اسلام آباد ہائیکورٹ نے حنیف عباسی کو وزیراعظم کے معاون خصوصی کے طور پر کام سے روکنے کی درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کرکے سماعت 17 مئی تک کے لیے ملتوی کردی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے حنیف عباسی کو وزیراعظم کے معاون خصوصی کے طور پر کام سے روکنے کی شیخ رشید کی درخواست پر سماعت کی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزیراعظم شہباز شریف کو حنیف عباسی کی بطور معاون خصوصی تعیناتی پر نظر ثانی کا حکم دیا۔
درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے درخواست گزار شیخ رشید کو روسٹرم پر بلایا۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی کا شاید عدالتوں پر اعتماد نہیں ہے، پھر شیخ رشید سے سوال پوچھا کہ اگر آپ کا عدالت پر اعتماد ہے تو یہ عدالت سنے گی، شیخ رشید نے جواب دیا کہ اعتماد ہے تو عدالتوں میں آئے ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ سائل کا عدالت پر اعتماد ہونا بہت ضروری ہے اور بھی عدالتیں ہیں اور بھی ججز ہیں جو آپ کے کیسز سن سکتے ہیں۔
انہوں نے ریمارکس میں مزید کہا کہ اگر عمران خان کا اعتماد نہیں ہے تو بطور چیف جسٹس میں معذرت کر کے کسی اور عدالت میں کیس بھیج دیتا ہوں۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ جلسوں میں کہا جاتا ہے کہ عدالتیں آزاد نہیں ہیں، سیاسی بیانیے بنائے جاتے ہیں کہ عدالتیں کسی کے کہنے پر کھلتی ہیں، عوامی جلسوں میں روز کہا جاتا ہے کہ عدالتیں رات کو کیوں کھلیں ؟، جلسوں میں عدالتوں پر الزام تراشی افسوسناک ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ 2014 میں رات 11 بجے پی ٹی آئی ورکرز جو حراست میں تھے ان کو رہا کرنےکا حکم دیا ، آپ کے وکلاء نے یقیناً آپکو بتایا ہو گا کہ رولز موجود ہیں چیف جسٹس کسی بھی وقت کیس ٹیک آپ کرسکتے ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ انصاف ہونا بھی چاہیے اور نظر بھی آنا چاہیے، بہت اہم اور بڑے کیسز عدالت میں زیر سماعت ہیں، آپ چیئرمین تحریک انصاف سے بھی پوچھ لیں اگر انہیں اعتماد نہیں تو ہم نہیں سنتے۔
اس عدالت میں لاپتہ افراد، بلوچ اسٹوڈنٹس کےکیسز ہیں عوام کا اعتماد خراب نہ کریں، اس پر شیخ رشید نے چیف جسٹس کو رائٹ سرکا جواب دیا۔
عدالت نے درخواست میں وفاق کو بذریعہ سیکریٹری کابینہ ڈویژن اور حنیف عباسی کو نوٹسز جاری کیے ۔