• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی ہو یا کاروبار یہ اصول آپ کی کامیابی کی راہ متعین کرسکتے ہیں

زندگی میں کامیابی حاصل کرنا آسان کام نہیں۔ زندگی جہدِ مسلسل کا نام ہے اور مقاصد اور اہداف کے حصول کے لیے انسان کو غیر متزلزل اور مسلسل محنت، لگن اور ناقابلِ شکست جذبہ کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے۔ دنیا میں ہمارے سامنے ایسی کئی مثالیں موجود ہیں، جہاں لوگوں نے جہدِ مسلسل کے ذریعے اپنی زندگی میں عظیم سے عظیم تر کامیابیاں سمیٹی ہیں۔

ایسی ہی شخصیات میں ایک نام ہالی ووڈ کے شہرہ آفاق اداکار آرنلڈ شیوازینیگر کا بھی ہے۔

مسٹر یونیورس، مسٹر اولمپیا، دی ٹرمینیٹر، دی لاسٹ ایکشن ہیرو، گورنر شیوازینیگر، دنیا انھیں کئی ناموں سے جانتی ہے اور باڈی بلڈر، ایکٹر، بزنس مین، سرمایہ کار، انسان دوست اور سیاستدان، دنیا نے انھیں کئی کرداروں میں دیکھا ہے۔اب انھوں نے یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا میں ’دی شیوازینیگر انسٹی ٹیوٹ‘ قائم کیا ہے، جہاں وہ عالمی ماحولیاتی مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

آخر آرنلڈ کی کامیابیوں کا کیا راز ہے؟ یقیناً، ہر کوئی یہ جاننا چاہتا ہے۔ اس سوال کا جواب انھوں نے یونیورسٹی آف ہیوسٹن میں اپنی تقریر میں بڑی تفصیل سے دیا ہے۔ ’میں نے زندگی ہمیشہ اپنے اصولوں پر گزاری ہے اور اپنے اصولوں پر لڑتا رہا ہوں‘، تقریر کے دوران ان کا کہنا تھا۔

آپ بھی آرنلڈ شیوازینیگر کے متعین کردہ ان اصولوں پر عمل کرکے زندگی میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔

آپ کا وژن کیا ہے؟

’ اگر آپ کے پاس کوئی وژن ہوگا تو زندگی میں آپ جو کام بھی کریں گے وہ آپ کو اپنے وژن کے ایک قدم اور قریب لے جائے گا‘۔

آپ زندگی میں کہیں کے نہیں رہیں گے اگر آپ کے پاس کوئی وژن نہیں ہوگا۔ وژن کے بغیر انسان اس کشتی کی طرح ہوتا ہے، جو سمندر میں بے سمت بھٹکتی رہتی ہے اور کبھی منزل پر نہیں پہنچتی۔

آرنلڈ شیوازینیگر کو دوسری جنگِ عظیم کے بعد اچھی طرح معلوم ہوچکا تھا کہ وہ اپنا ملک مقبوضہ آسٹریا چھوڑکر مواقع کی سرزمین امریکا جانا چاہتے تھے۔ خوش قسمتی سے انھیں باڈی بلڈر اور کامیاب بزنس مین ریج پارک کی صورت میں اپنی زندگی کا بلیو پرنٹ نظر آگیا اور انہی سے زندگی میں آگے بڑھنے کا ولولہ لیا۔ ’اگر آپ کے پاس کوئی وژن نہیں ہے، اگر آپ کے پاس زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے، اگر آپ اپنے مستقبل کو اپنی آنکھوں کے سامنے نہیں دیکھ سکتے، تو پھر آپ کی زندگی کا ہر دن زندگی سے لڑتے گزرے گا‘، وہ کہتے ہیں۔

خود پر اعتماد کریں

’آپ خود پر بھروسا کریں، چاہے لوگ آپ کے بارے میں کچھ بھی سوچتے ہوں‘۔

زندگی میں وہ کام کریں، جنھیں کرنے میں آپ جوش اور خوشی محسوس کریں۔ ساتھ ہی، آپ کو یہ یقین بھی ہونا چاہیے کہ اگر آپ یہ سب اپنی خوشی کے لیے کرتے رہے تو بہت جلد آپ اچھے مقام پر پہنچ جائیں  گے۔

وسیع النظری پیدا کریں

’زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ آپ کی چھوٹی سوچ ہوتی ہے‘۔

اکثر ہم سوچتے ہیں کہ ہم تو عاجزی دِکھارہے ہیں یا پھر ہمیں اپنی حدود کا اندازہ ہے، تاہم دراصل یہی سوچ ہم پر غیرضروری قدغنیں لگانے کا باعث بنتی ہے۔ کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو اپنے ذہن میں خود ساختہ پیدا کردہ ہر دیوار کو گِرا دیں۔ آرنلڈ کہتے ہیں کہ، ان کا ہدف صرف فلموں میں آنا نہیں بلکہ اسٹار بننا تھا۔ اسی طرح سیاست کے میدان میں انھوں نے محض سٹی کونسلر یا میئر بننے کے لیے قدم نہیں رکھا تھا۔ 

وہ گورنر بننا چاہتے تھے۔ مزید برآں، وہ کوئی عام گورنر نہیں بننا چاہتے تھے، بلکہ ان کاہدف دنیا کی 8ویں بڑی معیشت کا گورنر بننا تھا۔ اگر آپ کوئی کام کررہے ہیں اور اسے کرنا ہی ہے تو پھر ٹھیک سے کرنا ہی واحد طریقہ ہونا چاہیے۔ ایک چھوٹا مقصد حاصل کرنے اور ایک بڑا خواب دیکھنے پر اتنی ہی توانائی خرچ ہوتی ہے۔

اپنے اصول متعین کریں

اپنے اصول متعین کرنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ مروجہ اصولوں یا قوانین کو روند ڈالیں۔ اس کے برعکس اس کا مطلب یہ ہے کہ بھیڑ چال کا شکار ہونے کے بجائے اپنے اندر کی آواز سُنیں کہ آپ جو کررہے ہیں وہ ٹھیک ہے یا نہیں۔ یہ بات آپ کے کاروبار اور آپ کے کیریئر پر بھی لاگو ہوتی ہے۔جو فیصلے آپ اندر کی آواز سُن کر لیتے ہیں، اکثر وہی فیصلے معاشرے کو آگے لے جانے اور جدت کا باعث بنتے ہیں۔

ہدف پر نظر رکھیں، رکاوٹوں کو نظرانداز کریں 

نیلسن منڈیلا نے کہا تھا، ’لوگ ہمیشہ یہی سوچتے رہتے ہیں کہ یہ ناممکن ہے، اور پھر کوئی اسے کرڈالتا ہے‘۔

جب آپ بڑے خواب دیکھتے ہیں تو یہ فطری ہے کہ لوگ آپ کو پاگل یا بے وقوف کہیں گے، آپ انھیں نظرانداز کریں۔ ’سوچیں، اگر میں نے خود پر تنقید کرنے والوں کو سُنا ہوتا تو کتنی بار میرا کیریئر ختم ہوچکا تھا۔ باڈی بلڈنگ چیمپئن؟ نہیں آرنلڈ تم یہ نہیں کرسکتے۔ مووی اسٹار؟ آرنلڈ، کم آن! اپنی باڈی تو دیکھو، تم نے اسے ضرورت سے زیادہ بھاری بنا دیا ہے، مووی اسٹارز کی باڈی ایسی نہیں ہوتی، اور پھر تمہارا لہجہ، اس لہجے کے ساتھ ہالی ووڈ میں کوئی بھی بڑا اسٹار نہیں بن سکتا‘۔ وہ جب اپنے خلاف ایسی تنقید سُنتے تو سوچتے کہ اپنے ناقدین کو ہر بار غلط ثابت کرنا کس قدر بہترین احساس ہوتا ہے۔

جہدِ مسلسل

’آپ اپنی جیب میں ہاتھ ڈالے کامیابی کی سیڑھی نہیں چڑھ سکتے۔ اگر آپ جیتنا چاہتے ہیں تو کوئی راستہ ایسا نہیں ہے جو محنت کیے بغیر آپ کو منزل پر پہنچادے۔ محنت کے بغیر آپ کے اصول آپ کو کامیابی نہیں دِلوا سکتے‘۔

محنت سے بھاگنے کا کوئی عذر نہیں ہے۔ ’میں صرف اس بات سے ڈرتا تھا کہ بعد میں مجھے خود سے کبھی یہ نہ کہنا پڑے کہ میں باڈی بلڈنگ مقابلہ یا الیکشن اس لیے ہار گیا، کیونکہ میں نے محنت نہیں کی تھی‘۔ کیا آپ محنت نہ کرپانے کی وجہ وقت کی کمی کو گردانتے ہیں؟ ایک دن میں 24 گھنٹے ہوتے ہیں۔ 

ان 24 گھنٹوں میں آرنلڈ اینٹوں کی چُنائی کا کاروبار چلاتے تھے، جِم جاتے تھے، اداکاری سیکھنے کی کلاسیں لیتے تھے، شام میں بزنس اسکول جاتے تھے اور سونے کے لیے 6 گھنٹے بھی نکال لیتے تھے۔ اس سلسلے میں وہ اکثر سی این این کے ٹیڈ ٹرنر کی کہی ہوئی یہ بات دُہراتے ہیں، جس کا انگریزی ترجمہ ہے، ’’رات میں جلدی بستر میں جانا، صبح جلدی اُٹھ جانا، محنت سے کام کرنا اور پھر اس کی خوب تشہیر کرنا‘‘۔

اپنی دنیا بدلنا چاہتے ہیں، دینا سیکھیں 

’ہم سب جانتے ہیں کہ آخر میں ہم اس بات سے نہیں پہچانے جائیں گے کہ ہم نے کیا بنایا ہے بلکہ اس بات سے کہ ہم نے دنیا کو کیا دیا ہے‘۔

آرنلڈ کہتے ہیں کہ وہ آج جو کچھ بھی ہیں، اس کی وجہ امریکا ہے۔ ’آپ اور دنیا کے درمیان حائل آئینے کو توڑ ڈالیں (جس میں آپ صرف خود کو ہی دیکھتے ہیں) اور پھر آپ کو نظر آئے گا کہ لاکھوں لوگوں کو آپ کی مدد کی ضرورت ہے‘۔ یہ بات آرنلڈ کے سسر رابرٹ سارجنٹ شرائیور نے کہی تھی، جس نے آرنلڈ کو بہت متاثر کیا۔اور یہی بات وجہ بنی ان کے جارج بش سینئر کے ساتھ مل کر امریکا بھر میں صحت اور فٹنس کو فروغ دینے اور انسان دوست کام انجام دینے کی۔ 

وہ آفٹر اسکول پروگرامز اور اسپیشل اولمپکس کےلیے بھی کام کرتے رہے ہیں۔ البتہ وہ اس سے بڑھ کر کرنے کے خواہش مند تھے، اس لیے 2003 میں اپنے مووی کیریئر کو خیرباد کہہ کر انھوں نے کیلی فورنیا کے گورنر کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ ’وہ 7 سال میری زندگی کا سب سے زیادہ پُرجوش، فائدہ منداور سب سے زیادہ اطمینان بخش دور تھا‘۔ اس کے علاوہ وہ ’ریجنز 20‘ آرگنائزیشن اور شیوازینیگر انسٹی ٹیوٹ، یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا کے ذریعے سماجی اور ماحولیاتی مسائل پر بھی کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ’اگر میں نہیں تو کون؟ اگر ابھی نہیں تو کب‘؟(میخائل گورباچوف)۔