• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر عہد اپنی تہذیب اور اپنے ادب کے لیے کچھ بنیادی سوالات اور مسائل لے کر آتا ہے۔ زندہ تہذیبیں اور اُن کا ادب ان سوالوں کا سامنا کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔ اور اُن کے ضمن میں اپنے نکتۂ نظر کا اظہار پوری شعوری ذمہ داری کے ساتھ کرتے ہیں۔ کسی تہذیب کا یہی جواب دراصل وقت کی تند و تیز موجوں کے سامنے اُس کے مضبوطی سے جمے ہوئے قدموں کے مانند ہوا کرتا ہے جس سے اس تہذیب کے استحکام کا ثبوت فراہم ہوتا ہے۔ وقت کے تغیرات اور اُن کی پیدا کردہ پیچیدگی کی وجہ سے ایسے سوالوں کا دو ٹوک اور براہِ راست جواب اگر فوری طور پر فراہم نہ کیا جاسکے تو بھی زندہ تہذیب ان سے آنکھیں چرانے اور خاموشی اختیار کرنے پر آمادہ نہیں ہوسکتی۔ 

وہ ممکنہ جوابات کی جستجو کرتی ہے، وقت کی چاپ کو سنتی ہے، ہوا کے رُخ کو جانچتی ہے اور آنے والے دنوں کے آئینے میں زندگی کے بنتے ہوئے نقش کو دیکھنے اور پہچاننے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ سارا عمل دراصل ان سوالوں کے جواب کے حصول کے لیے ہوتا ہے۔ اس کام کے دوران میں تہذیب کو اپنے جائزے، محاکمے اور احتساب کا موقع مل جاتا ہے اور وہ وقت کے پیش کردہ سوالوں کا جواب دینے کے لائق بھی ہوجاتی ہے۔

کسی بھی تہذیب کی بقا کے لیے یہ وقت اور اس کا تغیر ناقابلِ تردید حقیقت اور اس کے اٹھائے ہوئے سوالوں کا جواب زندگی کے ناگزیر تقاضے کا درجہ رکھتے ہیں۔ اپنی بقا کے لیے کوشاں اور استحکام کی خواہاں تہذیب نہ تو ان سوالوں سے رُوگرداں ہوسکتی ہے اور نہ ہی ان کی اہمیت سے غافل۔ اس لیے کہ یہ حقیقت وقت کی دستاویز اور تاریخ کی کتابوں میں جلی حرفوں میں رقم ہے کہ جو تہذیبیں وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر رہتی ہیں، فنا کے گھاٹ جا اترتی ہیں۔ اس کائنات کے نظام میں فنا اور بقا کا فیصلہ اسی اصول کے مطابق ہوتا ہے۔

ہماری تہذیب بھی آج وقت کے کچھ ایسے ہی تقاضوں کے رُو بہ رُو ہے۔ اِس کی بقا کی واحد صورت یہ ہے کہ اپنی داخلی قوت کے ساتھ یہ وقت کی پکار کا جواب دے، حالات سے نبرد آزما ہو تاکہ جغرافیائی اور نظریاتی دونوں سطحوں پر اپنی بقا کا سامان اور اپنے وجود کا اثبات کرے۔ سوال کیا جاسکتا ہے کہ اس عمل کا مشاہدہ کس طرح کیا جاسکتا ہے؟ اس کے لیے کسی سیلولائیڈ کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی کسی پروجیکٹر کی۔ ہر تہذیب اپنے اخلاقی ضابطے، سماجی تناظر اور ثقافتی مظاہر کے ذریعے اپنی صلابت، وسعت اور اپنی شناخت پر اصرار کے ذریعے اس عمل کو ادب اور دوسرے فنون کے توسط سے ہمارے سامنے لاتی ہے۔

ادب میں ہم صرف ایک عہد کے سوالوں کی گونج ہی نہیں سنتے، بلکہ اُن کے جواب کی صورت میں تہذیبی روح کی بازگشت بھی ہمیں صاف سنائی دیتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ ادب اپنے عہد کے سوالوں کے جو بھی جوابات فراہم کرتا ہے، فقط ایک خاص زمانے میں اہمیت نہیں رکھتے، بلکہ ادب، شعر اور نقد کے اوراق میں محفوظ ہو جانے والے یہ جوابات آنے والے ادوار سے بھی ایک تعلق رکھتے ہیں۔ یہ ادب و تہذیب کی قوت کو آنے والے زمانے اور نئی نسل کو منتقل کرتے ہیں۔ انھیں اپنی روایت کے شعور سے ہم کنار کرتے ہیں اور نئے زمانے کے تناظر میں پیدا ہونے والے سوالوں کا سامنا کرنے کی قوت اور ادراک فراہم کرتے ہیں۔

زمانے اپنی آوازوں سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ تشکیل و تعمیر اور تخریب و تشویش کے زمانوں کی آوازیں ایک دوسرے سے بالکل الگ ہوا کرتی ہیں۔ وقت کے کسی نہ کسی مرحلے پر اضمحلال کے وقفے سبھی تہذیبوں پر گزرتے ہیں۔ تاہم ہمارا زمانہ تاریخ کے ماقبل ادوار سے کچھ مختلف ہے، بلکہ کچھ نہیں، بہت کچھ۔ صرف اس لیے نہیں کہ یہ عہد اپنی شناخت ایک بے ہنگم بلند آہنگی اور ایک شور کے ذریعے کرنے پر مصر ہے۔ 

وہ تو ہم سبھی اپنی اپنی جگہ محسوس کر ہی رہے ہیں اور دیکھ بھی سکتے ہیں۔ یہ اپنی جگہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ آج کچھ آوازیں ایک دوسرے کو کاٹ رہی ہیں اورکچھ آوازیں باہم متوازی چل رہی ہیں، اس طرح کہ ایک کا زیر دوسرے کے بم پر آتا ہے۔ یوں ان آوازوں کی کوئی شناخت نہیں ہوپاتی۔ یہ دور اور اس کی انسانی دُنیا کسی نقار خانے کی برہم ہوتی محفل کا نقشہ پیش کررہی ہے کہ جب ہر طوطی اونچی آواز میں بول رہا ہوتا ہے۔

تاہم اس عہد کا ایک اور بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آج بہت سی آوازوں نے بہروپ بھر لیے ہیں۔ بدصورتی آج حسن کے لہجے میں بول رہی ہے۔ جھوٹ کو دیکھیے تو سچ کی آواز لیے ہوئے ہے اور شر کا تکلم سراسر خیر کے انداز میں ہے۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ اس ہنگامے میں حُسن اور بدصورتی، سچ اور جھوٹ، خیر اور شر کے مابین امتیاز کرنا آج اہلِ دانش، اہلِ علم، اہلِ فکر اور اہلِ فن سب ہی کے لیے سب سے بڑی آزمائش بن گیا ہے اور سب سے بڑھ کر اہلِ ادب کے لیے۔ سوال کیا جاسکتا ہے، مگر کیوں؟ اس لیے کہ کسی بھی عہد اور اُس کی تہذیب کے زندہ ضمیر کی آواز سب سے صاف اور واضح لہجے میں ادب کے ایوانوں میں گونجتی اور اُس کے اوراق کی سماعت گاہوں میں محفوظ ہوتی ہے۔ اس لیے آج ادیب اور شاعر ہر زندہ تہذیب اور اُس کے معاشرے کے سب سے اہم اور ذمہ دار افراد قرار پاتے ہیں۔ بشرطے کہ وہ اپنی ذمہ داری کا شعور رکھتے ہوں اور اُس کی بجا آوری کو مقصدِ حیات جانتے ہوں۔

یہاں ایک اور سوال بھی سنجیدہ اور توجہ طلب ہے۔ آج کہ جب یہ بات مشرق و مغرب کی سب تہذیبوں اور سماجوں میں نہ صرف بار بار کہی جارہی ہے، بلکہ خاصے لوگ اب اس پر آمنا و صدقنا بھی کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اب ادب نہیں پڑھا جارہا، ادب و شعر کا چلن اٹھ چکا۔ حرف و حکایت کا سارا کام قطعی طور پر ہاری ہوئی بازی ہے، اور یہ کہ اب کسی کو ادب کی ضرورت نہیں رہی ہے۔ کہنے والے تو یہ تک کہتے سنائی دیتے ہیں کہ لفظی طوطا مینا اڑانے اور اُن کو اڑتے دیکھنے کے دن لدگئے۔ یہ سب اگلے وقتوں اور سادہ لوح زندگی کی چیزیں تھیں۔ 

سائنسی شعور اور ٹیکنولوجی کی حیرت ناک روز افزوں ترقی آج اُن کاموں کو حقیقت بنانے جا رہی ہے جو کبھی خواب میں بھی ممکن نظر نہ آتے تھے۔ ایسے میں لفظی طوطا مینا کی کوئی گنجائش باقی نہیں تو اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ پھر ایسی فضا میں ادیب اور شاعر کس امید پر اور کب تک حرف و صوت کا چراغ جلائے رکھیں گے؟ یہاں اس حقیقت کو بھی ملحوظِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ یہ ساری باتیں صرف ہمارے یہاں نہیں ہو رہیں، یعنی کسی پس ماندہ یا ترقی پذیر دنیا میں نہیں، بلکہ کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کسی تأمل کے بغیر اب ترقی یافتہ دنیا میں بھی ہو رہا ہے۔ اس لیے آج یہ ادب کے زوال یا خاتمے کا سوال صرف ہمارے لیے ہی نہیں ہے، بلکہ ایک عالمی سطح کا مسئلہ ہے۔

ادب کی زندگی اور موت کی بابت ہمارے یہاں گزشتہ کئی دہائیوں میں وقفے وقفے سے بہت گفتگو ہوتی رہی ہے، اب بھی ہورہی ہے اور یہ گفتگو ابھی کچھ عرصے تک ہوتی رہے گی۔ ہمارے یہاں ہی نہیں، اُن سب معاشروں میں بھی جہاں ابھی تہذیب کی قوت مؤثر ہے، جہاں سماجی اقدار کا ایک دائرئہ اثر ہے، اور جہاں اخلاقی ضابطہ ابھی قائم ہے۔ یہ گفتگو ان سب معاشروں میں ہونے اور بار بار جاری کیے جانے کے کچھ اسباب ہیں۔ اس کے لیے عالمی سطح کی ایک سیاسی و معاشی مقتدرہ کام کر رہی ہے۔

اس کے اپنے کچھ اہداف ہیں جو ایسی تہذیبوں اور معاشروں کے لیے اس نے مقرر کیے ہیں۔ خیر، یہ ایک الگ نکتۂ بحث ہے اور ذرا کچھ تفصیل طلب بھی، اس پر یہاں ہمیں گفتگو نہیں کرنی۔ تاہم یہ بات کسی دُبدھا میں پڑے بغیر ہمیں پورے تیقن کے ساتھ سمجھ لینی چاہیے کہ ادب پڑھنے والوں کی تعداد میں کمی بیشی ایک الگ معاملہ ہے، لیکن ادب بہرحال زندہ رہے گا، اُس وقت تک کہ جب تک اس کرۂ ارض کے انسان تہذیبی و تمدنی زندگی کے خواہاں رہیں گے۔

اس لیے کہ انسانی تہذیب و تمدن کے سارے جاوداں رنگ ادب ہی نے ابھارے ہیں اور ادب ہی کے ذریعے اُن کی نمو کا عمل ہوتا رہا ہے۔ اس لیے ہمیں ادب کی موت کے واہمے کو پالنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس وقت یہ واہمہ بھی سوچی سمجھی سازش کے تحت پھیلایا جارہا ہے۔ اس کے پس منظر میں دراصل یہ خواہش کارفرما ہے کہ اُن عناصر، عوامل اور فنی اصناف کو معطل اور غیر مؤثر بنایا جائے جو کسی تہذیب کو زندہ رکھنے اور اُس میں بقا کی آرزو کو پروان چڑھانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ یہ دراصل اُن قوتوں کی خواہش ہے جو اس دُنیا کو ایک بے تہذیب اور بے اقدار معاشرت بنانا اور اس کے انسانوں کو ایک مشینی یا روبوٹین زندگی کے ڈھرے پر لانا چاہتی ہیں۔

سات ارب سے زائد نفوس پر مشتمل اس پوری آبادی کو صرف اور صرف مادیت کی سطح پر زندگی گزارنے کی طرف لانا اور محض ایک کنزیومر سوسائٹی بنانا چاہتے ہیں۔ ایک ایسا سماج جس میں روح کا اور انسان کی روحانی ضرورتوں کا مطلق کو شعور ہی نہ ہو۔ انسانی و تہذیبی معاشرے میں ایسا اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس میں وہ چیزیں موجود ہیں جو انسان کو وجود سے برتر حقیقتوں کا احساس دلاتی اور اسے روح کی غذا اور اس کے مطالبات کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ ظاہر ہے، ان میں ادب کا اپنا ایک مقام ہے۔ اب آپ خود غور کیجیے کہ آج کسی معاشرے میں ادب کی بقا کا کیا مفہوم و معنیٰ ہے۔

اس امر سے آگہی کے بعد یہ سوال سب سے زیادہ اہم اور غور طلب ہے کہ اس صورتِ حال میں ادیب و شاعر کا کردار یا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ یوں تو یہ سوال خاصا بحث طلب ہے، لیکن مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ آج ادیب و شاعر کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود کو محض اپنے تخلیقی عمل تک محدود نہ رکھے، بلکہ خود کو اپنے سماج سے جوڑے ذہنی، جذباتی، فکری اور وجودی ہر سطح پر خود کو اُس سے مربوط کرے اور اس رشتے کو باربار ظاہر کرے اور موضوعِ گفتگو بنائے۔ 

ورچوئیل رئیلٹی کے روز افزوں رجحان کے اس دور میں ادیب کا سماجی اور شخصی کردار بھی ادب کی معنی آفرینی اور فروغ میں بڑی اہمیت کا حامل ہوگیا ہے۔ ادیب آج اپنے احساس، لفظ اور وجود کو اپنے سماج سے ہم آہنگ کرکے ہی اس حقیقت کے سراب کا پردہ چاک کرسکتا ہے۔ یہی وہ کام ہے جو مفروضہ حقیقت یا متبادل حقیقت نہیں، بلکہ حقیقتِ حقہ کو پانے اور سمجھنے کا ذریعہ بنے گا۔ اسی کے ذریعے حسن، خیر اور سچائی کا بجنسہٖ ادراک حاصل ہوسکتا ہے اور انسانیت کے لیے تشکیک اور گم شدگی کے اندھیروں سے نجات ممکن ہے۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔ 

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی