• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دریائے نیلم بیچ میں خاموشی سے بہہ رہا ہے اسکے ایک طرف کھیر نیلم کی وادی ہے اور دوسری طرف، مقبوضہ کشمیر کی وادی، جہاں سے مغرب کے وقت اذان کی آواز سنائی دیتی اور سامنے براق سفید مسجد بھی نظر آتی تھی۔ دونوں طرف چھپے ہوئے فوجی مراکز تھے، جو ویسے تو پوری نیلم ویلی میں جگہ جگہ قائم تھے۔ گزشتہ چند سال سے بظاہر سیز فائر ہے مگر شاید اپنی بوریت دور کرنے کو گولیاں چلاتے ہیں تو پورے علاقے کی پتھریلی سڑکوں پر گاڑیاں تو کجا، پیدل چلتے بزرگ بھی، کسی پتھر پر بیٹھ جاتے ہیں۔ اب بھی شوپیاں اور چکوٹھی میں،ہلکی پھلکی گولہ باری ہوتی ہی رہتی ہے۔

آپ سوچ رہے ہونگے کہ میں نے یہ سارا منظر دیکھنے کا تردد کیوں اور کس لئے کیا۔ مجھے تو یہ معلوم تھا کہ کئی سال سے سیاحت کے دروازے ،نیلم ویلی پر کھل چکے ہیں۔ گزشتہ چند سال سے ہر روز سینکڑوں نہیںہزاروں لوگ جیپ کرائے پر لیکر رتی گلی کی جھیل دیکھنے ساڑھے تیرہ ہزار فٹ کی بلندی پر جاتے ہوئے گرم کوٹ، جرابیں، اور چھتریاں لیکر جاتے ہیں۔ ساتھ ہی مجھے یاد آیا کہ میں زلزلے کے دنوں میں مظفر آباد گئی تھی تو باغ کے سارے زلزلہ زدہ علاقوں میں عتیق الرحمٰن کی رہنمائی میں این۔ار۔ایس۔پی کے قائم کردہ اداروں کیمپوں کو دیکھا بھی اور لوگوں سے ملاقات بھی کی۔ مقبوضہ کشمیر سے آئے ہوئے مہاجرین سے ملاقات کی ،انکی بپتا بھی سنی۔یہ الگ بات کہ وہ مہاجرین کے کیمپ ابھی تک قائم ہیں۔ معلوم نہیں کیوں وہ موجودہ آبادی کے ساتھ مل کرنہیں رہ رہے ۔

یہ تو تھی انسانی اور سیاسی کہانی، جو کشمیریوں کا مقدر، دونوں ملکوں میں کسی قسم کی لچک نہ ہونے کے باعث، خاص کر مودی کے 8سال تو بے پناہ ظلم، اغوا، قتل اور مسلمانوں کی ہرطرح کی بے عزتی اور ظلم کرنے میں گزرے ہیں۔ مشرف اور واجپائی ملاقات سے کچھ دنوں کیلئے سرحد میںنرمی رہی۔ پھر وہی انسان دشمنی کی داستان نے جلوہ دکھایا کہ نیلم ویلی قطعی طور پر فوجوں کےہاتھ میں ہے، ٹیلی فون، نیلم ویلی کے فوجی نمبر سے منسلک ہے،البتہ رشتے، باتیں ،شادیاں ،پتھریلی سڑکوں کے باوجود اسی شان و شوکت سے قائم ہیں۔ہاں وہاں کے دور دراز دیہات میں ،این۔آر۔ سی۔ پی کے مراکز خاص طور پر خواتین کے لئے قائم ہیں۔ میں ان دیہی مراکز میں کام کرتی عورتوں سے ملنے اور مسائل کا اندازہ کرنے گئی تھی۔ عتیق صاحب نے باجوہ صاحب کے کہنے پر میرا یہ معائنہ وزٹ ممکن بنایا۔

خوشی یہ تھی کہ چاہے کیرین کی خواتین تھیں کہ تائو بٹ کی، کہ کھیل کی،اڑنگ کھیل کی، کتان کی، ان میں سے بیشتر ،کھیتوں اور مویشیوں کی دیکھ بھال خود کرتی ہیں۔ تقریباً آدھے مرد، دبئی اور دیگر ممالک میں مزدوری کرنے گئے ہیں۔ زیادہ تر دیہات میں قرضے لیکر، خواتین نے غسل خانے ،کچن اور کہیں کہیں برآمدے بھی بنائے۔ وہاں لکڑی بہت سستی ہے، لوگ اپنی مرضی سے درخت کاٹ کر فرشوں سے لیکر سارا گھر لکڑی ہی سے بناتے تھے۔ اب کچھ لوگ، لکڑی سے فرنیچر بنانے کا کام بھی کر رہے ہیں۔ غربت اور بارہ بارہ بچے پیدا کرنے کے بعد ،کچھ لوگ تو بڑے شہروں میں آ کر ڈرائیور بن جاتے ہیں۔ کچھ نے قرضے لیکر ،شہروں سے تھوک کا مال لا کر، گھر کے سامان کی دکانیں کھول لی ہیں، نوجوان لڑکیوں نے قرضے سے مشین لیکر سلائی کر کے روزی کمانا شروع کیا ہے۔

علاقوں میں اکیلی لڑکی بھی بھیڑ بکریاں چراتی سر پر گھاس کی پوٹلی رکھ کر ،کبھی پانی کا پتیلا رکھے، بڑے نڈر انداز میں چلتی جاتی ہے، کچھ خاندان ایسے ہیں جنہوں نے گائے اور بھینس کا دودھ بیچنے کو اپنا پروفیشن بنایا ہوا ہے۔ اکثر جگہوں پر لوبیا کی کاشت ہوتی ہے اور ہر امیر غریب کی خوراک میں دونوں وقت لوبیا کا سالن اور چاول شامل ہوتے ہیں۔ جب ہم تری گلی کے لئے روانہ ہوئے۔ یہ معلوم تھا کہ ساڑھے تیرہ سو فٹ کی بلندی پر دو کلومیٹر پہ پھیلی یہ جھیل اپنا دیدار کرانے کیلئے جان کا سودا کر کے آپکو تیار کرتی ہے۔ زیادہ تر مشاق ڈرائیور وہیلر چلا سکتے ہیں۔ چھوٹے بڑے پتھروں کے درمیان سنگل روڈ پر قطار میں کھڑی گاڑیاں سامنے سے آنے والی گاڑی کو راستہ دیتی ہیں۔ایک طرف چڑھائی اور دوسری طرف زیادہ تر پتھر، کہیں کہیں کیچڑ، گاڑیوں میں بیٹھے نوجوان تو کھڑے بھی ہو جاتے ہیں۔ مگر مجھ جیسے بزرگ کبھی اس طرف کبھی اس طرف ہینڈل پکڑ کر، برفیلی ہوائوں اور ہر دس قدم پہ پہاڑوں سے اترتے گلیشیر کے اوپر سے گزرتے ڈرتے کبھی ڈر کو ہنسی میں بدلتے تین گھنٹوں میں اس کھلے میدان میں پہنچ گئے جہاں سینکڑوں تنبو لگے تھے، سینکڑوں گھوڑے سواری کے انتظار میں تھے۔ بیسیوں گرم چادریں بیچنے والے اور کئی لوگ ایک چھوٹا سا چولہا رکھے چائے بنا رہے تھے۔ ایک تنبو میں بابا جی نے باقاعدہ ڈھابا بنایا تھا۔ باقاعدہ لوبیا گرم روٹی کےساتھ، پکوڑے اور چائے۔ ہم تو کھانا ساتھ لیکر گئے تھے۔ مگر وہاں کام کرنے والوں نے بڑے پیار سے کھانا گرم کر کے دیا۔ تازہ گرم روٹی اور لوبیا یہ تو قومی خوراک تھی۔رتی گلی کوئی نئی دریافت نہیں۔ یہاں کے رہنے والے پیدل اور گھوڑوں پر صدیوں سے آ جا رہے تھے۔ یہ کوئی پانچ سال پہلے، فوج اور مقامی لوگوں نے مل کر یہ مسلسل چڑھتے پہاڑی سلسلے کو چھوٹی سی سڑک نما راہگزار بنائی۔ اتنی چڑھائی کے بعد جھیل کے منظر کو لکھنے اور سیاحت کے ہائیکنگ کرنے والوں نے یہ راستہ اور خاص کر جھیل دریافت کی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہاں غیر ملکی یا تو آتے نہیں یا پھر انہیں اس علاقے میں آنے نہیں دیا جاتا مگر پورے پاکستان کے نوجوان، خاندان اور دوستوں کے گروپس ،ویسے تو ہر روز آتے ہیں ،کئی گروپس تو دو چار دن تنبو کرائے پر لیکر قیام کرتے ہیں۔ دھوپ یکدم بادلوں کے قابو میں آ گئی پھر بوندیں پڑنی شروع ۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگوں نے جان پر کھیل کر گھوڑے پہ سوار ہونے کی کوشش کی۔ گھوڑوں نے چند قدم آگے رکھے کہ ابھی تو چار کلو میٹر کا فاصلہ کرنا تھا۔ کچھ منچلے کیچڑ میں پیدل چلنے کی کوشش کر رہے تھے۔برف باری کے عادی گھوڑوں نے برف کا سامنا کرنے سے انکار کر دیا ۔شرمندہ شرمندہ اور کچھ اداس گھوڑوں سے اترے، اور پھر جو کیرن جانے اور رتی جھیل کو پہلی دفعہ دیکھنے کے منصوبے تھے، ترک کر کے واپس آ گئے۔

تازہ ترین