• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روبینہ فرید

یہ کائنات ربّ کی تخلیق ہے، جس نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا اور پھر اپنا خلیفہ بنا کر زمین پر اُتارا اور ساتھ ہی تاکید کر دی کہ جو میری آیات کو مانیں گے، ان کا اتباع کریں گے، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا۔ سورۃ الملک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،’’پاک ہے وہ ذات، جس کے ہاتھ میں زمین و آسمان کی سلطنت ہے۔ اسی نے موت و زندگی کو ایجاد کیا تا کہ تمہیں آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔‘‘بے شک انسان کو دی ہوئی اس عارضی و فانی زندگی کا بنیادی مقصد ’’امتحان‘‘ لینا ہے۔ اور اس میں کام یابی کا نتیجہ رضائے الہی کو ہمیشہ کے لیے پاجانا ہے اور یہی وہ’’فوز عظیم‘‘ہے، جس کی ربّ، مومنین کو خوش خبری سُناتا ہے۔ 

درحقیقت، امتحان ہی وہ کسوٹی ہے، جو اہل اور نا اہل کو چھانٹ کر رکھ دیتا ہے۔ انعام جتنا بڑا اور قیمتی ہو، اس کے لیے اتنی ہی محنت کرنی پڑتی ہے اور اتنی ہی قربانی دینی ہوتی ہے۔ ہمیشہ کی زندگی کا سُکھ چین حاصل کرنے، ابدی نعمتیں پانے اور خالقِ کائنات کے نزدیک سُرخ رو ہونے کے لیے بھی اس عارضی زندگی کے امتحان میں کام یابی ضروری ہے۔ اور یہ بات ہمارے ربّ نے ہمیں پہلے ہی بتا دی ہے۔’’ کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیا جائے کہ ہم ایمان لائے اور اسے آزمایا نہ جائے گا؟‘‘ (سورۃ العنکبوت)۔

دعوۂ ایمانی اُس وقت تک معتبر نہیں ہوتا، جب تک عمل کے ذریعے اس کا ثبوت نہ دیا جائے۔ اور یہ ثبوت انسان سے قربانی طلب کرتا ہے۔ کبھی نفسانی خواہشات کی، تو کبھی مال اور جان کی۔ ربّ کے آگے قربانی پیش کرنے کا سلسلہ ہابیل و قابیل سے شروع ہوا اور حضرت ابراہیمؑ کی قربانی کے واقعے میں اپنی کامل شان تک پہنچ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے قربانی کے ہر واقعے میں انسان کو یہ سبق یا د دلایا کہ’’اللہ تعالیٰ متقّین کی( یعنی تقویٰ رکھنے والے) قربانی قبول کرتا ہے۔‘‘ اور تقویٰ رکھنے والے وہ ہوتے ہیں، جن کی اوّل ترجیح، زندگی کا مقصد، محبّت کا مرکز اورحرفِ آخر صرف ان کے ربّ کا فرمان، اُس کی پسند اوراُس کی مرضی ہوتی ہے۔

قرآنِ پاک، حضرت ابراہیم ؑکی زندگی کو مومنین کے لیے ایک مثال کی حیثیت سے پیش کرتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم ؑاپنے ربّ کی حقیقت پاگئے، تو علانیہ اپنی قوم کو اس کی طرف بلانے والے بن گئے، جب ان کے لیے آگ میں ڈالے جانے کی سزا تجویز ہوئی، تو بخوشی اس میں کودنے کے لیے تیار ہوگئے۔ ربّ کا حکم ہوا تو بڑھاپے میں حاصل ہونے والی اولاد اور اپنی بیوی کو ایک ویران صحرا میں چھوڑ آئے اور جب وہ اولاد ہوش سنبھالنے کے قابل ہوئی، تو ربّ کے اشارے پر اس کے گلے پر چُھری پھیرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ قربانی جتنی بڑی تھی ، ربّ نےانعام بھی اُتنا ہی بڑا دیا ۔ 

آپ کی نسل میں سے انبیاء ؑ کا سلسلہ جاری کیا اور قربانی کے عمل کو اُمت ِ مسلمہ پر واجب کر دیا۔ صحابہ کرام ؓ نے ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا،’’یا رسول اللہ ﷺ!یہ قربانی کیا ہے؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا،’’یہ تمہارے باپ ابراہیم ؑ کی سنّت ہے۔‘‘ا س بات میں ہمارے لیے یہ اشارہ پوشیدہ ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی جان، مال، اولاد ، یعنی ہر شے اللہ کی راہ میں پیش کر دی۔ اِسی طرح ہم بھی اپنے ربّ کی رضا پانے کے لیے اپنا سب کچھ پیش کرنے والے بن جائیں۔

اللہ تعالیٰ نےقربانی کےاس عمل کو ایک ظاہری صُورت عطا کرکے ہر سال دہرانے کا حکم بھی اِسی لیے دیا کہ بندہ ٔمومن خود کو یاد دلاتا رہے کہ میرا سب کچھ میرے ربّ کا ہے۔ اور جانور پر چُھری چلانے سے پہلے اپنے نفس کی ان خواہشات پر چُھری چلائے، جو اس کے ربّ کی مرضی کے خلاف ہوں۔

اپنی زندگی کو ربّ کی مرضی کا تابع بنا لینا ہی دراصل تقویٰ ہے ۔ سورۃالحج میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’اللہ کے پاس اس قربانی کا گوشت اور خون ہرگز نہیں پہنچتا، بلکہ اس کے پاس تمہاری پرہیز گاری پہنچتی ہے۔‘‘دراصل پہلے زمانے میں اللہ کے نام پر کی جانے والی قربانی کے گوشت کا خود استعمال منع تھا، لیکن یہ اللہ کی اُمت ِمسلمہ پر رحمت ہے کہ اس نے قربانی کے گوشت کا خود کھانا بھی جائز قرار دیا، لیکن ساتھ ہی اس میں رشتے داروں اور مساکین کا بھی حصّہ رکھا۔ اگر مسلمان اللہ کی پسند مقدّم رکھنے والا ہو، تو وہ جہاں اللہ کے حقوق بہترین شکل میں ادا کرنے کی کوشش کرے گا، وہیں حقوق العباد بھی بہترین انداز میں نبھانے والا ہوگا۔

وہ ’’خیر الناس‘‘ بننے کے شوق میں دوسروں کے زیادہ سے زیادہ کام آنے کی کوشش کرے گا۔اپنے حقوق حاصل کرنے سے زیادہ اپنے فرائض ادا کرنے کی فکر کرے گا،امانت داری، ایفائے عہد، سچ، ایثار اور مساکین کی مدد کو اپنا شعائر بنائے گا۔لوگوں سے بدلہ لے کر نہیں، انہیں معاف کرکے خوش ہوگا۔کسی کا حق مارنے کی نہیں ، بلکہ حق سے زیادہ دینے کی فکر کرے گا۔ وہ یہ بات یاد رکھے گا کہ جب اللہ، مالِ حرام کی قربانی قبول نہیں کرتا، تو مالِ حرام کی زندگی کیسے قبول کرے گا؟

ہر سال عیدالاضحی کے موقعے پرقربانی کی سنّت ادا کرتے ہوئے ہمیں جہاں اللہ تعالیٰ کا شُکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے ہمیں اُمتِ مسلمہ میں شامل ہونے کا شرف عطا کیا، وہیں اپنے ایمان کا اعادہ کرتے ہوئے یہ عہد کرنا چاہیے کہ محض قربانی کے جانور کا رُخ ہی کعبے کی سمت نہیں پھیرنا، بلکہ اپنے ہر عمل اور خواہش کا رُخ بھی ربِ رحمان کی مرضی کی سمت پھیر لینا ہے، تاکہ ہم اس کے دیے ہوئے امتحان میں کام یابی حاصل کر سکیں ۔

تازہ ترین