شاید 1993کے انتخابات کا موقع تھا۔ رانا عیش بہادر ایڈووکیٹ پاکستان پیپلز پارٹی کے سرگرم ممبر تھے جنہوں نے بھٹو مرحوم اور پارٹی کے لیے سختیاں اور صعوبتیں برداشت کیں۔ پارٹی ٹکٹ دینے کا وقت آیا تو محترمہ بینظیر بھٹو نے ان کی قربانیوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انہیں حلقہ گارڈن ٹائون سے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دینے کا عندیہ دیا۔ زیرک پارٹی رہنماؤں نے بی بی کو بتلایا کہ رانا صاحب با وفا ساتھی ہیں مگر ان کی مالی حالت کمزور ہے اور ان میں الیکشن کے اخراجات اٹھانے کی سکت نہیں۔ اکثر نے مشورہ دیا کہ ٹکٹ کسی مضبوط امیدوار کو دیا جائے۔ بینظیر شاید ابھی سیاست کی سیاہ اور سنگدل روایات سے پوری طرح روشناس نہ ہوئی تھیں۔ وہ ابھی سیاست کے اخلاقی اصولوں پہ کاربند تھیں اور اسے مشن سمجھ رہی تھیں۔ لہٰذا وہ بضد رہیں کہ وفا کیش رانا عیش بہادر ہی اس حلقے سے پیپلز پارٹی کے امیدوار ہوں گے۔ الیکشن ہوئے، دلِ نا تواں نے مقابلہ تو خوب کیا مگر پِٹ گئے۔ 24000ووٹ لے کر دوسرے نمبر پہ آئے۔ رانا عیش بہادر اپنی الیکشن مہم سادگی سے ہی چلاتے رہے۔ عوام کی بھاری تعداد نے شعور کا مظاہرہ کیا اور اپنا ووٹ اپنے جیسے کو ڈال دیا مگر اس سے بڑی تعداد میں گاڑیوں والے، سائیکل والے کو کیسے ووٹ ڈال دیتے۔ بلکہ سائیکل والے بھی گاڑیوں والوں کو ہی ووٹ ڈال کے آئے تھے کیوںکہ وہ ان کے کام تو آ سکتا تھا۔ سائیکل والا کمزور ان کے لیے کیا کر سکتا تھا۔ رہنما نے تو اپنا فرض نبھا دیا مگر لوگوں نے اپنا ووٹ طاقت اور دولت کی سیاست کے حق میں دے دیا۔ یہ روایت روز بروز مضبوط تر ہوتی چلی گئی۔
صرف سنا ہی ہے کہ سیاست کو عبادت سمجھا جاتا تھا کیونکہ اس کے ذریعے ملک اور قوم کی فلاح کرنا مقصود ہوتی تھی۔ حقیقتاً تاریخ کے ادھ کھلے کواڑوں میں جھانکیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہماری سیاست میں شروع سے ہی اینٹ ٹیڑھی لگ گئی تھی۔ سیاست جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی آماجگاہ بن گئی۔ وہ کروڑوں عوام، جن کا تعلق اور ہی طبقات سے تھا، کے نمائندے بن کر اسمبلیوں میں پہنچتے اور اپنے مفادات کا تحفظ کرتے رہے۔ متوسط اور تعلیم یافتہ طبقے کو موقع ہی نہ دیا گیا۔ کوڑے کھانے والوں اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والوں کو موقع ملا بھی تو طاقتور کی چاہ میں مبتلا بھائی بندوں نے انہیں دھول چٹا دی۔ متمول اور با اثر کروفر سے حکمرانی کرتے رہے۔ یہ بیماری یہاں تک بڑھ گئی کہ تبدیلی کے دعویدار کے دائیں بائیں اور ساتھ ساتھ بھی یہی لوٹے اور لٹیرے رہے۔ اس کے شانہ بشانہ اپنی سیاست، دولت اور اہمیت کو بڑھاتے رہے۔
یہ سیاست نہیں مجرمانہ فعل ہے۔ آج پاکستان کی سیاست متمول اور موقع پرست نمائندوں سے آباد ہے۔ خال خال ہی کسی متوسط طبقے کے امیدوار کو ٹکٹ ملتا ہے۔ اگر کسی کو مل جائے تو وہ جلد ہی پارٹی کے اندر پچھلی صفوں میں دھکیل دیا جاتا ہے یا حالات اسے مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ مال بنائے اور مال داروں کی صف میں شامل ہو جائے۔ خود بھی خوشحال ہو جائے اور دوسروں کو بھی خوش کرے۔
جاگیردار، امیر اور با اثر عوامی نمائندے اپنی اہمیت جانتے ہیں اور مختلف پارٹیوں میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ یہ حبِ جاہ کے رسیا ہی ہمیشہ پاکستان کی سیاست میں ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے رہے ہیں۔ ان سے نجات حاصل کرنے سے ہی سیاست کی نجاست دور ہو گی۔ سیاست کو ان سے پاک کرنا ہو گا۔ ابھی جیسے سیاست کے چوہدریوں نے پانچ ممبران کے بل بوتے پر جو سیاسی کھیل کھیلا ہے وہ ہماری سیاسی اور معاشرتی تاریخ کی آلودہ تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ صاحبِ اقتدار نے تو حد ہی مکا دی ہے۔ جن سے ہاتھ ملانا نہیں چاہتا تھا اور اُنہیں طرح طرح کے القاب سے نوازتا تھا انہیں منت کر کے گلے لگا لیا ہے۔ مقصد صرف ایک تھا، اپنا اقتدار بچانا۔ اس کے لیے ہر قسم کے اصول اور وعدے کو بلا حیل و حجت ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔
اِس جرم کے ارتکاب اور فروغ میں سیاسی پارٹیوں کے مالکان برابر کے شریکِ ہیں جو ان با اثر لوٹوں کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ جب صرف حصولِ اقتدار اور طولِ اقتدار ہی مقصد ہو تو کسی کو بھی گلے لگا لیا جاتا ہے۔ قبضہ گروپوں کے سرغنہ کو ساتھ ملا لیا جاتا ہے۔ داغدار اور رشوت خور قریبی ساتھی بن جاتے ہیں۔ مالدار سے ناطہ اور رشتہ جوڑ لیا جاتا ہے۔
در اصل یہی وہ عناصر ہیں جو نادیدہ ہاتھوں میں کھیل کر سیاسی بحران پیدا کر دیتے ہیں۔ ان کو صرف اپنی واہ واہ اور اپنے حلقے کی کامیابی مقصود ہوتی ہے۔ شاید اہلِ دل جمہوریت پسندوں کو ابھی یاد ہوگا کہ پرویز الٰہی نے چند سال قبل زور و شور سے کہا تھا کہ ضرورت پڑی تو پرویز مشرف کو دس مرتبہ بھی منتخب کرائیں گے۔ کوئی سیاستدان آئین پاکستان کے خلاف نہیں جا سکتا۔ اس جرم کی سزا آئین میں تجویز ہے۔ نہ جانے کب سیاست اس نجاست سے پاک ہو گی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)