گزشتہ دنوں پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اقوام متحدہ میں پاکستان کے دوست ممالک پر مشتمل گروپ آف فرینڈزکے افتتاحی اجلاس سے ورچوئل خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے دوست ملکوں کے ساتھ مل کرڈس انفارمیشن کے خلاف اقدامات کیے ہیں۔
ڈس انفارمیشن کی روک تھام کے لیے لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے، اقوام متحدہ کی متعلقہ کمیٹی کو مسئلے کے حل کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ڈس انفارمیشن کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے موثر لائحہ عمل بنانا ہوگا، ڈس انفارمیشن آج کےدور کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ ڈس انفارمیشن سے آگاہی کے لیے جدید ٹیکنالوجی کی مدد لی جاسکتی ہے۔
بُرے اثرات
ڈس انفارمیشن، یعنی جان بوجھ کر گم راہ کرنے والی خبروں، معلومات یا افواہ کی وجہ سے نہ صرف سائنسی بنیادوں پر قایم حقایق کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوجاتے بلکہ گم راہ کن خبریں قومی اور بین الاقوامی پالیسیوں پر بھی بہت بُرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ آج کےمشکل حالات میں، جب لوگ درست اور قابل بھروسہ خبروں کے متلاشی ہیں، ایسے میں سازشی خیالات، افواہیں اور جھوٹی خبریں سوشل میڈیا کی مدد سے ہر جانب بہت تیزی سے پھیل جاتی ہیں اور پھر وہ ٹی وی ، ریڈیو اور اخبارات تک راہ بنالیتی ہیں۔ پھر بہت سی افواہیں اور گم راہ کن خبریں نامی گرامی شخصیات، سیاست داں اور عام لوگ اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ پرشیئر کردیتے ہیں۔ یوں کوئی غلط خبر، معلومات یا افواہ جنگل میں آگ کی طرح وائرل ہو جاتی ہے۔
چینی زبان کی ایک کہاوت ہے: ’’غلط بات، غلط خبریا افواہ ایک کان میں جاتی ہے اور بہت سے لوگوں کے منہ سے باہر آتی ہے۔‘‘دراصل لاطینی زبان میں Rumor کا لفظ دراصل Noise کے مترادف کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ڈس انفارمیشن جڑیں تاریخ میں بہت گہری ہیں۔
روم کے معروف تاریخ داں ٹیسی ٹس کے بہ قول اپنی بدلتی ہوئی شکلوں کی وجہ سےغلط خبریں یا افواہیں ناقابل اعتماد ہوتی ہیں، لیکن یہ کبھی درست بھی ثابت ہوسکتی ہیں، لہٰذا یہ کہنا مشکل ہے کہ افواہیں ہمیشہ غلط ہوتی ہیں۔ ماہرین سماجیات نے افواہوں کی تین بنیادی اقسام بیان کی ہیں۔
(1) پائپ ڈریم: خواہشات کی تکمیل پر مبنی افواہیں۔ یہ اپنے پھیلانے والوں کی توقعات اور خواہشات کی عکاس ہوتی ہیں۔
(2) بوگی: یہ اضطرابی افواہیں کہلاتی ہیں اور یہ اپنے پھیلانے والوں کی خوف کی عکاسی کرتی ہیں۔
(3) ویج ڈرائیونگ: باعث تفریق یا باعثِ نزاع بننے والی افواہیں۔ یہ اپنے پھیلانے والے کےجارحانہ مزاج، پہلے سے کوئی فیصلہ کرلینے اور کسی شخص یا عمل سے نفرت کی عکاس ہوتی ہیں۔
جدید دور میں غلط خبریں یاافواہ سازی اور اسے پھیلانے کا عمل بھی سائنس بن گیا ہے۔ Rumors Science کی تعریف یوں کی جاتی ہے: Management of Science to Achieve Clear or Hidden Target
ایسی بات یا رائے جو ملاحظہ پذیر نہ ہو، یا ایسی رپورٹ یا بیان جو کسی نامعلوم ذریعے سے آگے بڑھا ہو، کوئی ایسی خبر یا کہانی جو گردش میں ہو جس کے درست یا یقینی ہونے کی تصدیق نہ کی گئی، جس کے منبع کے بارے میں کوئی علم نہ ہو اور جو سینہ بہ سینہ آگےبڑھ رہی ہو ،افواہ کہلاتی ہے۔
مواد، ذرایع اور نفسیات
غلط خبر یا افواہ کا مواد محض گپ سے لے کر پروپیگنڈے کی ترقی یافتہ تیکنیکس استعمال کرکے خاص مقاصد کے لیے پھیلائی گئی خبروں یا کہانیوں پر مشتمل ہوسکتا ہے۔ کلاسیکی نظریے کے تحت یہ ایک سے دوسرے شخص تک زبان کے ذریعے پھیلتی ہے۔ جدید ذرایع ابلاغ افواہوں کے تیزی سے پھیلنے میں بہت معاون ثابت ہوئے ہیں۔
پہلے اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن ہوتے تھے، لیکن اب موبائل ٹیلی فون، انٹرنیٹ اور کیبل ٹی وی بھی ذرایع ابلاغ کی فہرست میں شامل ہوگئے ہیں۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کا عملہ عموماً غیر مصدقہ اطلاعات کو آگے نہیں بڑھاتا، لیکن موبائل ٹیلی فون اور انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہوتی، لہٰذا آج کل یہ دونوں ذرایع بہت تیزی سے افواہیں پھیلنے یا پھیلانے کا زبردست ذریعہ ثابت ہو رہے ہیں۔
غلط خبروں، معلومات یا افواہوں کا تعلق بہ راہ راست انسان کی نفسیات سے ہوتاہے۔ بعض افراد اپنی خواہشات، خدشات اور توقعات پر مبنی باتیں آگے بڑھا دیتے ہیں جو ان ہی جیسے خیالات کے حامل افراد دوسروں تک پہنچا دیتے ہیں۔ بعض اپنے مفادات حاصل کرنے یا انہیں تحفظ دینے کے لیے افواہ سازی کرتے اور افواہیں پھیلاتے ہیں۔ کسی کا مالی مفاد ہوتا ہے، کسی کا سیاسی مفاد، کوئی کسی کی دشمنی میں یا اسے نیچا دکھانے کے لیے ایسا کرتا ہے ،تو کوئی صرف لطف لینے، لوگوں کو پریشان کرنے اور خود کو بہت باخبر یا عقل مند ثابت کرنے کے لیے ایسا کرتا ہے۔
جو لوگ غلط خبروں یا افواہوں پر یقین کرلینے کے عادی ہوتے ہیں، انہیں مہمیز لگانے میں یہ طاقت ور انداز میں کام آتی ہیں۔ مثلاً حصص بازار میں کام کرنے والے افواہوں سے بہت جلدی اور بہت حد تک متاثر ہوتے ہیں۔ کسی قابل اعتماد شخص یا ذریعے سے علط خبر سننے کے بعد کوئی شخص یہ سوچ سکتا ہے کہ اس شخص یا ذریعے کی ’’اندر‘‘ تک رسائی ہے۔ افواہیں چوں کہ غیر مرئی حوالوں سے پھیلتی ہیں، ان کی تصدیق کے ذرایع ناقابل رسائی ہوتے ہیں اور ان سے متعلق شواہد تلاش کرنا عام آدمی کے لیے ناممکن ہوتا ہے، لہٰذا لوگ ان کی تصدیق کیے بغیر بات آگے بڑھا دیتے ہیں۔
افواہ میں نفسیاتی پہلو سے یہ جملہ بہت طاقت ور ہوتا ہے: ’’ایک خبر ہے، مگر کسی اور کو نہیں بتانا‘‘۔ انسان کی یہ فطرت بتائی جاتی ہے کہ جس کام یا بات سے اسے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے وہ کام یا بات کرنے کی زیادہ کوشش کی جاتی ہے۔ بعض اوقات کسی شعبے میں جاری کسی ’’کھیل‘‘ سے کسی کردار کو باہر نکالنے یا نیا کردار داخل کرنے کے لیے بھی غلط خبریں یا افواہیں پھیلائی جاتی ہیں۔ حالات و واقعات افواہ سازی اور افواہیں پھیلانے میں سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
قصے کہانیوں میں بھی افواہیں ملتی ہیں اور بعض اوقات ان کے ذریعے کہانی میں کوئی نیا کردار داخل کیا جاتاہے، کہانی کو نیا موڑ دینے یا اس کا پلاٹ پے چیدہ بنانے، کہانی کو طول دینے، کسی کردار کو مثبت یا منفی رنگ دینے، کسی کردار کی عظمت بڑھانے یا اسے رسوا کرنے کے لیے افواہیں استعمال کی جاتی ہیں۔ شاعر کسی کی ذات سے متعلق افواہیں ایبسٹریکٹ کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور یہ سلسلہ رومیوں کے زماسے سے چلا آرہا ہے۔
انٹرنیٹ کی دنیا میں سوشل میڈیا، ای میل، وٹس ایپ گروپس اور بلاگز وغیرہ کے ذریعے آج کل لمحے بھر میں غلط خبریں یا افواہیں دنیا کے ایک سے دوسرے کونے میں پہنچ جاتی ہے۔ ورلڈ وائڈ ویب کی دنیا میں بھی بعض اوقات مالی مفادات کے لیے یہ کام کیا جاتا ہے۔ مثلاً پہلے بڑے پیمانے پر کوئی خطرناک کمپیوٹر وائرس پھیلنے کی افواہ اڑائی جاتی ہے اور اس کے بعد اس وائرس کا توڑ کرنے والے سافٹ ویئر کے بارے میں ای میلز بھیجی جاتی ہیں۔ ایسی صورت حال میں کمپیوٹر استعمال کرنے والے جلد از جلد وہ سافٹ ویر خریدنے کی جانب متوجہ ہوتے ہیں۔ یوں چند دنوں میں بعض بڑے بڑے ادارے لاکھوں، کروڑوں ڈالر کما لیتے ہیں۔
معاشرے کی دانش کی سطح
غلط خبریں پھیلنے یا نہ پھیلنے کے پس منظر میں کسی معاشرے کی دانش کی سطح اور معاشرتی حالات بھی کار فرما ہوتے ہیں۔ مثلاً نو آبادیاتی دور میں افریقا پس ماندگی کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس زمانے میں اس طرح طرح کی افواہیں پھیلتی تھیں کہ جو سیاہ فام افراد، سفید فام لوگوں کے لیے کام کرتے ہیں انہیں بلائیں اٹھا کر لے جاتی اور ان کا خون چوس لیتی ہیں۔ غلط خبروں یا افواہوں کو ممالک، ادارےاور شخصیات ایک دوسرے کے خلاف پراپیگنڈے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ انہیں نفسیاتی حربوں کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
غلط خبروں یا ا فواہوں سے مرتب ہونے والے اثرات بتاتے ہیں کہ وہ خواہ کسی بھی قسم اور طاقت کی ہوں انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور ان کے بارے میں یہ کہنا غلط ہے کہ افواہ محض افواہ ہوتی ہے جس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا۔
اقتصادی شعبے میں مفاد پرست گروہ اپنے فائدے کے لیے افواہیں پھیلاتے ہیں، انجینئر عبدالجبار، ممتاز تاجر رہنما
اقتصادی شعبے میں مفاد پرست گروہ غلط خبریں یا افواہیں پھیلاتے ہیں تاکہ وہ آسانی سے رقم بٹور سکیں۔ مالیاتی بازار میں خاص طور سے ایسا کیا جاتا ہے۔ حصص بازار میں افواہیں پھیلا کر کبھی منہگے داموں حصص فروخت اور کبھی سستے داموں حصص خریدے جاتے ہیں۔ پاکستان کے حصص بازار میں سرمایہ کاروں کے ایک گروہ نے اس طرح کے منفی ہتھکنڈوں کے ذریعے حیران کن انداز میں ترقی کی ہے۔ ہماری اقتصادی پالیسیز ایسی ہیں جو مالیاتی بازاروں اور جائیداد کے کاروبار میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔
کوئی ایسی بات جو عام ڈگر سے ہٹ کر ہو اور اس میں آئندہ کے حالات کی پیش گوئی کی گئی ہو، اسے لوگ بلا تحقیق آگے بڑھا دیتے ہیں۔ افواہ اپنے انداز میں یہ طاقت رکھتی ہے کہ اسے پھیلایا جائے۔ بعض افراد کسی کو مشکل سے بچانے کے لیے اور بعض کسی بات کا سہرا اپنے سر باندھنے کے لیے افواہوں کو بلا تحقیق آگے بڑھا دیتے ہیں۔
افواہیں پالیسی سازی کے عمل کا حصہ رہی ہیں۔ انہیں جنگوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کبھی کسی ملک کے بازاروں میں جھٹکے برداشت کرنے کی سکت، اس کا استحکام اور بازار کے بارے میں بنیادی حقائق جاننے یا اکنامک انٹیلی جینس گیدرنگ کے لیے بھی افواہیں پھیلائی جاتی ہیں۔
پاکستان کی اقتصادیات کا بیرونی دنیا پر زیادہ انحصار ہے، ہم بیرونی ممالک کا اقتصادی شعبے میں مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے، ایسے حالات میں غیرملکی تجارتی اداروں کے پاکستان میں نمائندے اپنے ممالک کو تجاویز ارسال کرتے ہیں کہ پاکستان کے بارے میں وہ کس طرح کی پالیسیز اپنائیں، مثلاً امداد بڑھادیں، کم کردیں یا روک دیں، اگر ان اداروں کو اپنا فائدہ نظر آتا ہے تو وہ امداد بڑھانے کی سفارش کرتے ہیں تاکہ پاکستان میں پیسہ آئے اور ان کی مصنوعات زیادہ سے زیادہ فروخت ہوں۔
جس ملک کی معیشت مستحکم ہوتی ہے، وہاں بھی افواہوں سے کاروباری حجم کم ہوجاتا ہے، جو لوگ اس کھیل (افواہ پھیلانے) کا حصہ نہیں ہوتے وہ محتاط ہوجاتے ہیں اور طویل المیعاد سرمایہ کاری کے بجائے جلد منافع کمانے کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں۔ ایسے حالات میں بینکس سے قرضوں کا اجراء کم ہوجاتا ہے۔ افواہیں پھیلانے میں سیاست داں، بہ راہ راست فائدہ اٹھانے والے گروہ، سرمایہ کار، درآمد و برآمد کنندگان، مل مالکان، صنعت کار، عام آدمی، سب شامل ہوتے ہیں۔ کاروباری حلقوں میں افواہیں پھیلانے والے بعد میں حالات کو بنیاد بناکر حکومت سے رعایتیں اور مراعات حاصل کرتے ہیں۔
تاریخ میں جنگوں میں اور ان کے بعد اور حکومتیں گرانے اور مستحکم کرنے میں افواہوں کا بڑا کردار رہا ہے۔ آج بعض گروہ عالم گیریت کے حوالے سے یہ افواہیں اڑا کر کہ ان کا مال فروخت نہیں ہورہا، صنعتیں تباہ ہوگئیں وغیرہ حکومتوں سے مراعات حاصل کرتے ہیں۔ لیکن ان مراعات کا فائدہ وہ عام آدمی تک منتقل نہیں ہونے دیتے۔ اس طرح قومی خزانے سے افواہوں کے ذریعے فائدہ اٹھانے والے دراصل عوام کو نقصان پہنچاتے ہیں، کیوں کہ وہ پیسہ عوام کا ہوتا ہے۔ بعض اوقات بعض ادارے اپنی مصنوعات فروخت کرنے کے لیے اپنے حریف ادارے کے خلاف افواہیں پھیلاتے ہیں، جس سے ان کی مصنوعات کی فروخت بڑھ جاتی ہے یا کم از کم حریف ادارے کی مصنوعات کی فروخت میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔
حقایق تک لوگوں کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے افواہ کے ذریعے نقصان کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، سابق سربراہ شعبۂ سیاسیات، جامعہ کراچی
جامعہ کراچی کے شعبہ سیاسیات کے ایک سابق سربراہ کے مطابق غلط خبریں یا ا فواہیں کبھی اپنے فائدے کے لیے، کبھی کسی کو دھوکا دینے، غلط سمت پر ڈالنے یا غلط بات پر اعتبار کرنے پر مجبور کرنے کے لیے پھیلائی جاتی ہیں۔ان کے بارے میں اکثر افراد یہ کہتے ہیں کہ اس میں کسی حد تک تو صداقت ہوگی۔ بعض افراد اپنی انفرادیت ثابت کرنے اور لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کے لیے افواہیں پھیلاتے ہیں۔
ہمارے ہاں روایت ہے کہ اگر کسی کو کوئی بات بتاکر یہ کہہ دیا جائے کہ کسی اور کو نہیں بتانا تو وہ تیسرے شخص کو ضرور بتاتا ہے اور ساتھ ہی کسی اور کو نہ بتانے کی تاکید بھی کردیتا ہے۔ کبھی ذرایع ابلاغ کے ذریعے افواہ کو یہ کہہ کر آگے بڑھایا جاتا ہے کہ آج کل فلاں افواہ پھیلی ہوئی ہے۔ ہمارے ہاں عام آدمی چوں کہ زیادہ سوجھ بوجھ نہیں رکھتا، اس لیے وہ غلط خبر ا فواہ پر فوری ردعمل ظاہر کردیتا ہے۔
یوں جو کام عام طور سے نہیں ہوسکتا، وہ افواہوں کے ذریعے ہوجاتا ہے۔ اگر لوگوں کی حقایق تک مناسب رسائی نہ ہو تو افواہ سے بے یقینی پھیلتی ہے اور نقصان ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ کبھی بعض حلقے اپنی بات آگے بڑھانے کے لیے افواہیں پھیلاتے ہیں اور اپنے مطلب کی بات دوسروں کے منہ سے کہلوا دیتے ہیں۔
افواہیں بین الاقوامی حالات پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں، ماہر بین الاقوامی تعلقات
ایک ماہرِ بین الاقوامی تعلقات کے مطابق افواہیں ملکی حالات کی طرح بین الاقوامی حالات اور تعلقات پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ مثلاً سرد جنگ کے زمانے میں امریکا اور سوویت یونین کے تعلقات کشیدہ تھے۔ اس زمانے میں دونوں طرف سے جوہری ہتھیار استعمال کیے جانے کے بارے میں افواہیں پھیلائی جاتی تھیں اور یہ کہا جاتا تھا کہ تیسری عالمی جنگ چھڑنے والی ہے۔
1962ء میں کیوبن میزائل کرائسس کے موقع پر امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے الٹی میٹم دیا تھا کہ اگر سوویت یونین نے کیوبا سے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل نہیں ہٹائے تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ ان حالات میں افواہ پھیلی کہ امریکا کے جنگی جہاز جوہری ہتھیاروں کے ساتھ حملہ کرنے کے لیے تیار ہیں اور کسی بھی لمحے جنگ چھڑ سکتی ہے۔
اس موقع پر سوویت یونین کے صدر نکولائی خروشیف نے حالات کی نزاکت محسوس کرتے ہوئے کیوبا سے میزائل ہٹانے کا اعلان کیا۔ اس وقت دونوں ممالک کے درمیان بہ راہِ راست رابطے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ اس واقعے کے بعد یہ طے پایاکہ ممکنہ جنگ روکنے، کشیدگی کم کرنے اور افواہوں سے بچنے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان ہاٹ لائن قایم کی جائے گی۔
1983ء میں سوویت یونین نے جنوبی کوریا کی فضائی کمپنی کا طیارہ مارگرایا تو نیوکلیائی ہتھیاروں سے لیس افواج حرکت میں آئیں۔ ایسے میں افواہ اڑی کہ کسی بھی وقت جنگ چھڑ سکتی ہے۔ 1986ء۔87ء میں بھارت کی فوج نے براس ٹیک کے نام سے جنگی مشقیں شروع کیں تو دونوں ممالک کی افواج آمنے سامنے آگئیں۔ جنرل ضیاء الحق نے کرکٹ ڈپلومیسی کا راستہ اختیار کرکے جنگ کی افواہ کا توڑ کیا۔
مارچ 1990ء میں کہا جارہا تھا کہ بھارت پاکستان پر حملہ کرنے والا ہے۔ یہ بہت گرم افواہ تھی، جس سے کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ امریکی سی آئی اے کے سربراہ رابرٹ گیٹس نے کشیدگی کے عروج پر پاکستان کا دورہ کرکے یہ کشیدگی کم کرائی۔ پھر اپریل کے مہینے میں دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کے اقدامات کا آغاز ہوا، ہاٹ لائن قائم ہوئی، فوجی مشقیں شروع کرنے سے قبل ان کا اعلان کرنے اور کیمیائی ہتھیار تیار اور استعمال کرنے کا معاہدہ ہوا۔
غلط خبروں یا ا فواہوں کے پس منظر میں کچھ نہ کچھ حقیقت ہوئی ہے۔ مثلاً جون 2004ء میں وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی کو ہٹائے جانے کی افواہ اڑی تھی، اس کی تردید کی گئی، لیکن بعد میں انہوں نے استعفیٰ دیا۔ جرمنی میں ہٹلر کے زمانے میں نازی پارٹی اپنے مقاصد کے لیے وسیع پیمانے پر پروپیگنڈہ کرتی اور لوگوں کو آنے والے حالات کے لیے تیار کیا جاتا۔
جرمنی کے وزیر گوئبلز کا یہ نظریہ تھا کہ کسی معاملے میں اتنا جھوٹ بولو کہ حقیقت بالکل چھپ جائے۔ آج بھی بڑی طاقتیں ذرایع ابلاغ کے ذریعے یہ کام کرتی ہیں۔ مثلاً عراق پر حملہ کرنے سے قبل مغرب کے بڑے بڑے اخبارات، رسائل، جرائد اور ٹی وی چینلز کے ذریعے عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار کی موجودگی کا الزام لگایا گیا اور جب لوگوں کا ذہن بن گیا تو عراق پر حملہ کردیا گیا۔
ابلاغ کے ذرایع پر پابندی لگانے سے افواہ سازی اور انہیں پھیلانے کا عمل شروع ہوجاتا ہے، تاج حیدر، سیاست داں اور ڈراما نگار
غلط خبر یا ا فواہ سے سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جب حقیقت میں افواہ والی بات ہوتی ہے تو لوگوں کو اس بات پر یقین کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ مثلاً شیر آیا والی بات۔ بعض افراد کے دلوں میں کوئی خوف چھپا ہوتا ہے، کچھ لوگ اپنی خواہش یا خوف کو خبر بنا دیتے ہیں اور پھر یہ ایک سے دوسرے فرد تک پہنچتی رہتی ہے۔
ماہرینِ نفسیات اس ضمن میں باقاعدہ تجربات کرچکے ہیں کہ ایک قطار میں بیٹھے ہوئے دس افراد میں سے پہلے شخص کے کان میں جو بات کہی جاتی ہے وہ دسویں شخص تک پہنچتے پہنچتے کس قدر بدل چکی ہوتی ہے۔ افواہ کی کام یابی یہ ہے کہ جس شخص نے اسے پھیلایا ہو کوئی آکر اسے وہ افواہ سنائے۔ جب ابلاغ کے عام ذرایع پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں تو افواہ سازی اور انہیں پھیلانے کا عمل شروع ہوجاتا ہے، جیسا کہ 5 نومبر 2007ء کو ہوا۔ لوگوں کے پاس خبر حاصل کرنے کا مناسب اور قابل اعتماد ذریعہ ہو تو وہ انہیں استعمال اور ان پر اعتبار کرتے ہیں۔
سیاست کے شعبے میں وہ افراد غلط خبریں یا ا فواہیں پھیلاتے ہیں جو لوگوں کے سامنے آکر کھل کر بات نہیں کرتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ افواہوں کے ذریعے لوگوں کی توجہ ہٹا کرا پنے مقاصد حاصل کرلیں، یا وہ اصل خبر کی طرف سے لوگوں کی توجہ ہٹانا چاہتے ہیں۔
پاکستان میں سیاست کے شعبے میں افواہوں سے کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا ہے، کیوں کہ عوام کا ردعمل جھوٹ کے پائوں پر کھڑا نہیں ہوتا، عوام کے حقیقی رہنما لوگوں کو حقیقت حال بتاکر افواہوں کا توڑ کرتے یا کرسکتے ہیں۔ موجودہ دور میں انسانی زندگی میں ذرایع ابلاغ کا کردار بہت بڑھ گیا ہے، لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہر دور عوام کا ہوتا ہے۔ لہٰذا ذرایع ابلاغ بھی ایک مقام پر آکر عوام کی خواہشات کے سامنے مجبور ہوجاتے ہیں۔
ترقی یافتہ دنیا میں ذرایع ابلاغ تک لوگوں کی بآسانی رسائی ہوتی ہے یا خبر تک ان کی رسائی جلد ہوجاتی ہے، اس لیے وہاں ہمارے یہاں کی طرح غلط خبریں یا افواہیں نہیں پھیلتی ہیں۔ وہاں بھی بعض ذرایع ابلاغ تھوڑی بہت گڑ بڑ کرتے ہیں، لیکن وہاں عموماً ذرایع ابلاغ اور عوام ذمے داری سے کوئی بات آگے بڑھاتے ہیں۔ وہاں خبر کو خبر ہی کی طرح برتا جاتا ہے، البتہ تجزیوں میں گڑ بڑ کرسکتے یا کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی صحافیوں کی بڑی تعداد ذمے داری کا مظاہرہ کرتی ہے۔ البتہ کسی صحافی سے کبھی کوئی شکایت پیدا ہوسکتی ہے۔
غلط خبروں یا افواہوں کا سلسلہ بادشاہوں کے دور میں شروع ہوا۔ بادشاہ کے مخالف اور حلیف حلقے اس کی مخالفت یا حمایت میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے۔ ذرایع ابلاغ کے عام ہونے سے افواہوں کا اثر کم ہوگیا۔ اب لوگوں پر حقیقت جلد آشکار ہوجاتی ہے۔ حقایق پیش کرنا بھی ایک فن ہے۔ حقیقت اس طرح سامنے لانی چاہیے کہ لوگوں کی نظروں میں قابلِ اعتبار ٹھہرے۔
حصص بازار میں افواہوں کی وجہ سے بہت سے افراد کو نقصان اور فائدہ ہوتا ہے، فیصل بنگالی، ماہرِ اقتصادی امور
حصص بازار میں طرح طرح کی افواہیں یا جھوٹی خبریں آتی رہتی ہیں۔ ان میں سے بعض اچھی اور بعض بری ہوتی ہیں۔ یہ افواہیں اچھے اور برے حالات کا رُخ دیکھ کر پھیلائی جاتی ہیں۔ یہ افواہیں انسان ہی تخلیق کرتے اور پھیلاتے ہیں اور ممکن ہے کہ حصص بازار میں کچھ لوگ اپنے فائدے کے لیے یہ کام کرتے ہوں۔ اس بازار میں افواہوں کی وجہ سے بہت سارے افراد کو نقصان اور فائدہ ہوتا ہے اور سرمایہ کاری کرنے والے ادارے بھی ان سے متاثر ہوتے ہیں۔ یوں سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے۔
اس بازار میں وہ سرمایہ کار جو قیاس آرائی پر مبنی سرمایہ کاری کرتے ہیں ان حالات میں کبھی بہت نقصان اٹھاتے ہیں تو کبھی بہت منافع کما لیتے ہیں۔ حقیقی یا بڑے سرمایہ کار افواہوں سے متاثر ہوکر سرمایہ کاری نہیں کرتے بلکہ وہ تحقیق پر مبنی نکات کو مدنظر رکھتے ہیں۔ افواہوں کے دوران حصص بازار میں حصص کی خریدو فروخت کےلیے کوئی طے شدہ اصول نہیں ہیں۔
فنڈ مینجمنٹ کے ادارے بھی افواہوں کی وجہ سے متاثر ہوتے ہیں اور انہیں بھی فوری فیصلہ کرنا پڑتا ہے، کیوں کہ ان کے ذریعے سرمایہ کاری کرنے والے دو طرح کے افراد ہوتے ہیں، ایک وہ جو روزانہ کی بنیاد پر سرمایہ کاری کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو اپنا سرمایہ ان اداروں کی صوابدید پر چھوڑ دیتے ہیں۔ پہلی قسم کے افراد افواہوں کے دوران فنڈ منیجرز سے فوری فیصلے کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یوں فنڈ منیجرز کو بھی افواہوں کے دوران فوری فیصلے کرنے پڑتے ہیں اور وہ بھی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔
افواہوں سے معاشرے میں بے اطمینانی اور بد دلی پھیلتی ہے، ماہر نفسیات
ایک ماہرِ نفسیات کے بہ قول غلط خبریں یا افواہیں عموماً پاپولر تھیم پر پھیلتی ہیں، لہٰذا یہ دلوں کو جاکر لگتی ہیں۔ بعض لوگ انہیں آگے بڑھا کر یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ بہت با خبر ہیں۔ بعض افراد کوباخبر رہنے کا شوق ہوتا اور کسی کو یہ شوق ہوتا ہے کہ وہ کوئی بات دوسروں سے پہلے لوگوں تک پہنچائیں۔ اس نظریے کے تحت غلط خبریں اور افواہیں پھیلتی ہیں۔
بہت سے افراد ہر نئی خبر سن کرلذت محسوس کرتے ہیں۔ انہیں پھیلانے والے اپنے مقاصد کے تحت کام کرتے ہیں۔ دراصل تجسس انسان کی تربیت کا حصہ ہے۔ افواہ سازی کرنے والا یک لحاظ سے تخلیقی کام کرتا ہے کیوں کہ وہ اپنے خیال کو کوئی شکل دیتا ہے۔ باقی افراد اس عمل کا محض حصہ بنتے ہیں۔ بعض افراد خوش فہمی میں مبتلا ہوکر افواہ پھیلاتے ہیں۔ غلط خبر یا افواہوں پر سٹہ لگتا ہے تو کچھ لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے۔
غلط خبر یاافواہ صحیح ثابت ہونے پر اسے آگے بڑھانے والے کی واہ واہ ہوتی ہے اور اگر صحیح ثابت نہ ہو تو آگے بڑھانے والے کو کوئی فکر نہیں ہوتی۔ غلط خبروں یا افواہوں سے معاشرے میں بے اطمینانی اور بد دلی پھیلتی ہے اور حساسیت اور بے حسی دونوں قسم کی کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔
پرانے زمانے میں بھی سینہ بہ سینہ خیالات منتقل ہوتے تھے۔ غلط خبریں یا افواہیں دشمن ممالک کے خلاف بھی استعمال کی جاتی ہیں۔ا س ضمن میں جرمنی کے وزیر برائے پراپیگنڈ اگوئبلز کا نام سرفہرست ہے۔ سائیکالوجیکل وار فیئرز بھی اس قسم کا ایک شعبہ ہے۔
کسی کی ساکھ یا عزت کو نقصان پہنچانے کی کوشش قانون میں قابل گرفت ہے، جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد
اگر کسی شخص کی ساکھ اور عزت مجروح کرنے کے لیے زبانی یا کوئی جھوٹا بیان دیا جائے یا جھوٹی Representation کی جائے، جس سے اسے دوسروں کی نظروں میں گرانا مقصود ہو، یا اس پر غیر منصفانہ تنقید کی جائے، جس سے اس کی عزت مجروح ہوتی ہو یا اس کے خلاف لوگوں میں نفرت پیدا ہوتی ہو تو ہتک عزت کے آرڈی نینس مجریہ 2002ء کی دفعہ 3 کے تحت قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ سول مقدمہ بھی دائرکیا جاسکتا ہے۔
مذکورہ آرڈی نینس کے ذریعے متاثرہ فریق کو Damages اور مالی Compensation مل سکتی ہے اور مجرم کو سزا بھی ہوسکتی ہے۔ سول مقدمے میں لاء آف ٹارٹ کے تحت صرف Damages اور مالی Compensation مل سکتی ہے۔ سول مقدمے کی کارروائی قانون شہادت کے تحت ہوتی ہے۔ مذکورہ آرڈی نینس کے تحت اس قسم کے مقدمات کے فیصلے کے لیے چھ ماہ کی مدت کا تعین کیا گیا ہے۔ اگر کسی کی ساکھ یا عزت کو نقصان پہنچانے کی تحریری انداز میں کوشش کی گئی ہو تو یہ Libel کے زمرے میں آتی ہے۔
ویت نام میں جنگ بندی کے لیے دبائو پڑنے کی افواہ
4 فروری 1965ء کو یہ افواہ اڑائی گئی کہ امریکا اور سوویت یونین نے ویت نام میں اپنے حمایتیوں پر دبائو ڈالا ہے کہ وہ لڑائی بند کرکے مذاکرات کی میز پر آجائیں۔ دراصل ان دنوں امریکاکے خصوصی مشیر برائے قومی سلامتی، مک جارج بنڈی نے سائیگاں پہنچ کر امریکا کے سفیر میکس ویل ٹیلر سے ملاقات کی تھی۔ ان کے دو یوم بعد سوویت یونین کے وزیراعظم الیکسی کوسیجن ہنوئی پہنچے تھے۔
ان حالات میں ساری دنیا میں یہ قیاس آرائی کی جانے لگی تھی کہ ان دونوں شخصیات کے دوروں میں باہمی تعلق ہے اور دونوں طاقتیں اس بات پر رضامند ہوگئی ہیں کہ وہ ویت نام میں اپنے ’’کلائنٹس‘‘ یا حمایتیوں پر لڑائی ترک کرنے کے لیے دبائو ڈالیں گی۔ لیکن دونوں جانب سے اس کی تردید کردی گئی۔ درحقیقت بنڈی کادورہ ٹیلر کو سیاسی حالات سے اچھی طرح نمٹنے پر شاباس دینے کے لیے اور کوسیجن کا دورہ شمالی ویت نام اور اشتراکی جنگ کی عوامی سطح پر حمایت کے اظہار کے لیے تھا۔
افواہوں نے نیویارک کا حصص بازار بند کرا دیا
7 نومبر 1918ء کو وال اسٹریٹ پر یہ افواہ اڑی کہ ایک امن معاہدے کے نتیجے میں پہلی جنگ عظیم ختم ہوگئی ہے۔ اس افواہ کی وجہ سے وال اسٹریٹ میں کام کرنے والے خوشیاں منانے لگے۔ نیویارک کا حصص بازار وقت سے پہلے بند ہوگیا اور اسٹاک ٹریڈرز سڑکوں پر آکر خوشیاں منانے لگے۔ لیکن درحقیقت اس دن کسی ایسے معاہدے پر دست خط نہیں ہوئے تھے۔
یہ محض لوگوں کی توقع اور خواہش تھی جو افواہ بن کر حصص بازار تک پہنچ گئی تھی۔ لیکن اس کے ایک ہفتے بعد امن معاہدہ حقیقت بن گیا اور جنگ ختم ہوگئی۔