میرے عزیر ریٹائرڈ فوجی افسرو اور جوانو! آپ ہم سے ہی ہیں کیونکہ آپ کا تعلق ملکی سرحدوں کا دفاع کرنے والے اداروں سے ہے۔ آپ میں سے کسی نے سیاچن کے برف پوش پہاڑوں پرمشقتیں جھیلی ہوں گی، کسی نے بھارتی سرحدوں پر دشمن کی گولیوں کا سامنا کیا ہوگا، کسی نے سابقہ قبائلی علاقوں میں دنیا کی مشکل ترین جنگ لڑی ہوگی۔ آپ لوگ تو کبھی کبھی ہماری حب الوطنی پر شک کرلیتے ہیں لیکن ہمیں آپ کی حب الوطنی پر کوئی شک نہیں۔
تاہم ہمارے اور آپ کے درمیان جو اصل رشتہ اور میثاق ہے، اس کا نام آئینِ پاکستان ہے۔ جب آپ اس آئین پر عمل کو یقینی بنانے میں تعاون کرتے ہیں تو ہم آپ کو ہاتھ سے نہیں دل سے بھی سیلوٹ کرتے ہیں لیکن جب آپ یا آپ کے ادارے اپنا اصل کام چھوڑ کر سیاسی سرگرمیوں کا حصہ بنتے ہیں تو ہم عوام کی صفوں میں بے چینی پیدا ہوتی ہے اور ہم توقع کرتے ہیں کہ ہم سے زیادہ تشویش آپ کی صفوں میں پھیلنی چاہیے کیونکہ سیاست، عدالت اور صحافت کے دائرے میں مداخلت سے آپ کے ادارے کا وقار مجروح ہوتا ہے۔ یہ پوری قوم کی محافظ اور پوری قوم کے لیے قابلِ فخر فوج ہے اور جب یہ کسی ایک پارٹی سے نتھی ہوتی ہے تو متنازع بن جاتی ہے۔ اب اس تناظر میں ٹیکس ادا کرنے والے ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے میں چند گزارشات آپ سب کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں:
1: پہلی گزارش یہ ہے کہ عمران خان 2002 میں زیادہ مقبول تھے۔ ورلڈ کپ کی یاد تازہ تھی۔ شوکت خانم کے کارنامے کی یاد تازہ تھی۔ جوان ہونے کی وجہ سے ان کی شخصیت کی کشش بھی زیادہ تھی۔ تب یوٹرنز لینا اور گالیاں دینا نہیں بلکہ سچ ان کی پہچان تھی۔ تب ان کے آگے پیچھے شہباز گل اور زلفی بخاری جیسے نہیں بلکہ اویس غنی اوراکبر ایس بابر جیسے نیک نام لوگ نظر آرہے تھے لیکن وہ چند نشستیں بھی نہ حاصل کر سکے۔ آپ لوگوں نے کبھی سوچا ہے کہ آخر وجہ کیا بنی جس کی وجہ سے ان کی پارٹی سیٹوں کے لحاظ سے بڑی پارٹی بن گئی؟ہم جیسے لوگوں کے پاس بے تحاشہ شواہد موجود ہیں اور بہت سارے لوگ اب خود بھی گواہیاں دے رہے ہیں کہ وہ طاقتور حلقوں کے بعض افراد کے دبائو پر یا پھر ان کی طرف سے دیے گئے لالچ کی وجہ سے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے۔
2: گزشتہ انتخابات سے قبل عدلیہ، میڈیا، الیکشن کمیشن اور دیگر اداروں پر عمران خان کی حمایت کے لیے اور دیگر جماعتوں کا راستہ روکنے کے لیے دبائو ڈالا گیا۔اس سے قبل ایسے دھرنوں میں آپ کے اداروں کی طرف سے ان کی مدد کی گئی جس میں انہوں نے سول نافرمانی کا اعلان کیا اور بجلی کے بل جلائے۔ میرا سوال یہ ہے کہ بعض لوگ اگر آج اپنے ادارے کے آئینی رول تک محدود ہونے پر ناراض ہیں اور عمران خان کی محبت میں اپنے اداروں کی قیادت کے سامنے کھڑے ہورہے ہیں تو آپنے اُن کو شروع میں ہی کیوں نہ روکا؟
3: آپ کے ادارے کے وقار کو زیادہ نقصان گزشتہ انتخابات میں پہنچا جب آپ کے ادارے کے بعض لوگ ہر حربہ استعمال کرکے دوسری پارٹیوں سے الیکٹ ایبلزپی ٹی آئی میں شامل کرواتے رہے۔ جب بلوچستان میں زرداری کے ساتھ مل کر حکومت تبدیل کی گئی۔ الیکشن کے عمل میں جب براہِ راست میڈیا کو عمران خان کو سپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی اور ان پر تنقید کرنے والوں کو خاموش کروایا جاتا یا پھر انہیں اپنے اداروں سے نکالا جاتا رہا۔ جب آپ کے ادارے کے لوگ پی ٹی آئی کے ٹکٹ تقسیم کرتے رہے۔ جب آپ کے ادارے کے باوردی جوانوں سے پولنگ ایجنٹوں کو نکلوا کر ٹھپے لگوائے گئے، جب عمران خان کو جتوانے کے لیے الیکشن کمیشن کا آر ٹی ایس سسٹم فیل کروایا گیا اور جب قاسم سوری کی طرح تیسرے نمبر پر آنے والے لوگوں کو انتخابات میں کامیاب ڈکلیئر کیا گیا اور آئی ایس پی آر کی طرف سے میڈیا کو ہدایت کی گئی کہ وہ عمران خان کی حکومت کے بارے میں چھ ماہ تک منفی رپورٹنگ نہ کرے۔ ان چیزوں نے فوج کو عوام کی صفوں میں متنازع کردیا۔کیا میں انتہائی ادب سے پوچھ سکتا ہوں کہ جب یہ سب کچھ ہورہا تھا تو آپ لوگ کیوں خاموش رہے؟
4: کیا آپ لوگ نہیں جانتے کہ عمران خان کی حکومت کو جتنی سپورٹ جنرل قمرجاوید باجوہ اور ان کی ٹیم کی طرف سے حاصل ہوئی، اس کی ماضی میں کوئی اور مثال نہیں ملتی لیکن اس کے باوجود عمران خان نے حکمرانی کے لیے بدترین ٹیم کا انتخاب کیا۔ ملکی معیشت کا ستیاناس کیا۔ جنرل باجوہ دوست ممالک میں جاجاکر تعلقات بناتے اور وہ خود معاملات بگاڑتے رہے۔ فوج ان کو ایک سچے ہمدرد کے طور پر سب سے بنا کے رکھنے کی نصیحت کرتی رہی لیکن انہوں نے پکڑدھکڑ اور گالم گلوچ کے کلچر کو عام کیا۔عمران خان کی حکومت غلطیاںکرتی رہی اورذمہ دار فوج کو ٹھہرایا جاتا رہا۔ ان حالات میں اگر جنرل قمرجاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم نے فوج کی عزت و وقار کو بچانے اور اسے ایک پارٹی کی بجائے قومی فوج رکھنے کی خاطر اپنے آپ کو سیاسی معاملات سے لاتعلق کیا۔ ماضی کی طرح ان کی حکومت کو غیرآئینی سہارے دینا چھوڑ دیے۔ سیاستدانوں کو ان کا کام کرنے کے لیے آزاد چھوڑا اور عدلیہ کو اپنے کام کے لیے تو کونسا جرم کیا؟ عمران خان کو لانے میں آپ کی فوج کا کردار واضح تھا لیکن ان کی حکومت کی رخصتی میں ان کے کردار کا کوئی ثبوت نہیں۔ اس کردار پر اگرہم سویلین آپ کی قیادت کو شاباش دینے لگے تو آپ لوگوں کو تو ہزار گنا زیادہ شاباش ملنی چاہئے تھا لیکن یہ کیا کہ آپ پہلی مرتبہ اپنی قیادت کے ساتھ یک زبان نظر نہیں آئے۔ انڈیا کے میجر گوروو آریا (Major Gaurav Arya) کہہ رہا ہے کہ جو نقصان گالیاں پڑوا کر عمران خان نے پاکستانی فوج کو پہنچایا ،وہ ہم انڈین کھربوں روپے خرچ کرکے نہیں پہنچا سکتے تھے لیکن نہ جانے آپ لوگوں پر عمران خان نے کیا جادو کررکھا ہے یاپھر پی ٹی آئی کے ورکرز کی طرح شاید آپ لوگوں نے بھی عقل کا استعمال ترک کردیا ہے کہ اپنی فوجی قیادت کے ساتھ ماضی کی طرح ہم زبان نہیں ہیں۔ اللّٰہ کے بندو کچھ تو سوچو۔