مولانا نعمان نعیم
شہیدِ کربلا، نواسۂ رسول ؐ، جگرگوشۂ بتولؓ، سیّدنا حسین ابن علیؓ کی ذاتِ گرامی اسلامی تاریخ میں حق گوئی و بے باکی ،دین کی سربلندی کے لیے صبر و استقامت، جرأت و شجاعت کا عظیم استعارہ اور فضائل و مناقب کا تاریخ ساز اور روشن باب ہے۔ آپ نے کربلا میں دین کی سربلندی اور اسلام کی بقا کےلیے اپنا سب کچھ قربان کرکے ایک بے مثال تاریخ رقم کی۔ جسے تاقیامت سنہرے حروف سے یاد رکھا جائے گا۔ آپ کی ولادتِ باسعادت پانچ ہجری کو ہوئی۔
رسول اللہﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے آپؓ کو شہد چٹایا۔ آپؓ کے دہن مبارک کو اپنی بابرکت زبان سے تر کیا اور دعائیں دیں، حسین نام رکھا۔ سیدنا حضرت امام حسینؓ کا چہرۂ مبارک رسول اللہ ﷺ کے چہرۂ انور سے مشابہ تھا اور جسم پاک رسولﷺ کے جسمِ اطہر کے مشابہ تھا۔
آپ انتہائی عبادت گزار تھے، نماز، روزے اور حج کا بڑااہتمام فرماتے، آپؓ نے متعدد حج پیدل ادا فرمائے، انتہائی متواضع تھے۔ ایک مرتبہ گھوڑے پر سوار گزر رہے تھے کہ غرباء کی ایک جماعت نظر آئی، جو زمین پر بیٹھی روٹی کے ٹکڑے کھا رہی تھی، آپؓ نے انہیں سلام کیا، ان لوگوں نے کہا ’’فرزندِ رسول ﷺ، ہمارے ساتھ کھانا تناول فرمائیے۔‘‘ آپؓ گھوڑے سے اتر کر ان کے ساتھ بیٹھ گئے، کھانے میں شریک ہوئے، پھر انہیں دعوت دی اور اپنے گھر لے جاکر سب کو کھانا کھلایا۔
آپ کے فضائل و مناقب کے حوالے سے رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’حسنؓ اور حسینؓ جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔‘‘ آپ ﷺ حضرات حسنین کریمینؓ کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:’’حسنؓ اور حسینؓ دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔‘‘
حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں، رسول اکرم ﷺ (ایک موقع پر اپنے حجرہ ٔ مبارک سے) اس حال میں باہر تشریف لائے کہ آپ ﷺ ایک کندھے پر حضرت حسنؓ اور دوسرے کندھے پر حضرت حسینؓ کو اٹھائے ہوئے تھے، یہاں تک کہ ہمارے قریب تشریف لائے اور فرمایا ’’جس نے ان دونوں سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے دشمنی کی، اس نے مجھ سے دشمنی کی۔‘‘
حضرت اسامہ بن زیدؓ سے مروی روایت کے مطابق ایک رات وہ سرور کائناتﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے‘ آپﷺ باہر تشریف لائے تو کچھ اٹھائے ہوئے تھے، جسے وہ نہ جان سکے۔ انہوں نے دریافت کیا ’’آپ ﷺ کیا اٹھائے ہوئے ہیں؟‘‘ آپ ﷺ نے چادر مبارک اٹھائی تو انہوں نے دیکھا کہ آپﷺ کے دونوں پہلوؤں میں حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا ’’یہ دونوں میرے بیٹے اور میرے نواسے ہیں۔‘‘ اور فرمایا ’’اے اللہ، میں ان دونوں کو محبوب رکھتا ہوں، تُو بھی انہیں محبوب رکھ اور جو ان سے محبت کرتا ہے، انہیں بھی محبوب رکھ۔‘‘
سیدہ فاطمہ زہراءؓ فرماتی ہیں کہ میں حسنؓ اور حسینؓ کو لے کر حضور پُرنورﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کیا’’حضورﷺ! یہ دونوں آپﷺ کے نواسے ہیں، انہیں کچھ عطا فرمائیے۔‘‘ تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ’’حسنؓ کے لیے میری ہیبت و سیادت ہے اور حسینؓ کے لیے میری جرأت و سخاوت ہے۔‘‘ نبی آخر الزماںﷺ نے ارشاد فرمایا ’’حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں حسینؓ سے، یا اللہ ،جو حسینؓ کو محبوب رکھے، تُو اسے محبوب رکھ۔‘‘ اور آپﷺ کا یہ فرمانِ مبارک ’’جویہ چاہے کہ نوجوانانِ جنت کے سردار کو دیکھے، وہ حسین بن علیؓ کو دیکھ لے۔‘‘
کربلا کا نام آج بھی ہمارے لبوں پر آتا ہے تو سیدنا حضرت امام حسینؓ بن علیؓ اور آپؓ کے مقدس جاں نثاروں کی جرأتوں، ہمتوں اور شہادتوں کا تذکرہ ہمراہ لاتا ہے۔ سرزمینِ کربلا کا کہیں بھی ذکر ہوتا ہے، تو وفا شعاری اور جاں نثاری کی لازوال داستان کا خیال خود بخود دل و دماغ میں گونجنے لگتا ہے، کربلا کی فضائیں اور ہوائیں آج بھی انمول جذبوں کی امین ہیں، جو سیدنا حسین ابن علیؓ اور آپؓ کے جاں نثاروں، جاں بازوں اور سرفروشوں کے سینوں میں موجزن تھے۔ جب کبھی اور جہاں کہیں شہادت کی تاریخ رقم کی جائے گی، کربلا کا نام نمایاں ہوگا۔
تاریخی روایات کے مطابق نواسۂ رسولؐ،72 نفوس قدسیہ کے ہمراہ وارد ہوئے اور میدانِ کربلا میں حق و صداقت اور جرأت و شجاعت کی بے مثال تاریخ رقم کی ۔ جب سیّدنا حسین ابنِ علیؓ اپنے جاں نثاروں کے ہمراہ کربلا کی جانب روانہ ہوئے تو آپ نے تمام باتوں کے جواب میں ایک بات فرمائی:’’میں نے (اپنے نانا) رسول اکرم ﷺ کو خواب میں دیکھا ہے، آپﷺ نے تاکید کے ساتھ اس میں مجھے ایک کام کا حکم دیا ہے، اب بہرحال میں یہ کام کروں گا، خواہ مجھے نقصان ہو یا فائدہ۔ سوال کیا گیا کہ وہ خواب کیا ہے؟ آپؓ نے فرمایا: ابھی تک کسی کو نہیں بتایا، نہ بتاؤں گا، یہاں تک کہ اپنے پروردگار عزّوجل سے جاملوں گا۔‘‘
دنیا کی تاریخ کا ہر ورق انسانوں کے لیے عبرتوں کا مرقع ہے، خصوصاً دنیا کی تاریخ کے اہم واقعات انسانوں کے لیے ہر شعبۂ زندگی میں اہم نتائج سامنے لاتے ہیں، جو کسی دوسری تعلیم و تلقین سے حاصل نہیں ہوسکتے۔ اسی لیے قرآن کریم کا ایک بہت بڑا حصہ قصص اور تاریخ پر مشتمل ہے‘ قرآن پاک نے قصص کے ٹکڑے بیان کرکے نتائج کے لیے پیش فرمائے ہیں۔
سیدنا حضرت حسین بن علیؓ کی شہادت ،نہ صرف اسلامی تاریخ کا اہم واقعہ ہے، بلکہ پوری دنیا کی تاریخ میں بھی اسے خاص امتیاز حاصل ہے، اس میں ایک جانب ظالموں کا ظلم و جور و سنگ دلی ہے، تو دوسری طرف آلِ رسولﷺ کے چشم و چراغ اور ان کے متعلقین کی چھوٹی سی جماعت کے باطل کے مقابلے پر جہاد، اس پر ثابت قدمی اور جاں نثاری کے محیرالعقول واقعات ہیں، جن کی نظیر تاریخ میں ملنا مشکل ہے، ان میں آنے والی نسلوں کے لیے ہزاروں عبرتیں اور حکمتیں پوشیدہ ہیں۔
آپ کا وہ تاریخی خطبہ جو آپؓ نے مقامِ بیضہ میں دیا، تاقیامِ قیامت ہماری رہنمائی کرتا رہے گا اور ہمیں حق پرستی کی شمع روشن رکھنے کا درس دے گا۔ آپؓ نے حمد و ثناء اور درود و سلام کے بعد پُرجوش انداز میں فرمایا: لوگو! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے ایسے بادشاہ کو دیکھا جو ظالم ہے، خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کووہ حلال کرتا ہے، خدا کے عہد کو توڑتا ہے، سنتِ رسولؐ کی مخالفت کرتا ہے، خدا کے بندوں کے درمیان گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرتا ہے (پھریہ سب کچھ) دیکھنے والے کو اس پر عملاً یا قولاً غیرت نہ آئی تو اللہ کو یہ حق ہے کہ اس(ظالم) بادشاہ کی جگہ اس دیکھنے والے کو دوزخ میں داخل کردے، میں تمہیں آگاہ کرتا ہوں کہ ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت قبول کرلی ہے اور اطاعتِ رحمن چھوڑدی اللہ کی زمین پر فتنہ وفساد پھیلا رکھا ہے، حدودِ خداوندی کو معطل کردیا ہے، یہ غنیمت میں اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں، خدا کی حرام کردہ چیزوں کو حلال اور حلال اشیاء کو (ازخود)حرام کردیا ہے، اس لیے مجھے ان باتوں پر غیرت آنے کا زیادہ حق ہے، میرے پاس بلاوے کے تمہارے خطوط آئے بیعت کا پیام لے کر تمہارے قاصد آئے، انہوں نے کہا کہ تم مجھے (ہرگز) دشمنوں کے سپرد نہ کروگے اور بے یارومددگار نہ چھوڑو گے، اگر تم اپنی بیعت کا حق ادا کروگے تو ہدایت پاؤ گے، میں حسین بن علی وابن فاطمہ بنت رسول اللہﷺ ہوں، میری جان تمہاری جانوں کے ساتھ اور میرے اہل بیتؓ تمہارے گھر والوں کے ساتھ ہیں، تمہارے لیے میری ذات(بہترین) نمونہ ہے، اب اگر تم اپنے فرائض بجا نہ لائوگے اور عہدوپیمان توڑ کر اپنی گردنوں سے میری بیعت کا حلقہ اتار لوگے تو بخدا! تم سے یہ بعید نہیں، تم میرے والد، بھائی اور چچا زاد کے ساتھ ایسا کرچکے ہو، جو تمہارے فریب میں آئے ،وہ فریب خوردہ ہے، تم نے عہد توڑ کر اپنا حصہ ضائع کردیا(تو)جو عہد شکنی کرے، اس کا وبال اس کے سر ہے، عنقریب اللہ مجھے تمہاری امداد سے بے نیاز کردے گا۔(طبری)
میدانِ کربلا میں نواسۂ رسولؐ،حضرت امام حسینؓ شہادت کے عظیم رتبے سے سرفراز ہوئے،بے شک، اللہ تعالیٰ نے ان کی شہادت کے لیے یہ دن عطا فرمایا کہ جس دن کی عظمت اور بزرگی دیگر دنوں سے حرمت والی ہے۔ آج جب دنیا اسلام کے خلاف صف آراء ہو چکی ہے، دنیا کے مختلف خطوں بالخصوص فلسطین اور کشمیر میں مظلوم مسلمانوں پر بدترین مظالم ڈھائے جارہے ہیں، ان حالات میں ضرورت ہے کہ ہم اسوۂ شبیریؓ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہمت اور جرأت کا مظاہرہ کریں۔ ظلم کے خلاف آواز بلند کریں، مظلوموں کے حامی و مددگار بنیں۔ معاشرے میں قیامِ امن،رواداری اور تحمّل و برداشت کے فروغ کے لیے اُسوۂ شبّیریؓ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اوردینی و ملّی یگانگت کو فروغ دینا ایک دینی و اجتماعی فریضہ ہے۔