• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا

کیا آپ کو احساس ہے کہ آپ ایک ایسے خطّے کے فعال فرد ہیں جس کی تسخیر کے لیے امریکہ سمیت ساری عالمی قوتیں بے تاب ہیں۔ مستقبل کے وسائل۔ دنیا کی ایک چوتھائی آبادی یہاں ہے۔ نئی نئی امریکی پالیسیوں کے لیے جنوبی ایشیا ایک بڑی تجربہ گاہ ہے۔ بیس سال سے وہ اپنے تجربے یہاں پڑوس میں کرتا رہا ہے۔ پہلے سائنسدان چوہوں پر تجربے کرکے انسانوں کے علاج کی طرف آتے تھے۔ اب تجربے انسانوں پر ہوتے ہیں۔ بعد میں جانوروں کا علاج ہوتا ہے۔

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں سے ملنے ملانے کا دن۔ آپ جب اہم عالمی فرد ہیں تو آپ کی آئندہ نسلیں تو اور بھی زیادہ اہم ہیں۔ اپنے بچوںکو ان کی جغرافیائی اہمیت کا احساس دلائیں تاکہ وہ خاموش درختوں کی طرح نہ اگیں اور انتظار نہ کریں کہ موسم ان کے پیرہن تبدیل کریں۔ عالمی طاقتیں ہمارے آبائو اجداد کو اپنے توسیعی تجربات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتی رہیں کچھ بخوشی استعمال ہوتے رہے کچھ نے مزاحمت کی۔ 75سال سے ہم استعمال ہورہے ہیں لیکن ہماری آئندہ نسل رضاکارانہ استعمال ہونے کو تیار نہیں ہے۔ اب ان کے ہاتھوں میں بھی ریموٹ ہیں۔

ہم جنوبی ایشیا میں سانس لے رہے ہیںجو امریکہ کے دل میں ہمیشہ کانٹے کی طرح کھٹکتا رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی غربت کے باوجود بڑی مارکیٹ۔ سرحدی تنازعات۔ جو خود مغرب نے یہاں چھوڑے۔ اور یہ سب چین کے پڑوس میں۔ جو اب ایک ابھرتی پھیلتی سیاسی اقتصادی قوت ہے۔ امریکہ یورپ یہاں اپنے لیے بہت خطرات محسوس کررہے ہیں۔ خطّے میں صرف انڈیا ہے جو چین کی مزاحمت کررہا ہے۔ ورنہ پاکستان۔ نیپال۔ سری لنکا۔ افغانستان میں چین کا اثر و رسوخ اور سرمایہ کاری بہت بڑھ چکی ہے۔آپ اہم ہیں۔ آپ کے عظیم وطن کا محل وقوع اہم تر۔ اس لیے یہاں کے موجودہ بحران کو اندرونی بحران نہ سمجھیں۔ اس کے ڈانڈے جنوبی ایشیا کی ابلتی ہوئی صورت حال سے بھی ملتے ہیں۔ اور چین کی ابھرتی طاقت کے حوالے سے یہ ابھار امریکہ یورپ کے لیے بھی سخت خطرہ ہے۔

آپ جب اپنے آپ کو اپنی آنے والی نسلوں کو اس تناظر میں دیکھیں گے تو آپ کو حالیہ بحران کا واضح ادراک ہوسکے گا۔ اپنے آپ کو کمتر نہ سمجھیں۔ نہ اپنے لیڈروں کو۔آنے والے دنوں میں ان سب کو اہم کردار ادا کرنے ہیں۔ کچھ آپ کو واپس امریکہ یورپ یعنی گوروں کی گود میں لے جانے کے لیے اسکرپٹ کے مکالمے بولیں گے۔ کچھ آپ کو چین کے ہاتھوں میں محفوظ کرنے کے لیے اپنا لکھا ہوا کردار ادا کریں گے۔ سوچیںکہ آپ کو کونسا عالمی کردار ادا کرنا ہے۔

تصور کیجئے اگر عمران خان کو 15مہینے اور لولی لنگڑی حکومت چلانے دی جاتی۔ ہر روز غیر مقبول ہوتے حکمران کا اگست 2023 میں کیا حال ہوتا۔ یہ ادراک تو مقامی اسٹیبلشمنٹ کو بھی تھا اور انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کو بھی۔ لیکن اس کے باوجود ان ہی چار پانچ مہینوں میں کوئی اہم کارروائی کی جانی تھی جس کی وجہ سے عمران خان کو زیادہ مقبول ہوجانے کے خطرے کے باوجود ہٹایا گیا۔ اگر مارشل لا سے ہٹایا جاتا تو عمران خان کی مقبولیت مارشل لا کے ضابطوں اور سختیوں کی نذر ہوجاتی۔ جو قوتیں بھی یہ تجربہ کررہی ہیں وہ تیرہ سیاسی جماعتوں کو بھی کھلا میدان نہیں دینا چاہتیں۔ ایسا ہوتا تو میاں محمد نواز شریف لاہور ایئرپورٹ پر لاکھوں استقبالی حامیوںکے درمیان اتر چکے ہوتے۔ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کوئی بھی اقدام کرنے سے پہلے اس ملک میں گیلپ سروے کرواتی ہے۔ سیاسی طور پر تو فی الحال عمران خان کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اس میں ان کے اپنے تدبر بصیرت اور فہم کا کوئی کمال نہیں ہے۔ وہ اس وقت پاکستان میںسوشل میڈیا کی طاقت سے ابھرتی اور اقتصادی مشکلات کی مزاحمت کرتی مڈل کلاس کے جذبات اور محسوسات کی ترجمانی کررہے ہیں۔

کسی بھی حکمران کے لیے ملک کو اقتصادی طور پر سنبھالنا ممکن نہیں تھا۔ اور نہ ہے۔ موجودہ حکومت کو زیادہ مشکلات کا سامنا ہوگا۔ اس کے پاس تو فنڈز کا قحط ہے۔ پھر اندر باہر اس حکومت کو عارضی انتظام سمجھا جارہا ہے۔ اس لیے دیرپا معاہدے نہیں ہوسکیں گے۔ پی ٹی آئی نے یہ تاثر تو پیدا کردیا ہے کہ یہ ہر طرح سے امریکہ کی لائی ہوئی حکومت ہے۔ لیکن امریکہ بھی اس کی اقتصادی مدد فراخدلانہ نہیں کرسکے گا۔ صحت کارڈ۔ کامیاب نوجوان کارڈ۔ احساس پروگرام کے ذریعے مالی طورپر جو انقلاب آیا ہے اس کی موثریت کا ادراک عمران حکومت کو بھی شاید نہ ہو۔ افراد کو براہ راست مالی طور پر مضبوط کرنے سے درمیانی قوتیں جن میں ٹھیکیدار۔ آڑھتی۔ ایم این اے۔ ایم پی اے شامل ہیں۔ انہیں بے اثر کردیا گیا۔ انگریز، اس کے بعد آنے والی سیاسی فوجی حکومتیں۔ سرداروں۔ ارکان اسمبلی۔ علاقہ معتبرین۔ ایم این اے۔ انتخابیوں کو طاقت ور کرتی تھیں۔ غریب غریب رہتا تھا۔ ٹیکنالوجی نے ٹھیکیداری سسٹم سے بالا بالا پیسہ افراد کے اکائونٹ میں جانے کا راستہ کھول دیا ہے۔ اب اس راستے کو بند کرنا مشکل ہوگا۔ جاگیرداروں، سرمایہ داروں، سرداروں، زمینداروں اور ٹھیکیداروں پر مشتمل موجودہ حکومت ان راستوں کو معطل کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس کے نتیجے میں بھی متبادل قیادت مقبول ہوگی۔ چاہے وہ عمران خان ہوں یا کوئی اور۔

انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کی کوشش ہوگی کہ پاکستان امریکی پالیسیوں کے تابع ہوکر چین کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا راستہ روکنے میں اتحادی بنے۔ انڈیا سے تعلقات بڑھائے۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کا یرغمال رہے۔ لیکن 1988 کے بعد کی پیدائش اور پرورش نئے پاکستانی چین کو اپنا دوست سمجھتے ہیں۔ انڈیا کی حالیہ متعصبانہ مسلم دشمن پالیسیوں کی وجہ سے اس کے قریب نہیں ہونا چاہتے۔ مابعد 1988نسل تجارت میں ہے۔ کارپوریٹ میں ہے۔ بیورو کریسی میں ہے۔ ہماری سپاہ میں ہے۔ بات اس نسل کی چلے گی۔ جو بھی ان کے جذبات کی عکاسی کرے گا۔ مستقبل اسی کا ہے۔

تازہ ترین