• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

25 سال پہلے کا وہ دن آج تک یاد ہے جب چوتھی جماعت میں جنرل سائنس کی کتاب میں یہ پڑھا : زندہ چیزوں کی دو اقسام ہیں ۔ 1۔ پودے ۔2۔ جانور۔ حیران ہو کر مس شازیہ جبیں سے یہ سوال کیا کہ انسان پھر کہاں گئے ؟ کہنے لگیں کہ جانوروں میں انسان بھی شامل ہیں ۔ علم کی جو شاخ زندہ چیزوں کا مطالعہ کرتی ہے ، اسے حیاتیات کہتے ہیں ۔ حیاتیاتی طور پر انسانوں اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں ۔ انسان کا دل ، پھیپھڑے ، سینٹرل نروس سسٹم ، جلد اور گردے انہی اصولوں پہ کام کرتے ہیں ، جن پہ جانوروں کے ۔ خون کی نالیاں اور نروز ایک ہی جیسی ہوتی ہیں ۔ سارا مٹیریل ہی وہی ہے ۔

جیسا کہ حضرت علی بن عثمان ہجویریؒ نے فرمایا تھا : ہر علم میں سے اتنا ضرور حاصل کرو کہ خدا کو پہچان سکو ۔ زندگی کو خدا نے دو اقسام میں پیدا کیا ہے ۔ ایک وہ جو زمین میں ایک ہی جگہ پر پیوست ہے۔اس کا کام ہے اپنی جڑوں سے پانی چوسنا اور سورج کی روشنی کو اس پانی سے ملا کر آکسیجن پیدا کرنا۔ یہ آکسیجن جانوروں میں توانائی پیدا کرتی ہے ۔ خلا باز اپنی آکسیجن زمین سے سلنڈرمیں بھر کے ساتھ لے کر جاتے ہیں ۔دوسری طرف ان پودوں کو جانورکھاتے ہیں ۔ ان پر لگنے والے پھلوں میں اس قدر لذت اور غذائیت ہے جو بیان سے باہر ہے۔ جب آپ پکا ہواآم‘ لیچی اور انگور کھاتے ہیں تو مٹھاس کی بے شمار جہات سے آشنا ہوتے ہیں۔ پھلو ںکے چھلکے مطالعہ کرنے والی چیزیں ہیں ، اگر شعور ہو تو۔ انسان نے جب اشیا ء کو پیکنگ کرکے بیچنا شروع کیا‘ تو اس نے پلاسٹک استعمال کیا‘ جو ماحول میں آلودگی پیدا کرتاہے اور سینکڑوں برسوں تک اپنا وجود باقی رکھتاہے۔پھلوں کے چھلکے تحلیل ہو جاتے ہیں ۔ مختلف پھلوں پر ان کی ساخت کے مطابق چھلکا چڑھانے والی ذات نے اپنا کام کمال مہارت سے مکمل کیا ہے ۔

جانوروں کی پیدائش مقصود نہ ہوتی تو زمین پہ کوئی پودانہ اُگایا جاتا ۔ اسی طرح یہ بات بھی صاف ظاہر ہے کہ اگر ایک عقلمند سپیشیز‘ یعنی انسان کو پیدا نہ کرنا ہوتا تودوسرے جانور بھی پیدا نہ کیے جاتے۔ جب سے اس زمین پر زندگی پیدا ہوئی ‘ تب سے وہ مسلسل زندہ ہے۔ ایک خلیہ مرتے ہوئے اپنے جیسے دو پیدا کر جاتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تین ارب سال پہلے کرّہ ارض پہ جب پہلا خلیہ پیدا ہوا تھاتو وہ آج تک زندہ ہے ۔

آپ اگر جانداروں میں ذائقے اور افزائشِ نسل پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ دنیا کس طرح سے چلائی جا رہی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ انسان دوسرے جانوروں کی طرح خودغرض ہے۔ جسے موقع ملتاہے‘ وہ دوسرے کی زمین اور وسائل پہ قابض ہونا چاہتا ہے۔ اس میں بیوی بچوں کا جھنجھٹ پالنے کی خواہش کبھی نہ ہوتی، اگر عورت کو غیر معمولی طور پر حسین بناتے ہوئے اس کے لیے سجا نہ دیا جاتا۔بچہ والدین کو بہت تنگ کرتاہے لیکن وہ اس قدر خوبصورت ہوتاہے کہ وہ اس کا وزن بڑی خوشی سے اٹھاتے ہیں ۔اسے جان بوجھ کر حسین بنایا گیا ہے ۔ ذائقہ بھی ایک ایسی چیز ہے‘ جس میں نشانیاں ہیں۔ ذائقہ اگر نہ ہوتا توکوئی بھی شے کھانا ایک مشقت طلب کام ہوتا۔ بھوک کا احساس دماغ تک پہنچانے والی نروز اگر نہ ہوتیں تو جانور کبھی نہ کھاتے اور چلتے چلتے گر کے مر جاتے ۔ ہماری زبان پر وہ خلیات رکھے گئے ہیں‘ جو ہر قسم کے ذائقے کا احساس دماغ تک پہنچاتے ہیں۔ جسم میں اگر درد محسوس کرنے کے لیے نروز موجود نہ ہوتیں تو کسی کو چوٹ لگنے اور حتیٰ کہ موت کا خوف بھی محسوس نہ ہوتا۔ لوگ ہنستے کھیلتے خودکشی کرتے۔ یہ درد کے نتیجے میں پیدا ہونے والا شدید خوف ہے‘ جو جاندار کو ہر صورت میں زندہ رہنے پر اکسائے رکھتا ہے۔

آپ جانوروں اور پودوں میں افزائشِ نسل پر غور کریں تو یہاں بھی آپ کو بہت سی حیرت ناک چیزیں ملیں گی۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ مرد عورت کو حاملہ کر دیتاہے ۔ ماں کے پیٹ میں ایک بار آور خلیے (زائی گوٹ) میں اسٹیم سیلز سے بچّے کے جسم کا ہر عضو تخلیق ہوتاہے۔پھر ایک مقرر وقت پر ماں کے پیٹ سے باہر آجا تا ہے۔ اسی کا دوسرا طریقہ پرندوں وغیرہ میں یہ ہے کہ وہ انڈے دے کر اس کے اوپر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس انڈے کے اندر چوزے کے لیے ساری ضروری غذائیت اور اجزا موجود ہوتے ہیں۔ پھر مقررہ وقت پر وہ انڈے کا یہ پنجرہ توڑ کر باہر نکل آتا ہے۔

لیکن پودوں میں بھی تو افزائشِ نسل ہوتی ہے۔ یہ پودے چل نہیں سکتے۔ ان کے اوپر لگے ہزاروں پھلوں میں سے ایک کو آپ زمین میں دبا دیتے ہیں‘ پھر اسے پانی دیتے رہتے ہیں تو وہ پھوٹ پڑتا ہے۔اپنے اوپر سے مٹی ہٹا کر وہ سورج کی روشنی لینے لگتا ہے۔ اگراسے پانی ملتا رہے تووہ سورج کی روشنی تلے آہستہ آہستہ بڑھتا رہتا ہے۔ یہ بھی تو ایک پوری سائنس ہے کہ ایک پودے کے ہزاروں بیجوں میں ایک ایک میں وہ سب اجزا کیسے رکھ دیے جاتے ہیں‘ جو اسے پچاس فٹ اونچے درخت میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ سوال یہ بھی پیدا ہو تا ہے کہ جس ذات نے تین چار ارب سال پہلے درخت ڈیزائن کیے تو ایک ایک درخت پر ہزاروں کے حساب سے بیج کیوں ڈیزائن کیے؟ یہ بیج ہوا کے ذریعے اڑتے ہیں۔ پرندوں کے پنجوں سے چمٹ جاتے ہیں۔ جانور انہیں کھا لیتے ہیں۔ پھر جانوروں کے فضلے سے یہ اس جگہ پہنچ جاتے ہیں‘ جہاں انہیں اُگنا ہوتا ہے۔ جانداروں میں ذائقے‘ افزائشِ نسل اور ہر خلیے کو دو میں تقسیم ہونے کی صلاحیت کے ذریعے خدا نے زندگی کو آج تک زندہ رکھا ہوا ہے۔ کتنا حیرت انگیز ہے یہ سب ۔

تازہ ترین