• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالیہ دنوں میں عدم برداشت کے بڑھتے رجحان خصوصاً مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ رہنمائوں، اُن کے ووٹرز، سپورٹرز اور پیروکاروں کے درمیان باہمی چپقلش اب گھروں اور نجی تعلقات پر بھی اثر انداز ہونے لگی ہے،جس کے نتیجے میں آج کل ہر سو نفرتوں اور سیاسی بیان بازیوں کا ایک طوفان برپا ہے۔ آپس میں لایعنی بحث کے ساتھ ساتھ گفتگو کا معیار اِس قدر گرچکا ہے کہ چھوٹے بڑے کے باہمی ادب و احترام کو بالائے طاق رکھ کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور کم تر ثابت کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ 

نتیجتاً معاشرے میں عدم برداشت اِس حد تک بڑھ چکی ہے کہ بحث مباحثوں میں شائشتگی مفقود ہوگئی ، کوئی مخالف رائے سننے پر تیار ہی نہیں،سیاسی تفریق اب دلوں میں کدورت، باہم رنجشیں اور تفریق لانے لگی ہے، دوستوں میں دوریاں ، گھروں میں جھگڑے اور سیاسی قائدین باہم دست و گریباں نظر آتے ہیں۔ حالاں کہ سیاست کا بنیادی مقصد صرف اقتدار کا حصول ہی نہیں، بلکہ یہ حقوق کے حصول، باہمی اقدار و جمہوری روایات کے پاس و لحاظ اور ایک دوسرے کو قریب لانے کا نام ہے، لیکن افسوس ناک صورتِ حال یہ ہے کہ اس روش کی وجہ سے آپس میں گفتگو کا معیار، ادب و احترام، باہمی عزّت و وقار کا پاس و لحاظ بھی مفقود ہوچکا ہے۔ 

معاشرے میں بڑھتے عدم برداشت کے رجحان اور بے احترامی و بے تکریمی پر مبنی رویّوں کو دیکھ کر دل سے ہوک سی اٹھتی ہے۔اسی تناظر میں ہم نے عدم برداشت کے اسباب اور اس کے تدارک و سدباب پر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ نمائندہ افراد سے گفتگو کی، جس کی تفصیل نذرِ قارئین ہے۔

……٭٭……٭٭……٭٭……

پروفیسر سحر انصاری

(ادیب، شاعر، نقّاد)

’’یہ افسوس ناک پہلو ہے کہ آج زندگی کے ہر شعبے میں عدم برداشت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اگرچہ زندگی میں تحمّل پسندی اور قوتِ برداشت کو ہمیشہ اچھی نظر سے دیکھا گیا ہے اور انسان کے مہذب اور شائستہ ہونے کا ایک معیار یہ بھی ہے کہ اس میں کتنی تحمّل پسندی پائی جاتی ہے، لیکن اب بعض عوامل زندگی میں ایسے آگئے ہیں کہ انسان میں جھنجھلاہٹ، غصّہ اور عدم برداشت کا اظہار زیادہ سے زیادہ ہونے لگا ہے۔ 

اس کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشرے میں سکون اور بھائی چارہ کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا سوشل میڈیا بھی اس سلسلے میں منفی کردار ادا کررہا ہے، دوسری جانب الیکٹرانک میڈیا پر جو پروگرام، گفتگو اور مباحثے دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں، اس میں تحمّل اور شائستگی کی کمی نظر آتی ہے۔ اسی طرح ملکی سیاسی جماعتیں بھی کوئی اچھی مثال قائم نہیں کررہیں۔ 

یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں عدم برداشت کا یہ منظر بھی نظر آتا ہے کہ ایک دوسرے کو گالیاں دے کر باہم دست و گریباں ہوجاتے ہیں۔ معاشرے میں سیاست دان بھی آئیڈیل ہوا کرتے ہیں، لیکن ایسی مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہرگز یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ عام انسان اس روش سے کچھ سیکھ سکتا ہے۔ نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ تحمّل کی کمی کی بنا پر جہاں پہلے گالی دی جاتی تھی، وہاں اب گولی چلادی جاتی ہے۔

امجد اسلام امجد

(ادیب، شاعر، ڈرامانگار)

اس حوالے سے کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں۔ سب سے تکلیف دہ صورت یہی ہوتی ہے کہ اس معاشرے کے لوگ آپس میں مکالمہ کرنا چھوڑدیں اور ایک دوسرے کو تحمّل و برداشت کی وہ اسپیس نہ دیں، جو وہ اپنے لیے مانگتے ہیں۔ میرے خیال میں ہمارے سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ محبت سے زیادہ موثر اور بامعنی زبان اور کوئی نہیں ہوتی اور محبت کا پہلا سبق ہی برداشت ہے۔

شکیل عادل زادہ

(ادیب، صحافی ، دانش وَر)

ہمارے ملک کی بربادیوں کی بنیادی وجوہ دو چیزیں ہیں، ایک تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی دوسری تعلیم کی کمی۔ اگر ہم ان پر قابو پالیں تو ہمارے بہت سے مسائل ازخود حل ہوجائیں گے۔ یہ جو اپنے ملک میں نفسی نفسی، افراتفری، عدم برداشت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے، اس کی بھی دو وجوہ، آبادی کی کثرت اور تعلیم کی کمی ہے۔ 

وسائل سے زیادہ آبادی ملک کی تعمیر و ترقی میں رکاوٹ کا سبب بنتی ہے۔ تعلیم، حِلم، تحمّل ، تدبّر اور برداشت کا درس دیتی اور تلقین کرتی ہے۔ کاش، ہمارے رہ نما یانِ کرام آپس میں لڑنے اور گالم گلوچ کرنے کے بجائے کچھ اس پراگندہ صورت حال پربھی توجّہ دیں، دعائیں ہی کی جاسکتی ہیں۔

ڈاکٹر مونس احمر

(سابق ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز، جامعہ کراچی)

یہ ایک ایسی حقیقت ہے، جس سے انسان نظریں نہیں چرا سکتا۔ ہمارے معاشرے میں خاص طور پر سیاسی جماعتوں میں عدم برداشت کا رویّہ اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ اس کی وجوہ کی بات کی جائے، تو میرے خیال میں اس کا گہرا تعلق ثقافت کے زوال سے ہے۔ 

یعنی کلچر کے زوال پذیر ہونے سے اچھے بُرے اور صحیح و غلط کی تمیز ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ تو جہاں اچھے برے اور صحیح و غلط میں تمیز ختم ہوجائے، اچھی تربیت کا فقدان ہو، تعلیم کے ساتھ گھر اور محلّے کا ماحول خراب ہوجائے اور اس میں گالی گلوچ اور غیرشائستہ زبان استعمال کی جائے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن کے بڑوں نے اُن کی مناسب تربیت نہیں کی۔ 

اسی طرح موجودہ حالات میں یہ کہنا بھی درست ہے کہ سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنمائوں نے بھی اپنے کارکنوں کی درست تربیت نہیں کی۔ اگر اچھی تربیت ہوتی اور انھیں صحیح اور غلط کا احساس، اچھے برے کی تمیز سکھائی جاتی، تو جو چیزیں ہمارے یہاں آج کل جلسے جلوسوں میں نظر آرہی ہیں، وہ اس طرح نہیں ہوتیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی تناظر میں عدم برداشت کا سلسلہ 1971ء کے بعد سے ہوا، جب پاکستان کےدو لخت ہونے کے بعد ہی سے تمیز، لحاظ اور شائستگی کا فقدان ہوتا گیا۔ ہمارے ملک کی آبادی کا پچپن سے ساٹھ فی صد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ 

جس ملک کے نوجوان مایوسی کا شکار ہوں، جنھیں اپنا مستقبل روشن نظر نہ آتا ہو، جنھیں مختلف انتہا پسنداور شدت پسند مذہبی و سیاسی جماعتیں استعمال کریں، تو اس طرح کی صورت حال تو یقینی پیدا ہوگی۔ اس کے علاوہ آج کل کے نوجوانوں میں محنت کا تصور، ایمان داری اور ذہانت کا بھی فقدان ہے۔ ہماری حکومتیں، سول سوسائٹیز اور گھر کی تربیت یا فیملی بیک گرائونڈ نوجوانوں پراثر انداز ہوتے ہیں۔ میرٹ کا کلچر نہیں ہوگا، تو نوجوانوں میں مایوسی پھیلے گی کہ محنت کرنے کی کیا ضرورت ہے، ایمان داری سے کام کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ 

ذہانت کی کیا ضرورت ہے۔ اس لیے اس ملک میں عدم برداشت کے شکار یہاں کے نوجوان نظر آتے ہیں، جو اپنا قیمتی وقت سوشل میڈیا، ٹی وی اور الیکٹرانک میڈیا میں ضائع کررہے ہیں اور اپنا کام چھوڑ کر بلاوجہ کی گفتگو اور فضولیات میں لگے ہوئے ہیں۔ تاہم اس ضمن میں صرف نوجوانوں ہی کو قصور وار ٹھہرانا غلط ہوگا کیوں کہ جن کے پاس اختیارات ہیں، جن کے پاس حکومتیں ہیں، جن کے پاس وسائل ہیں، انہوں نے اس پر کیوں توجہ نہیں دی۔ یہ بات بھی کسی حد تک درست ہے کہ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے معاشرے میں عدم برداشت بڑھ رہا ہے۔ 

ان ذرائع سے ملنے والی زیادہ تر معلومات فیک ہی ہوتی ہیں، جن کا مقصد نوجوانوں کو اکسا کر شدت پسندی کو فروغ دینا ہوتا ہے۔ لہٰذا مذہب کے نام پر روشن خیالی کو پس پشت ڈال کر قدامت پسندی کی سوچ کو فروغ دینے کی وجہ سے معاشرے میں عدم برداشت بڑھ رہا ہے۔ بوتل سے نکلنے والے اس جن کو قابو کرنے کے لیے بہت محنت کی ضرورت ہے۔اس کے لیے گھر کے بڑوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور نوجوانوں کو اچھی تربیت فراہم کرکے قواعد و ضوابط کا پابند بنانا ہوگا۔

تاج حیدر 

 (رکن، کور کمیٹی، پاکستان پیپلز پارٹی)

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم عدم برداشت اور صبر و تحمّل کے فقدان کے باعث تعلیم یافتہ اور مہذب قوم بننے کے بجائے رفتہ رفتہ غیر تعلیم یافتہ اور غیر مہذب قوم بنتے جارہے ہیں۔ یاد رکھیے، تہذیب و شائستگی اور صبر و برداشت ایک مہذّب قوم اور مثالی انسانی معاشرے کی بنیادی شناخت ہے۔ آج دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے جذبات جلد بھڑک جاتے ہیں، اس کا بنیادی سبب تربیت کا نہ ہونا ہے، ہمارے دور میں تربیت، کردار سازی، شائستگی اور متانت کو انسانیت کی بنیاد گردانا جاتا تھا، معاشرے میں صبر و برداشت اور تحمّل کو بنیادی اہمیت حاصل تھی، لیکن موجودہ حالات نے معاشرے کو صبر و برداشت، اخلاقی اقدار سے بڑی حد تک عاری کردیا ہے۔ 

جب تک ہم مثبت سوچ اور تعمیری کردار کے ساتھ نوجوان طبقے کو تحمّل و برداشت کا سبق نہیں دیں گے، معاشرے میں انتہا پسندانہ رویّے اور عدم برداشت ہرسو نظر آئے گی، ہمیں اپنی سوچ اور رویّے پر نظر ثانی کرنا ہوگی، ایسی سوچ اور رویّہ اپنانا ہوگا جس کے باعث معاشرے میں تحّمل و برداشت کی فضا قائم ہو اور عدم برداشت کی حوصلہ شکنی ہو۔ 

یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ مجھے مختلف ٹاک شوز اور سیاسی امور پر مباحثوں میں اس لیے دعوت نہیں دی جاتی کہ میں تہذیب و شائستگی، سیاست میں تحّمل و تدبّر اور برداشت کی بات کرتا ہوں، جب کہ اب ہم ٹاک شوز میں شریک افراد کو بحث و مباحثہ سے آگے بڑھتے ہوئے ایک دوسرے پر شدید تنقید، ایک دوسرے کی حوصلہ شکنی کرنے، ذاتیات پر حملے اور کردار کشی کرتے نظر آتے ہیں۔

سیّد امین الحق 

 (رکن، رابطہ کمیٹی ایم کیو ایم، وفاقی وزیر)

آزادئ اظہار بہت اہمیت کا حامل ہے، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں چار بار مارشل لا کے نفاذ سے اس پر قدغن لگی اور معاشرتی بگاڑ کا آغاز ہوا، سیاسی عمل میں شریک افراد اس لیے زیادہ متاثر ہوئے کہ یہ طبقہ شعوری اور فکری اعتبار سے زیادہ حسّاس ہوتا ہے اور اگر اسے آزاد جمہوری ماحول نہ ملے اور اس کی سیاسی تربیت انتہا پسندانہ رجحانات کے درمیان ہو، تو وہ عدم برداشت کی طرف چلا جاتا ہے۔ 

موجودہ صورتِ حال میں نوجوان طبقے پر اس کے سب سے زیادہ اثرات مرتّب ہورہے ہیں۔ ایک نوجوان، جو طالب علمی کے زمانے سے عملی زندگی میں داخل ہوتا ہے، اس پر انتہا پسندانہ خیالات جلد اثر کر جاتے ہیں، وہ اپنی بات دلیل کے بجائے اپنے مخصوص نظریات کے تحت منوانا چاہتا ہے، جس سے معاشرتی بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ 

الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی سہولت ملنے سے ایسے نوجوان جو پہلے ہی سے انتہا پسندانہ اور عدم برداشت کے کردار کا حامل ہیں، مخصوص نظریات کے پرچار کے لیے ان ٹولز کا استعمال شروع کردیتے ہیں، اس طرح سے اس کے ہم خیال سیاسی گروہ اور سیاسی مخالفین کے درمیان نہ ختم ہونے والی جنگ شروع ہوجاتی ہے۔ لہٰذا عدم اعتدال اور عدم برداشت کے تدارک کے لیے بہت ضروری ہے کہ والدین، اساتذہ، سیاسی قائدین معاشرے سے ان منفی رجحانات کے خاتمے کے لیے اپنا راست کردارادا کریں۔ 

زمانہ ٔ طالب علمی ہی سے بحث و مباحثے کے ماحول کو فروغ دیں، والدین بچّوں تک مثبت معلومات فراہم کرنے کے ذرائع کو ممکن بنائیں، اُن کے سوالات اورذہنی الجھائو دلائل سے حل کریں۔ اسی طرح سیاسی اکابرین بھی فیصلہ سازی کرتے وقت وسیع البنیاد مشاورت کے ساتھ مختلف الخیال لوگوں کو مطمئن کرنے کے بعد ایسے قابلِ عمل فیصلے کریں، جو اعتدال پسندانہ سوچ کی عکّاس ہو۔

نہال ہاشمی 

 (پاکستان مسلم لیگ (نون)

 جب سیاست کا مقصد حصولِ اقتدار ہو، اپنے مخالفین کو نیچا دکھانا ہو، لیڈر کو اپنا آقا سمجھ لیا جائے اور اس کے خلاف کوئی بات سننے کا روادار نہ ہو، دلائل اور منشور سے قائل کرنے کے بجائے گالی گلوچ کی جائے، تو عدم برداشت کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ جب لیڈر کی زبان میں زہر ہو، انتظامیہ کی زبان میں جبر ہو اور منصف کی زبان میں قہر ہو تو معاشرے میں عدم برداشت کاماحول پیدا ہوجانا اچنبھے کی بات نہیں۔ 

بدقسمتی سے آج وہ لوگ سیاست کررہے ہیں، جو ماضی میں کبھی طلبہ یونین، طلبہ سیاست، کسی سماجی یا ٹریڈ یونین میں نہیں رہے، وہ محض اپنے پیسے کے بل بوتے یا خاندانی پس منظر کی وجہ سے سیاست میں مقام حاصل کرتے ہیں اور پھر اپنے خاندانی پس منظر کو بچانے اور بڑھانے کے لیے اپنے سیاسی مخالفین کو برداشت نہیں کرتے، جس کے باعث نفرتیں، قتل وغارت کے سانحات جنم لے رہے ہیں۔ اِس ضمن میں کسی حد تک مین اسٹریم اور سوشل میڈیا بھی ذمے دار ہے، کیوں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے کی کردار کشی اب عام سی بات ہے۔

حافظ نعیم الرحمٰن 

 (امیر جماعتِ اسلامی، کراچی)

سیاست میں عدم برداشت کے بڑھتے رجحان کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہماری سیاست نظریاتی نہیں ہے،کوئی نظریاتی فریم ورک نہیں، اس کی کوئی نظریاتی بنیاد نہیں، بلکہ یہ شخصی، گروہی، خاندانی اور موروثی ہے۔ چناں چہ موجودہ حالات میں سیاست عدم برداشت کی طرف چلی گئی ہے۔ اگر ہماری سیاست نظریاتی ہوتی، تو برداشت کا رجحان اور رویّہ موجود ہوتا اور سیاست ذاتیات کا شکار نہ ہوتی۔ اصل میں ہمارے سیاست دان، جو معاشرے کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں، جب نوجوان انھیں ہی عدم برداشت کا شکار دیکھتے ہیں، تو لامحالہ وہ خود اس روش کا شکار ہوکر اپنی انفرادی زندگی میں شدت پسندی کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ 

چناں چہ اگر نوجوانوں کو اس رجحان اور اس رویے سے بچانا ہے، تو سیاست دانوں کو اس بات کا پابند کرنا پڑے گا کہ وہ ذاتیات کے بجائے اعلیٰ اخلاقی اقدار کی بنیاد پر سیاست کریں۔ ایک زمانہ تھا کہ سیاست مشن تھی، مگر اب کاروبار بن گئی ہے، چناں چہ ہمارے ذرائع ابلاغ بالخصوص الیکٹرانک ذرائع ابلاغ شدّت پسندی کو ایک پروڈکٹ کے طور پر سیل کر رہے ہیں۔ اور وہ اس سے زیادہ سے زیادہ مالی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔اور سوشل میڈیا تو ظاہر ہے اس کا کوئی اصول و ضابطہ ہی نہیں ہے، وہ بھی اس سلسلے میں اپنا منفی کردار ادا کررہا ہے۔ 

چناں چہ علماء، دانش وَر، صحافی اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد کی ذمّے داری ہے کہ وہ شدّت پسندی کی بیخ کنی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ انہیں معاشرے میں رول ماڈل کا کردار ادا کرنے کے لیے بھی خود کو تیار کرنا چاہیے، کیوں کہ اگر معاشرے کے بالائی طبقات ہی اپنے ڈگر سے ہٹ جائیں گے تو پھر معاشرے کی زیریں طبقات کو درست نہیں کیا جاسکتا۔

فاطمہ حسن 

 (شاعرہ)

عدم برداشت کی اس فضا میں ادیب اور شاعر تو اُس وقت کردار ادا کریں گے، جب معاشرہ تعلیم یافتہ ہو اور تعلیم بھی سماجیات و اخلاقیات کو مدنظر رکھ کر تشکیل دیئے گئے نصاب کے مطابق ہو، جو ادبی رجحان پیدا کرسکے۔ آدمی میں ایک جبلّت درندگی کی بھی ہے، جس پر ادب اور آرٹ کے ذریعے قابو پایا جاسکتا ہے اور فنون کے ذریعے ختم کرکے انسان بنایا جاسکتا ہے۔ 

جیسا کہ غالب نے کہا تھا کہ ؎آدمی کو بھی میسّر نہیں انساں ہونا۔ ہر فرد کو یہ بات پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ ایک بچّہ جو بالکل معصوم پیدا ہوتا ہے، ہم اسے انسانیت کی طرف مائل کررہے ہیں یا درندگی کی طرف۔ تعلیمی نصاب میں اخلاقیات کو خصوصی اہمیت دی جانی چاہیے۔ 

ہمارے یہاں کے سیاسی و سماجی رہنما جو بچّوں اور نوجوانوں کے آئیڈیل کا درجہ رکھتے ہیں، انھیں اپنے اطوار و کردار کو اعلیٰ اقدار کے مطابق رکھنا چاہیے۔ اظہار کی شائستگی اور کردار کی بلندی رویوں سے ظاہر ہوتی ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ جن کے رویّے کسی قوم کے لیے مثالی ہونے چاہئیں، وہ انتہائی غیرشائستہ ہوگئے۔

ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی

( اسکالر)

معاشرے میں عدم برداشت کے تدارک و سدّباب کے لیے مادہ پرستی اور دولت کی ہوس کا خاتمہ ضروری ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب بھی کوئی قوم زوال پذیر ہوتی ہے، تو اس میں تہذیب، شائستگی، اخلاق وکردار اور صبر وتحمّل ختم ہوجاتا ہے، ایسے میں تعمیری سوچ کے بجائے تخریبی سرگرمیاں قوموں کا محور بن جاتی ہیں۔ عدم برداشت کا یہ عالم ہے کہ کسی بھی چھوٹی بات پر باہمی احترام، رواداری، صلح جوئی اور امن وآشتی کو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے، اس کے باعث انتہاپسندانہ رویّے اور ایسے سانحات جنم لے رہے ہیں، جس کے باعث معاشرے سے صبر وتحمّل، عفو و درگزر، احترامِ آدمیت، جو دین کی بنیادی اخلاقیات میں شامل ہیں، ہم سے گویا رخصت ہوتے جارہے ہیں۔ 

جب تک ہم قرآن وسنّت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو اجتماعی اور انفرادی طور پر دستور العمل نہیں بنائیں گے، عدم برداشت وانتہا پسندانہ رویّے ہماری زندگیوں کا خاصّہ بنے رہیں گے۔ نوجوان نسل کی تربیت اور کردار سازی میں ہمارے ادارے اور ذرائع انتہا درجے کی کوتاہی کا شکار ہیں، المیہ یہ ہے کہ تربیت کرنے والے اداروں کو خود تربیت کی ضرورت ہے۔ میڈیا کے منفی کردار کی بدولت آج اختلاف رائے کو لڑائی جھگڑے اور مارکٹائی تک پہنچا دیا گیا ہے۔

ہر ایک اپنی رائے اور نظریے کو متشدّدانہ حدتک آخری اور حتمی سمجھتا ہے، دوسرے کی بات نہ سننا اور نہ ہی اپنے رویوں میں اس حوالے سے کسی قسم کی لچک پیدا کرنا، اپنی غلطی ماننے میں عار محسوس کرنا، فروعی معاملات میں الجھے رہنا قوم کا شعار بن گیا ہے۔ 

معاشرے میں جب پیسا کمانے کی دھن ہو، والدین بھی معاشی ضروریات پوری کرنے کے لیے اخلاقی تربیت کو ترجیح نہ دیں اور دولت کا ارتکاز ایک طبقے کی طرف ہو، دوسرے لوگ محرومیوں کا سامنا کر رہے ہوں اور اس کے لیے کسی دوسرے کو دھکا دے کر اپنا ہدف حاصل کر لیا جائے، تو ردعمل میں عدم برداشت کا رویہ فروغ پاتا ہے۔ ایسے میں سیاست دان بد زبانی، بد تہذیبی اور عدم برداشت کا سبق دے کر قوم کو تباہ کن تقسیم کا شکار کر رہے ہیں۔