اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنوں کو ہراساں کرنے سے روک دیا، عدالت نے آئی جی اسلام آباد، چیف کمشنر اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو نوٹس جاری کردیئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے پی ٹی آئی کی گرفتاریوں کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیے کہ یہ عدالت محض خدشے کے پیش نظر حکم جاری نہیں کرسکتی، بلینکٹ آرڈر نہیں دے سکتے کیونکہ اسلام آباد میں حساس عمارتیں ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ دھرنا کیس میں سپریم کورٹ طے کر چکی ہے اس پر عمل ہونا چاہیے، سپریم کورٹ کے وضع کردہ اصولوں کے مطابق احتجاج آئینی حق ہے، جس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے طے شدہ اصولوں و ضوابط پر عمل نہیں ہو رہا، جتنی رکاوٹیں ہیں، ان کو ہٹانے کا حکم دیا جائے۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ لا اینڈ آرڈر کی صورتحال میں بھی سپریم کورٹ کے طے کردہ ضوابط کے مطابق چلنا ہے، بلینکٹ آرڈر تو یہ عدالت نہیں دے سکتی کیونکہ یہاں پر حساس عمارتیں اور ایمبیسیز ہیں۔
دوران سماعت بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہم چاہتے ہیں لانگ مارچ سے متعلق اس کورٹ کے دائرہ کار سے گرفتاریاں روکی جائیں۔
جس پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ نے ضلعی انتظامیہ کو درخواست دے دی ہے؟ جس کا جواب دیتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم نے 25 مئی کو ریلی کیلئے ضلعی مجسٹریٹ کو درخواست دے دی ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ یقینی بنائیں کہ غیرضروری طور پر کسی کو ہراساں نہ کیا جائے، اس عدالت نے 2014 میں حکم دیا تھا جس کے بعد پی ٹی وی اور پارلیمنٹ پر حملہ ہوا، جس میں ایس ایس پی پر تشدد کیا گیا، یہ نہیں کہہ رہے کہ آپ کی پارٹی نے ایسا کیا، مگر کیا اس سے انکار کیا جاسکتا ہے؟۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب کورٹ ایک آرڈر پاس کرے اور اس کے بعد ایسا ہوجائے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ ایس ایس پی رینک کے سینئر افسر کیساتھ جو ہوا اس میں ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا گیا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 2019 کے دھرنے والے کیس کا متعلقہ پورشن آپ پڑھ لیں، 2014 میں گرفتاریوں سے روکا تھا، اس کے بعد جو کچھ ہوا، یہ عدالت بہت محتاط ہے۔