• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جلسوں میں سامعین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ کیا ان سے جمہوریت مستحکم ہوگی یا یہ خانہ جنگی کی طرف لے جائیں گے؟ ویسے خانہ جنگی بھی جمہوریت کے استحکام کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔ امریکہ میں انیسویں صدی میں چند سال خوفناک خانہ جنگی رہی۔ اس کے بعد دیکھیں ایک سسٹم قائم ہوگیا۔ انسانی حقوق رفتہ رفتہ بحال ہوتے گئے۔ برطانیہ میں 17ویں صدی میں خانہ جنگی کے مناظر دکھائی دیتے ہیں۔ چرچ اور ریاست کی جنگیں بھی ہوتی ہیں۔ پاکستان میں ابال ضرور آتا ہے۔ لیکن یہاں خانہ جنگی کا امکان نہیں ہوتا کہ ہماری ارضی کیفیت اس طرح کی ہے کہ یہاں مکمل انقلاب نہیں آنے پاتا۔ وسائل اور اقتدار پر ایسے حکمران طبقے غالب ہیں اور ان کے درمیان ایک غیر تحریری معاہدہ بھی ہے کہ جب چاروں صوبوں اور دو اکائیوں میں خلقت حکمرانوں سے بیزار ہوکر سڑکوں پر نکلنے لگتی ہے اور یہ خدشہ ہوتا ہے کہ بلوچستان۔ سندھ۔ پنجاب۔ کے پی کے۔ گلگت بلتستان۔ آزاد جموں و کشمیر۔ قبائلی علاقوں کے محنت کش۔ کسان۔ ہاری ایک ہوکر آواز بلند کرنے والے ہیں تو کوئی مصنوعی تبدیلی لائی جاتی ہے، جس سے انقلاب کو بریکیں لگ جاتی ہیں۔ خلق خدا اس تبدیلی میں ہی اپنی نجات دیکھنے لگتی ہے۔

آج اتوار ہے۔ اپنی اولادوں سے دوپہر کے کھانے پر ملنے کا دن۔ ان کے ذہنوں میں بہت سے سوالات ہیں۔ آپ ان کے جوابات کے لیے تیاری کرتے ہیں۔ ہمارا مستقبل ہم سے زیادہ با خبر ہے۔ اسمارٹ فون پر اسکرین ٹائم اس کا ہم سے زیادہ ہے۔ آپ اور مجھ سے کہیں زیادہ ہمارے بچے جانتے ہیں کہ بھارت میں اقتصادی مشکلات کتنی ہیں۔ سری لنکا میں ہنگامے کیوں ہورہے ہیں۔ کرفیو کیوں لگ رہا ہے۔ نیپال میں بھی زر مبادلہ کے ذخائر کم ہورہے ہیں؟ ادھر افغانستان کو عالمی برادری نے تنہا چھوڑ دیا ہے۔ 20سال تک وہاں امریکہ اوریورپ اپنے اتحادیوں سمیت ڈالر اور بم برساتے رہے۔ یا اب بالکل الگ تھلگ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں بھی ڈالر کی پرواز اونچی ہوتی جارہی ہے۔ روپیہ کٹی پتنگ کی طرح ڈول رہا ہے۔

بھارت میں ہمارے ایک جہاندیدہ صحافی تجزیہ کار جو مودی کے سخت ناقد ہیںاور سمجھتے ہیں کہ اس نے سیکولرازم کے بنیادی اصولوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے، ہمارے اس روشن خیال دوست کی نظر عالمی نشیب و فراز پر بھی رہتی ہے۔ اور جنوبی ایشیا کے اتار چڑھائو پر بھی۔ وہ روزانہ کئی بین الاقوامی اخبارات و رسائل کا نہ صرف خود مطالعہ کرتے ہیں۔ بلکہ اپنے تبصروں کے ساتھ ان کے پی ڈی ایف ہمارے گروپ ’اطراف لائونج‘ میں بھی پوسٹ کرتے ہیں۔ اس با خبر دانشور کا خیال ہے کہ جنوبی ایشیا کسی انقلاب کے دہانے پر ہے۔ انقلاب فرانس کی طرح کا کچھ لاوا پک رہا ہے۔ میں نے اسے کسی مجذوب کی بڑ نہیں سمجھا۔ نیپال۔ سری لنکا۔ افغانستان۔ بھارت کے اقتصادی اعداد و شُمار پر نظر ڈالی ہے۔ پہلے کووڈ 19نے ان ملکوں کی معیشت کو حد درجہ متاثر کیا ہے۔ اب روس یوکرین کی جنگ ان کی تیل اور گیس کی درآمدات کی صورت حال پر اثر انداز ہورہی ہے۔

ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارا میڈیا ہمیں صرف پاکستان کے چند سیاسی خاندانوں کی نقل و حرکت سے آگاہ رکھتا ہے اور یہ تاثر دیتا ہے کہ ہماری زندگیاں بنی گالا۔ بلاول ہائوس۔ جاتی امرا کے ہاتھوں میں ہیں۔ دنیا کے حالات خطّے کے مد و جزر کا ہم سے کوئی لینا دینا نہیں۔ آج کی دنیا آپس میں بہت زیادہ مربوط ہے۔ معیشت عالمی رابطوں میں بھی ہے اور خطّے میں بھی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ سرحدی علاقوں میں رہنے والے ان لہروں کے اثرات سے بخوبی واقف ہیں جو سرحد پار کرکے انسانوں کو متاثر کرتی ہیں۔ ہم سب کثیر القومی کمپنیوں کے یرغمال ہیں۔ وہ عالمی صورت حال اور پھر مختلف خطّوں کے احوال دیکھ کر اپنی قیمتیں مقرر کرتی ہیں۔ اسٹاک ایکسچینج میں بھی اپنا سرمایہ ڈالتی ہیں یا واپس کھینچتی ہیں۔

نیپال میں زرِ مبادلہ کے ذخائر کم ہورہے ہیں۔ بیرونِ ملک نیپالیوں کی طرف سے ترسیلات زر بھی گھٹ گئی ہیں۔ وزیر خزانہ اور گورنر سینٹرل بینک میں ٹھنی ہوئی ہے۔ افراطِ زر میں اضافہ۔ بینک اب قرضے نہیں دے رہے۔ زرعی ملک ہے لیکن کھانے پینے کی چیزیں باہر سے منگوائی جارہی ہیں۔10ملین ڈالر کا خسارہ ہے۔ سرکاری دفاتر میں پیٹرول کا استعمال 20فی صد کم کیا گیا ہے۔

سری لنکا میں بد ترین صورت حال ہے۔ حکومت کی بد انتظامی سے زر مبادلہ کے ذخائر کم ہوگئے ہیں۔ درآمدات کی ادائیگی کی حیثیت نہیں رہی۔ کرفیو۔ جھڑپیں۔ بے یقینی۔ قومی اخراجات۔ قومی آمدنی سے کہیں زیادہ۔ اشیائے ضروریہ کے لیے لمبی لمبی قطاریں لگ رہی ہیں۔ کاغذ اور سیاہی نہ ہونے کے باعث امتحانات ملتوی کیے جارہے ہیں۔ افراط زر 30فیصد۔ پیٹرول 92فیصد۔ ڈیزل 76 فیصد۔ صدارتی نظام بری طرح ناکام ہوگیا ہے۔ یہاں شرح خواندگی 100فی صد ہے۔ اس کے باوجود یہ حال ہے۔ فوج کے اقتدار پر قبضے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔

بھارت میں شرح نمو 7.6 فی صد متوقع تھی لیکن 6.4 فیصد رہی۔ مہنگائی بڑھ گئی ہے۔ ٹیکنیکل کساد بازاری کا خطرہ ہے۔ مودی کی متعصبانہ پالیسیوں کے باعث نوجوان No Where Generation بن گئے ہیں۔ بے منزل نسل۔ اس کو ٹائم پاس نسل بھی کہا جارہا ہے۔ پکی نوکری مل نہیں رہی۔ اعلیٰ تعلیم مگر ادنیٰ ملازمت۔ آئندہ 12سے 18 ماہ میں معیشت مزید بد حال ہوگی۔ پندرہ سے 30 سال تک کی عمر کے انڈین چڑ چڑے ہورہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’ہم گریجویٹ۔ ہم بھوکے‘۔

پاکستان کی اقتصادی صورت حال آپ کے سامنے ہے۔ ڈالر 193 روپے کا ہوگیا ہے۔ ہم بھی لگژری اشیا درآمد کررہے ہیں۔ پنیر۔ چاکلیٹ۔ سبزیاں پھل۔ گاڑیاں۔ موبائل فون۔ پالتو جانوروں کی خوراک پر ڈالر خرچ ہورہے ہیں۔ برآمدات سے درآمدات کہیں زیادہ ہیں۔ زر مبادلہ کے ذخائر کم ہورہے ہیں۔ صرف بنگلہ دیش کی معیشت جنوبی ایشیا میں مستحکم ہے۔ کیا یہ قیادت کا بحران ہے؟ کیا واقعی کوئی بڑا انقلاب آنے والا ہے۔ اقتصادی ماہرین کی کوئی سن نہیں رہا۔ سارک کی علاقائی تعاون کی تنظیم دنیا میں سب سے ناکام ہے۔ اس کے بعد یہ حال تو ہونا ہی تھا۔ جنوبی ایشیا کی یہ اقتصادی زبوں حالی کیا چین کو بھی متاثر کرے گی اور کیا چین ان ملکوں کی مدد کو آگے نہیں بڑھے گا؟

تازہ ترین