• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آرٹیکل 63 اے کی تشریح، منحرف ارکان تاحیات نااہلی سے بچ گئے

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے منحرف اراکین سے متعلق آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق ریفرنس پر سپریم کورٹ کا اکثریتی فیصلہ آگیا۔

عدالتی فیصلے کے تحت پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے منحرف ارکان تاحیات نااہلی سے بچ گئے لیکن اسمبلی کی موجودہ مدت میں ڈی سیٹ ہوگئے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مبنی 5 رکنی لارجر بینچ نے فیصلہ 3،2 سے سنایا۔

سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کا چوتھا سوال پارلیمنٹ کو واپس بھجوادیا ، یہ سوال منحرف ارکان کی تاحیات نااہلی سے متعلق تھا ۔

فیصلہ سنانے کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ سوری آپ کو کچھ انتظار کرنا پڑا،جس کےلیے معذرت خواہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلہ 3،2 کی اکثریت سے سنایا جارہا ہے، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس مظہر عالم نے فیصلے میں اختلاف کیاہے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہوگا ،نااہلی کی مدت کے تعین کا اختیار پارلیمنٹ کا ہے، پارلیمنٹ اس حوالے سے قانون سازی کرے۔

عدالتی فیصلے میںکہا گیا کہ اگر کوئی منحرف رکن پارٹی ہدایت کے خلاف ووٹ دیتاہے تو وہ ووٹ ، عدم اعتماد ، آئین میں ترمیم ، منی بل میں شمارنہیں ہوگا۔

اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ آرٹیکل 63 اے اکیلا پڑھا نہیں جا سکتا، آرٹیکل 63 اے،آرٹیکل 17سیاسی جماعتوں کےحقوق کےتحفظ کے لیےہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعتوں کے بنیادی حقوق سے متعلق ہے، سیاسی جماعتیں جمہوری نظام کی بنیاد ہیں،سیاسی جماعتوں کے حقوق کا تحفظ کسی رکن کے حقوق سے بالا تر ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ سیاسی جماعتوں میں استحکام لازم ہے،انحراف کینسر ہے،انحراف کرنا سیاسی جماعتوں کو غیر مستحکم اور پارلیمانی نظام کو ڈی ریل کرسکتا ہے۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہمنحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہوسکتا، ریفرنس میں انحراف پر نااہلی کا سوال پوچھا گیا،یہ سوال پارلیمنٹ کو واپس بھیج رہے ہیں،انحراف پر نااہلی کےلیے قانون سازی کا درست وقت یہی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس مظہر عالم اور جسٹس جمال خان مندوخیل کا اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔

اقلیتی فیصلے میں کہا گیا کہ آرٹیکل 63 اے میں دیے گئے نتائجکافی ہیں، کوئی انحراف کرےتوڈی سیٹ ہونےکےبعد اس کی نشست خالی تصورہوگی۔

اقلیتی فیصلے میں کہا گیا کہ اکثریتی فیصلے سے متفق نہیں ہیں،آئین پاکستان پارلیمانی جمہوریت سے متعلق مکمل کور فراہم کرتا ہے۔

اقلیتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ یہ رکن قومی اسمبلی کا حق نہیں ، یہ سیاسی جماعت کا بنیادی حق ہے کہ رکن جماعت کی پالیسی کے مطابق فیصلہ کرے۔


واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کےآرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلقہ ریفرنس پر 20 سماعتوں کے بعد رائے محفوظ کرلی تھی۔

صدر مملکت نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا ریفرنس 21 مارچ کو سپریم کورٹ بھیجا تھا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لاجر بینچ نے کیس سنا۔

جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال مندوخیل لارجر بینچ کا حصہ تھے۔

صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں 58 دن تک زیر سماعت رہا، اٹارنی جنرل خالد جاوید کے دلائل سے ریفرنس کا آغاز ہوا۔

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کے دلائل پر لارجر بینچ میں سماعت مکمل ہوئی، سیاسی جماعتوں کے وکلاء نے بھی صدارتی ریفرنس پر دلائل دیے۔

قومی خبریں سے مزید