• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سر زمین سندھ کے نام کے قدامت کی تحریری گواہیاں سب سے پہلے قبل مسیح کے دور میں ملتی ہیں۔ سنسکرت میں لکھی ہوئی والمیکی کی “رامائن” کے ایک شبد میں جوایودھیا کانڈ میں دیا گیا ہے، بتایا گیا ہے کہ رام نے اپنی حکومتوں کی حدود بتاتے ہوئے کہا:

دراوڑاہ سند سو ویراہ سوراشٹر دکھیناں پتھا

ونگاونگ مگدھا متسیا سمر دھا کاشی کوسلا

مولائی شیدائی
مولائی شیدائی 

یعنی رام کہتا ہے کہ میری حکومت میں سند (سندھ) ملک بھی آجاتا ہے۔ مولانا سید ابوالحسن کو بطور حوالہ پیش کرتے ہوئے مولائی شیدائی لکھتے ہیں:

“اسلامی تاریخ میں موجود ہے کہ ہندوسند، حام بن نوح علیہ السلام کے فرزند تھے۔ ان کی اور ان کے اولاد کی اس سرزمین پر طویل عرصہ حکومت قائم تھی اس لیے ان کی وجہ سے اس ملک کا نام سند(سندھ) ہوا۔”

ایبٹ ۔جے لکھتے ہیں کہ:

“ٹاڈ کے خیال کے مطابق سندھو تاتاری یا ستھین زبان کا لفظ ہے۔ سندھ لفظ سیدھ سے نکلا، جس کا مطب ہے تقسیم، سندھ یعنی حد دکھانے والا یا دور کرنے والا۔ Oriental Geographers سندھو کے نام سے ناواقف تھے، یورپ کے ماہرین نے اس نام کو مشہور کیا اور اس کی واقفیت کروائی، یونانیوں نے اسے Indus یا Indos کہا۔ ایرانیوں نے اس دریا کو ہندو کہا کیونکہ ایرانی ’’س‘‘ کی آواز کو’’ہ ‘‘میں تبدیل کرکے تلفظ ادا کرتے ہیں۔‘‘

مولائی شیدائی، جنت السندھ میں لکھتے ہیں: “رگ وید میں سندھ کا نام سپت۔ سندھ یعنی سات دریاؤں والا ملک تحریر شدہ ہے۔”

ڈاکٹر دانی
ڈاکٹر دانی

ڈاکٹر دانی لکھتے ہیں:  

“سندھ لفظ رگ عید کے کئی سلوک میں آیا ہے، یہ لفظ ایک ندی کے اسم خاص کی معنی میں اورندی کے اسم عام کے طو رپر استعمال میں آیا ہے۔۔۔۔ اس کورگ ویدوالوں کی اصطلاح میں سپت سندھ واہ یعنی اعلیٰ شان دیس کہا گیا ہے۔‘‘

رگ وید میں سندھو کے متعلق ایک رشی کہتا ہے: ترجمہ۔

اے سندھو

جب تو میدانوں سے گزرتی ہے

تب اپنے ساتھ بے حساب کھانا لے آتی ہے

تیرا پانی اعلیٰ شان ہے

اے سندھو!

اگر تیری خوبصورتی کو تشبیہ کے ذریعے واضح کیا جائے تو

تو نئی نویلی دلہن کی طرح ہے

تو ہمیشہ جوان او رسدا خوبصورت ہے

سندھو کی گرج دھرتی سے اٹھتی ہے

اور وہ آسمان بھردیتی ہے

سندھو نہایت زور سے بہتی ہے اور اس کا چہرا پر نور ہے

اس کے پانی کی آواز سے ایسا محسوس ہوتا ہے

کہ بارش گرج چمک کے ساتھ برس رہی ہے

یہ دیکھو سندھ بیل کی طرح آوازیں نکالتی آرہی ہے

اے سندھو

جس طرح دودھ سے بھری گائیں

اپنے بچوں کی طرف سے دوڑتی ہیں

اس طرح دوسری ندیاں علیحدہ علیحدہ مقامات سے

پانی لے کرآواز نکالتی ہوئی تمہاری طرف آ تی ہیں۔

١٣۹۹ء میں اس سرزمیں کا دورہ کرنے والے چینی سیاح فاھیان کے سفرنامے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں بیک وقت سندھ ملک و دریا کا نام ’’سندھو‘‘ تھا۔ دنیا میں دستیاب گواہیوں کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ اس علاقے کو شروع سے اسی نام کے ساتھ پکارا جاتا رہا ہے۔ نام کے بعد زبان کے متعلق محققین کی چند آرا پیش کی جاتی ہیں۔

ڈاکٹر ارنسٹ ٹرمپ
ڈاکٹر ارنسٹ ٹرمپ 

جرمن محقق ڈاکٹر ارنسٹ ٹرمپ "دی گرامر آف سندھی لینگویج 1872" میں لکھتے ہیں:

“سندھی زبان نے اپنے اصلی بنیاد سے علیحدہ ہونے کے باوجود، قدیم پراکرت جیسی تمام خصوصیات اپنے پاس سنبھال کر رکھی ہیں، پراکرت کے گرامر اور اپبھرنش میں سے مثالیں دے کر جو گرامر کے قاعدے قانون بتائے گئے ہیں، وہ ابھی تک سندھی میں ملتے ہیں۔ یہ قانون دیگر دیسی زبانوں پر اب لاگو نہیں ہوسکتے۔ سندھی زبان، اسی طرح ایک خود مختیار زبان ہے۔”

موہن جو دڑو، سندھ کا قدیم شہر جو لاڑکانہ سے ٢٥ میل شمال میں اور ڈوکری اسٹیشن سے ۷ میل کے فاصلے پر ، مغربی نارے اور دریائے سندھ کے بیچ ١٢٤۰ ایکٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ جس کی کھدائی کا کام مسٹرآر۔جی بئنر جی نے ١۹٢٢ء میں شروع کیا، اس سے قدیم دنیا کی کافی چیزیں دستیاب ہوئیں۔ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر سر جان مارشل نے دیگر چیزوں کے ساتھ موئن جو دڑو سے ملنےوالی زبان کو اس ارادے سے لندن السٹریٹیڈنیوز میں شائع کیا کہ تصویر نما الفاظ کو پڑھنے میں مدد کی جائے تو دنیا بھر سے ماہرین لسانیات نے اسے اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔

ابتداء میں اس سلسلے میں مختلف آرا آتی رہیں، ان تمام آراء کا موضوع کے ساتھ گہرا تعلق ہے لیکن مضمون کی ضرورت کی مناسبت سے صرف چند پیش خدمت ہیں۔

ڈاکٹر پدیا سندھ اور دراوڑین اسپیکنگ ایریا کے کلچرل اینڈ لنگوسٹک کنکش پر لکھتے ہیں:

“١۹٣۰ء کے زمانے میں فادرھیر اس (Father Heras) اور دیگر ماہرین لسانیات نے دعویٰ کیاتھا کہ سندھی۔ تحریر قدیم دراوڑی (Proto Dravidian) زبانوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ ماضی قریب میں اس قسم کی ر ائے روس، فنلئنڈ، امریکی و دوسری ممالک کے علماء نے بھی پیش کی ہے۔”

سرجان مارشل
سرجان مارشل 

سرجان مارشل خود سندھی زبان اور تہذیب کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’سندھ ماتھر کی تہذیب قبل آریائی (Pro Aryan) تہذیب تھی اور وادی سندھ کی زبان یقیناً قبل آریائی زبان یا زبانیں تھیں۔ ان زبانوں میں سے ایک زبان(اگر وہاں ایک سے زیادہ زبانیں رائج تھیں) دراوڑی (Dravidic) ہے۔ ‘‘

اسی سلسلے میں سرجان مارشل اپنی کتاب (Excavations at Mohn Jo Daro) میں لکھتے ہیں:

’’وادی سندھ (سندھوندی والی) کی تہذیب قدیم دراوڑی تہذیب ہے، جو میسو پوٹیمیا اور مصر کی تہذیب سے ملتے جلتی ہے، بلکہ کچھ باتوں میں ان تہذیبوں سے بھی بہتر دکھائی دیتی ہے۔‘‘

اس سلسلے میں ڈاکٹر گریرسن لنگوسٹک سروے آف انڈیا، والیوم ایک ، ١۹٢۷ء کے صفحہ ١٣۰ پر لکھتے ہیں:

’’علم اللسنان اور آثار قدیمہ کے زیادہ تر تمام ماہرین اس رائے پر متفق ہیں کہ سندھ میں آریاؤں کی آمد سے پہلے دراوڑ اقوام آباد تھیں۔‘‘

یہاں کے قدیم لوگوں درویڈین کے متعلق تھرسٹن لکھتے ہیں:

’’قدیم ڈرویڈین او ربعد کے ڈرویڈین میں اتنا فرق ہے کہ قدیم ڈرویڈین کے ناک چوڑے نہیں تھے اورنہ ہی ان کا قد چھوٹا تھا۔ وہ سیلان کے ویداس (Veddas) سلپس کے تولاز (Tolaz) سوماترا کے باتین (Batin) اور آسٹریلین سے مشابہت رکھتے تھے۔‘‘

موہن جو دڑو کی کھدائی کے بعد قدیم مصری تہذیب اور موہن جو دڑو کی تہذیب میں لاشوں کے دفنانے، ان کے ساتھ مختلف چیزیں دفنانے اورکسی حد تک اس کے پس منظر میں موجود عقیدہ میں بھی مماثلت ملتی ہے۔

 
پروفیسر سنیتی کمار چیٹرجی
پروفیسر سنیتی کمار چیٹرجی

پروفیسر سنیتی کمار چیٹرجی رقم طراز ہیں:

’’وادی سندھ کے قدیم رہواسی آفریکی (Negrito) قبائل تھے۔ اس کے بعد آسٹرک قبائل (Austric tribes) انڈوچائنا سے آئے۔‘‘

ڈاکٹر کرشناراؤ
ڈاکٹر کرشناراؤ

ڈاکٹر کرشناراؤ:

’’وادی سندھ کی تحریر پڑھنے سے معلوم ہوا کہ وادی سندھ میں رہنے والی اصلی قوم آریا، و اُشورایک مشترکہ نسل والی وہ قوم تھی جن کی اصل نسل اور تہذیب و تمدن ایک بنیاد والی تھی۔ یہ وادی سندھ کے باہر سے آنی والی کوئی نئی قوم نہیں تھی۔ یہ لوگ اُشورو آریا، تب تک اس وادی میں رہتے تھے جب تک سندھو۔ تہذیب قائم تھی ، یعنی جب تک اس کا خاتمہ نہ ہوا۔‘‘

مزید لکھتے ہیں:

یہ مشترکہ نسل والی قوم انسان ذات کی چاربڑی اور طاقتوار اقوام میں شمار ہوتی تھیں ان میں سے ایک قوم وادی سندھ والی قوم تھی اور باقی تین اقوام تھیں، سامی، ہامی و تورانی۔‘‘

اسی طرح وسکانسن یونیورسٹی میں شعبہ اینتھر پولوجی کے پروفیسر ڈاکٹر مارک کنائر لکھتے ہیں: “ یہ سمجھنا غلط ہے کہ سندھ کی تہذیب اور ان کے شہروں کو کسی باہر کی قوم نے آکر آباد کیا۔”

ڈاکٹر ایس- آرراؤ (Dawn and Devolution of Indus Civilization) میں لکھتے ہیں: ’’سندھی زبان میں (One Syylable) الفاظ کی کثرت ہے اور اس (One Syllable) والے ناموں کی کثرت سے ہمیں معلوم ہوتا ہے یہ زبان ویدوں سے بھی زیادہ پرانی ہے۔‘‘

اسی کتاب کے صفحے ۶۸ پر لکھتے ہیں:

’’سندھی زبان کے کافی الفاظ رگ وید میں ملتے ہیں جن کے لئے فقط اتنا کہا جاسکتا ہے کہ یہ ہند ۔ یورپی زبان میں مستقل طور استعمال ہوتے ہیں۔ سندھی زبان کا قدیم ایرانی سے بھی تعلق ہے لیکن لغوی اور معنوی نقطہ نظر سے ، سندھی زبان کا قدیم رشتہ ہند آریائی زبان سے نظر آتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر کولن ماسیکا (Colin Masica) لکھتے ہیں:

’’زمانہ قدیم میں وادی سندھ میں سے جپسی قبائل کی ہجرت، شروع میں قریب مشرقی ممالک اور بعد میں وہاں سے یہ قبائل یورپ کی طرف ہجرت کرگئے۔ اتنا عرصہ گذرنے کے باوجود جپسیوں نے صدیوں تک اپنی زبان کو محفوظ رکھا ہے۔‘‘

ارنیسٹ مئکی اپنی کتاب (Indus Civilization) میں سمیری اور سندھی تہذیب کا تقابل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’بے شک ان دونوں اقوام کے بزرگ ایک ہی خاندان میں سے تھے۔ سندھ کے رہواسی خشکی اور پانی کے راستے دیگر ممالک سے تجارت کرتے تھے، عمارات میں پکی اینٹیں استعمال کرتے تھے اورکپڑا بنانے کے فن میں بڑی ترقی کی تھی۔ اتنی زیادہ کہ حضرت عیسیٰ سے تین ہزار سال قبل سندھ کا سوتھی کپڑا مغربی ایشیا اور مصر بھیجا جاتا تھا۔ بعد میں جب ان ممالک کے ہنر میں ترقی ہوئی، تب سندھی کپاس ان ممالک کو بھیجی گئی۔ بابل سے ملنے والی تختیوں پر اسی کپاس کا نام سندھو یا سندھین لکھا ہے۔‘‘

انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا والیوم ۷ ص ٥۹ کے مطابق :

’’ایران ہخامنشی، خاندان کے بانی، بادشاہ خسرواول، (٥۸۸۔ ق م سے ٥٣۰ ق م تک) نے اس ملک کی طرف رخ کیا اور پورے ملک پر قابض ہوگئے‘‘ یونانیوں کی تاریخ سے معلو ہوتا ہے ٣٢۶ ق م سکندر اعظم اس ملک پر آئے۔ اس کے بعد مختلف اقوام و گھرانوں مثلاً موریا (بدھ مت سے وابستہ تھے)؛ بختر (ان کے حاکم یونانی تھے)، یارتھین، رائے وغیرہ شامل ہیں۔

 
ڈاکٹر غلام علی الانہ
ڈاکٹر غلام علی الانہ 

ڈاکٹر غلام علی الانہ لکھتے ہیں:

’’رائے گھرانے کی حکومت سے پہلے اور ان کے زمانے میں چین، جاپان اور کوریا تک بدھ مذہب کے پھیلنے کی وجہ سے گندھارا اور وادی سندھ میں بہت چینی سیاح و علماآئے۔‘‘

چچ برہمن کی حکومت کے بعد ۷١٢ء میں مسلمان آئے جس کے بعد انگریز اور اب مسلمانوں کی حکومت ہے۔ موئن جو دڑو سے ملنے والی زبان کے الفاظ کو جب سامی تہذیب کے الفاظ سے ملاکر دیکھا گیا جو عیسوی سن سے قدیم ہیں ان میں مشابہت نظر آئی۔ اور موئن جو دڑو سے پہلے صرف ٣ سو ق م کی تاریخ معلوم ہوسکی تھی جسے موئن جو دڑو نے فوراً ٣ ہزار ق م تک پہنچادیا۔

لیکن جدید تحقیقی نتائج کی روشنی میں ڈاکٹر مہر عبدالحق لکھتے ہیں:

’’یہ رائے کہ وادی سندھ، کی تہذیب و تمدن کہیں باہر سے آئے ہیں۔ یایہ تہذیب دیگر اقوام سے ادھارلی ہوئی تہذیب ہے، یہ سوچ ایک پرانی سوچ یا ایک پرانہ نظریہ ہے۔ نئی تحقیق نے نئی سوچ و نظریوں کو جنم دیا ہے جس کے مطابق قریباً ۷۰۰۰ ق م میں وادی سندھ کی مقامی تہذیب و تمدن کی نشو و نما ہوئی اور کئنالوں کے ذریعے زرعی آبادی والے طریقے کی ابتداء ہوئی۔‘‘

مختلف اوقات میں کبھی مماثلت ، کبھی مشابہت کبھی صرف و نحوی ترتیب میں کچھ یکسانیت یا نسبت، اور دوسری زبان کے الفاظ کا وافر مقدار ملنے کی بنیاد پر، اسے مختلف زبانوں کی شاخ بتایا جاتا رہا ہے۔ لیکن جدید تحقیق سے یہ ماہرین لسانیات نے یہ ثابت کیا ہے کہ “یہ زبان کہیں باہر سے نہیں آئی بلکہ دیسی اور مقامی زبان ہے۔ یہ زبان آریاؤں کی آمد سے پہلے زندگی کے ہر میدان میں ترقی یافتہ لوگوں کی مکمل زبان تھی۔ جدید سندھی قدیم سندھی کاتسلسل ہے، اس کی جڑیں اسی سرزمین سے وابستہ ہیں۔ ہزار ہا برس گذرنے اور مختلف فاتح اقوام کی زبانوں مثلاً سنسکرت، پالی، فارسی، یونانی، عربی، انگریزی کے اثرات کے باوجود ، سندھی زبان کی صوتیات، صرف ونحوزیادہ تر ایک جیسا ہی رہا ہے۔

حاصل مقصد یہ ہے کہ سندھی زبان دنیا کی قدیم ترین بولی اور لکھی جانے والی مکمل ٹیکنالوجیز میں سے ایک ہے، اور یہی وجہ ہے کہ آج سامی، ہامی، ستھین، جپسی، تورانی، ایرانی، تاتاری، یونانی، عرب، روسی، فن لینڈین، برطانوی، جرمن امریکن، جاپانی، آسٹریلین، مصری، چینی، کورین وغیرہ وغیرہ کسی نہ کسی تعلق کی بنا پر اس خطے سے اپنائیت رکھتے ہیں، لہٰذا یہ سندھی زبان و تہذیب ہی کارنامہ ہے (کہ اس کی بنیاد پر پاکستانی قوم جس سے چاہے اس ملک یا قوم سے اپنی رشتے داری ظاہر کرسکتی ہے) جس نے ساری دنیا کو پاکستان کا رشتہ دار بنادیا ہے۔ 

وطن عزیز کی عمر صرف 74 سال ہے لیکن سندھ کی عمر ہزارہا برس ہے اور سندھ پاکستان کا ایک صوبہ ہے۔ لہٰذا وہ اقوام جن کی عمریں کئی برسوں پر مشتمل ہیں اور آج ترقی یافتہ اقوام کی حیثیت رکھتی ہیں ان کے درمیان سندھی زبان کے اس ورثہ کی بنا پر ہمارے وطن کو اعلیٰ مرتبہ حاصل ہوتا ہے۔