رواں ماہ کے ابتدائی ایّام سے ماحولیات کےضمن میں ملک کےمختلف مقامات سے بُری خبریں آنا شروع ہوگئی تھیں۔ پہلے پہل سات مئی کو ایبٹ آباد میں ٹک ٹاک وڈیو بنانے کے لیے جنگل کو آگ لگائے جانے اور پھر اس کے ذمے دار نوجوان کی گرفتاری کی خبر آئی۔ مذکورہ وڈیو جب منظر عام پر آئی تو محکمہ جنگلات اور وائلڈ لائف حرکت میں آیا اور کئی گھنٹوں کی محنت کے بعد انتظامیہ نے نوجوان کو گرفتار کر لیا۔
نوجوان قیمتی درخت کو آگ لگا کر وڈیو بنارہا تھا۔ پھر اسلام آباد میں واقع مارگلہ ہلز پر دو نوجوانوں کی اسی طرح کی وڈیو منظر عام پر آئی۔اس کے بعد ایک اور وڈیو منظر عام پر آئی جس میں ایک مشہور ٹک ٹاکر خاتون کو مارگلہ کی پہاڑیوں پر آگ کے ساتھ ٹک ٹاک وڈیو بناتے ہوئےدیکھا گیا تھا۔ پھر کارروائی کا غوغا ہوا اور پھر سب کچھ پہلے جیسا ہوگیا۔
اس کے بعد بڑی اور مزیدبُری خبر بلوچستان سے آئی۔ وہاں ایک قدیم جنگل میں آگ لگ گئی تھی۔ کنزرویٹر محکمہ جنگلات امین مینگل کا کہنا تھاکہ بلوچستان کے علاقے شیرانی کے قدیم جنگلات میں لگی آگ سے آبادی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کوئٹہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امین مینگل نے تیئس مئی کو کہا تھا کہ آگ سے ممکنہ طور پر متاثر ہونے والے سات خاندانوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا جارہا ہے۔ محکمہ جنگلات کے کنزرویٹر کا کہنا تھا کہ شیرانی کے جنگلات میں آگ پر قابو پانے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں، آگ 10ہزار 700 ایکٹر رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ کوہِ سلیمان رینج میں زرغون زور کے مقام پر آگ کو بڑھنے سے روک دیا گیا ہے۔
آگ پر قابو پانے کے لیے زرغون زور تک 9 کلومیٹر کی فائرلائن بنادی ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آگ سے تورغر، چمازئی، شرغلئی اور زرغون زور میں جنگلات کو کافی نقصان پہنچا، جس سے چلغوزے اور زیتون کے جنگلات، مارخور اور پرندوں سمیت جنگلی حیات متاثر ہوئی ہے۔ امین مینگل کے مطابق آگ بجھانے کے آپریشن میں پی ڈی ایم اے اور این ڈی ایم اے کی ٹیم بھی حصہ لے رہی ہے۔خیال رہے کہ نو مئی کو مغل کوٹ کے جنگلات سے شروع ہونے والی آگ شیرانی کے جنگلات تک پھیل چکی ہے۔
شیرانی کے جنگل میں آگ لگنے کی خبر ذرایع ابلاع تک صحیح انداز میں دیر سے پہنچی۔ یہ آگ تا دمِ تحریر بہت خطرناک صورت اختیار کرچکی ہے۔ اطلاعات کے مطابق آگ نے تقریباچالیس کلومیٹر رقبے پر موجود جنگل کو راکھ میں بدل دیا ہے، تین افراد آگ کے شعلوں میں جھلس کر جاں بہ حق اور متعدد زخمی ہوچکے ہیں۔ مقامی حلقے سوال کررہے ہیں کہ تیرہ روز تک ریاست، صوبائی اور وفاقی حکومتیں خاموش کیوں رہیں؟
آگ پر قابو پانے کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیوں نہیں اٹھائے گئے؟ تیرہ ،روز گزر نے کے بعد کہا گیا کہ ایران سے جہاز منگوایا ہے، افسوس کہ ایک جوہری ریاست کے پاس آگ بجھانے کے وسائل بھی نہیں۔ شیرانی کے قدیم قیمتی جنگل کی آگ کو بارہ روز تک کہیں بھی زیرِ بحث نہیں لایا گیا۔ کیا ضلع شیرانی کے جنگل اور اسلام آباد کی مارگلہ ہلز کے جنگل میں فرق ہے؟
منگل چوبیس مئی کواس آگ کولگے سترہ یوم ہوچکے ہیں۔ اس پرقابو پانے کے لیے سیکڑوں مقامی نوجوان فائر لائنز کھینچنے میں مصروف ہیں۔ آگ کا پھیلاو روکنے میں مبینہ غفلت کے نتیجے میں نہ صرف 26 ہزار ایکڑ پر محیط قیمتی جنگل تباہی کے قریب پہنچ گیا ہے بلکہ وفاقی وصوبائی محکمےسترہ روز گزرنے کے باوجود حقائق اور وجوہات جاننے سے قاصر ہیں۔ تاہم جوش اور جذبے سے سرشار مقامی قبائلی عوام ، لیویز فورس ، محکمہ جنگلات کے اہل کاراور سیکڑوں سماجی وسیاسی کارکنان پر مشتمل پیدل رضاکار دس سے گیارہ ہزارفیٹ بلند تخت سلیمان کے جنگلات میں لگی آگ کو روایتی طریقوں سے بجھانے اور پھیلاو روکنے میں ہر اول دستے کا کردار ادا کررہے ہیں۔
ریسکیو آپریشن کی نگرانی کے لیے متاثرہ علاقے میں موجود کمشنر ژوب ڈویژن، بشیرخان بازئی کے مطابق آگ پر قابو پا نے کےلیے آرمی ایوی ایشن کا فضائی آپریشن زیادہ موثر ثابت نہیں ہورہا۔ دو ہیلی کاپٹرز سو سے ڈیڑھ سو کلو میٹر دور سبکزئی ڈیم سے پانی بھرنے کے لیے جاتے اور واپس آتے ہیں، مگر گیارہ ہزارفیٹ بلند پہاڑوں پر خراب موسم ہیلی کاپٹرزکے نیچے جاکر ٹارگٹڈ کارروائی کرنےمیں رکاوٹ ہے جس کی وجہ سےاکثر پانی پھینکنے کے دوران متاثرہ علاقہ ٹارگٹ نہیں ہوپاتا ۔
ان حالات میں یہ خبر آئی ہے کہ وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمن ورلڈ اکنامک فورم 2022 میں شرکت کے لیے سوئٹزرلینڈ روانہ ہوگئی ہیں۔ وہ وہاں فورم میں پاکستان کو درپیش ماحولیاتی چیلنجز کے مسائل کو اٹھائیں گی۔ فورم میں سیاست، کاروبار، سول سوسائٹی اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے تقریباً 2500 رہنما شرکت کریں گے۔ فورم میں دنیا کو درپیش چیلنجزبہ شمول ماحولیاتی تبدیلی اور دیگر موضوعات پر بات چیت ہوگی۔ اس سال موسمیاتی تبدیل ورلڈ اکنامک فورم کا ایک اہم ایجنڈا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیاں سرحدوں سے بالاتر
ہمیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ موسمیاتی تبدیلیاں سرحدوں سے بالاتر ایک بہت بڑا چیلنج ہیں اور ان تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی خشک سالی نے فوڈ سکیورٹی یا خوراک کے تحفظ کی بابت خدشات اوربحران کو جنم دیا ہے۔ دوسری جانب جنوبی ایشیا میں پانی کی کمی کا مسئلہ بھی امن اور سلامتی کے لیے خطرہ اور ملکوں کے درمیان تنازعات کا سبب بن رہا ہے۔بڑے پیمانے پر ہجرت بھی انہی تنازعات سے جنم لیتی ہے۔ ہم ایک مشترک دنیا میں رہ رہے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں نے پوری دنیا کو عدم تحفظ سے دو چار کردیا ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ماحولیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پاکستان میں ایسی موسمیاتی تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں، جن میں گرم موسم مزید شدت اختیار کررہے ہیں اور سرد موسم میں سردی میں بہت اضافہ ہو رہا ہے، جس سے پانی کی قلت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اور حالیہ عالمی پروجیکشن میں ورلڈ رسک انڈیکس میں پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیل سے شدیدطور پر متاثر ہیں ۔ پاکستان اس فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے۔
ماہرین کے مطابق اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر روایتی عدم تحفظ کے شکار علاقوں میں سرمایہ کاری کی جائے خاص طور پرٹڈی دل جیسے مسائل پر کہ یہ خوراک کے تحفظ کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں جو کسی بھی وقت حملہ آور ہوسکتے ہیں۔
پاکستان اور جنوبی ایشیا میں پانی کا بحران بہت شدت ااختیار کرگیا ہے اور پاکستان پانی کی قلت کا شکار ہے۔ ہمیں اس سلسلے میں ریسرچ کے لیے فنڈز درکا ہیں۔ ہماری آبادی کے بڑھنے کی رفتار بہت تیزہے اور پانی کے استعمال میں بے پناہ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پی سی آر ڈبلیو آرطویل عرصے یہ کہتا رہا ہے کہ پانی کا مسئلہ حل کرنے کی ضرورت ہے اور اس کا حل علاقائی طور پر ہی نکلے گا۔
ماہرین کے مطابق جنگلات کی اندھا دھند کٹائی اور لکڑی اورکوئلے کے بہ طور ایندھن استعمال سے دنیا کے درجۂ حرارت میں بہ تدریج اضافہ ہواہے۔ مگر تیل اور قدرتی گیس کے استعمال سے یہ درجۂ حرارت انتہائی تیزی سے بڑھا ہے۔ ان فوسل فیولز کو جلانے سے گرین ہاؤس گیسوں جیسے میتھین، کاربن ڈائی آکسائیڈ وغیرہ کا اخراج ہوتا ہے، جو سورج کی شعاؤں کو جذب اور ٹریپ کر کے ماحول کے درجۂ حرارت کو بڑھاتی ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں تقریبا 12 فیصد اضافہ ہوا۔
دنیا بھر میں گرین ہاؤس گیسوں کا سب سے زیادہ اخراج امریکا، یورپی یونین، چین اور روس کر رہے ہیں ،پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر اور غریب ممالک کا اس میں حصہ بہت کم ہے،مگر متاثر تو سب ہی ہو رہے ہیں۔ کرۂ ارض کو درپیش خطرات سب کے مشترک مسائل ہیں تو سب ہی کو ایک دوسرے کی مدد کر کے اپنی پھیلائی ہوئی آلودگی کو صاف کرنا ہو گا۔
ماحولیاتی تبدیلیوں میں پاکستان کا حصہ بہت کم ہے۔ عالمی سطح پر خارج ہونے والی سبز مکانی گیسوں کی کل مقدار میں پاکستان کا حصہ صرف 0.72 فیصد بنتا ہے، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہو رہا ہے۔حال ہی میں پاکستان کے کئی شہر دنیا کے گرم ترین شہروں کی فہرست میں صفِ اول پرآچکے ہیں۔ بارشوں کے پیٹرن تبدیل ہونے سے سندھ اور بلوچستان شدید خشک سالی کی لپیٹ میں ہیں اور درجۂ حرارت بڑھنے سے ہمالیہ کے گلیشیئرز پہلے کی نسبت بہت تیزی سے پگھلنے لگے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی پاکستان کو توانائی کے بحران کا بھی سامنا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں سے انسانی زندگی پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں عام افراد اس حوالے سے زیادہ شعور نہیں رکھتے کہ وہ از خود ان مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں،جیسا کہ افریقا، بنگلادیش، چین اور بھارت وغیرہ میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ عام افراد کی کوشش اور چھوٹے پراجیکٹس کے مثبت اثرات سامنے آرہے ہیں۔
ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ جب جنگلات کو کاٹا یا جلایا جاتا ہے تو اس سے کاربن کا ذخیرہ ضایع ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا سمیت کئی یورپی ممالک توانائی کے متبادل ذرایع میں ونڈ اور سولر انرجی کے بجائے بایو انرجی یا بایو ماس کو ترجیح دے رہے ہیں، جس سے نہ صرف ہم اپنے کھوئے ہوئے جنگلات کو بحال کر سکتے ہیں بلکہ بایو ماس کے استعمال سے گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بھی تیزی سے کم ہوتا ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ نوجوان نسل متحرک ہو اور قومی سطح پر مکمل منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے ساتھ درخت اگاؤ مہمات شروع کی جائیں۔
2021 میں آئی پی سی سی کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کی وجہ سے شدید گرمی کی لہریں، طوفان، تباہ کن بارشیں اور سیلاب اب معمول بن چکے ہیں۔ اگر آئندہ برسوں میں عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کو ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود نہیں کیا گیا تو مستقبل میں مزید ہول ناک قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
2015 کے پیرس معاہدے میں یہ طے کیا گیا تھا کہ جو ممالک سبز مکانی گیسوں کے زیادہ اخراج کا سبب بن رہے ہیں وہ تعاون کے ذریعے عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کو 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم رکھیں گے۔ مگر ممالک کے اپنے اپنے مفادات اور عدم تعاون کے باعث یہ اب تک ممکن نہیں ہو سکا۔
کراچی میں بڑے پیمانے پر درختوں کا قتلِ عام
ایسی بُری صورت حال میں کراچی والوں کو یہ بُری خبر سننے کو ملی ہے کہ ہیٹ ویوو کے مارے اس شہر میں بی آر ٹی ریڈلائن منصوبے کی راہ میں آنے والے درختوں کی کٹائی کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ شجرکاری موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف موثر ڈھال تصور کی جاتی ہے، مگر کراچی میں صورت حال یہ ہے کہ بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) ریڈلائن بس منصوبے کی راہ میں آنے والے ہرے بھرے درخت بے دریغ کاٹے جارہے ہیں۔ سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) کی ماحولیاتی رپورٹ کے مطابق ریڈ لائن منصوبے کی زد میں 23 ہزار 700 درخت آئیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کراچی جو پہلے ہی شدید گرمی اور ہیٹ ویو کی لپیٹ میں ہے، اگر یہاں اتنی بڑی تعداد میں درخت کاٹے گئے تو ماحولیات پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
کراچی میں بس ریپڈ ٹرانسپورٹ ، ریڈ لائن کے منصوبہ پر کام تیزی سے جاری ہے۔ 23 کلومیٹر طویل یہ ٹریک شاہراہ فیصل، ملیر ہالٹ سے شروع ہو کر ماڈل کالونی، صفورا چورنگی، یونیورسٹی روڈ سے ہوتا ہوا مزار قائد کے قریب نمائش چورنگی ایم اے جناح روڈ تک جائے گا۔
اس معاملے کا سب سے تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ ریڈ لائن کے راستے میں آنے والے سیکڑوں تناور درخت بڑی بےدردی سے کاٹے جارہے ہیں، ان میں انتہائی ماحول دوست نیم کے درخت بھی شامل ہیں۔ سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کی انوائرنمنٹل امپیکٹ اسیسمنٹ رپورٹ کے مطابق ریڈلائن منصوبہ کی زد میں 23 ہزار 700 درخت آرہے ہیں۔ کراچی جیسے درختوں سے محروم شہر میں کٹنے والے درختوں کی یہ تعداد کم نہیں ہے۔
ملیر ہالٹ سے سپر ہائی وے تک کئی کلو میٹر طویل یہ شاہراہ کراچی کی ان چند سڑکوں میں سے ایک ہے جس پر اچھی شجرکاری کی گئی، گھنے درختوں نے پوری شاہراہ پر چھتری سی تان رکھی ہے۔ چلچلاتی دھوپ میں بھی اس سڑک پر درجہ حرات کم رہتا ہے اور موٹر سائیکل سواروں کے لیے سفر خوش گوار رہتاہے،لیکن یہی درخت اب بڑی بے دردی سے کاٹے جارہے ہیں۔
سیپا کے زرایع کے مطابق کسی پروجیکٹ کی زد میں آنے والے درختوں کو یاتو نکال کر کہیں اور منتقل کیا جاتا ہے یا پھر کٹنے والے ہر درخت کی جگہ پانچ درخت لگائے جاتے ہیں، لیکن ایسی کوئی سرگرمی یہاں نظر نہیں آرہی۔
سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے ذرایع کے مطابق ریڈلائن منصوبے کی ماحولیاتی رپورٹ کی منظوری 2020 میں دی گئی تھی۔ اس منصوبے پرسندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل نعیم مغل کا موقف سامنے نہیں آیا ہےکہ سیپا اس بارے میں کیوں خاموش ہے؟دوسری جانب ہزاروں درختوں کی کٹائی جاری ہے اور ٹھیکے دار ان کٹے ہوئےدرختوں کی قیمتی لکڑی ٹرکوں میں بھر کر لے جارہے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ منصوبہ پر کام کرنے والے ٹھیکے دار قیمتی لکڑی کے لیے مقررہ تعداد سے کہیں زیادہ درخت کاٹ دیتے ہیں۔ سائٹ پرای پی اے، سندھ سمیت کوئی سرکاری اہل کار نظر نہیں آتا جو اس بات کو یقینی بنائے کہ مقررہ تعداد سے زیادہ درخت نہ کاٹے جائیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس طرح کے منصوبوں پر کام کرنے والے ٹھیکے دار قیمتی لکڑی کے لیے مقررہ تعداد سے کہیں زیادہ درخت کاٹ دیتے ہیں۔
ہم یہ سب کچھ ایسے حالات میں کررہے ہیں جب پاکستان کا شمار جنوبی ایشیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جو ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد پر ہیں۔ ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیاء میں تقریبا 80کروڑ افراد ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ دیہی علاقوں میں زیادہ تر افراد کا ذریعہ روزگار، زراعت، گلہ بانی، ماہی گیری، یا جنگلات کی کٹائی سے وابستہ ہے۔ یہ تمام پیشے ماحول اور ایکو سسٹم میں بڑی تبدیلیوں کے باعث زبوں حالی کا شکار ہیں۔
بڑے پیمانے پر متاثر ہونے والے علاقوں سے مقامی افراد ہجرت کرنے پر مجبور ہیں اور خدشہ ہے کہ 2050ء تک جنوبی ایشیاء میں ماحولیاتی پناہ گزینوں کی تعداد 4 کروڑ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ جبکہ اس دوران خطے کا سالانہ خسارہ 160 ارب ڈالر تک جا سکتا ہے۔ لیکن ہماری سرگرمیاں ایسی ہیں جیسے ہم یہ اعلان کررہے ہوں کہ ’’ہمیں اس سے کیا غرض ہے‘‘۔