• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روزنامہ جنگ کے صفحہ ادارت پر حسن مجتبیٰ کا مضمون ’’ہم قیدی تخت کے‘‘ شائع ہوا۔ اس مضمون میں انہوں نے ملک کی عمومی صورتحال، گمشدہ افراد، انٹیلی جنس اداروں کے کردار ، پنجاب سے تواتر کے ساتھ آنے والی جنسی تشدد کی خبروں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ذکر تفصیل کے ساتھ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کراچی کی صورتحال پر بھی مخصوص زاویئے سے نظر ڈالتے ہوئے سابق رکن صوبائی اسمبلی ندیم ہاشمی کی گرفتاری اور رہائی کو بھی موضوع بحث بنایا، اس کے علاوہ کراچی میں قتل کئے جانے والے 200کے قریب پولیس افسران جو مبینہ طور پر ماضی میں ہونے والے پولیس اور فوجی آپریشن میں متحرک تھے، ان کے قتل پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ سب سے پہلے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ جن پولیس افسران کا ذکر انہوں نے کیا ہے، ان کے قتل کے اسباب اور محرکات کو وہ واضح بھی کرتے ہیں اور واضح نہیں بھی کرنا چاہتے۔ ان پولیس افسران کو قتل ہوئے کافی عرصہ گزر چکا ہے۔ ان کے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ فورانزک اور موقع کے شواہد بھی دستیاب ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ گواہان بھی موجود ہوں لیکن اس کے باوجود پولیس ان کے قاتلوں کو گرفتار کرنے سے قاصر ہے۔ مگر ندیم ہاشمی کو ایک ایسے قتل کے جرم میں شک کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا جسے رونما ہوئے ابھی دو گھنٹے ہی گزرے تھے۔ نہ تو مقتولین کا پوسٹ مارٹم ہوا، نہ وقوعے سے شواہد جمع کئے گئے اور نہ ہی کوئی شہادت پولیس کے پاس دستیاب تھی لیکن پولیس نے پھر بھی انتہائی سرعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں گرفتار کرلیا۔ ان کی گرفتاری سے اختلاف نہیں کیاجاسکتا لیکن وہ نہ صرف سابق رکن صوبائی اسمبلی تھے بلکہ یونین کونسل کے ناظم رہے اور ایک متحرک سیاسی جماعت کے منتخب علاقائی عہدیدار بھی تھے۔
انہیں اتنی عجلت میں کیوں گرفتار کیا گیا؟ انہیں ابتدائی طور پر تفتیش کے لئے بلایا جاسکتا تھا اور انہیں شہر نہ چھوڑنے کی ہدایت بھی کی جاسکتی تھی کیونکہ ان کی سیاسی و سماجی حیثیت اس امر کی متقاضی تھی۔ رہی بات خون آشام ہڑتال کی تو بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس دن جلائو گھیرائو کے چند واقعات کے سوا کوئی قتل کا واقعہ رونما نہیں ہوا اور کالم نگار اسے خون آشام ہڑتال گردانتے ہوئے اس کا سہرا ایم کیو ایم کے سر باندھنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے کسی بھی قسم کی ہڑتال کا اعلان نہیں کیا گیا تھا کیونکہ ندیم ہاشمی سیاسی و سماجی شخصیت تھے،اسے عوام کا ازخود ردِعمل کہاجاسکتا ہے۔ مذکورہ آرٹیکل میں حسن مجتبیٰ نے تخت لاہور کی بالا دستی، کراچی کو مبینہ طور پر وفاق کے زیر انتظام رکھنے کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ اگر ان کی بات کو درست مان لیا جائے تو انہوں نے اس کے اسباب کا تعین کیوں نہ کیا۔ وہ سندھ میں موجود سیاسی، لسانی اور نسلی تفریق پر اپنے قلم کی روشنائی کیوں نہ بکھیر سکے کیونکہ سندھ اس تفریق کی وجہ سے داخلی طور پر کمزور ہے، وفاق اور دوسرے صوبوں کو مداخلت کا موقع ملتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں اس امر پر بھی توجہ دینی چاہئے تھی کہ وہ کراچی آپریشن کو متنازع قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ اس بات کی نشاندہی کرنے سے قاصر رہے کہ جن افسران کو سردست تعینات کیا گیا ہے، بالخصوص AIGکراچی، وہ اس عہدے کیلئے اپنے گریڈ کے اعتبار سے اہل نہ تھے لیکن اس کے باوجود انہیں اس منصب پر فائز کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ سندھ ریونیو بورڈ میں ایک برطرف پولیس افسر کا بھی تقرر ہوا جو بالواسطہ طور پر کراچی آپریشن کو مانیٹر کر رہے ہیں۔ یہاں یہ امر بھی قارئین کی نذر کرنا چاہوں گا کہ یہ افسران وہی ہیں جو 20ستمبر1996ء کے اس پولیس مقابلے میں ملوث تھے جس میں میر مرتضیٰ بھٹو کو قتل کیا گیا تھا اور بعد ازاں اس قتل کے اہم گواہ حق نواز سیال کو بھی ٹھکانے لگایا گیا۔ پولیس اور قانون نافذ کرنےوالے ادارے، 200پولیس افسران جو مبینہ طور پر دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہوئے اور حق نواز سیال کے قتل کا سراغ نہ لگا سکے لیکن انہوں نے کراچی آپریشن کا بیڑا اٹھایا ہے۔ آج کے دور میں ہمیں اس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ ہم پتھروں کے زمانے میں جانا چاہتے ہیں یا ترقی یافتہ اقوام کی صف میں کھڑے ہونا چاہتے ہیں۔ یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم سندھی، پنجابی، بلوچی، پٹھان، مہاجر، سرائیکی سوچ سے باہر نہیں نکلیں گے، اس کےساتھ ساتھ ہم فرقہ وارانہ نفرتوں کی دیواروں کو گرائیں گے، تب جا کر ہم قائداعظم کی اس تقریر کا عکس بن سکیں گے جو 11اگست1947ء کو کی گئی تھی جس میں تمام اقلیتوں کو پاکستانی قرار دیتے ہوئے انہیں برابری کا حق دیا گیا تھا۔ اسلام بھی ہمیں اسی رواداری کا درس دیتا ہے۔ تحمل اور برداشت ہی ہمیں ایک مستحکم معاشرے کی جانب لے جاسکتی ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنی تحریروں میں پاکستانیت کو زیر بحث لائیں۔
تازہ ترین