• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دستورِ پاکستان کے حصہ چہارم، جو صوبائی حکومتوں سے متعلق ہے ، میں شق130 کی ذیلی شق 5میں لکھا ہے:’’شق4کے تحت منتخب ہونے والے رُکن کو گورنر کی طرف سے وزیراعلیٰ کا دفتر سنبھالنے کے لئے بلایا جائے گااوروہ (یعنی نومنتخب وزیراعلیٰ) دفتر سنبھالنے سے پہلے صدر کے روبرو حلف اُٹھائیں گے جو تھرڈ شیڈول میں دیا گیا ہے۔‘‘ محولہ بالا آئینی شق میں Shallکا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور قانونی ماہرین کے مطابق اسکے بعد انکار کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔گورنر چونکہ صوبے میں وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے،اس لئے صدر مملکت کی طرف سے وزیراعلیٰ سے حلف لینے کے فرائض وہی سرانجام دیتا ہے۔تاریخ کے طالبعلم کی حیثیت سے میں نے گزشتہ کئی روز یہ جاننے کی جستجو میں بسر کئے کہ کیا ماضی میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ گورنر نے کسی بھی عذر یا اعتراض کے پیش نظر نومنتخب وزیراعلیٰ سے حلف لینے سے انکار کردیا ہو؟پاکستانی کی پارلیمانی تاریخ میں کئی سیاسی بحران آئے ،صوبائی اسمبلیوں میں خونریز لڑائیاں ہوئیں۔ایسی ہی ایک پارلیمانی لڑائی کے دوران مشرقی پاکستان اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر شاہد علی پٹواری قتل ہوگئے،محلاتی سازشوں کا سلسلہ چلتا رہا ،حکومتیں گرانے اور بنانے کی کوششیں ہوتی رہیں مگر آج تک کبھی کسی صوبے میں ایسی صورتحال دیکھنے کو نہیں ملی کہ گورنر نے وزیراعلیٰ سے حلف لینے سے انکار کردیا ہو۔اگر پنجاب کی بات کریں تو نواب افتخار حسین ممدوٹ پہلے وزیراعلیٰ تھے جنہیں جنوری 1949ء میں استعفیٰ دیکر گھر جانا پڑا۔ان کی جگہ میاں ممتاز دولتانہ کو لایا گیا۔25مارچ1953ء کو میاں ممتاز دولتانہ اور ان کی کابینہ بھی مستعفی ہوگئی تو مشرقی پاکستان کے گورنر فیروز خان نون کو مغربی پاکستان لاکر وزیراعلیٰ بنا دیا گیا۔مئی1955ء میں ان کی حکومت بھی مفادِ عامہ کے تحت برطرف کردی گئی۔ان کے بعد وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالنے والے سردار عبدالحمید خان دستی تو 6ماہ بھی پورے نہ کرپائے۔عثمان بزدار پنجاب کے 33ویں وزیراعلیٰ تھے اور ان سمیت کبھی کسی کی تقریب حلف برداری میں رکاوٹ نہیں ڈالی گئی۔سیاسی اعتبار سے میاں منظور وٹو کو متناع ترین وزیراعلیٰ کہا جا سکتا ہے۔جب صدر غلام اسحاق خان نے 58(2b)کے تحت قومی اسمبلی تحلیل کرکے نوازشریف کو گھر بھیج دیا تو منظور وٹو پنجاب اسمبلی کے اسپیکر تھے ۔انہوں نے پیپلز پارٹی کے ساتھ ملکر وزیراعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منطور کروائی اور جوڑ توڑ کرکے 25اپریل1993ء کو وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوگئے۔ اس دوران میاں محمد اظہر کو برطرف کرکے چوہدری الطاف حسین کو گورنر پنجاب بنا دیا گیا مگر ان کی تقریب حلف برداری میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی۔16نومبر1988ء کو عام انتخابات ہوئے تو مرکز میں بینظیر بھٹو جبکہ پنجاب میں میاں نوازشریف نے اکثریت حاصل کی۔2دسمبر 1988ء کو بینظیر نے وزیراعظم کے طور پر حلف اُٹھایا اور اسی روز لاہور گورنر ہائوس میں نومنتخب وزیراعلیٰ پنجاب میاں نوازشریف کی تقریب حلف برداری تھی۔مخدوم شاہ محمود قریشی کے والد مخدوم سجاد حسین قریشی پنجاب کے گورنر تھے ۔انہیں پیپلز پارٹی کی طرف سے پیغام دیا گیا کہ اگرآپ میاں نوازشریف سے حلف لینے سے انکار کردیں تو آپ کو بطور گورنر برقرار رکھا جائے گا لیکن انہوں نے اپنی آئینی ذمہ داری سے پہلو تہی کرنے کی ہامی نہ بھری اور شیڈول کے مطابق میاں نوازشریف سے حلف لیا۔ چنانچہ بینظیر بھٹو نے ان کی جگہ جنرل (ر)ٹکا خان کو گورنر پنجاب بنادیا۔1997ء کے عام انتخابات کے بعد جب میاں شہبازشریف وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے تو پیپلز پارٹی کے سابق وزیر برائے پارلیمانی امور خواجہ احمد طارق رحیم پنجاب کے گورنر تھے مگر انہوں نے تقریب حلف بردار ی میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی۔

پاکستان کی تاریخ میں ایک ہی مثال ملتی ہے جب تقریب حلف برداری میں رکاوٹ ڈالی گئی۔1970ء کے عام انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس 3مارچ 1971ء کو ڈھاکہ میں طلب کیا گیا تھا ۔فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان نے بدنیتی سے کام لیتے ہوئے اجلاس ملتوی کردیا تو مشرقی پاکستان میں حالات خراب ہوگئے ،مشرقی پاکستان ہائیکورٹ نے کام کرنا چھوڑ دیا ۔کمانڈر ایسٹرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب اور گورنر ایڈمرل ایس ایم احسن مستعفی ہوگئے ۔آپریشن سرچ لائٹ کا آغاز ہونے سے پہلے لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان کو گورنر مشرقی پاکستان ،مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور کورکمانڈر بنا کر بھیجا گیا۔ڈھاکہ ایئر پورٹ پر ان کا جوتوں سے استقبال کیا گیا ۔ مشرقی پاکستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ،جسٹس بشیر الدین صدیقی نے ٹکا خان سے حلف لینے سے انکار کردیا ۔جنرل ٹکا خان نے چیف سیکریٹری کو تقریب حلف برداری کا بندوبست کرنے کاکہا مگر اس نے بھی ٹال مٹول سے کام لیا چنانچہ مغربی پاکستان سے ایک جج کو بلوایا گیا تاکہ وہ گورنر سے حلف لے سکیں۔حلف نہ لیکر آئینی ذمہ داریوں سے روگردانی کی دوسری مثال گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے قائم کی ہے۔یکم اپریل 2022ء کو عثمان بزدار کا استعفیٰ منظور کیا گیا۔16اپریل 2022ء کو حمزہ شہباز وزیراعلیٰ منتخب ہوئے مگرپاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب 25دن گزرنے کے باوجود حکومت سے محروم ہے کیونکہ کپتان کے وفادار کھلاڑی آخری گیند تک مقابلہ کرنے کی ٹھان چکے ہیں ۔پہلے صدر عارف علوی نے بھی اسی قسم کی روش اپنائی ۔اگرچہ اب انہوں نے رجوع کرلیا ہے مگر گورنر پنجاب کسی صورت شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں ۔میں نے نہایت باریک بینی سے آئین کی ورق گردانی کی مگر کوئی ایسی شق نہیں ملی جس کے تحت گورنر کو وزیراعلیٰ کے انتخابات پر سوال اُٹھانے کا اختیار ہو۔اس کے فرائض اور ذمہ داریوں میں ہرگز یہ بات شامل نہیں کہ اسمبلی میں ہونے والی کارروائی یا وزیراعلیٰ کے انتخاب سے متعلق ثالث،امپائر یا ریفری کا کردار ادا کرے۔پارٹی اور لیڈر سے وفاداری اپنی جگہ مگر آئین سے استواری بھی کوئی چیز ہے۔اگر ان اعلیٰ ترین آئینی عہدوں پربراجمان ہونے کے بعد بھی کوئی خود کو پارٹی کارکن سمجھتا ہے اور دستور ی تقاضوں کے مطابق فرائض سرانجام دینے کے بجائے پارٹی کے احکامات بجالاتا ہے تو پھر ان آئینی عہدوں کو ختم کردینا چاہئے ۔

تازہ ترین