آپ نے نسیم حجازی کا ناول ’’انسان اور دیوتا‘‘ تو پڑھا ہو گا۔ راجہ کا سیناپتی سکھدیو جو نیچی ذات والوں کی بستیاں خاک وخون میں نہلانے کا عزم لے کر دریا پار کرتا ہے مگر ان کے حسن سلوک سے متاثر ہوجاتا ہے۔سکھدیو پیدا تو ان نظریات کے ساتھ ہوا تھا کہ یہ نیچی ذات والے شودرجانوروں سے بھی بدتر ہیں مگر اسے سردار ساون کی بیٹی کنول سے پیار ہو جاتا ہے۔ یہ دونوں یہاں سے نکل کر راوی کنارے چرواہوں کی ایک بستی میں آباد ہو جاتے ہیں۔ بستی کا نیا سردار رامو جو انتہائی چالاک شخص ہے، ایک روز اسے یہ خیال سوجھتا ہے کہ نیچی ذات والوں اور اونچے سماج والوں کے درمیان دیوتائوں اور دیویوں کا فرق حائل ہے۔ ان کے پاس طاقتور دیوتا ہیں جن کی وہ پوجا کرتے ہیں۔ یہ دیوتا انہیں چھوت چھات کا درس دیتے ہیں۔ ان کی تعلیمات کے سبب برہمن نفرت سے پیش آتے ہیں ،ہماری زمینیں چھین لیتے ہیں، ہم پر ظلم و ستم ڈھاتے ہیں۔اگر ہم بھی پتھروں سے مورتیاں تراش کر دیوتا بنالیں، ان کی پوجا کرنا شروع کردیں تو رفتہ رفتہ وہ بھی ہمارے دیوتائوں سے ڈرنے لگیں گے۔ ہم ان اونچی ذات والوں کو اچھوت قرار دے دیں گے، جو کچھ وہ ہمارے ساتھ کرتے رہے ہیں، وہی سلوک ہم ان کے ساتھ روا رکھیں گے اور جب یہ سب دیویوں اور دیوتائوں کے نام پر ہورہا ہوگا تو کوئی اس کی مخالفت نہیں کرسکے گا۔
میں نے یہ ناول بچپن میں پڑھا تو یہی سوچا کہ پرانے زمانے کی باتیں ہیں، اب دیوتا توکیا ان کے اوتار بھی دکھائی نہیں دیتے۔ لیکن پھر دیکھتے ہی دیکھتے پجاریوں نے ایک دلکش اور خوبصورت بت بنایا ۔جب یہ مورتی بنائی جارہی تھی تو کئی لوگوں نے مذاق اُڑایا اور کہا کہ اس سے پہلے کئی بار دیوتا، مسیحا اور نجات دہندہ کے نام پر قوم کو بیوقوف بنایا گیا ہے، اس بار یہ فریب کاری کامیاب نہیں ہو گی۔ مگر نہایت عرق ریزی سے اس دیوتا کے خد و خال سنوارے گئے۔ پہلے پہل ایک پروہت گل آفریں نے کسی ماہر سنگ تراش کی طرح قومی ہیرو جیسی مورتی متعارف کروائی ۔پھر ایک اور پنڈت پاشا نے اسے دیوتا کے روپ میں پیش کیا۔ اہتمام کیا گیا کہ بڑے بڑے پجاری اس دیوتاکی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوں، اس کی دہلیز پر ماتھا ٹیکیں اور بھینٹ چڑھائیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس دیوتا کے چرچے ہونے لگے۔ لوگوں کو امید کی کرن دکھائی دی اور محسوس ہوا کہ یہ شخص ہمارا نجات دہندہ بن سکتا ہے۔ عام آدمی کو باور کروایا گیا کہ تمہارے ملک پر جو راجے مہاراجے حکمرانوں کی شکل میں قابض ہیں، یہی تمہارے سب سے بڑے دشمن ہیں۔یہاں بھوک اور افلاس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پیٹ نہیں بھرتے۔ یہ سب کچھ لوٹ کر کھا جاتے ہیں۔ پھر ایک نئے پجاری سدھیر کی آمد ہوئی تو دیوتا کے چرن چھونے والوں کی بھیڑ لگ گئی۔ قوم کو یہ مژدہ جانفزا سنایا گیا کہ بس اب ابتلا و آزمائش کا دور ختم ہونے کو ہے ،نقش کہن مٹ رہا ہے، سب کچھ چھوڑ کر ،ہر شے تیاگ کر اس دیوتا کے چرنوںمیں آ جائو۔ دیوتا کا طلسم روز بروز بڑھتا چلا گیا۔ عوام کی طاقت کے بل پراِترانے والے راجوں مہاراجوں کو معلوم ہی نہ ہوسکا کہ زمانہ قیامت کی چال چل چکا ہے۔ بالعموم کہا جاتا ہے کہ ’’ہاں کیوں نہ ہوں مورکھوں کے دیوتا غالب،ہیں بائولے گائوں اونٹ بھی پرمیشر۔‘‘ کیونکہ پتھر کے تراشے ہوئے ایسے عجیب و غریب بت دیوتا بناکر پیش کئے جاتے ہیں جن کی شکلیں بہت ہیبت ناک ہوتی ہیں مگر یہ خوش شکل دیوتا تو انسان کے روپ میں سامنے لایا گیا تھا۔ پجاریوں نے دیوتا کے ایسے ایسے اوصاف حمیدہ اور فضائل بیان کئے کہ پڑھے لکھے اور باشعور سمجھے جانے والے افراد بھی گرویدہ ہوتے چلے گئے۔ فریفتگی کے ہنگام ایک اور پجاری کی آمد ہوئی۔ فرمایا، ’’دیکھئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض۔ اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے‘‘۔ دیوتا اور اس کے پجاریوں کے کمال و جمال کا یہ عالم رہا کہ کسی کو سوال پوچھنے کی تاب نہ ہوئی۔ جن گستاخوں نے سوال اُٹھانے کی جرات کی انہیں دیوتا اور اس کے پجاریوں نے نشان عبرت بنادیا۔
بتایا تو یہ گیا تھا کہ دیوتا آئے گا ،خوشحالی لائے گا۔ ملک و قوم کی تقدیر بدل جائے گی۔ لیکن دیوتا کے عہد میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ شودر اور اچھوت تو بدستور ظلم وجبر کی فضا میں زہر پیتے اور جیتے رہے مگر برہمنوں کی امیدیں بر آئیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے دیوتا کا طلسم ٹوٹنے لگا۔ لوگوں کو محسوس ہونے لگا کہ یہ دیوتا نہیں بلکہ ہمارے جیسا انسان ہے اور اس میں تو کئی خامیاں ہیں ۔پجاریوں کو گمان تھا کہ مشتعل لوگ باہر نکل پڑے اور انہوں نے مورتیاں توڑ ڈالیں تو سارا کھیل بگڑ جائے گا۔ چنانچہ دوراندیش پروہت مل بیٹھے اور انہوں نے ایسی تدبیر کی کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔دیوتا کو تخت سے اُتار لیا گیا۔ ایک بار پھر عوام کا دم بھرنے والے راجے مہاراجے اقتدار میں آگئے ۔کچھ پنڈت اس سوچ کے حامل تھے کہ اب ہمیں غیر جانبدار ہوجانا چاہئے اور کسی قسم کا کوئی کردار ادا نہیں کرنا چاہئے۔اگرچہ پجاریوں نے یہ دیوتا تخلیق تو اس لئے کیا تھا کہ نیچی ذات والے اس کی پرستش کریں اور اس کے ذریعے سب کو اپنی مرضی سے ہانکا جا سکے لیکن پھر یوں ہوا کہ پجاریوں کی صف میں شامل بعض پنڈت بھی دیوتا کے سحر میں مبتلا ہوگئے اور اسے مسیحا و نجات دہندہ سمجھ بیٹھے۔ انہوں نے مصلحتاً دیوتا کو پسپائی اختیار کرنے پر تو مجبور کردیا مگر اس طرح کے حالات پیدا کردیئے کہ کسی سے نہ سنبھالے جائیں۔ چنانچہ جب حالات مزید بگڑتے چلے گئے تو ان پروہتوں نے دیوتا کو ری لانچ کردیا اور لوگوںکو یہ باور کروایا کہ چونکہ تم نے دیوتا کو ناراض کردیا اس لئے تمہیں اس طرح کی مشکلات اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یوں اس دیوتا کی مقبولیت ایک بار پھر آسمانوں کو چھونے لگی۔گاہے خیال آتا ہے کہ ہم شودر بھی کوئی ایسا دیوتا تخلیق کریں جس کے ذریعے ان اونچی ذات والوں سے استحصال کا بدلہ لیا جاسکے۔