• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایم بی سکندر

دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی یکم مئی کو مزدوروں کا دن منایا جاتا ہے چونکہ صنعت و حرفت میں مغربی ممالک ایشیاء سے بہت آگے تھے اس لئے ابھی تک ایشیائی ممالک میں خاص کر پاکستان میں انہی روایات کی پیروی کی جا رہی ہے۔ حالانکہ اسلامی ممالک میں سرمایہ دار ملکوں کے مقابلے میں سرمایہ و محنت کی الگ اقدار کی بنیاد رکھی جانی ضروری تھی۔ سرمایہ دار ممالک میں سرمایہ، محنت کا استحصال کرتا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے محنت کو سرمایہ سے کہیں زیادہ عزت و وقار حاصل ہے۔ اسلامی مساوات میں محنت کو بہت اونچا مقام حاصل ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام میں مزدور کا معاوضہ طلب کے اصول پر متعین ہوتاہے چونکہ ناخواندگی کی وجہ سے ایشیائی ملکوں میں مزدور وافر مقدار میں میسر آ جاتے ہیں اور انجینئر کم اس لئے مزدور کی مزدوری کم اور کم تعداد میں میسر آنے والوں کا معاوضہ زیادہ ہے جیسا کہ آج کل پاکستان میں بھی ہو رہا ہے کہ تعمیر عمارات کے لئے معمار کم ملنے کی وجہ سے ان کی مزدوری کی شرح کہیں سے کہیں جا پہنچی ہے۔ مزدور کا معاوضہ یا تو طلب رسد کے اصول پر ہوتا ہے یا پھر آجر کی مرضی اس کا تعین کرتی ہے۔ 

اگرچہ حکومت نے بنیادی شرح اجرت مقرر رکھی ہے لیکن آجر حضرات مزدوروں کی بہتات اور کثرت سے فائدہ اٹھا کر ان کی کم سے کم مزدوری مقرر کرتے ہیں اور مزدور بے چارہ پیٹ کے ہاتھوں مجبور ہو کر اسے منظور کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ آجر کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ کم سے کم معاوضہ میں زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرے اور مزدور کے دل میں ہمیشہ یہ پھانس چھبتی رہتی ہے کہ اسے محنت کے باوجود پوری مزدوری نہیں دی گئی۔ صنعت و حرفت میں یہی روش آجر اور مزدور کی مسلسل چپقلش کی بنیاد ہے۔

اسلام میں معاوضہ محنت کا ہے۔ مزدور ہر روز دیکھتا ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہنے والا مل مالک آرام کرتا رہتا ہے اور مزدور اپنا خون پسینہ ایک کر کے اس کے لئے یہ تمام سامان راحت مہیا کرنے کا ذریعہ بننے کے باوجود ایک وقت بھوکے سوتے ہیں اور ان کے بچے بنیادی ضروریات زندگی کےلئے ترستے ہیں جن کا مہیا کرنا حکومت کا فریضہ ہے۔ اس لئے مزدوروں کے معاوضہ کا تعین صرف آجر پر ہی نہیں چھوڑ دینا چاہئے بلکہ اتنا معاوضہ مقرر کیا جائے جس سے ہر محنت کش کی بنیادی ضروریات زندگی پوری ہو سکیں۔

پیداوار بڑھانے کا یہی ایک طریقہ ہے کیونکہ مزدور خوش دل کندکار بیش۔ لیکن اس سلسلہ میں قوانین کی تدوین سے کہیں قبل آجر اور مزدور کی سوچ میں تبدیلی کی ضرورت ہے کیونکہ تبدیلی قلب کے بغیر ہمارا معاشرہ خوشحال نہیں ہو سکتا۔