• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب کے بیس حلقوں میں ضمنی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال کے علاوہ آنے والے حالات و واقعات پر ان کے یادگار اثرات مرتب ہوں گے ۔ پنجاب کی موجودہ حکومت کو اقتدار میں رہنے کیلئے ان انتخابات میں کامیابی درکار ہے ۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے پاس ان میں کامیاب ہوتے ہوئے نہ صرف صوبائی بندوبست کو الٹنے بلکہ اسلام آباد میں قائم حکومت کے پاؤں تلے سے زمین سرکانے کا موقع بھی ہے ۔ صورت حال کہیں زیادہ گمبھیر رُخ اختیار کرسکتی ہے اگر ، جیسا کہ خدشہ محسوس کیا جارہا ہے ، انتخابی نتائج کو دھاندلی سے تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی۔

مرکز اور پنجاب میں حکومتیں مسلط کرنے کیلئے اختیار کیا گیا ایک مشترکہ طریق کار انسانی ضمیر کی خریدو فروخت تھی۔ صوبے میں غیر قانونی اور غیر آئینی حکومت سازی کے لیے تحریک انصاف کے وفاداری تبدیل کرنے والے بیس اراکین کے ووٹ حاصل کئے گئے ۔ جب سپریم کورٹ نے ایسی رائے شماری کے بارے میں کہا کہ اگر اور جب ووٹ ڈالے جائیں گے تو انہیں نہ گنا جائے اور ایسے اراکین اپنی اسمبلی کی نشستوں سے محروم ہوجائیں گے ، تو حکومت اپنی مصنوعی اکثریت کھو بیٹھی ۔ آئینی طور پر اسے چلتا کیا جانا چاہئے تھا۔ لیکن معاون عوامل کی وجہ سے اسے ضمنی انتخابات تک سانس لینے کی مہلت مل گئی ۔ یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ پنجاب کی صوبائی حکومت کے مستقبل کا دارومدار ان انتخابات کے نتائج پر ہے ۔ پنجاب حکومت اگرنہ بچی تو اس غیر آئینی حکومت کے بھی پرزے بکھر سکتے ہیں ۔ اس لئے ان ضمنی انتخابات کی اہمیت اظہر من الشمس ہے۔

صوبے میں انتخابی عمل کو یرغمال بنانے کی کارروائی کا آغاز ہوچکا ۔تمام تر ریاستی مشینری استعمال کرتے ہوئے تحریکِ انصاف کے رائے دہندگان پر دبائو ڈالا جارہا ہے ۔ ان کے خلاف مقدمات درج کئے جارہے ہیں، حتیٰ کے گرفتار بھی کیا جارہا ہے ۔ اس میں پرکشش ترغیبات سے رائے دہندگان کو ورغلانے کی کوشش بھی شامل ہے ۔ تحریکِ انصاف کے اراکین اور حامیوں کی انتخابی فہرستوں میں گربڑ کی جارہی ہے ۔ انھیں شناختی کارڈ پر درج پتوں سے دور جگہوں پر منتقل کیا جارہا ہے ۔ ایسی کارروائیاں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے زیر اختیار انتظامی مشینری کے منفی استعمال کے مترادف ہیں ۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان صوبے میں جہاں کہیں بھی گئے ان کے جلسوں میں ہجوم کی تعداد ہر آن بڑھ رہی ہے۔ شکست کے خطرے کو بھانپتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے بعض وفاقی اور صوبائی وزرانے انتخابی مہم کو تیز تر کرنے کے لیے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اس سے موجودہ صوبائی حکومت کی گھبراہٹ کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ اپنے طاقت کے مرکز کو ہاتھ سے نکلتا دیکھ کرغیر آئینی اور غیر قانونی ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے ۔

جس دوران تمام آزاد مبصرین تحریک انصاف کی بھاری کامیابی کی پیش گوئی کررہے ہیں،ایک بھیانک تصویر بھی پیش کی جارہی ہے کہ اگر ہیراپھیری سے فتح چرا لی گئی تو اس کا انجام کیا ہوگا۔ ایسی صورتِ حال پیدا ہونے کے ممکنہ آپشنز کیا ہیں ؟ اس اشتعال کو کیسے قابو کیا جا ئے گا جو نہ صرف لوگوں کی بڑی تعداد بلکہ انتخابی مہم میں پی ٹی آئی کے تمام جلسوں میں دکھائی دینے والے غیر معمولی جذبے کے پیش نظر ابھر سکتا ہے۔ کیا ان جذبات کو پرتشدد ہونے سے روکا جاسکے گا؟ ایک بار جب یہ بڑھتا ہے، تو کیا پارٹی قیادت بھی اس بہتے ہوئے لاوے کے آگے بند باندھ سکے گی؟ اس صورت میں پورے پاکستان میں ناقابلِ تلافی تشدد کی لہر ابھرنے کا حقیقی خطرہ موجود ہے۔ لہٰذا صوبے کی حکومت اور اس کے پروموٹرز صورت حال پر پوری توجہ دیں ، قبل اس کے کہ وہ مایوسی کے عالم میں ہر قیمت پر ضمنی انتخابات جیتنے پر تل جائیں، غیر قانونی، غیر منصفانہ اور غیر آئینی طریقوں کے استعمال سے حاصل کی گئی جیت ملک میں افراتفری پھیلا سکتی ہے۔ لیکن کیا مایوسی اتنی شدید ہے کہ اس طرح کے خدشات کو خاطر میں نہ لایا جائے ، یا انھیں بے بنیاد کہہ کر جھٹک دیا جائے؟ضمنی انتخابات کے سلسلے میں خان صاحب جہاں بھی طوفانی دورے پر گئے وہاں عوامی جذبات دیکھنے کو ملے ہیں۔ حاضرین کی تعداد کے سامنے وسیع و عریض جگہیں چھوٹی پڑ گئیں ۔ وہ حاضرین جو پر اعتماد آواز سننے آئے تھے ۔ وہ آواز جس نے نہ صرف انھیںخوف کے عفریت سے نجات دلائی بلکہ اس نے ان کی خاموشی کو بھی توڑدیا ۔ ہر طبقے اور ہر گروہ کی جانب سے یہی آواز آرہی ہے ۔وہ آواز جو لوگوں کو اپنے ملک کی آزادی واپس دلانے اور ان کی عزتِ نفس کو بحال کرنے کے مشترکہ مقصد پر جمع کررہی ہے۔ انتخابات قریب آنے سے اس آواز کی گونج بلند ہوتی جارہی ہے۔ اس کا آہنگ دبنگ ہوتا جارہا ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ سبھی عہدے دار اور ان کے سہولت کار پورے ملک کے ماحول سے بخوبی واقف ہیں۔ایک چھوٹی سی چنگاری بھی اسے جوالہ مکھی بنا دے گی۔

اس سے صرف اس صورت میں بچا جا سکتا ہے جب دلیل اور یقین کی اس آواز کو نظر انداز نہ کیا جائے اور انتخابی عمل سے چھیڑ چھاڑ سے گریز کیا جائے۔ ووٹ چوری ہونے کی صورت میں افراتفری اور تشدد کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ خان ایک ناقابلِ یقین حد تک مضبوط چیلنج ثابت ہوا ہے۔ اس سے کہیں زیادہ جتنا کہ سمجھا گیا تھا۔ پرامن مستقبل کی طرف بڑھنے کا واحد راستہ مداخلت سے پاک انتخابی عمل کو یقینی بنانا ہے ۔ لیکن اگر چوری شدہ ووٹ کے ذریعے ایک مصنوعی عملداری مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو لامحالہ چنگاری بھڑک اٹھے گی جس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔انقلاب زندہ باد!

تازہ ترین