• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے پہلے سیاسی منظر نامے پر دوشخصیات کی اجارہ داری تھی، شیخ مجیب الرحمان اورذوالفقار علی بھٹو۔ دونوں میں یہ قدر مشترک تھی کہ بہت اعلیٰ پائے کے خطیب اور نبض شناس تھے۔ دونوں کی شعلہ بیانی کا یہ عالم تھا کہ مجمع پر سحر طاری ہوجاتا۔مگرہر دو شخصیات میں مقررانہ صلاحیت کے سوا کوئی مشابہت و مماثلت نہ تھی۔ شیخ مجیب کی تمام تر صلاحیتیں فن تقریر تک محدود تھیں مگر بھٹو ہمہ گیروہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ مشرقی پاکستان بحران کے ایک اہم کردار میجر جنرل(ر)رائو فرمان علی جو سقوط ڈھاکہ کے عینی شاہد ہیں، انہوں نے بعد ازاں ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ شیخ مجیب کو ’ہینڈل‘ کیا جا سکتا تھا۔ وہ ایک بہت اچھا مقرر تھا جس کو انگریزی میں ’’Demagogue‘‘کہتے ہیں۔ ایسا شخص جس میں عقل کی کمی ہو لیکن تقریر بہت اعلیٰ کرتا ہو۔عوام کو اِدھر سے اُدھر لے جائے۔ بہت ہی اعلیٰ تقریر کرتا تھا لیکن وہ اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کا مالک نہیں تھا۔عوامی لیگ جس کی بنیاد حسین شہید سہروردی نے رکھی تھی،ان کی پراسرار موت کے بعد پارٹی کی قیادت، دھان منڈی کے رہائشی شیخ مجیب الرحمان کے ہاتھوں میں آگئی۔پاکستان کے پانچویں وزیراعظم حسین شہید سہروردی جوقیامِ پاکستان کے وقت متحدہ بنگال کے وزیراعلیٰ تھے، انہوں نے لڑ جھگڑ کرلیجسلیٹرس کنونشن سے مشرقی پاکستان کو بنگال میں شامل کرنے کی قرار داد منظور کروائی، اس سے پہلے جب 1946ء میں انتخابات ہوئے اور مسلم لیگ کی مجموعی کارکردگی مایوس کن رہی تو سہروردی کی بدولت مسلم لیگ نے بنگال میںتاریخی کامیابی حاصل کی۔HR Talukdarنے اپنی کتاب Memoirs of Huseyn Shaheed Suharwardiمیں لکھا ہے کہ ’’1946کے انتخابات کے دوران تمام دیگر مسلم اکثریتی صوبوں میں مکمل ناکامی کے برعکس، حسین شہید سہروردی نے بنگال کا الیکشن نہ جیتا ہوتا توآج پاکستان کا کوئی وجود نہ ہوتا‘‘۔مگر اس نابغۂ روزگار شخصیت نے زندگی بھر انتقامی سیاست کا سامنا کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد انہیں غدار قرار دیا گیا، قائداعظم کی زندگی میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے ان کی رُکنیت ختم کرکے ڈھاکہ میں داخل ہونے پر پابندی عائد کردی گئی۔ سہروردی جنہیں ملک دشمن اور غدار قرار دیا جا چکا تھا، جب ضرورت پڑی تو اپنا تھوکا ہوا چاٹ کر انہیں وفاقی کابینہ میں وزارت قانون کا قلم دان سونپ دیا گیا۔محمد علی بوگرہ کی کابینہ میںسہروردی کو شامل کرنے کا کڑوا گھونٹ اس لیے بھرنا پڑا کہ خواجہ ناظم الدین کی برطرفی اور مولوی اے کے فضل حق کو ’’غدار‘‘قرار دیئے جانے کے بعد مشرقی پاکستان میں قومی سطح کا کوئی ایسا رہنما دستیاب نہ تھا جو پاکستانیت کے لیے اپنا کندھا پیش کرتا۔

گورنر جنرل غلام محمد نے دھمکی دی کہ سہروردی نے اگروزارت قبول نہ کی تو وہ اقتدار ایوب خان کے سپرد کر دیں گے۔یوں سہروردی نے فوجی مداخلت کا راستہ روکنے کے لیے بادل نخواستہ وزارت قبول کی۔ پاکستان کے چوتھے وزیراعظم چوہدری محمد علی راندہ درگاہ ٹھہرے تو سیاسی مصلحت کے تحت حسین شہید سہروردی کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیاگیا۔ سہروردی کے اسکندر مرزا سے ذاتی نوعیت کے تعلقات استوار ہو چکے تھے مگر صدر مملکت نے 18اکتوبر1957ء کو انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا۔ تعجب کی بات تویہ ہے کہ ایسی نوبت کیوں آئی؟ بات دراصل یہ تھی کہ سہروردی کی میز پر دو سرکاری فائلیں کئی ماہ سے پڑی تھیں اور انہوں نے فائلوں پر دستخط کرنے کے بجائے استعفیٰ تحریرکیا اور گھر چلے گئے۔

قاضی احمدکمال نے اپنی کتاب Politicians and Inside Stories Daccaمیں دعویٰ کیا ہے کہ سہروردی نے جن دو فائلوں پر دستخط کرنے سے انکار کردیا ان میںسے ایک کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کی مدت ملازمت میں توسیع کی فائل تھی اور دوسری مشتاق گورمانی کو مغربی پاکستان کے گورنر کے طور پر ہٹانے سے متعلق تھی۔اس کے علاوہ سہروردی نے مولانا بھاشانی کو گرفتار کرنے سے انکار کردیا۔ سہروردی نے 1958ء میں عام انتخابات کروانے کا اعلان کررکھا تھا۔ اسکندر مرزا یہ یقین دہانی چاہتے تھے کہ انہیں دوسری مدت کے لیے بھی صدر مملکت منتخب کرلیا جائے۔ سہروردی نے نہ صرف الیکشن ملتوی کرنے سے انکار کردیا بلکہ اسکندر مرزا کو دوبارہ صدر منتخب کروانے کی ضمانت بھی نہ دی۔

جنرل ایوب خان بھی سہروردی سے خفا تھے۔ ایک تو ایکسٹینشن نہ دینے کا معاملہ تھا، دوسری شکایت یہ تھی کہ راولپنڈی سازش کیس کے دوران سہروردی نے بطور وکیل میجر جنرل اکبر سمیت دیگر ملزموں کا دفاع کرتے ہوئے بہت سخت نوعیت کے سوالات کئے جس سے ایوب خان ناراض ہوگئے۔ بعد ازاں جب ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو سہروردی کو گرفتار کرلیا گیا۔قید تنہائی کے بعد جب وہ بیرون ملک گئے تو بیروت کے ایک ہوٹل میں انہیں کسی نے قتل کردیا۔ سہروردی کہا کرتے تھے مشرقی اور مغربی پاکستان کو تین چیزوں نے جوڑ رکھا ہے، انگریزی زبان، پی آئی اے اور وہ خود یعنی حسین شہید سہروردی۔ جمہوریت بیزار اسٹیبلشمنٹ نے یہ ڈور توڑ دی تو پاکستان دولخت ہوگیا۔

شیخ مجیب سے متعلق خود ان کے اتالیق اور گرو حسین شہید سہروردی کہا کرتے تھے کہ یہ کبھی اقتدار میں آیا تو اینٹ سے اینٹ بجادے گا۔اور پھر شیخ مجیب کی تقریروں نے بنگالیوں میں نئی روح پھونک دی۔ اس کے ایک جملے نے ایسا بیانیہ متشکل کیا جس کا ریاست کے پاس کوئی توڑ نہیں تھا اور وہ جملہ تھا ’مجھے اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو آتی ہے‘۔عمران خان کے چاہنے والے کبھی بھٹو سے ان کا موازنہ کرتے ہیں تو کبھی قائداعظم سے تشبیہ دیتے ہیں۔ یوں تو عمران خا ن اس قدر منفرد شخصیت کے حامل ہیں کہ ان کا ماضی کے کسی بھی سیاستدان سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا لیکن اگر اس دور کے رہنمائوں سے تقابل کرنا ہو تو میری دانست میں انہیں موجودہ دور کا شیخ مجیب کہنا زیادہ مناسب ہوگا کیونکہ وہ ایسے مقرر ہیں کہ چاہیں تو پانی میں آگ لگادیں، چینی کہاوت ہے کہ آگ کو کاغذ سے نہیں ڈھانپا جا سکتا مگر وہ زور خطابت کی بنیاد پر یہ کارنامہ بھی انجام دینا بھی ممکن ہے۔ شیخ مجیب کی طرح بیانیہ بنانے اور اپنے مقلدین میں اسے حرفِ آخر کے طور پر پیش کرنے میں عمران خان کا کوئی ثانی نہیں۔

تازہ ترین