بینظیر بھٹو دوسری بار وزیراعظم بنیں تو انہوں نے شمالی کوریا کا دورہ کیا اور پاکستان کو Nodong Missile Technologyتک رسائی حاصل ہوگئی۔بیلسٹک اور کروز میزائل پروگرام پر پیشرفت کا سلسلہ جاری رہا اور3جولائی 1997ء کوحتف تھری غزنوی میزائل کا تجربہ کیا گیا۔ ایک سال بعد حتف فائیو غوری میزائل کا تجربہ کیا گیا لیکن یہ میزائل مائع ایندھن پر چلتے تھے اور داغنے کے لیے خاصا وقت درکار ہوتا تھا۔
ان میزائل پروگرام کولیکویڈ فیول سے سولڈ فیول پر منتقل کرنے کے لیے فنڈز درکار تھے مگر وفاقی وزیر خزانہ سرتاج عزیز نے فوری طور پرادائیگی کرنے کے بجائے پانچ سال میں مطلوبہ فنڈز فراہم کرنے کا وعدہ کیاکیونکہ 28مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکے کرنے کی وجہ سے امریکہ نے معاشی پابندیاں عائد کردیں اور پاکستان کو مالی مشکلات کا سامنا تھا۔اس دوران نومبر 1998ء میں سرتاج عزیز کو وزارت خارجہ کا قلمدان دے دیا گیا اور اسحاق ڈار وزیر خزانہ بن گئے۔
آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے اسٹرٹیجک پلانز ڈویژن کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل خالد قدوائی اور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو اسحاق ڈار کے پاس بھیجا تاکہ میزائل پروگرام کے لیے فنڈز کی فراہمی سے متعلق بات چیت کی جاسکے۔توقع کی جارہی تھی کہ اسحاق ڈار اس معاملے کو پانچ سال کے بجائے سات سال تک لے جائیں گے کیونکہ ایٹمی دھماکوں کے بعد اقتصادی اور مالی معاملات کے حوالے سے مسائل کا سامنا تھا۔
مگر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے خفیہ مقام پر بریفنگ لینے کے بعد فوری طور پر فنڈز فراہم کرنے کی ہامی بھرلی اور کہا کہ اس منصوبے کو جلد ازجلد مکمل ہونا چاہئے کیونکہ کل کو عالمی حالات بدل گئے تو اس پر کام کرنا دشوار ہو جائے گا۔
آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے ٹیلیفون کرکے اسحاق ڈار کا شکریہ ادا کیا۔ لیکن 12اکتوبر 1999ء کے بعد اسحاق ڈار کے ساتھ کیا ہوا۔ یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔ اسحاق ڈار کو اس لیے انتقام کا نشانہ بنایا گیا کہ اس نے پرویز مشرف کو 3000سی سی گاڑیوں کی ڈیوٹی فری درآمد کی اجازت نہیں دی۔
حالات تبدیل ہوئے،2013ء کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ(ن)ایک بار پھر حکومت میں آئی تو اسحاق ڈار نے وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھال لیا۔ تمام تر رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود ملکی معیشت کے تمام اعشاریئے مثبت تھے۔ اقتصادی ترقی کی شرح نمو بڑھ رہی تھی،روپے کی قدر مستحکم تھی، افراط زر کی شرح کم ہو رہی تھی،اسٹیٹ بینک نے پالیسی انٹرسٹ ریٹ 5.75فیصد پر برقرار رکھا ہوا تھا۔
سی پیک پر تیزرفتاری سے کام جا ری تھا،پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہت بہتر تھی، G20پریمیئر کلب کی ریٹنگ کے مطابق پاکستان 2023 میں 18ویں بڑی اکانومی بننے جا رہا تھا۔پاکستان کی اکانومی کا حجم جو 2022ء میں سکڑ کر 292بلین ڈالر رہ گیا ہے، یہ 2017-18میں 313بلین ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔
اس دورا ن دفاعی ضروریات اور بجٹ پر بھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا گیا۔مثال کے طور پر حکومت میں آتے ہی 2013-14میں جو پہلا بجٹ پیش کیا گیا اس میں دفاعی بجٹ میں 10فیصد اضافہ کیا گیا اور570بلین روپے سے بڑھا کر 627بلین روپے (تقریباً6.3بلین ڈالر)کردیا گیا۔
2018-19ء میں مسلم لیگ (ن)کی حکومت نے آخری بجٹ پیش کیا تو دفاعی بجٹ میں 18فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا۔ڈیفنس بجٹ 920بلین روپے سے بڑھا کر 1.1ٹریلین روپے (تقریباً 9.6بلین ڈالر)کردیا گیا۔ جبکہ 2021-22میں تحریک انصاف کی حکومت نے جو آخری بجٹ پیش کیا اس میں دفاعی بجٹ 6.2فیصد اضافے کے ساتھ 1.37ٹریلین ہوگیا۔اگر آپ اسے ڈالروں میں تبدیل کریں تو یہ تقریباً 8.78بلین ڈالربنتا ہے یعنی 2018ء کے مقابلے میں عملاً دفاعی بجٹ کم ہوا ہے۔
اس دوران آپریشن ضرب عضب، آپریشن ردالفساد اور دیگر مدات میں بھی کم ازکم 300بلین روپے خرچ کئے گئے۔افواج پاکستان کے محکمہ تعلقات عامہ کے سابق ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل(اب لیفٹیننٹ جنرل) آصف غفور نے بھی اعتراف کیا تھا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور مسلم لیگ(ن)کی حکومت نے افواج پاکستان کی تمام دفاعی ضروریات پوری کیں۔ تو پھر اسحاق ڈار کا قصور کیا ہے؟انہیں کس جرم کی سزا دی گئی؟۔
مسلم لیگ (ن)کے دورِ حکومت میں ڈان لیکس کو جواز بنا کر منتخب حکومت کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا۔اس پر جسٹس (ر)عامر رضاخان کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیٹی بنائی گئی جس میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندے بھی شامل تھے۔ کمیٹی کی رپورٹ میں کوشش کے باوجود مطلوبہ نتائج اخد نہ کئے جاسکے۔
انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کے بعد وزیراعظم آفس سے نوٹیفکیشن جاری ہوا جس میں وزیراعظم کے مشیر طارق فاطمی کو ان کے منصب سے ہٹا دیا گیاجبکہ پرنسپل انفارمیشن آفیسر رائو تحسین کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دیا گیا۔
اس پر ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے ٹویٹ کرکے اس نوٹیفکیشن کو مستردکردیا۔ڈان لیکس کے غبارے سے ہوا نکالنے میں اسحاق ڈار نے کلیدی کردار ادا کیا ،یہی وہ ناقابل معافی جرم تھا جس کی پاداش میں انہیں نشان عبرت بنانے کا فیصلہ ہوا۔
واضح رہے کہ ڈان لیکس انکوائری میں جن دو شخصیات نے آئی ایس آئی اور ایم آئی کی نمائندگی کی،وہی دونوں فوجی افسر پانامہ جے آئی ٹی میں شامل تھے۔
اسحاق ڈار پر ریٹرن فائل نہ کرنے کا مضحکہ خیز الزام لگا کر ان کے خلاف نیب کو ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا گیا۔پاسپورٹ منسوخ کردیا گیا،انٹر پول کے ذریعے ریڈ وارنٹ جاری کروانے کی کوشش کی گئی مگر انٹر پول نے الزامات کو غلط قرار دیتے ہوئے انہیں کلیئرنس سرٹیفکیٹ دے دیا۔
اسحاق ڈار کا حقیقی جرم یہ ہے کہ اس نے پاکستان کو معاشی طاقت بنانے کی کوشش کی۔اگر اب ادارے نیوٹرل ہوگئے ہیں تو وزارت خزانہ اسحاق ڈار کے حوالے کرنی چاہئے کیونکہ معاشی حالت جس قدر خراب ہوگئی ہے، اسے کوئی اور شخص ٹھیک نہیں کرسکتا۔
میں نے گزشتہ کالم میں مستند اعداد و شمار کی روشنی میں بتایا تھا کہ ملک سری لنکا کی طرح دیوالیہ پن کے دہانے تک جا پہنچا ہے اور اسے بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اسحاق ڈار کو واپس لایا جائے۔