• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہباز شریف کی حکومت قائم ہونے کے ایک ماہ بعد لندن میں مسلم لیگ (ن) کا غیرمعمولی اعلیٰ سطحی اجلاس نواز شریف کی صدارت میں منعقد ہوا۔ یہ اجلاس نواز شریف نے طلب کیا تھا، وفاقی کابینہ کے کم و بیش تمام اراکین کی ’’بارات‘‘ اجلاس میں شرکت کے لیے لندن پہنچی جس کے باعث تین چار روز تک کارِ سرکار معطل رہا۔ 

اجلاس میں کیے جانے والے فیصلوں کا تاحال کوئی اعلان نہیں کیا گیا تاہم یہ خیال کیا جارہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے 10اپریل 2022کے بعد ملکی سیاسی منظر نامےمیں ہونے والی تبدیلی کے تناظر میں عمران خان کے خلاف جارحانہ سیاست کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 

ویسے تو عمران خان کا مقابلہ مریم نواز کر ہی رہی ہیں، وہ اب تک عمران خان کے جلسوں کے مقابلے میں بھرپور جلسے کر چکی ہیں لیکن پاکستان کے سیاسی حلقوں میں نواز شریف کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے عمران خان کے لیے سیاسی میدان کھلا نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔

نواز شریف چونکہ’’سزا یافتہ‘‘ ہیں اور وہ ضمانت پر رہا ہو کر علاج کے لیے بیرونِ ملک گئے تھے، اس لیے وہ واپسی پر پہلے کوٹ لکھپت جیل ہی جائیں گے، تاہم انہوں نے ڈاکٹروں کی ایڈوائس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے آپ کو قانون کی عدالت کے سامنے سرنڈر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 

مسلم لیگ (ن) کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل دائر کرنے پر اتفاقِ رائے کیا گیا ہے۔ اقتدار سے معزولی کے بعد عمران خان سیاسی میدان میں اکیلے دندناتے پھر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف نے فوری طور پر مریم نواز کو عمران خان کے خلاف جوابی جلسے کرنے کے لیے میدان میں اتار دیا ہے۔ 

عمران خان کے جلسوں کا اگرچہ بڑا ’’شور شرابہ‘‘ ہے اور وہ بار بار جلسوں میں عوام کو 20مئی 2022کو اسلام آباد کے لیے نکلنے کی کال دینے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ ان کے جلسوں کا مقصد بظاہرملک میں فوری طور پر انتخابات کرانے کے لیے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر دبائو ڈالنا ہے۔

سر دست حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ان کے ’’جلسہ جلسہ‘‘ کھیل سے مرعوب نہیں ہوئی بلکہ عمران خان کے سیاسی کھیل کا گہرائی سے جائزہ لے رہی ہیں اور حکومت بھی عمران خان کو جلسے کرنے سے روک نہیں رہی لیکن میری اطلاع کے مطابق حکومت نے اسلام آباد کے ریڈ زونمیں لوگوں کو اکٹھا نہ ہونے دینے کا فیصلہ کیا ہے، اِس لیے اسلام آباد کی جانب سیاسی قافلوں کو بڑھنے نہیں دیا جائے گا۔ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔

سب سے زیادہ لوگ خیبر پختونخوا سے آنے کا امکان ہے، جس کے باعث خیبر پختونخوا سے آنے والے قافلوں کو روکنے کے لیے ’’چوہدری نثار علی خان والی حکمت عملی‘‘ اختیار کی جائے گی جو انہوں نے یکم نومبر 2016کو پختونخوا سے آنے والے سیاسی قافلوں کو روکنے کے لیے استعمال کی۔ نواز شریف جو کم و بیش پچھلے 3سال سے لندن میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

عمران خان کا مقابلہ سیاسی میدان میں کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے اسی مقصد کےلئے پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو لندن طلب کیا، عمران دور ِحکومت میں مسلم لیگ (ن) کے تمام بڑے لیڈرہی ای سی ایل پر تھے، وہ اب آزادانہ طور پر اپنے قائد نواز شریف سے ملاقات کر سکتے ہیں۔ 

نواز شریف وطن واپسی پر آکر اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کریں گے، ان کے وطن واپس آنے سے جہاں ان کی اپنی جماعت کے کارکنوں کا سیاسی مورال بلند ہوگا وہیں عمران خان کی ’’مقبولیت‘‘ کے گراف کو چیک کرنے کے لیے نواز شریف کی موجودگی سے پی ڈی ایم مضبوط ہو گی۔

بظاہر حکومت 10اپریل 2022کے بعد عمران خان کی ’’یلغار‘‘ کا اس جوش و خروش سے جواب نہیں دے رہی جس طرح اپنے قیام کے بعد جلسے جلوس منعقد کرتی رہی ہے، ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پی ڈی ایم عمران خان کو اقتدار سے الگ کرنے کے بعد ’’خوابیدہ ‘‘ ہو گئی ہے۔ مریم نواز پی ڈی ایم کو ’’بیدار‘‘ کرنے کی کوشش اور اسے مستقبل قریب میں آنے والے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کر رہی ہیں۔

10اپریل 2022کو اگرچہ عمران خان کی حکومت ختم ہو گئی لیکن تاحال ان کی ’’باقیات‘‘ شہباز شریف حکومت کے لیے معمول کے مطابق کام کرنے کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہی ہیں۔ وفاقی وزارتِ قانون و انصاف آئین شکنی کے مرتکب افراد کے خلاف ریفرنس کی تیاری میں مصروف ہے۔

اس سلسلے میں وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے بھی کہا ہے کہ حکومت نے آئین شکنوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس سلسلے میں کوئی کارروائی اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر ہی کی جائے گی، جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا عمران خان کو گرفتار کیا جائے گا تو ان کا جچا تلا جواب ہوتا ہے کہ ’’جس کی گرفتاری بنتی ہے، اسے ضرور گرفتار کیا جائے گا‘‘۔ 

اگرچہ پی ڈی ایم قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کرتی رہی ہے لیکن اب اس کا موقف یکسر تبدیل ہو گیا ہے، وہ ڈیڑھ سال کی مدت مکمل کر کے ہی مقررہ تاریخ پر انتخابات کرانا چاہتی ہے۔ 

الیکشن کمیشن بھی کہہ چکا ہے کہ آئندہ 7ماہ میں مردم شماری مکمل ہونے کے بعد ہی انتخابات کرانے کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔ ایوانِ صدر کے ’’مکین‘‘ اور حکومت کے درمیان ٹھن چکی ہے۔ پچھلے ایک ماہ کے دوران صدرِ مملکت اپنی دانست میں حکومتی امورکی انجام دہی کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں، اس پر ان کے خلاف پارلیمنٹ میں آئین شکنی پر قرار داد منظور ہونا غیرمعمولی واقعہ ہے۔ 

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حکومت صدرِ مملکت کے خلاف مواخذہ کی تحریک پیش کرنے کی تجویز پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے، تحریکِ مواخذہ کی منظوری کے لیے مطلوبہ تعداد پوری کرنے پر کام ہو رہا ہے۔

پچھلے چند دنوں کے دوران یہ بات محسوس کی گئی ہے کہ سیاسی حلقوں میں نئے آرمی چیف کی تقرری کو موضوع گفتگو بنایا جا رہا ہے جس کا عسکری قیادت نے سخت نوٹس لیا ہے۔ پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ نے پشاور کور کمانڈر سے متعلق بعض سینئر سیاست دانوں کے حالیہ بیانات کو انتہائی نامناسب قرار دیا ہے۔ 

فوج کے ترجمان کی جانب سے یہ بیان ایک ’’وارننگ‘‘ سے کم نہیں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت ملکی سیاست میں فوج کو گھسیٹنے والے عناصر کے خلاف کیا کارروائی عمل میں لاتی ہے اور کس طرح اس کا تدارک کرتی ہے؟ اس سوال کا جواب آنے والے چند دنوں میں مل جائے گا۔

تازہ ترین