کراچی سے تقریباً 325 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع عمرکوٹ شہر، مغل سلطنت کے شہنشاہ جلال الدین اکبر کی جائے پیدائش ہے جبکہ یہاں معروف سندھی صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کی لوک داستان عمر ماروی نے بھی جنم لیا۔ اس شہر کا نام علاقے میں موجود تاریخی قلعہ کے نام سے منسوب ہے، جہاں راجپوت ٹھاکر اور سومرو حکمرانی کرتے رہے ہیں۔ عمرکوٹ کے قلعے کو خطے میں سیاست کی کنجی سمجھا جاتا تھا۔
اس کی تعمیر کے حوالے سے متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔ بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ سومرو قبیلے کے سردار اور عمر کوٹ کے حکمران عمرسومرو نے اپنے دورِ حکومت (1355ء-1390ء) میں یہ قلعہ تعمیر کروایا تھا۔ یہی عمر سومرو، لوک داستان ماروی کا مرکزی کردار بھی تھا۔ بعض تاریخ دانوں کے نزدیک اس قلعے کا اصل نام امر کوٹ یا امیر کوٹ تھا اور ان کی دلیل کے مطابق یہ قلعہ 14ویں صدی عیسوی سے قبل بھی موجود تھا۔
ان کا ماننا ہے کہ چونکہ یہ قلعہ امیر سرداروں اور حاکموں کی رہائشگاہ رہا ہے، اسی لیے اسے یہ نام دیا گیا جو بعد میں عمر کوٹ ہوگیا۔ کچھ محققین کے خیال میں درحقیقت امر کوٹ اور عمر کوٹ دو الگ الگ شہر تھے۔ ایک عام قیاس یہ ہے کہ راجہ امر سنگھ نے 11ویں صدی عیسوی میں عمر کوٹ شہر بسایا تھا۔ جیسلمیر کی تاریخ بتاتی ہے کہ 11ویں صدی عیسوی کے آغاز میں امر کوٹ پر پرماروں کی حکومت تھی۔
عمر کوٹ قلعہ زیادہ تر راجپوتوں (سوڈھو قبائل) کے زیرِ تصرف رہا مگر بعد میں انھوں نے اسے کلہوڑا حکمرانوں کے حوالے کر دیا۔ 1780ء میں عبدالنبی کلہوڑو نے یہ قلعہ راجہ جودھپور کو دے دیا۔ لیکن جب تالپور حکمران میر غلام علی خان تالپور نے سندھ پر اپنی حکمرانی قائم کی توانھوں نے 1813ء میں جودھپور کے حکمران سے یہ قلعہ واپس لے لیا۔ 1843ء میں جب انگریزوں نے سندھ فتح کیا تو یہ قلعہ انگریز سامراج کے قبضے میں چلا گیا۔
محققین کا خیال ہے کہ میاں نورمحمد کلہوڑو نے 1747ء میں اس قدیم قلعے کی مرمت اور نئے سرے سے تزئین نو کا حکم دیا تھا۔ اس تعمیراتی کام کے لیے اردگرد کے علاقے سے اینٹ اور پتھر لاکر قلعے میں لگائے گئے۔ یوں ان میں قلعے کے سامنے بے ترتیبی سے نصب دو ہندی تحریر والے پتھر بھی آگئے، جن پر لکھی تحریر کا قلعے کی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں۔ عمر کوٹ قلعہ اپنی خوبصورتی، بناوٹ اور کشش کی وجہ سے مقبول ہے۔
جودھپور سمیت دیگر شمال مشرقی شہروں سے اونٹوں کے قافلے عمرکوٹ آتے اور یہاں سے اپنی منزل کو جاتے تھے۔ دفاعی نقطہ نظر سے عمر کوٹ قلعے کو ریگستان کی اختتامی لکیر پر بنایا گیا، ایک طرح سے یہ سرحد کا کام دیتا تھا۔ قلعے کی لمبائی تقریباً 946فٹ اور چوڑائی 784فٹ ہے۔ بیرونی فصیل قدرے ترچھی ہے اور اس کی موٹائی 3میٹر ہے۔
مستطیل شکل میں بنے اس قلعے کے چاروں کونوں پر چار گولائی دار برج بنائے گئے تھے، جن میں سے ایک برج کا وجود اب باقی نہیں رہا۔ شہر کی نگرانی کے لیے قلعے کے مرکز میں 110فٹ اونچا برج بنا ہے، جس پر پہنچنے کے لیے تقریباً 60سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں۔ یہاں کھڑے ہوکر مغرب کی جانب ہری بھری فصلیں اور مشرق کی جانب ریت کے ٹیلے دیکھے جاسکتے ہیں۔ کسی زمانے میں اس برج پر 7توپیں نصب تھیں، جن کے لیے مقامی طور پر بارود تیار کیا جاتا تھا۔ تاہم، اب صرف ایک توپ ہی باقی ہے مگر وہ بھی اپنی اصل ہیئت کھو تی جا رہی ہے۔
قلعے کی اندرونی اور بیرونی دیواریں مخروطی ہیں۔ دیواریں مخدوش حالت میں ہیں جبکہ اندرونی حصے کی قدیم تعمیرات کی حالت بھی اچھی نہیں۔ اس کی مشرقی دیوار میں بنے داخلی دروازے کو شاہی دروازہ کہا جاتا ہے۔ داخلی دروازے پر دو برج بنے ہیں، جو گھوڑے کے سموں سے مشابہت رکھتے ہیں۔ قلعے کی بیرونی چہار دیواری17فٹ وسیع ہے، اس کی اونچائی45 فٹ اور دیواروں کی موٹائی 8فٹ ہے۔
محققین کے مطابق ایک زمانے میں دشمن کے حملوں سے تحفظ کے لیے قلعے کے چاروں اطراف خندق موجود تھی مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس کا نام و نشان باقی نہ رہا۔ قلعے کے اندر ایک تالاب بھی تھا جسے غالباً پھانسی گھاٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہ تالاب بند کر دیا گیا۔ شمالی دروازے کے پاس پرساتی پانی کی نکاسی کی نالیاں موجود ہیں، ان کی حالت بھی زیادہ بہتر نہیں ہے۔
عجائب گھر
محکمہ آثار قدیمہ پاکستان نے 1968ء میں عمرکوٹ قلعے کے اندر ایک عجائب گھر قائم کیا۔ اس میں سومرو، مغلیہ، کلہوڑو اور دیگر حکمرانوں کے زیرِ استعمال رہنے والے ہتھیاراور جنگی سازوسامان موجود ہے۔ یہاں مغلیہ ادوار کی تصاویر، تحریریں، زیورات، سکّے، شاہی فرمان، خطاطی کے نمونے، نسخے اور قدیم مجسمے بھی رکھے گئے ہیں۔
شہنشاہ اکبر کی جائے پیدائش
تاریخ کے مطابق شہنشاہ فارس نادر شاہ سے شکست کھانے کے بعد مغل بادشاہ ہمایوں 1542ء میں اپنی زوجہ حمیدہ بانو بیگم کے ساتھ عمر کوٹ آیا، جہاں راجا نے اپنے درباریوں کے ساتھ اس کا استقبال کیا۔ 15اکتوبر1542ء کو عمرکوٹ میں ہی 49سال تک ہندوستان پر حکو مت کرنے والے شہنشاہ اکبر کی ولادت ہوئی۔ اکبر کی جائے پیدائش کے حوالے سے بھی دو متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔
عام خیال یہی ہے کہ اکبر عمرکوٹ قلعے میں پیدا ہوا جبکہ دوسرا خیال یہ ہے کہ اس کی پیدائش شمال کی جانب قلعے سے ڈیڑھ کلو میٹردور ہوئی۔ 1898ء میں شہنشاہ اکبر کی یاد میں مقامی زمیندار سید میر شاہ نے اس کی جائے پیدائش کہلائی جانے والی اس جگہ پر پختہ اینٹوں سے ایک احاطہ سا تعمیرکروایا، جس کے اوپر گنبد نما چھت بنائی گئی۔ اکبر بادشاہ کی جائے پیدائش کے اطراف چھوٹی گڑھیوں کی بنیادوں کے نشانات بھی ملتے ہیں۔ یہ ان سرداروں کی چھوٹی چھوٹی گڑھیاں تھیں، جو وہ اس پایہ تخت کے ارد گرد تعمیر کرواتے تھے۔