1950ء میں چین کے جنوب مشرق میں واقع چھوٹے سے ساحلی شہر شینزن کی آبادی صرف 3ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ یہاں زیادہ تر مچھیرے آباد تھے، جن کی گزربسر مچھلی کے شکار پر تھی۔ اب اندازہ ہے کہ 2025ء تک اس شہر کی آبادی 2کروڑ 20لاکھ نفوس سے تجاوز کرجائے گی۔
یہ کہانی صرف شینزن کی ہی نہیں بلکہ دنیا کے دیگر شہری علاقوں کی آبادی میں روزانہ کی بنیاد پر 2لاکھ انسانوں کا اضافہ ہورہا ہے اور ان تمام افراد کو رہنے کے لیے گھر، سماجی خدمات کی سہولیات، آمدورفت کے وسائل اور دیگر بنیادی ضروریات (یوٹیلٹیز) کا انفرا اسٹرکچر چاہیے۔ یہ وہ ایریاز ہیں جن پر ٹاؤن پلانرز اور تعمیرسازوں کو ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔ ایسا نہیں ہے کہ دنیا میں ان مسائل سے نمٹنے کے لیے کام نہیں ہورہا۔ ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ میں کچھ ایسے تعمیراتی منصوبوں کا ذکر کیا گیا ہے، جو ان چیلنجز سے بخوبی نمٹ رہے ہیں۔
دنیا کی سب سے پائیدار عمارت
ایمسٹرڈیم میں ایک عمارت کا نام ’دی اَیج‘ ہے۔ یہ عمارت بتاتی ہے کہ ’اِسمارٹ بلڈنگ ڈیزائن‘ کس طرح اسے استعمال کرنے والوں کو لچک اور آرام فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ توانائی کی کھپت میں کمی لاسکتا ہے۔ یہ توانائی سرپلس عمارت ہے یعنی یہ جتنی توانائی استعمال کرتی ہے، اس سے زیادہ پیدا کرتی ہے۔ اس وجہ سے اسے دنیا کی سب سے پائیدار عمارت کا اعزاز بھی دیا گیا ہے۔ اس کثیرالمنزلہ عمارت کا گلاس سے تعمیر شدہ شمالی رُخ، دن کے وقت قدرتی روشنی یعنی سورج کی دھوپ کو اندر آنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس کا جنوبی رُخ کنکریٹ کی دیواروں سے بنایا گیا ہے۔
کنکریٹ سے بنی یہ دیواریں، سورج کی روشنی اور حدت کو جذب کرلیتی ہیں اور سولر پینلز اسے توانائی میں تبدیل کردیتے ہیں۔ عمارت کے تمام تکنیکی امور کو ’سِنگل نیٹ ورک‘ کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے، جس میں عمارت کے چاروں طرف نصب ہزاروں سنسرز کا نیٹ ورک بھی شامل ہے۔ لفٹ، روشنی، عمارت کو ٹھنڈا کرنے کا نظام، کافی مشین، تولیہ ڈسپنسر، روبوٹ سیکیورٹی سسٹم (یہ رات کے وقت عمارت کے گرد پہرہ دیتے ہیں)، ان تمام نیٹ ورکس کو مرکزی نیٹ ورک سے کنٹرول اور ایڈجسٹ کیا جاتا ہے۔
اسمارٹ ہیلتھ کیئر انفرا اسٹرکچر
اسٹاک ہولم کی نیو کیرولِنسکا سولنا یونیورسٹی میں 12ہزار کمرے، 35 آپریشن تھیٹر اور 17 ایم آر آئی اسکیننگ یونٹ ہیں۔ اسے دنیا کا سب سے بڑا پبلک-پرائیویٹ پارٹنرشپ پروجیکٹ سمجھا جاتا ہے۔ یہ منصوبہ بلڈنگ انفارمیشن ماڈلنگ (بی آئی ایم)کے تحت تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ڈیزائنرز، کنٹریکٹرز اور یوٹیلٹی سروس فراہم کرنے والے منیجرز کو ’سنگل سسٹم‘ کے تحت اشتراک میں کام کرنا تھا۔ ہسپتال کے ڈیزائن، تعمیر اور اِنوینٹری سے متعلق تمام معلومات کمپیوٹر میں ڈیٹا کی صورت میں ذخیرہ کی گئی ہے۔
اس طرح بی آئی ایم ڈیٹا کی مدد سے ہسپتال کے اندر ہر کونے میں 29خودکار اور گائیڈڈ گاڑیوں کے ذریعے ادویات، لانڈری سروس اور دیگر اشیا و خدمات کی فراہمی کا وسیع پیمانے پر انتظام یقینی بنایا گیا ہے۔ یہ ماحول دوست عمارت ہے، جس سے گرین ہاؤس گیسز کا اخراج صِفر ہے۔ یہاں بچ جانے والی غذائی اشیا اور اضافی کھانے سے بائیو گیس بنائی جاتی ہے اور بجلی بنانے کے لیے جیوتھرمل پلانٹ(جو زمین کی حرارت سے بجلی پیدا کرتا ہے) نصب کیا گیا ہے۔
تھری۔ڈی پرنٹڈ ہاؤس
’وِنسون‘ چین کی تھری ڈی پرنٹنگ سے عمارتیں بنانے والی تعمیراتی کمپنی ہے۔ یہ کمپنی 2014ء سے انتہائی خاموشی کے ساتھ بڑے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر، تعمیراتی صنعت میں ایک انقلاب برپا کرچکی ہے۔ 2014ء میں اس نے اپنے پہلے تھری ڈی پرنٹڈ گھر کی تعمیر مکمل کی۔ اس کے بعد کمپنی نے دبئی کی حکومت کو پہلی تھری ڈی پرنٹڈ آفس بلڈنگ بناکر دی۔
تعمیراتی صنعت کے مستقبل پر وِنسون نے قلیل عرصے میں ایسے اَن مٹ نقوش چھوڑے ہیں کہ اسے’وِنسون‘ طریقہ تعمیرات کا نام دے دیا گیا ہے۔ روایتی طریقہ تعمیرات کے مقابلے میں ’وِنسون‘ طریقہ کے تحت تعمیراتی لاگت میں 80فیصد کمی آجاتی ہے۔
عمودی شہر
2050ء تک دنیا کی دوتہائی آبادی شہروں میں رہائش پذیر ہوگی۔ کئی شہری مراکز میں زمین کم پڑجائے گی اور شہروں کو مزید باہر کی طرف پھیلانا ممکن نہیں رہے گا۔ اس وقت شہروں کو عمودی وسعت دینے کی ضرورت پڑے گی۔ دبئی میں برج خلیفہ تعمیر کرنے کا مقصد ایک ایسی آسمان سے باتیں کرتی عمارت بنانے کا تھا، جس میں ہوٹل، رہائشی اپارٹمنٹ ، تجارتی دفاتر وغیرہ سب کچھ ہو؛ بالکل کسی عمودی شہر کی طرح۔
عمارت کی تیز تر تعمیر کے لیے پری فیبریکیشن ٹیکنالوجی کے علاوہ خودکار کرینوں کا استعمال کیا گیا۔ پیرس کے ایفل ٹاور اور فلوریڈا کے ڈزنی ورلڈ کے بعد دبئی کا برج خلیفہ، دنیا کا تیسرا سب سے زیادہ مقبول ’سیلفی اٹریکشن‘ مقام بن چکا ہے۔