• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دربارِ اکبری میں جب اسلام کی ناقدری کے خطرات منڈلانے لگے، تو اَللّٰہ تعالیٰ نے عروس البلاد سرہند میں شیخ احمدؒ کو پیدا فرمایا۔ اُنہوں نے اپنے وقت کے علما اور فقہا کے دامنِ تربیت میں تفسیر، حدیث، فقہ اور عربی پر دسترس حاصل کی۔ خصوصیت کے ساتھ اُنہیں سب سے زیادہ فیض حضرت باقی باللّٰہؒ سے پہنچا جو اَپنے وقت کے ایک صالح بزرگ تھے۔ خود شیخ ؒکی ذاتی صلاحیتوں کا حال یہ تھا کہ جب حضرت موصوف کے ساتھ راہ و رَسم کی ابتدا ہوئی، اُسی وقت اُنہوں نے شیخ ؒ کے متعلق اپنے یہ خیالات ایک دوست کو لکھ کر بھیجے تھے:

’’حال ہی میں سرہند سے ایک شخص احمد نامی آیا ہے۔ نہایت ذی علم ہے۔ بڑی علمی طاقت رکھتا ہے۔ چند روز فقیر کے ساتھ اُس کی نشست و برخاست ہوئی۔ اِس دوران میں اُس کے حالات کا جو مشاہدہ ہوا، اُس کی بنا پر توقع ہے کہ آگے چل کر یہ ایک چراغ ہو گا جو دنیا کو روشن کرے گا۔‘‘

مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی ’’تجدید و اَحیائے دین‘‘ میں لکھتے ہیں:

یہ پیشین گوئی پوری ہوئی۔ ہندوستان کے گوشوں میں بہت سے حق پرست علما اور صوفیا بھی اُس وقت موجود تھے، مگر وہ اُن سب کے درمیان ایک ایسا شخص تھا جو وقت کے اُن فتنوں کی اصلاح اور شریعتِ محمدی ﷺ کی حمایت کیلئے اٹھا اور جس نے شاہی قوت کے مقابلے میں تنِ تنہا احیائے دین کی جدوجہد کی۔ اُس بےسروسامان فقیر نے علی الاعلان اُن گمراہیوں کی مخالفت کی جنہیں حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ حکومت نے اُسے ہر طرح دبانے کی کوشش کی، مگر بالآخر وہ فتنے کا منہ موڑنے میں کامیاب ہو گیا۔

اکبر کو کم سنی میں اقتدار ملا جو اَتالیقوں کی نگرانی میں تھا۔ اُنہوں نے اُسے گمراہ کیا حالانکہ بچپنے میں وہ اِسلام کی طرف مائل تھا اور اُس کے دورِ حکومت میں اُس کا مختلف صورتوں میں اظہار بھی ہوتا رہا۔

محمد تغلق کی طرح اُس کی سلطنت پورے برِصغیر پر قائم تھی۔ اِس وسعت اور شان و شوکت نے اکبر کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی کہ ہندو آبادی میں اثرورسوخ پیدا کر کے وہ خاندانِ مغلیہ کے اقتدار کو ہمیشہ کے لیے مستحکم کر سکتا ہے۔ اِس خیال کو خاص طور پر ابوالفضل نے تقویت پہنچائی جس کی ریشہ دوانیوں سے مسلم اُمہ کو محفوظ رکھنے کے لیے شہزادہ سلیم کو اُسے دکن سے آتے ہوئے 1602 میں قتل کروانا پڑا۔ وہ جہانگیر کے نام سے تخت نشین ہوا اَور اُس نے ’تزکِ جہانگیری‘ میں قتل کے منصوبے کا تفصیل سے ذکر کیا ہے کہ میرے لیے اِس کے سوا اَور کوئی چارہ نہیں رہا تھا۔ اکبر کے مشیروں نے دربار میں الحاد اَور فسق و فجور کی فضا قائم کر دی تھی، چنانچہ شیخ احمد سرہندیؒ نے سب سے زیادہ توجہ اُنہی مقربین اور مشیروں کے اندر ذہنی اور اَخلاقی تبدیلی لانے پر صَرف کی۔ اُنہیں ملاقاتوں میں اونچ نیچ سمجھائی اور اُنہیں پےدرپے ناصحانہ خطوط لکھے کہ بادشاہ کو فاسد خیالات سے محفوظ رکھنے اور اُس کی دینی حمیت بیدار کرنے کی سب سے بڑی ذمےداری اُن پر عائد ہوتی ہے۔

امام ربانیؒ کے خطوط میں اِس قدر تاثیر تھی کہ شاہی دربار کے اہم ترین امرا اَور عہدےداروں میں اصلاح کا عمل شروع ہو گیا جس کے نتیجے میں اکبر کے اندر بھی ماہیتِ قلب کا سلسلہ چل نکلا۔ وہ آخرکار اِس بات پر آمادہ ہو گیا کہ لوگوں کو زبردستی ’دینِ الٰہی‘ اختیار کرنے اور سجدۂ تعظیمی پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ ’تاریخِ ہندوستان‘ کے مؤلف مولانا ذکاء اللّٰہ دہلوی نے لکھا ہے کہ اکبر کی موت کے وقت جب میراں صدر جہاں نے کلمے کی تلقین کی، تو اُس نے بلند آواز میں کلمۂ شریف پڑھنا شروع کر دیا اور میراں صدر جہاں سے کہا کہ سورہ یٰسین پڑھو۔ جب اُنہوں نے یہ سورۃ پڑھی، تو بادشاہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور اُسی حالت میں اُس نے جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔

یہ مجدد الف ثانیؒ کا تجدید و اَحیائےدین کا بہت بڑا کارنامہ تھا کہ اُنہوں نے اسلامی مملکت کو ضعف پہنچائے بغیر دینِ الٰہی کو دفن کر دیا اور جہانگیر جس نے سجدۂ تعظیمی نہ کرنے پر شیخ ؒ کو گوالیار کے قلعے میں بند کیا تھا، آخرکار اُن کا معتقد ہو گیا۔ اپنے بیٹے خرم کو، جو بعد میں شاہ جہاں کے لقب سے تخت نشین ہوا، اُن کے حلقۂ بیعت میں داخل کیا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کے متعلق حکومت کی معاندانہ روش احترام میں بدل گئی۔ اسلامی احکام کی جو ترمیم و تنسیخ کی گئی تھی، وہ خود بخود منسوخ ہو گئی۔ شیخؒکی وفات کے تین برس بعد اورنگ زیب عالمگیر پیدا ہوا اَور شیخ کے پھیلائے ہوئے اصلاحی اثرات کی بدولت اُس شاہزادے کو وہ اَخلاقی اور اِسلامی تربیت میسّر آئی کہ اکبر جیسے ہادمِ شریعت کا پڑپوتا خادمِ شریعت ثابت ہوا۔

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی اِس ضمن میں رقم طراز ہیں:

شیخ کا کارنامہ اتنا ہی نہیں کہ اُنہوں نے ہندوستان میں حکومت کو بالکل ہی کفر کی گود میں جانے سے روکا اور اُس فتنہ عظیم کے سیلاب کا منہ پھیرا جو اَب سے تین چار سو سال پہلے ہی یہاں اسلام کا نام و نشان مٹا دیتا۔ اُنہوں نے دو مزید عظیم الشان کام اور بھی انجام دیے۔ ایک یہ کہ تصوف کے چشمۂ صافی کو تمام گمراہیوں اور آلائشوں سے پاک کر کے اسلام کا اصل اور صحیح تصور پیش کیا۔ دوسرے یہ کہ اُن تمام رسومِ جاہلیت کی شدید مخالفت کی جو اِس وقت عوام میں پھیلی ہوئی تھیں۔ اُنہوں نے سلسلہ بیعت و اِرشاد کے ذریعے اتباعِ شریعت کی ایک ایسی تحریک پھیلائی جس کے ہزارہا تربیت یافتہ کارکنوں نے ہندوستان کے مختلف گوشوں اور وَسطِ ایشیا تک پہنچ کر عوام کے اخلاق و عقائد کی اصلاح کے لیے نہایت مؤثر کردار اَدا کیا۔ یہی کام ہے جس کی وجہ سے شیخ سرہندیؒ کا شمار مجددِدینِ ملت میں ہوتا ہے۔

(حضرت مجدد اَلف ثانیؒ کی شخصیت اور اُن کے احیائے اسلام دین کے لازوال کارناموں پر بھارت کے ایک ممتاز دینی اسکالر پروفیسر ڈاکٹر مسعود اَحمد نے پندرہ جلدوں پر مشتمل انسائیکلوپیڈیا ترتیب دیا ہے اور ہر جلد ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔)

ابھی برِصغیر میں ایک جانکاہ مرحلہ سَر ہوا تھا کہ نصف صدی بعد ایک اور کڑا اِمتحان سر پر آن پڑا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین