سمندروں میں مچھلی کے ذخائر میں کمی ایک عالمی مسئلہ ہے۔ گزشتہ پانچ دہائیوں میں دنیا بھر میں سالمن، خارماہی، سارڈین اور کوڈ مچھلی کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق عالمی سطح پر، ہر سال سمندروں سے 10کروڑ ٹن سے زائد مچھلیاں پکڑی جاتی ہیں، جن کا وزن 10کروڑ گائےکے وزن کے برابر ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن (ایف اے او) کے مطابق دنیا میں مچھلیوں کے 34فیصد ذخائر میں ضرورت سے زیادہ شکار کیا جاتا ہے۔ لیکن گلوبل فش انڈیکس سمیت دیگر تنظیموں کا اندازہ ہے کہ سمندری مچھلیوں کے تقریباً نصف ذخیرے کا زیادہ استحصال کیا جاتا ہے۔
یہ کمی جزوی طور پر اس وجہ سے ہے کہ ہم فطرت کی کس طرح قدر کرتے ہیں یا پھر قدر ہی نہیں کرتے۔ فطرت کی جانب سے فراہم کردہ اشیا اور خدمات کا نامناسب تخمینہ لگانا، ایک بنیادی وجہ ہے کہ ہم بڑے پیمانے پر سمندر اور ماحول کی اچھی دیکھ بھال کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ لامحدود مچھلیوں کو حاصل کرنے کی انسانیت کی صلاحیت کو کمزور کر رہا ہے اور ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ایک صحت مند سمندر فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی کا سمندروں اور ماہی گیری کو متاثر کرنا
ماحولیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل کی ایک حالیہ رپورٹ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی سمندروں، مچھلیوں کے ذخیرے اور ماہی گیری کو سمندر کی گرمی، سمندری برف کی کمی، سمندر میں تیزابیت، ہیٹ ویوز، سمندری ڈی آکسی جنیشن اور دیگر انتہائی موسمی واقعات کے ذریعے متاثر کر رہی ہے۔ گرمی کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات ہماری ماہی گیری پر بھی نظر آتے ہیں۔
دنیا بھر میں مچھلی کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو گرم پانی میں رہنے کو ترجیح دیتی ہے۔ کینیڈا کے مغربی ساحل کے ساتھ پکڑی جانے والی مچھلیوں کی انواع میں اس طرح کی تبدیلیوں کی پیمائش کرنے کے لیے ’کیچ کا اوسط درجہ حرارت‘ نامی ایک انڈیکس لاگو کیا گیا، اور پتہ چلا کہ اس خطے میں 1961ء سے 2016ء تک گرم پانی کی انواع کی پکڑ میں اضافہ ہوا ہے۔
درست قیمت
جب مچھلی کی بات آتی ہے، تو کچھ ماہرین اقتصادیات کہتے ہیں کہ اگر ہم صرف ’درست قیمت‘ حاصل کر لیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ قدر و قیمت کا صحیح اندازہ لگانے سے ہم فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہوں گے۔ مچھلی کی درست قیمت کا تعین کرنے سے معاشروں کو سمندر کے بہت سے حصوں میں بہت جلد، بہت زیادہ مچھلیوں کے سمندر کو ختم کرنے کی طویل مدتی لاگت کا اندازہ لگانے میں مدد ملے گی۔
سمندری ماہی گیری دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کی روزی روٹی کے لیے بہت ضروری ہے۔ وہ بلواسطہ اور بلاواسطہ سمندری خوارک فراہم کرنے کے ذریعے اربوں لوگوں کی خوراک اور غذائی تحفظ میں حصہ ڈالتے ہیں، اس کے ساتھ ہی لاکھوں ملازمتیں اور آمدنی پیدا کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ بالخصوص دنیا کے کم ترقی یافتہ ساحلی ممالک میں جہاں سمندر لوگوں کی خوراک کے لیے جانداروں کی پروٹین کا 20 فیصد تک سپلائی کرتا ہے۔
جنگلی مچھلیوں کا ذخیرہ ایک قابل تجدید وسیلہ ہے، جس کا اگر دانشمندی سے استعمال کیا جائے تو یہ لوگوں کو ہمیشہ کے لیے خوراک اور ذریعہ معاش فراہم کرسکتا ہے۔ ریاضی کے لحاظ سے کوئی بھی چیز جو مثبت فائدہ فراہم کرتی رہتی ہے، چاہے وہ کتنی ہی چھوٹی ہو، لامحدودیت میں اضافہ کرے گی۔
کوئی بھی شخص سمندر کو مردہ دیکھنا نہیں چاہتا۔ اس سے بچنے کے لیے ہمیں ’انفینٹی فش‘ جیسی سوچ اختیار کرنے کی ضرورت ہے جیسے کہ مارکیٹ میں جو کچھ فروخت کیا جاتا ہے، اس سے بڑھ کر سمندر کے فوائد کی مکمل رینج کا ایک مناسب اور مکمل اندازہ لگانا ( سمندری خوراک، کاربن کی تلاش، تفریح، ثقافت، گرمی جذب کرنا)۔
فطرت کو نظر انداز کرنا
معاشیات کے لیے ایک اہم چیلنج یہ ہے کہ سمندری ماحولیاتی نظام سے حاصل ہونے والے فوائد کو ایک جامع انداز میں کیسے ویلیو کیا جائے اور وہ بھی اس طریقے سے جو کہ ان کی طویل مدتی متنوع اقدار کو حاصل کرے۔ اگر ہم لامحدود تعداد میں مچھلی حاصل کرنے کا کوئی موقع چاہتے ہیں تو ہمیں اس چیلنج کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
لامحدود تعداد میں مچھلی کو حاصل کرنے میں ایک اہم رکاوٹ یہ ہے کہ بحیثیت انسان، ہم اپنے قریب کی کسی بھی چیز کو (عارضی اور مکانی طور پر) بڑا اور انتہائی اہم دیکھتے ہیں جبکہ ہم دور کی کسی بھی چیز کو بہت کم یا کوئی اہمیت نہیں دیتے ہیں۔ یہ رجحان، جسے جزوی طور پر رعایت کے معاشی تصور نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، فطرت کے ساتھ ہم آہنگی میں زندگی گزارنے کی ہماری صلاحیت میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
بنیادی طور پر، فطرت کو نظر انداز کرنادرحقیقت مستقبل میں حاصل ہونے والے فوائد کو اس کی آج کی قدر تک کم کر دیتا ہے، جس کے نتیجے میں یہ ہمیں اپنے فوائد کو تقسیم یا مختص اور اخراجات کو کم کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ رجحان جزوی طور پر اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ کیوں ہم حیاتیاتی تنوع سے زیادہ فائدہ اٹھاتے اور خاص طور پر سمندری مچھلیوں کے ذخیرے کو ختم کرتے رہتے ہیں۔
جزوی طور پر یہ بھی بتاتا ہے کہ ہم کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پلاسٹک سے ماحول کو آلودہ کیوں کرتے رہتے ہیں۔ ایک بار جب افراد، کمیونٹیز اور معاشرے حقیقی اقدار کا حساب لگائیں گے، تو ہم ان رہنما اصولوں کو تیار کر سکیں گے جن کی ہمیں فطرت کے ساتھ ہم آہنگی میں رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہمیں تحریک دے گا:
٭ مچھلی کے ذخائر کو مؤثر طریقے سے منظم کرنا
٭ ضرورت سے زیادہ ماہی گیری کرنے والوں سے نمٹنا
٭ نقصان دہ ماہی گیری سبسڈی کو ختم یا ری ڈائریکٹ کرنا
٭ ختم ہوتی مچھلیوں کی نسل کے ذخیرے کو دوبارہ بنانا اور بحال کرنا
٭ تیل کے رساؤ اور سمندری پلاسٹک کی آلودگی سے بچنا
٭ مچھلی پکڑنے کی غیر ممنوع اور غیرقانونی تجارت کو ختم کرنا
٭ ماہی گیری کے لیے کھلے سمندروں (قومی دائرہ اختیار سے باہر کے علاقے) کو بند کرنا
٭ ماحولیاتی تبدیلی کو بحران کے طور پر دیکھنا
بالآخر، ہمیں نقصان دہ پالیسیوں سے بچنے کی ضرورت ہے جو فطرت کے خلاف لوگوں کے منفی اقدامات کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں، جیسے کہ عالمی ماہی گیری کی 80 فیصد سے زیادہ سبسڈی لارج اسکیل صنعتی ماہی گیری کے بیڑے کو دینا، جس سے چھوٹے پیمانے پر ساحلی ماہی گیروں (بشمول کاریگری اور خوراک کے لیے کی جانے والی ماہی گیری) کو نقصان پہنچتا ہے۔
مستقبل کی نسلیں
سمندر سے عمدہ چیزیں آتی ہیں اور بُری چیزیں سمندر میں چلی جاتی ہیں۔ لوگ سمندر سے اپنی ضرورت کی چیزیں حاصل کرلیتے ہیں اور پھر یہ چیزیں ہمارے معاشی، ثقافتی اور سماجی نظاموں میں شامل ہوجاتی ہیں۔ بدلے میں ہم بہت سا فضلہ پیدا کرتے ہیں بشمول گرین ہاؤس گیسز، جو سمندر سے جذب ہوتیں اور اس کی سطح کے درجہ حرارت میں اضافہ کرتیں، اس کی سطح کو بلند کرتیں اور سمندر کی تیزابیت کو بڑھاتی ہیں جبکہ دیگر منفی اثرات ان کے علاوہ ہیں۔
واضح طور پر، ہمیں سمندر سے عمدہ چیزوں کو زیادہ دانشمندی سے اور فطرت کی حدود میں رہتے ہوئے حاصل کرنا چاہیے، جبکہ سمندر تک پہنچنے والی آلودگی کو کم سے کم حد تک کم کرنا چاہیے۔ ہمیں یہ بھی یقینی بنانا چاہیے کہ ہم جو کچھ سمندر سے نکالتے ہیں اس کا استعمال زیادہ سے زیادہ لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کیا جائے، خاص طور پر معاشرے کے سب سے زیادہ کمزور طبقے کے لیے۔ لامحدود مچھلیاں حاصل کرنے کے لیے ہمیں ایک بین الضابطہ نقطہ نظر کی ضرورت ہے، جس کی بنیاد شراکت داری پر رکھی گئی ہے جو سائنسدانوں، مقامی لوگوں، حکومتوں، کاروبار، این جی اوز اور سول سوسائٹی کو مل کر حل تخلیق کرنے کی اجازت دیتی ہے۔
سمندر بہت بڑا ہے، یہ زمین کی سطح کے 70 فیصد کا احاطہ کرتا ہے۔ لیکن یہ اتنا بڑا بھی نہیں ہے کہ اس کی حفاظت ہی نہ کی جاسکے۔ اس کے لیے ہمارے پاس دماغ اور دل میں ہمدردی ہونا ضروری ہے، جو اجتماعی طور پر ہماری آنے والی نسلوں کے لیے لامحدود مچھلیوں کے حصول کو یقینی بنائے۔ ہمیں صرف اپنی اقدار اور قدروں کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔