تو اے کہ محوِ سخن گسترانِ پیشینی
مباش منکرِ غالب کہ در زمانۂ تست
اگرچہ مرزا غالب نے اس شعر میں کہا تھا کہ :
’ اے تو ، کہ پرانے شاعروں میں کھویا ہوا ہے ، غالب کا انکار مت کر کہ جو تیرے اپنے زمانے میں ہے ۔‘ لیکن ’’ مباش منکرِ غالب‘‘ کا پیغام غالب نے نہ جانے کس لمحے میں دیا تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے کئی زمانے غالب کے زمانے ہو گئے اور انیس ویں کے بعد بیس ویں بلکہ اکیس ویں صدی تک بھی غالب کی یہ بات ایک ناقابلِ تردید سچائی کی صورت میں پھیلتی ہی چلی جاتی ہے۔
کراچی کے ایک بہت اچھے شاعر اور نقد نگار سلمان صدیقی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ’’ غالب کا کلام جس صدی میں بھی پہنچ رہا ہے ، اس صدی کا قاری، غالب کے سوالات میں اپنے ذہن و دل میں اٹھنے والے سوالات کی بازگشت محسوس کرتا ہے۔ جوابات مبہم رہتے ہیں ، صدی آگے بڑھ جاتی ہے اور غالب کا کلام حتمی جوابات کی تلاش میں اگلی صدی کا رخ کر لیتا ہے ۔‘‘جس سچائی کامیں نے اوپر ذکر کیا ہے ،ہوسکتا ہے کہ اس سے آگاہی غالب کو علمِ نجوم سے واقفیت کی بنا پر ہوئی ہو ،جو بھی ہو وہ تسلسل سے اس بات کو دہراتے رہے اور انھوں نے یہ بھی کہا:
ہوں گرمیِ نشاطِ تصور سے نغمہ سنج
میں عندلیبِ گلشنِ نا آفریدہ ہوں
مجھے نہ جانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ غالب کے حوالے سے کوئی بھی کام ہو یا غالب پر بات ہورہی ہو تو غالب ضرور نشاطِ تصور سے نغمہ سنج ہوتے ہیں ، عالمِ بالا سے جھانکتے ہیں اور یہ کہتے ہیں ’’ دیکھا میں نے کہا تھا نا کہ ’’ مباش منکرِ غالب‘‘ ورنہ بازی ہی پلٹ دوں گا ۔بازی پر خیال آیا کہ رفیع الدین راز نے اپنی اس کتاب کا نام ہی ’’ بر بساطِ غالب‘‘ رکھا ہے ۔یہ نام بھی غالب کو ایک زبردست خراجِ تحسین ہے یعنی غالب اردو غزل کے روایتی دائرے کو توڑ کر اس میں داخل ہوئے ، اسی دائرے میں رہتے ہوئے ایک نیا دائرہ تخلیق کیا اور خدا، انسان اور کائنات کی تثلیث کو فکر کی ایک بلند سطح سے دیکھتے ہوئے فن کے ایک نئے پیمانے میں پیش کیا۔
اس کا بھرپور ادراک رفیع الدین راز کو ہے اور وہ جانتے ہیں کہ اردو غزل اپنے سفر میں جہاں جہاں فکر و فلسفے کے مضامین سے ہم کنار ہوئی ، وہاں وہاں دراصل شعرا نے غالب کی بچھائی ہوئی بساط پر ہی اپنا رنگ جمانے کی کوشش کی ہے اور ظاہر ہے کہ اس کی محض کوشش ہی کی جاسکتی ہے تاہم رفیع الدین راز نے اپنا ایک الگ فکری اسلوب تشکیل دے کر اور اپنے عہد کی سچائی کو ورطۂ اظہار میں لا کر دشتِ امکاں کے سفر میں غالب کے نقوشِ پا سے رہ نمائی حاصل کرنے کی بہت عمدہ کوشش کی ہے۔
رفیع الدین راز کا پہلا شعری مجموعہ ’’ دید ۂ خوش خواب‘‘ ۱۹۸۸ء اور ’’ بینائی‘‘ ۱۹۹۷ء میں شائع ہوا۔ یہ دونوں ہی مجموعے اسلوب کی تازہ کاری اور اثر انگیزی کے سبب بہت مقبول ہوئے اور ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، انجم اعظمی، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر مشفق خواجہ ، ڈاکٹر شان الحق حقی اور محشر بدایونی جیسی نابغہ شخصیات نے ان پر تبصرہ کرتے ہوئے ان مجموعوں میں موجود شاعری کو سراہا۔
اس کے بعد رفیع الدین راز غزلوں، نظموں، نعت، منقبت، قصائد، دوہے، قطعات ، رباعیات اور دیگر اصنافِ سخن میں مسلسل طبع آزمائی کرتے رہے ۔پُر گو شاعر ہونے کی وجہ سے ان کے بہت سارے مجموعے آئے ،لیکن ابتدا سے لے کر اب تک آپ ان کے سارے مجموعے پڑھ ڈالیے ، فکر، اسلوب، لہجہ، استعاراتی نظام سب ایک لڑی میں پروئے ہوئے نظر آئیں گے مثلاً ’’ بینائی‘‘ ۱۹۹۷ء میں شائع ہوئی ، ’’درِ آئینہ‘‘ ۲۰۱۶ء میں اور ’’ سخن دانِ راز‘‘ ۲۰۲۰ء میں ، آپ ان تینوں سے اشعار سماعت کیجیے ۔
کسی سے پوچھتے کیا ہو ،جبینوں پر نظر ڈالو
لکیریں خود کہیں گی کس نے کتنی خاک چھانی ہے
(بینائی)
اک شکستہ خواب دیرینہ صحیفے کی طرح
مدتوں سے آنکھ کے گلدان میں موجود ہے
( درِ آئینہ)
کیا خبر تھی عہدِ حاضر یہ بھی دن دکھلائے گا
سانپ کو شیشے پہ چلنے کا ہنر آجائے گا
( سخن دانِ راز)
غالب کی زمینوں پر بے شمار شعرا نے بڑی کامیابی کے ساتھ طبع آزمائی کی ہے۔ رفیع الدین راز نے بھی غالب کی بچھائی ہوئی بساط پر اپنے جوہر دکھائے ہیں ۔’’ بر بساط غالب‘‘میں غالب کے مصرعوں پرردیف وار ترتیب دی ہوئی بڑی خوب صورت غزلیں شامل ہیں۔ ان میں سے کئی غزلیں دوسرے مجموعوں میں بھی موجود ہیں ۔رفیع الدین راز نے خود کہا ہے کہ سو ڈیڑھ سو غزلیں ہوگئیں تو خیال آیا کہ اس سلسلے کو مزید بڑھایا جائے۔
گویا مکمل طور پر تو نہیں ،مگر کسی حد تک شعوری کوشش بھی اس کتاب میں نظر آتی ہے ۔ہم جانتے ہیں کہ شعر کہنے کی شعوری کوشش میں شاعری تو کہیں دور رہ جاتی ہے مگر برسوں پہلے ڈاکٹر ابوالخیر کشفی نے جو رائے دی تھی کہ ’’رفیع الدین راز تفکر کو تغزل میں ڈھالنا جانتے ہیں ‘‘ تو وہ رائے ’’ بر بساطِ غالب‘‘ پر بھی صادق آتی ہے ور نہ اس کتاب میں ایسے اشعار موجود نہ ہوتے ۔
آسماں والوں نے رکھا مجھ سے پیہم رابطہ
گنبدِ بے در میں بھی شاید کوئی دروازہ تھا
اس نے کھولی ہی نہیں زنجیر میرے پائوں کی
غالباً میری بغاوت کا اسے اندازہ تھا
صحرا تو سمٹ کر ہوا ذرّہ مرے آگے
اب وسعتِ افلاک کو لے آمرے آگے
سرگوشیاں کرتی ہوئی دنیا مرے پیچھے
آئینہ دکھاتا ہوا لمحہ مرے آگے
رفیع الدین راز جس طرح مسلسل غزل کی تہذیبی روایت کی پاس داری اور کشتِ غزل کی آب یاری کرتے رہے ہیں ،اسی ریاضت کا ثمر ہے کہ ان کی غزلوں میں ان کا اپنا لہجہ بھی بول رہا ہے اور اپنا عہد بھی۔ اپنے عہد ، اپنے سماج اور اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی زندگی پر ہر اچھا شاعر تنقیدی نگاہ ڈالتا ہے کیوں کہ شاعر اگر عصری حسیت سے جڑا ہوا نہ ہو تو اس کا سرمایۂ سخن ذات کے دائرے میں محدود ہو کر رہ جاتا ہے اور رفیع الدین راز اچھے ہی نہیں بہت اچھے شاعر ہیں اس لیے وہ بھی اس نکتے کو سمجھتے ہیں۔
انھوں نے غزل کے لسانی پیرائے میں رہتے ہوئے دھیمے لہجے میں ہلکے سے طنز مگر دکھ بھرے احساس کے ساتھ اپنے عہد کا جو چہرہ ہمیں دکھایا ہے اس میں کئی چہرے چھپے ہوئے ہیں مثلاً ایک چہرہ ہمارے ادبی سماج کا ہے۔ موجودہ ادبی سماج میں حرف و صوت کی حرمت ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے ۔دوسروں کے شانوں پر چڑھ کر اپنی قامت کے غرور میں مبتلا ہونے والوں کی کمی نہیں ۔ہر شاعر شاعرِ اعظم ہے اور خود ستائی اور خوش گمانی کے حصار میں قید ہے۔
شعری و ادبی محافل کی تہذیبی روایات دم توڑ رہی ہیں۔ سائبان صفت لوگوں اور بلند قامت تخلیق کاروں کو فنا کی آندھی اڑا لے گئی ہے۔تنقید کے منصب کو فراموش کرنے والوں کی بھی کمی نہیں اور ہمارے عہد کے تخلیق کار کو اچھا ناقد بھی مشکل ہی سے میسر آتا ہے۔ ادبی سماج کے اس منظر نامے کو رفیع الدین راز نے کس کس طرح اپنے شعروں میں تصویر کیا ہے اس کے لیے یہ چند مثالیں ہی کافی ہیں۔
نئی تہذیب کی زد میں ہے حرف و صوت کی حرمت
سخن کی بزم میں اب فکر و فن کی آزمائش ہے
تسلسل سے بدلتا جارہا ہے رنگ محفل کا
سخن سے آشنا اہلِ سخن کی آزمائش ہے
اب مرے شہر میں سقراط سے کم کوئی نہیں
کس قدر عام کمالِ سخن آرائی ہے
ہمارے عہد کی تصویر کا ایک رخ ایسا بھی ہے جس پر بے حسی کی گرد جم چکی ہے ۔یہ بے حسی عمومی طور پر ہمارے اخلاقی اور سماجی رویّوں میں نظر آتی ہے ، ہماری قومی اور عالمی سیاست کی دہلیز پر تو برسوں سے بے حسی کے پہرے ہیں۔ قومی اور ملی سطح پر بھی اصلاحِ احوال کی خوئی صورت نظر نہیں آتی اور مجموعی طور پر ہمارا سفر ترقیِ معکوس کی طرف ہے ۔’’ بر بساطِ غالب ‘‘ میں بے حسی کی یہ صورت ِ حال بھی موضوع بنی ہے مثلاً
عہدِ حاضر نے کتابِ زندگی پڑھتے ہوئے
غور سے اس کو پڑھا جو بے حسی کا باب تھا
آدمیت کھو رہی ہے اپنے پیکر کا جمال
ڈھول پیٹا جارہا ہے عہد کی توقیر کا
یاں تو پس منظر میں بھی ہر آئینے پر دھند ہے
تم تو کہتے تھے کہ اک رخ اور ہے تصویر کا
خارجی صورت حال کی آئینہ داری کے باوجود رفیع الدین راز کے ہاں مشاہدۂ باطن کی کیفیات زیادہ نمایاں ہیں۔ دیارِ ذات سے گزرتے ہوئے وہ جہانِ کُن کے بکھرے ہوئے شیرازے کا منظر بھی دیکھتے ہیں اور چشمِ بینا کی لا حاصلی کی بنا پر انھیں یہ منظرِ عالم دھند میں ڈوبا ہوا بھی نظر آتا ہے ۔ کبھی انھیں اپنے آپ سے پرخاش محسوس ہوتی ہے اور کبھی وہ آئینے کو بیزار دیکھ کر خود سے بھی بیزار نظر آتے ہیں۔
انھیں اپنے ذوقِ تماشا کے بے بال و پر ہونے کی فکر بھی ہے اور دل کی دنیا اور کائنات میں ایک ربطِ باہمی کا احساس بھی۔ ان کے خیال میں دشتِ تمنا کا جمال آبلوں کی لَو سے اور غم خانے کی روشنی گوہرِ حسرت سے ہے۔ان کی شاعری پر یہ رنگ ابتدا سے ہی اس قدر غالب ہے کہ ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی نے بھی یہ خیال ظاہر کیا کہ رفیع الدین راز کا لہجہ ظاہر سامانی کا نہیں بلکہ دروں بینی کا ہے ۔ دروں بینی کی کیفیات کے مظہر چند اشعار :
کچھ نہ کچھ مجھے بھی ہے اپنے آپ سے پرخاش
گاہے گاہے خود کو بھی میں نے بے وفا پایا
جس میں رکھی تھیں تمنائیں کھلونوں کی طرح
آج وہ شو کیس ہی سارے کا سارا جل گیا
جز فریبِ خوش گمانی اور کیا محفوظ ہے
کھل گئی مٹھی تو وہ بھی رائیگاں ہو جائے گا
ہر ایک منظرِ عالم ہنوز دھند میں ہے
مآل دیکھ لیا ہم نے چشمِ بینا کا
رفیع الدین راز کے ہاں غالب کی طرح مسائل تصوف تو نہیں ہیں اور نہ خود کو ولی سمجھنے اور اپنے بادہ خوار ہونے کا کوئی احساس ہے مگر درونِ ذات سفر کرتے ہوئے وہ خدا سے مکالمہ بھی کرتے ہیں، اسے اپنے ہونے کا احساس بھی دلاتے ہیں اور اپنی ذات میں اس کی ذات کو منکشف بھی دیکھتے ہیں ۔عظمتِ بشر کا تصور میر، غالب، اقبال ، جوش اور دیگر شعرا سے ہوتا ہوا رفیع الدین راز تک بھی پہنچا ہے اس لیے ان کے ہاں ایسے اشعار بھی موجود ہیں۔
بے دخل کردیا تھا جنت سے اُس نے لیکن
میں پہلی بار خود کو اپنا سا لگ رہا تھا
نہ ہوتی گر مری تصویر تیری چشمِ خواہش میں
تو کیا تجھ سے جہانِ کُن کا یہ خاکہ بنا ہوتا
اس کتاب میں علامتیں اور استعارے روایتی بھی ہیں اور جدید بھی ۔ بہت سی فارسی تراکیب نئی محسوس ہوتی ہیں اور ان میں سے بیش تر سہ لفظی ہیں مثلاً حریفِ گردشِ گرداب، دیدۂ خوش خواب، فریبِ خوش گمانی، جامہ ہائے خود پرستی، نیزہ بہ کف زمیں ، نکہتِ گفتارِ دوست، حلقۂ پرکارِ دوست، قصۂ جبر و قیود ، حلقۂ حسن و شہود ۔ زعمِ عقل و دانائی، زندگی افروز وحشت، بیعتِ مہر و محبت ، دیدۂ تاریخِ عہدِ نو، قربتِ ایوان و قصر، عروسِ عہدِ نو، نشۂ شعر و سخن وغیرہ ۔دشوار بحروں اور مشکل زمینوں میں بھی طبع آزمائی کی گئی ہے۔
خوب صورت علامتوں اور استعاروں سے مزیّن اور دلکش تراکیب و تلمیحات سے آراستہ یہ شاعری تہذیبِ غم اور معرفتِ ذات کے حوالے سے قاری کی تربیت کرتی ہے۔ اپنے عہد، زندگی، خدا، انسان اور کائنات کو پورے شعورِ گمرہی اور کربِ آگہی کے ساتھ دیکھتی ہے اور انسان کے اجتماعی وجود کی آواز بن جاتی ہے ۔یہ آواز غالب کے نقوشِ پا کے تعاقب میں اپنے فکری و فنی سرمائے کے ساتھ ہمیشہ سفر میں رہی ہے اور اس کے ساتھ یہ اعتراف بھی کرتی رہی ہے کہ :
میرا اگر ہے ذکر تو غالب پہ بھی ہو بات
قطرے کا ذکر اور سمندر کہے بغیر
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔
ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہے آپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی