پاکستان میں سفرنامہ نگاری کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے پہلا دور 1947ء تا 1987ء تک کا کہلاتا ہے۔ اس دور کو پاکستان میں سفرنامہ نگاری کا نقطہ ٔ آغاز سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں جو نام جدید سفر نامہ نگاری کے آغاز کے طور پر لئے جاتے ہیں ان میں محمود نظامی، بیگم اختر ریاض الدین، سید احتشام حسین، محمد اظہر الدین صدیقی، ممتاز احمد خان، سعید اختر، مولانا عبدالماجد دریا آبادی، ڈاکٹر محمد باقر، قیوم نظر، ریحانہ اسلم، ابنِ انشاء، بیگم تاج یاسین علی، پطرس بخاری، رازق الخیر، ڈاکٹر ثریا حسین، ابراہیم جلیس، نسرین بانو، اکرام، ڈاکٹر منظور ممتاز، ڈاکٹر وحید قریشی، شاہ محمد عزیز، احسان بی اے ، سید ابوالحسن علی ندوی، رفت القدیر، ڈاکٹر مختارالدین وغیرہ شامل ہیں۔
دوسرا دور 1988ء تا 2000 تک کہلاتا ہے۔ اس دور میں سفرنامے نے غیر معمولی ترقی کی منازل طے کیں ۔تیسرا دور 2001ء تا 2020ء تک کہلاتا ہے۔ اس دور کو ہم اکیسویں صدی کی پہلی اور دوسری دہائیوں کا دور بھی کہہ سکتے ہیں۔ سفرناموں میں جدت دیکھنے کو ملتی ہے۔ لکھنے والوں کے اسلوب، زبان وبیان، دوطرفہ علمی روایت اور سفرنامہ نگاری کے فروغ میں پیش رفت ہوئی ۔ اردو سفرنامہ نگاری نے ایک نیار خ اختیار کیا یعنی جدید سائنس اور ٹیکنالوجی، کمپیوٹر کی ترقی اور سوشل میڈیا کے سفرنامہ نگاروں کے لئے ایک نیاراستہ ہموار ہوا ایک نئی جہت ملی ہے۔
ڈاکٹر تحسین فراقی نے اپنے مضمون ’’جدید اُردو سفرنامہ نگاری‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’جہاں تک جدید اُردو سفرنامے کا تعلق ہے تو میرے خیال میں اس کا آغاز محمود نظامی کے سفرنامہ ’’نظرنامہ‘‘ سے ہوتا ہے۔
ڈاکٹر انور سدید نے محمود نظامی کے سفرنامے کی تعریف اس طرح کی ہے۔ انہوں نے مناظر سفرکو سفر کے بعد اپنے داخل کی تیسری آنکھ سے بازیافت کیا اور حیرت کو دل نشین انداز میں کروٹ دے دی۔
محمود نظامی نے اپنے سفر ناموں میں قدیم اور جدیدکے درمیان ایک واضح حد فاصل اور جغرافیے کی حدود سے نکال کر تاریخ کی علمداری قائم کی وہ خود ایک جگہ لکھتے ہیں ’’سیاحت میرا مستقل مشغلہ ہے نہ سفر نامے لکھنا مقصدِ حیات‘‘
قیام پاکستان کے بعد اُردو سفرنامہ کو اپنی توجہ کا مرکز بنانے والوں میں محمود نظامی اور بیگم اختر ریاض الدین کو اولیت حاصل ہے بیگم اختر ریا ض الدین کو پہلی پاکستانی سفر نامہ نگار خاتون ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ جب انہوں نے اپنا سفرنامہ ’’سات سمندر پار‘‘ اور ’’دھنک پر قدم‘‘ لکھے۔ ان سفر ناموں میں شگفتگی اور طراقت بے تکلفی و بے ساختگی نمایاں نظرآتی ہے۔ ان کے سفرنامے سیاسی، سماجی اور تہذیبی رد عمل کا اظہار ہیں انہوں نے دنیا کو بازیچۂ اطفال سمجھ کر دیکھا۔ وہ منظر کے حسن میں کھوکر قاری کو حیران کر دیتی ہیں۔ پاکستان میں سفرنامہ نگاری میں اہم حصہ ادیبوں اور شاعروں کا رہا ہے ۔ان میں شفیق الرحمان، ابن انشاء، محمد خالد اختر،کرنل محمد خان، عطا الحق قاسمی، محمد اختر ممونکا، جاوید اقبال نمایاں ہیں۔
مزاحیہ سفرنامہ نگاری میں خالصتاً مزاح نگاروں نے بھی اس صنف کو اظہارو ابلاغ کا ذریعہ بناکر اس کی مقبولیت میں اضافہ کیا۔ اکثر سفرنامے کارٹون سے مزّین ہوتے ہیں اب خاکوں اور سفر ناموں کی اکثر و بیشتر کتابیں کارٹونوں سے مزّین ہوتی ہیں جن سفرنامہ نگاروں نے کارٹونوں کا استعمال کیا ان میں ابنِ انشاء، ِجاوید اقبال اورعطاء الحق قاسمی نمایاں نظرآتے ہیں۔
سفرنامہ نگاروں میں ایک بڑا نام شفیق الرحمن کا ہے ان کا مشہور سفرنامہ ’’دجلہ ہے انہوں نے اپنے سفرنامہ میں مزاحیہ کرداروں کی مدد سے شگفتگی کی فضاء پیدا کی ہے اور اپنے اسلوب سے تحریر کی خوبصورتی ان کی انفرادیت کی دلیل ہے۔ شفیق الرحمن کی مجلس آرائی ان کے سفرناموں کا ایک اہم عنصر ہے ان کی پرلطف اور پر مزاح باتیں بھی اسی مجلس زندگی کا حصہ ہیں۔ ان کے سفرناموں میں سبک اور لطیف طنز بھی شامل ہے۔
انہوں نے مشاہدے کو مزاحیہ زاویئے سے ایک جملے میں سمیٹنے کی کوشش کی جیسے۔ ’’منگنی میں یہی خرابی ہے کہ اس طرح فریقین کو سوچنے کا موقع مل جاتا ہے‘‘ ، ’’عورتیں جب غمگین ہوتی ہیں تو خوب مٹھائیاں اورکیک کھاتی ہیں۔‘‘
’’شادی میں سب سے بڑی مصیبت یہ ہوتی ہے کہ آئے دن ایسے مرد ملتے ہیں جو اپنے خاوند سے کہیں بہتر ہوتے ہیں‘‘
ان کے یہاں زندگی کا دامن خوش طبعی سے پکڑنے کا انداز نمایاں ہے۔ شفیق الرحمن نے اردو سفرنامے کو حقیقت سے تخیل کی طر ف تیزی سے پیش قدمی کرنے میں مدد دی ہے
سفرنامہ نگاری میں ایک بڑا نام ابن ِ انشاء کا ہے۔ ان کا پہلا سفرنامہ ’’چلتے ہو تو چین کو چلئے‘‘ 1967ء میں کتابی شکل میں شائع ھوا تو پتہ چلا کہ پاکستان میں مزاحیہ سفرنامہ لکھنے والوں کی کمی نہیں۔ ’’چلتے ہو تو چین کو چلئے‘‘میں ابنِ انشاء نے چین کی تہذیب و ثقافت رسم و رواج کو نہایت شگفتہ لہجہ میں اپنے اسلوب کا حصہ بنایا ہے۔ چین کی سماجی اقدار کا ذکرکرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں۔ ’’بھلا روئے زمین پرکوئی ایسا ملک بھی ہو سکتا ہے جس میں جرائم نہ ہوں، جنسی امراض ناپید ہوں ،گندی بستیاں اورجھگیاں نہ ہوں، فضا اور پانی مسموم نہ ہو، عادی شراب خور اور نشے باز نہ ہوں، حتیٰ کہ چھوٹے بڑے افسر اور ماتحت کا امتیاز نہ ہو۔‘‘
ان کا دوسر’’ا سفر نامہ ‘‘ ،’’آوارہ گردکی ڈائری‘ پیرس، لندن، جرمنی، ہالینڈ ، سوئٹزر لینڈ ، قاہرہ، لبنان اور شام کے سفروں پر محیط ہے۔ ابنِ ا نشاء خود اس سفر نامے کے متعلق لکھتے ہیں۔
’’اگرکسی نے اس سفرنامے سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو یہ اچھا نہ ہوگا اور اگر کوئی شخص اس سفرنامے کو گائیڈ بناکر اس کی مدد سے سفر کرنے کی کوشش کرے گا۔ نتائج کا خود ذمہ دار ہوگا۔ اصل میں یہ اس قسم کا سفرنامہ نہیں جو سفر کے اختتام پر لکھا جاتا ہے یہ تو ایک آوارہ گرد کی آوارہ ڈائری کے منتشر اوراق ہیں۔‘
پاکستان کے صفِ اوّل کے مزاحیہ سفرنامہ، نامہ نگاروں میں ایک بڑا نام کرنل محمد خان کا بھی ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کو سفرناموں کے ساتھ چمٹایا ہواہےان کے سفرناموں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے زندگی کی طرف خوش رنجتی سے پیش قدمی کرنے کے رجحان کو اپنایا ہے وہ معاشرتی حقیقت کی صورت بگاڑے بغیر اس طرح پیش کرتے ہیں کہ حقیقت ماحول کی موجودیت میں مسکرانے لگتی ہے ان کے مزاح میں جو بذلہ سنجی ہے اس نے ان کے کردار اور ماحول دونوں کو ان کے مجلسی مزاح میں شامل کردیا ہے۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔
ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہے آپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی