• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غیر جانبداری کو نقصان پہنچائے بغیر مذاکرات کیسے ہوں گے

اسلام آباد (انصار عباسی) اگرچہ دونوں فریقین میں تعلقات انتہائی خراب ہیں لیکن ملک کی تیزی سے خراب ہوتی معاشی صورتحال اتحادی حکومت اور عمران خان کی زیر قیادت پی ٹی آئی کو مذاکرات کی میز پر بٹھا سکتی ہے۔

پس منظر میں ہونے والی بات چیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اکتوبر میں اگر انتخابات کرائے جائیں تو حکومتی اتحادیوں اور پی ٹی آئی کے درمیان انتہائی اہم سمجھے جانے والے معاملے یعنی معیشت کے معاملے پر وسیع تر اتفاق رائے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔

ملک کی معاشی صورتحال سب کیلئے باعثِ پریشانی ہے اور اس بات کے واضح اشارے ہیں کہ اگر فوری طور پر درست اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان اگلا سری لنکا بن سکتا ہے۔ جس وقت وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی پارٹی کے اہم ارکان گزشتہ تین روز سے لندن میں معیشت اور الیکشن جیسے معاملات پر غور و خوص کر رہے ہیں، بنی گالا کا باسی بھی معاشی بحران پر پریشان ہے اور ان کی پارٹی کے ایک اہم رکن نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ وہ اُتنے سخت نہیں جتنا شیخ رشید بتا رہے ہیں۔

 پی ٹی آئی رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ میں ریکارڈ پر آ کر کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم الیکشن اور معیشت کے معاملے پر بات کیلئے تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پارٹی میں شیریں مزاری، فواد چوہدری اور شیخ رشید جیسے عقابی رہنمائوں کو چھوڑ کر بات کی جائے تو پی ٹی آئی میں ایسے رہنما ہیں جو موجودہ سیاسی بحران کا مذاکرات کے ذریعے حل نکالنے کیلئے تیار ہیں تاکہ پاکستان کو معاشی بربادی سے بچایا جا سکے۔

 حکمران اتحاد بھی انتہائی مشکل فیصلوں کے معاملے میں پھنس چکا ہے جس میں معیشت کو درست کرنے کیلئے انتہائی بڑی سیاسی قیمت چکانا پڑ سکتی ہے، معیشت مکمل تباہی کی جانب گامزن ہے کیونکہ ملک میں غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر تیزی سے گر رہے ہیں۔ تیل کی مصنوعات پر بھاری سبسڈی کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام حاصل کرنا ضروری ہوگیا ہے جس کے بعد پاکستان ڈیفالٹ سے بچ نہیں سکتا۔

اگر یہ سبسڈی ختم کر دی گئی تو اس کا مطلب زبردست مہنگائی ہے جو حکمران اتحاد اور سب سے بڑھ کر نون لیگ کیلئے ایک مشکل ترین فیصلہ ہوگا کیونکہ اس پارٹی کے پاس ہی وزارت عظمیٰ اور معاشی وزارتوں کے قلمدان ہیں۔ نون لیگ اور اتحادی جماعتیں اس بات پر منقسم ہیں کہ سبسڈی ختم کرکے تیل کی مہنگی قیمتوں کا بوجھ عوام پر منتقل کیا جائے یا نہیں، یہ سبسڈی ماہانہ 100؍ ارب روپے ہے۔

 حکومت سمجھتی ہے کہ صورتحال آگے کھائی پیچھے کنواں جیسی ہے - سبسڈی ختم نہ کی گئی تو ڈیفالٹ یقینی ہے اور اگر سبسڈی ختم کر دی گئی تو نتیجہ شدید مہنگائی ہوگا۔

 وزیراعظم پر معاشی فیصلہ کرنے کے حوالے سے شدید دبائو ہے، وہ پارٹی کے اہم رہنمائوں کے ساتھ مل کر لندن گئے تاکہ الیکشن کے معاملے پر بات چیت کی جا سکے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز شریف ان آپشنز کے ساتھ لندن گئے تھے کہ اسمبلی رواں ماہ کے تیسرے ہفتے میں یا پھر جولائی اگست میں تحلیل کر دی جائے تاکہ اکتوبر میں الیکشن کی راہ ہموار ہو سکے۔

 لندن یاترا کا تیسرا دن گزر چکا اور اس میں تمام تر توجہ الیکشن اور معیشت کے معاملے پر مرکوز رہی۔ نون لیگ اپنا معاشی لائحہ عمل جاری کرے گی لیکن آئندہ انتخابات کرانے کا معاملہ کسی پارٹی کے ہاتھ میں نہیں چاہے نون لیگ کوئی بھی فیصلہ کرے۔

سیاسی اور معاشی صورتحال الیکشن کے وقت کا فیصلہ کرے گی۔ تاہم، اکتوبر میں الیکشن کرانا دونوں فریقوں کیلئے موزوں رہے گا۔

الیکشن کمیشن پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ اکتوبر سے قبل الیکشن ممکن نہیں۔ پی ٹی آئی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی رواں سال اکتوبر میں الیکشن کیلئے راضی ہو جائے گی۔

 اس سے حکمران اتحاد کو بھی آئندہ چند ماہ میں یا ممکنہ طور پر جولائی میں قومی اسمبلی تحلیل کرنے سے قبل اصلاحات کا موقع مل جائے گا۔ چونکہ معاشی صورتحال ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے، اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ دونوں فریق مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر معاشی پالیسی پر اتفاق رائے حاصل کریں۔

 لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انہیں مذاکرات کیلئے آمادہ کرنے کیلئے ثالث کون ہوگا۔ یہ کام کوئی اور نہیں بلکہ صرف اسٹیبلشمنٹ اپنی غیر جانبداری کو نقصان پہنچائے بغیر کر سکتی ہے۔

اہم خبریں سے مزید