کی بسنت کو یاد کرتے ہوئے کئی دفعہ جذباتی ہو جاتی تھی۔ ہماری کامن دوست ڈاکٹر عذرا رضا کو غالب پڑھنا اور دوسروں کوسنانا بہت پسند تھا۔ سارا سلہری عذرا سے غالب کے شعرسن کر سمجھا کرتی تھی۔ اسکی انگریزی اس لیے اچھی تھی کہ اسکی ماں انگریز تھی۔ وہ زیڈ اے سلہری، بزرگ صحافی کی بیٹی تھی۔ انکی دوسری شادی سے خائف ہو کر اس نے لکھنا شروع کیا تھا۔ یہ خفگی وہ جب تک زندہ رہے، سارا ان کے لیے زہر گھولتی رہی۔ وہ دل کی بہت اچھی تھی۔ منافقت کو ناپسند کرتی تھی۔ آج اگر وہ پاکستان کے حالات کے بارے میں جانتی تو ہنسی میں اڑاتے ہوئے کہتی کہ سترسال سے یہی ناٹک چل رہا ہے۔ وہ مجھ سے خفا ہوتی تھی کہ تم پاکستان میں یہ سب کیسے برداشت کر رہی ہو، مجھے اس عمر تک پہنچتے ہوئے بہت مشورے ملے ہیں کہ یہاں سے باہر نکلو مگر یہ میری زمین مجھے اپنے غریبوں کا حال پناہ گاہوں اورکوئی بھوکا نہ رہے جیسے مصنوعی منصوبوں کے بارے میں غصہ آتا تھا۔ مگر ڈاکٹر ثانیہ دوست تھی اور خود کو پاکستان کا ایڈم اسمتھ سمجھ کر پاکستان کے غریبوں کے دن بدلنے کا سوچ کر، جل کر اس نے کہا کہ میں غریب عورتوں کو کچن گارڈن بنانا سکھائوں گی۔میں انکو بکریاں اور مرغیاں پالنا سکھائوں گی۔ تو ایک دن میں نے ہنستے ہوئے کہا۔’’میری دوست میں نے 1961 میں لوکل گورنمنٹ میں نوکری کی تھی۔ اور مجھے بھی کہا گیا تھا کہ عورتوں کو یہ سارے گر سکھائو۔ میں جانتی تھی کہ میرے ملک کی عورت جو سبزیاں اگاتی ہے، وہ بھی شہروں میں بکنے کو بھیج دیتی ہے، وہ تو اچار سے روٹی کھاتی اور بچوں کو کھلاتی تھی اب تو یہ بات پرانی ہو گئی۔ اب دنیا بھر میں کیا پاکستان میں بھی۔عورتیں، پائلٹ بھی ہیں اور چھوٹے شہروں تک میںڈی پی اولگی ہوئی ہیں۔ غربت کے جال سے ذہنی طور پر صرف عورتوں کو نہیں، مردوں کو بھی نکالنا ہے۔ورنہ غیرت کے نام پر قتل کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ یہ جو سال میں ایک دفعہ تم غریب عورتوں کو دھوپ میں قطار بنا کر بارہ ہزار روپے دیتی ہو۔ اس سے تو کچن بھی نہیں چل سکتا۔ عورتوں کو اسطرح سکھائو کہ جیسے عمر کوٹ میں سو عورتیں ٹرک چلا رہی ہیں۔ جیسے سندھ رورل سپورٹ نے عورتوں کو چھوٹی دکانوں کے چکر سے نکال کر، مارکیٹ میں آنے کا حوصلہ دیا۔ دیکھتے ہیں پاکستانی عورتوں کا مقدر سنوارنے اب کون خاتون اپنے رشتے استوار کر رہی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین