عروج سعد
تاریخی موضوعات پر ناول لکھنا ایک انتہائی محنت طلب اور ذمہ داری کا کام ہے اور اگر ناول تاریخ کےساتھ ساتھ اسلامی نوعیت کا بھی ہو تو مصنف کی دوہری ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس ضمن میں اردو ادب میں نسیم حجازی کا نام سر فہرست ہے، جن کے مشہور ناولوں ،محمد بن قاسم ،آخری چٹان، شاہین ، قیصر و کسریٰ وغیرہ نے قارئین کے دلوں میں خوب جوش وولولہ اور اسلامی حکومتوں کے عروج و زوال کے بارے میں آگہی پیدا کی اور اس روایت کو خوبصورت انداز میں صادق حسین صدیقی سردھنوی نے آگے بڑھایا۔
حضرت خالد بن ولید ؓ نے صادق حسین کے تاریخی ناولوں کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ ناول پہلے صفحے سے لیکر آخری صفحے تک قاری کو اپنے سحر میں جکڑ کر رکھتا ہے۔
ناول کی ابتداء حضرت عامر بن طفیل دوسی ؓ کے قصے سے ہوتی ہے جنہیں حضرت خالد بن ولید ؓ نے خط دے کر حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ کے پاس جو ملک شام میں اسلامی لشکر کے سپہ سالار تھے، بھیجا تھا، دوران سفر حضرت عامر نے ایک عیسائی لڑکی شمعونہ کی مدد کی جسے اپنے قبیلے کی طرف سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا۔
اس نے حضرت عامر ؓ سے درخواست کی کہ وہ اسے بھی اپنے ساتھ ملک شام لے چلیں۔ حضرت عامرؓ نے اسکی درخواست قبول کر لی اور یوں ناول میں حضرت خالد بن ولید ؓ کی مرکزی کہانی کے ساتھ ساتھ شمعونہ کی ثانوی کہانی کو انتہائی مہارت کے ساتھ شامل کر دیا گیا ہے۔ شمعونہ آگے چل کر مسلمان ہو گئی اور حضرت عنجدہؓ کےعقد نکاح میں آئیں۔
حضرت عامرؓ ہی کی زبانی کئی غزوات اور جنگوں کا ولولہ انگیز تذکرہ ملتا ہے۔ جنگ موتہ اور صلح حدیبیہ سے لے کر فتح مکہ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓکے دور خلافت میں سر اٹھانے والے فتنہ ارتداد اور جھوٹے مدعیان نبوت کی سرکوبی تک، تمام واقعات کو نہایت دلچسپ انداز میں پیش کیا گیا۔
قصہ مختصر، جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی ہے، قاری حضرت خالد بن ولید ؓؒکی دلیری کے مظاہروں، لہو کو گرما دینے والے خطبوں اور ناقابل یقین فتوحات کو اپنی روح میں سموتا ہوا آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔
ناول میں جا بجا مسلمان خواتین کی بہادری کے قصے بھی شامل کئے گئے ہیں جو نہ صرف میدان جنگ میں مجاہدین کی ہمت بڑھاتیں بلکہ طبی امداد بھی پہنچاتی تھیں۔ اور تو اور موقع ملنے پر دشمنوں سے مقابلہ کرنے سے بھی نہ کتراتیں۔ جیسے حضرات ام رمانؓ نے جو ماہر تیر انداز تھیں، ایک جنگ میں اپنے شوہر کو شہید کرنے والے دشمن فوجی کی آنکھ میں ایسا تیر مارا کہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔
پھر حضرت خالد بن ولید ؓ کی زوجہ حضرت ام تمیم نے ایک موقع پر تن تنہا میدان جنگ کا رخ کیا تاکہ وہ اپنے شوہر کو وہ ٹوپی پہنا سکیں جس میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک سلے ہوئے تھے، حضرت خالد بن ولید ؓ تک پہنچنے کیلئے انہوں نے اپنے راستے میں آنے والے کئی رومیوں کو واصل جہنم کر دیا۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔
تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی