• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اصلاحات کے بعد الیکشن کی طرف جانا طے شدہ ہے، فضل الرحمان

حکومتی اتحاد ی جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ طے شدہ ہے کہ کچھ شعبوں میں اصلاحات کے بعد الیکشن کی طرف جایا جائے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں مولانا فضل الرحمان نے فوری الیکشن کے امکان کے سوال پر کہا کہ ’سال کی مدت ہی تو ہے، اس سے آگے تو نہیں جاسکتے، فی الحال گدلے پانی سے نکلے ہیں، دوبارہ گدلے پانی میں اترنا کوئی معقول بات نہیں‘۔

اُن کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک کا بڑا مسئلہ تباہ حال معیشت ہے، انتخابی مرحلے میں باہمی مشاورت سے جائیں گے، انتخابی اصلاحات میں کتنا وقت لگے گا کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

جے یو آئی سربراہ نے مزید کہا کہ سابقہ حکومت نے پونے 4 سال میں ادارے تباہ کردیے، سوال یہ ہے کہ ہم ملک کو دوبارہ درست کرسکتے ہیں؟ اور اس کیلئے کتنا وقت درکار ہوگا؟

انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کی تعیناتی جیسا معاملہ سیاسی اجتماعات یا جلسوں میں زیر بحث نہیں آنا چاہیے، فوج کا اپنا نظام ہے، اُس کے سربراہ کا اپنا ایک مقام ہے، حکومتی مرضی ہوتی ہے وہ کس کا تقرر کرے یا مدت میں توسیع دے۔

مولانا فضل الرحمان نے دوران گفتگو سابق وزیراعظم عمران خان پر اسٹیبلشمنٹ کو تقسیم کرنے کی کوشش کا الزام لگایا اور کہا کہ سویلین اداروں میں تقسیم کا ازالہ ممکن ہے لیکن دفاعی اداروں میں تقسیم کی قیمت ملک کو ادا کرنی پڑتی ہے۔

دوران انٹرویو اُنہوں نے عالمی سازش کے تحت عمران خان کو تخت اسلام آباد پر بٹھانے کا الزام دہرایا اور کہا کہ وقت نے ہمارا موقف درست ثابت کردیا۔

انہوں نے کہا کہ آج عمران خان کس منہ سے عالمی سازش سے اقتدار سے علیحدگی کا الزام لگارہے ہیں، ہم نے تو انہیں پارلیمنٹ میں ووٹ کی قوت سے انہیں اقتدار سے باہر کیا۔

جے یو آئی سربراہ نے کہاکہ عمران خان کا چورن حقیقت آشکار ہونے پر فروخت ہونا بند ہوجائے گا، ہم نے کبھی بھی الیکشن سے راہ فرار اختیار نہیں کی۔

اُن کا کہنا تھا کہ حکومت مخالف تحریک 2018ء میں انتخابی دھاندلی کے بعد سے شروع ہوئی، ہم نے پارلیمنٹ سے عمران خان کو گھر بھجوایا ہے یعنی براہ راست عوام نے انہیں ہٹایا ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم تو شروع دن سے اسمبلیوں کا حلف لینے کے مخالف تھے، مشاورتی عمل سے رائے تبدیل کی، ہم احتجاجی تحریک سے عمران خان کو ہٹانا چاہتے تھے لیکن بات تحریک عدم اعتماد سے ہٹانے پر آئی، تجویز قابل عمل لگی تو قبول کی۔

صدر ڈاکٹر عارف علوی کے مواخذے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اس اقدا کے لیے دو تہائی اکثریت نہیں، اصول ہے کہ اگر صوبہ سندھ اور خیبرپختونخوا کا گورنر استعفیٰ دے کر چلا گیا ہے تو پھر صدر کو بھی چلے ہی جانا چاہیے۔

جے یو آئی سربراہ نے کہا کہ اگلے صدر کے حوالے سے تمام جماعتوں میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا، متفقہ رائے سے جو بھی فیصلہ ہوا وہ قبول ہوگا۔

سابق وزیراعظم نواز شریف وطن واپسی کے سوال پر اُن کا کہنا تھا کہ میں ہمیشہ سے ہی حامی ہوں کہ نواز شریف کو پاکستان آجانا چاہیے اور یہاں رہ کر سیاست کرنی چاہیے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پاکستان نواز شریف کا ملک ہے، کوئی بھی اُن سے پاکستانیت چھین نہیں سکتا، اُن کی واپسی کی راہ میں جو قانونی پیچیدگیاں ہیں، انہیں دور کرنا ہوگا۔

انہوں نے سیاسی حلقوں میں عمران خان کی گرفتاری کے امکان پر کہا کہ آئین و قانون کے مطابق ریاست کارروائی کرتی ہے تو کسی کو بھی کیوں رعایت دی جائے؟

جے یو آئی رہنما نے کہا کہ ریاست نے ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کیا، نواز شریف نے پورے خاندان کے ساتھ جیل کاٹی، عمران خان فرشتے تو نہیں کہ کوئی رعایت کی جائے، آئین اور قانون خود اپنا راستہ بنائے گا۔

قومی خبریں سے مزید