• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریاض حسین قیصری اوقاف میں ایس ڈی او ہوتے تھے۔ ریٹائرہو گئے۔ میرے ایک دوست کے دوست تھے۔ مجھے ان کا ایک خط ملااور خط تھا بھی ایک دوست کے حوالے سے۔ میں نے سوچا کہ ای میلز اور میسجز کے دور میں خط ؟پھر خیال آیا کہ اگلے وقتوں کے لوگ ابھی تک اگلے وقتوں میں ہی رہتے ہیں۔ بہر حال خط پیش خدمت ہے۔

’’محترم منصور آفاق صاحب!محکمہ اوقاف و مذہبی امور پنجاب کا واحد محکمہ ہے جو اولیا ئےکرام کے مزارات اور ان کی تعلیمات کے تحفظ اور ترویج کے لیے کام کرتا ہے۔ منفرد بات یہ ہے کہ یہ محکمہ پنجاب گورنمنٹ سے کسی بھی مد میں کوئی مالی امداد حاصل نہیں کرتا، دیکھا جائے تو یہ خود مختار و خود انحصار محکمہ اپنے افسران کے سامنے بڑے بڑے چیلنج رکھتا ہے۔ آج کل جواد اکرم ناظم اعلیٰ و سیکرٹری اوقاف ہیں اور پنجاب کے مزارات کے متولی اور مساجد و وقف جائیدادوں کے محافظ ہیں۔ محکمہ میں آئے ابھی انہیں تین ماہ بھی پورے نہیں ہوئے کہ انہوں نے تمام معاملات پر پوری گرفت حاصل کر لی ہے۔ جس محکمہ میں آدھی تعداد سے زیادہ ایسے ملازمین ہوں جو خطیب، نائب خطیب، موذن، نائب موذن، امام جیسے عہدوں پر متمکن ہوں انہیں نوکری کے ضابطے میں رکھنا بہت مشکل کام ہے۔ آپ نے فرقہ پرستی کو ایک جانب ڈالتے ہوئے اس بات کا بار بار اظہار کیا ہے کہ جب ملازم سرکاری نوکری کرتا ہے تو وہ ایک ملازم ہوتا ہے، دیوبندی، بریلوی، اہل تشیع و دیگر کی تقسیم بعد میں آتی ہے۔ بس یوں سمجھ لیں یہی جواد اکرم صاحب کی کامیابی کا راز ہے کہ وہ ایسی فرقہ پرستی سے بالا تر ہو کر محکمے کے معاملات سدھارنے میں لگے ہوئے ہیں۔ محکمہ کے وزیر پیر سیدسعید الحسن صاحب کے ساتھ کسی بھی سیکرٹری کی انڈر سٹینڈنگ پیدا نہیں ہوئی۔ منسٹر صاحب اس بات پر نالاں ہی رہے کہ ان کے سترہ نکاتی ایجنڈے پر کسی سیکرٹری نے سنجیدگی سے عمل درآمد نہیں کرایا۔ جواد اکرم صاحب اور ڈائریکٹر ایڈمن تجمل حسین رانا صاحب کے ساتھ منسٹر اوقاف کی ایسی شاندار انڈرا سٹینڈنگ پیدا ہو گئی تھی کہ ایک بار جب محکمہ کے مافیاز نے مل کر انہیں ٹرانسفر کرانے کی کوشش کی تو منسٹر صاحب ان کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہو گئے۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ سیکرٹری اوقاف اور ڈائریکٹر ایڈمن نے یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ محکمے کے ملازمین کا اسٹیٹس کو توڑیں گے، محکمہ کو کالی بھیڑوں سے پاک کریں گے اور اس کے لیے انہوں نے ٹرانسفر پوسٹنگ کا نیا معیار بنا رکھا ہے۔ اب کوئی ٹرانسفر یا پوسٹنگ کارکردگی کے بغیر نہیں ہوتی، اس کے لیے سیکرٹری اوقاف انٹرویو کرتے ہیں۔ محکمہ کی ان مالدار سیٹوں پر کہ جہاں سالہا سال سے محکمہ کے کچھ افسران براجمان تھے اور انہیں ہلانے کے لیے بہت طاقت کی ضرورت تھی، جواد اکرم نے انہیں وہاں سے اکھاڑ پھینکا ہے اور وہاں بہتر اور دیانتدار افسران کو لگا یا ہے جس کا نتیجہ محکمہ کی آمدن میں اضافے کی صورت میں نکلا ہے۔ اب جواد اکرم اوقاف نیوز کے نام سے ایک ٹیلی ویژن چینل شروع کرنے جا رہے ہیں۔ اوقاف نیوز لیٹر جو کئی سال سے تعطل کا شکار تھا، اس کا آغاز کر رہے ہیں۔

جواد اکرم نے محکمہ کی ایک قباحت کو بہت نمایاں کیا ہے۔ اس سے پہلے افسران الگ الگ، ایک دوسرے سے چھپ کر سیکرٹری صاحبان سے فوائد حاصل کر لیتے تھے۔ کسی دوسرے کو اس کی خبر تب ملتی تھی جب وقت گزر چکا ہوتا تھا۔ جواد اکرم صاحب نے ہر بات کھلے عام رکھی ہے اور اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ چھپ کر جو کام کیا جاتا ہے وہ جرم کہلاتا ہے۔اور اس وجہ سے محکمہ میں بہت سی قباحتیں پیدا ہو گئی ہیں۔ ان کو ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہر کام اور آرڈر سب کے سامنے لایا جائے۔

جواد اکرم ایک ادب دوست بیوروکریٹ ہیں۔ معروف نظم نگار شاعر مبارک شاہ کے قریبی دوستوں میں رہے ہیں۔جب ڈپٹی کمشنر وہاڑی تھے وہاں دو سال مسلسل مشاعرے منعقد کرائے اور پاکستان بھر سے نمائندہ شعرا کو دعوت دی، ان کی خوب خدمت کی اور یادگار نشستیں کرائیں۔ گلگت بلتستان میں جو ادبی تقریبات برپا ہوتی رہی ہیں اور جن میں شرکت کے لیے پنجاب سے شعرا تسلسل سے جاتے رہے ہیں،اس کے پیچھے بھی جواد اکرم کی کاوشیں ہی شامل تھیں۔ جواد اکرم کو علم الاعدادسے بھی گہری دلچسپی رہی ہے۔مزارات کے حوالے سے وہ کلچر کی تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں مزارات پر کلچرل سرگرمیاں جیسا کہ بسنت اور میلہ چراغاں وغیرہ ہونا چاہئیں۔ ان ثقافتی سرگرمیوں کے بغیر لاہور کی محفلیں اور زندگی کی خوشیاں ویران ہو گئی ہیں۔ وہ میلہ چراغاں اور بسنت کو واپس لاہوریوں کے پاس لانا چاہتے ہیں۔ وہ علامہ اقبالؒ کے مزار کو دربار بنانا چاہتے ہیں اور وہاں سالانہ عرس کی باقاعدگی سے تقریب کا انعقاد کرنا چاہتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی ان کا خیال ہے کہ 21 اپریل کو اقبال کے یوم وفات کے بجائے”عرسِ اقبال“ کے طور پر منایا جانا چاہیے۔اوقاف کی تاریخ میں وہ پہلے سیکرٹری ہیں جو عرس کی تقریبات میں باقاعدگی سے شرکت کرتے ہیں۔عرس کی رسومات کو جاری رکھنے کے خواہاں ہیں۔ قرآن، اسلامی تاریخ اور اس کے موضوعات ان کی دلچسپی کا خاص مرکز ہیں۔ ان کو قرآن باترجمہ یاد ہے اور اپنی گفتگو میں وہ قرآنی آیات کا بکثرت حوالہ دیتے ہیں۔بہت کم عرصے میں انہیں اوقاف کے زیر انتظام وقف جائیدادوں کے انتظام اور بہتر استعمال پر دسترس حاصل ہو گئی ہے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ جب سیکرٹری اوقاف کو معاملات پر دسترس حاصل ہو جاتی ہے تو اس کا تبادلہ ہو جاتا ہے۔ حکومت پنجاب سے یہی گزارش ہے کہ محکمہ اوقاف میں سیکرٹری صاحبان کو دو سے تین سال تک تعینات رہنے دیا جانا چاہیے تا کہ محکمہ کے معاملات میں بہتری لائی جا سکے۔

تازہ ترین