آغا سیّد حامد علی شاہ موسوی
حضرت علی ابن ابی طالبؓ ماہِ رمضان المبارک میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ دوران خطبہ امام حسن مجتبیٰؓ آگئے، حضرت علی ؓنے پوچھا ،بیٹا آج کون سی تاریخ ہے، اس مہینے کے کتنے دن گزر چکے، امام حسنؓ نے فرمایا:بابا جان 13دن گزر گئے۔ پھر امام حسینؓ آئے تو پوچھا بیٹا مہینے کے خاتمے کو کتنے دن رہ گئے۔ امام حسینؓ نے عرض کی، بابا جان سترہ دن رہ گئے ہیں ۔اس کے بعد امیر المومنینؓ نے اپنی ریش مبارک پر ہاتھ پھیر کر فرمایا، عنقریب قبیلہ مراد کا نامراد میری داڑھی کو سر کے خون سے رنگین کرے گا۔
ماہ ِرمضان40ھ کی19ویں شب تھی، جب شیرِ خداحضرت علی ابن بی طالبؓ نےاپنی بیٹی حضرت امّ کلثومؓ کے یہاں افطارکیااور فرمایا، میں عنقریب تم سے رخصت ہو جاؤں گا، یہ سن کر وہ رونے لگیں۔ آپ نے فرمایا: میں نے آج رات خواب میں نبی کریم حبیب خداﷺ کو دیکھا ہے کہ وہ میرے سر سے غبار صاف کررہے ہیں اور فرماتے ہیں ،تم تمام فرائض ادا کرچکے،اب میرے پاس آجاؤ۔
حضرت علیؓ کو نبی اکرمﷺ کا وہ فرمان یاد تھا، جب غزوہ ٔذات العشیرۃ کے موقع پر حضرت علی ابن ابی طالبؓ سے نبی کریم ﷺنے فرمایا تھا ،اے ابو تراب، کیا میں تمہیں دو بد بخت ترین آدمیوں کے بارے میں نہ بتاؤں ؟آپ نے عرض کی، ہاں یا رسول اللہﷺ! آپ ﷺنے فرمایا: پہلا شخص قوم ثمود کا احیمر تھا جس نے حضرت صالح ؑ کی اونٹنی کی ٹانگیں کاٹی تھیں اور دوسرا شخص وہ ہے جو اے علیؓ تمہارے سرپر وار کرے گا، یہاں تک کہ تمہاری داڑھی خون سے تر ہو جائے گی۔ (سنن کبریٰ امام نسائیؒ ،مسند احمد بن حنبل ؒ) بیٹی کے گھر افطار کے بعد شب بھر عبادت میں مصروف رہے اور بار بار آسمان کی جانب دیکھتے اور فرماتے ،واللہ یہ وہی شب ہے جس کی رسول اکرمﷺ نے خبر دی تھی ۔
دشمن، علیؓ کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی مکمل کر چکا ہے اور ابو طالب کا بیٹا موت کا بے قراری سے انتظار کرتے ہوئے دشمن کی شکست کا اعلان کررہا ہے، کیونکہ جس موت کے خوف سے بڑے بڑے فلسفی بے ہوش ہو جاتے ،اس موت سے علیؓ کو اتنی محبت تھی کہ بارہا ارشاد فرماتے، خدا کی قسم، ابو طالب کا بیٹا موت سے اس قدر مانوس ہے، جتنا بچہ ماں کے دودھ سے ہوتا ہے۔ (خطبہ 5نہج البلاغہ )
جب جنگ صفین میں امام حسن ؓ نے آپ کو گشت کے دوران زرہ پہننے کا مشورہ دیا تو آپ نے فرمایا ’’اے فرزند، تمہارے والد کو کوئی پروا نہیں کہ وہ موت پر جا گرے یا موت اس پر آپڑے۔ (بحار الانوار)
شہادت کےلیے بے قرارعلی ابن ابی طالب ؓجب نماز صبح کےلیے مسجد کوفہ میں جانے لگے تو بطخوں نے راستہ روکا اور اپنی زبان میں نوحہ پڑھنے لگیں، لیکن آپ رسول اکرمﷺ کی پیش گوئی کو یاد کرتے رہے اور بطخوں کی چیخ و پکار کا مطلب سمجھنے کے باوجود اپنا دامن چھڑا کر مسجد کی جانب چل پڑے ۔نماز شروع کی اور سجدہِ خالق میں سر جھکایا تو ابن ملجم نے سر اقدس پر وار کیا۔ محبوب کبریا محمد مصطفیٰﷺ کی محبوب ہستی کی زبان پر ورد جاری ہو گیا ’’بسم اللہ و باللہ و علیٰ ملّت رسول اللہ فزتُ و رب الکعبۃ‘‘۔ علیؓ کامیاب ہو گیا۔ نبی اکرم ﷺکے بتائے ہوئے تمام فرائض پورے کرکے علیؓ شہید ہو کر بھی کامیاب ہو گئے اور دشمن اپنے ارادے کی تکمیل کے باوجود تاابد دنیا و آخرت میں رسوائی سے دوچار ہو گیا۔ اسلام کی سربلندی کےلیے میدان حرب میں پشت نہ دکھانے والے علیؓ کو سجدۂ خالق میں پیچھے سے آکر ایک بزدل نے شہید کرڈالا۔
احادیث گواہ ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا’’بے شک ،اللہ میرا مولیٰ ہے اور میں ہر مومن کا مولیٰ ہوں (پھر علی ابن ابی طالبؓ کا ہاتھ بلند کرکے فرمایا) جس جس کا میں مولیٰ ہوں، اس کا علیؓ مولیٰ ہے ،اے اللہ ! جو علیؓ کو دوست رکھے، تو اسے دوست رکھ اور جو اس سے عداوت کرے، تو اس سے عداوت رکھ ‘‘۔ (سنن نسائی ، المستدرک للحاکم ، ابن کثیر)
حضرت علیؓ کی ذات فضائل و کمالات کا ایسا مجموعہ ہے کہ کوئی دانشور، مفکر، نکتہ داں اس کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ علیؓ ایسے شجاع اور کامل الایمان تھے، وقتِ ہجرت جب کفار مکہ نبی کریمﷺ کے گھر کا محاصرہ کئے بیٹھے تھے ، علیؓ نبی اکرمﷺ کی دی ہوئی امانتوں کے امین بن کر بسترِ رسولؐ پر رسولؐ کی شبیہ بن کر خون کی پیاسی تلواروں کے حصار میں ایسے سکون سے سو جاتے ہیں کہ پہلے کبھی ایسا سکون سے سوئے نہ تھے۔
علیؓ کی شجاعت کا سکہ دشمنوں نے بھی مانا ، غزوۂ خندق میں عرب کے جری بہادر عمرو بن عبدود کی بہن نے بھائی کی لاش پر کہا تھا کہ اگرعلیؓ کے سوا کسی اور نے عمرو کو قتل کیا ہوتا تو میں زندگی بھر اپنے بھائی کا سوگ مناتی، علیؓ کے ہاتھوں عمرو کا قتل ہونا فخر کی بات ہے۔
جو علیؓ اتنا بڑا شجاع تھا، اس کے صبر کی بھی کوئی مثال نہیں ، وہ علیؓ جس کی ہیبت سے عرب و عجم لرزتے تھے ،اس نے اسلام کی سربلندی کےلیے بڑے سے بڑے مصائب پر بھی صبر سے کام لیا ، یہی وجہ ہے کہ شجاعت اور صبر کی انتہاؤں کو چھونے والے علیؓ نے شہادت کا جام پی کر یہ نعرہ بلند کیا کہ علیؓ کا میاب ہو گیا۔
حضرت علیؓ ایسے سخی تھے کہ اللہ کی کتاب گواہی دیتی نظر آتی ہے، جب سورۂ بقرہ کی یہ آیت نازل ہوئی ۔’’جو لوگ اپنا مال شب و روز پوشیدہ اور علانیہ طور پر خرچ کرتے ہیں، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور انہیں نہ کوئی خوف لاحق ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
امام عبدالرزاق‘ امام عبد بن حمید‘ امام ابن جریر‘ امام ابن المنذر‘ امام طبرانی اور امام ابن عساکر امام المفسرین حضرت ابن عباسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کی شان میں نازل ہوئی‘ ان کے پاس چار درہم تھے‘ ،ایک درہم انہوں نے رات میں خرچ کیا‘ ایک دن میں‘ ایک خفیہ اور ایک علانیہ۔ (تفسیر در منثور) اپنا کل سرمایہ دین کی راہ میں لٹا دیا،جو کی سخت روٹی پانی میں بھگو کر تناول فرمانے والے علیؓ کی ذات آج بھی اسلام کی سربلندی کاراز بتا رہی ہے ۔
علیؓ ایسے عبادت گزار کہ مثال پیش کرنے سے تاریخ قاصر ہے ۔ کیا کمال بندگی ہے کہ ارشاد فرماتے ہیں ’’اے بار الہٰا، میں بہشت کے لالچ یا جہنم کےخوف سے تیری عبادت نہیں کرتا، بلکہ اس لئے تیری عبادت کرتا ہوں کہ تو لائق عبادت ہے‘‘۔ نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں ’’ایک گروہ ثواب کے لالچ میں عبادت کرتا ہے ،یہ تاجروں کی عبادت ہے، ایک گروہ عذاب کے ڈر سے عبادت کرتا ہے، یہ غلاموں کی عبادت ہے اور ایک گروہ خدا کا شکر ادا کرنے کیلئے عبادت کرتا ہے یہ آزاد منش احرار کی عبادت ہے۔ (نہج البلاغہ )
علی ؓروحانیت کا سرچشمہ تھے ،اسی لئے روحانیت کے تمام سلسلے علی ابن ابی طالبؓ سے منسلک نظر آتے ہیں۔ فرماتے ہیں ’اے دنیا تو سج سنور کر اس لئے میرے سامنے آئی ہے کہ مجھے اپنا گرویدہ بنا سکے خبردار ،دور ہو جا، مجھے تیری ضرورت نہیں ،میں نے تجھے تین طلاقیں دےدی ہیں۔ تمام اولیاء کے رہنما علی ابن ابی طالبؓ ہی ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں ’’راہِ ولایت کے واصلین کے پیشوا سردار اور منبع فیض حضرت علی ابن ابی طالب ؓہیں۔ ‘‘(مکتوبات مجدد الف ثانی )
علیؓ اتنے بڑے عالم جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ فرمائیں کہ میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ ہیں، حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے علم کے ہزار ابواب سکھائے اور ہر باب کے ایک ہزار باب کھلتے ہیں۔
علامہ ابن حجرؒ فرماتے ہیں’’حضرت علی ابن ابی طالبؓ پاک و پاکیزہ پیدا ہوئے۔ آپ کی پیشانی کبھی کسی بت کے سامنے نہیں جھکی ،اسی لئے آپ کے نام کے ساتھ ’’کرم اللہ وجہہ ‘‘لکھا جاتا ہے۔ (صواعق محرقہ)
امام احمد بن حنبل ؒ کے بقول حضرت علی ابن ابی طالب ؓکے فضائل و کمالات میں کوئی ان کا ہمسر نہیں۔
ابن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: علی ؓمیری امت میں سب سے زیادہ صاحب علم ہیں اور میرے بعد ہر اختلافی مسئلے کا بہترین فیصلہ کرنے والے ہیں۔ یہی وجہ ہےکہ جب بھی خلفائے راشدین ؓ کو کسی فیصلے میں مشکل درپیش آئی انہوں نے علی ابن ابی طالبؓ سے ہی رجوع کیا اور حضرت عمر ابن خطاب ؓ کا یہ قول عظمت حیدر کرار دنیا کو بتاتا رہے گا کہ اگر علیؓ نہ ہوتے تو عمرؓ ہلاک ہو جاتا۔ غرض یہ کہ حضرت علیؓ کے فضائل و مناقب اور کمالا ت اتنا وسیع سمندر ہیں ،جس کی گہرائی اور وسعتوں کا اندازہ خدا اور اس کے نبیﷺ کے سوا کوئی اور نہیں کرسکتا۔