’’میں پچّیس برس سے سونےکے کاروبار سے منسلک ہوں۔ اس دوران میں نے کئی بڑے اُتار چڑھاؤ دیکھے، لیکن جب سے ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کے صدر کی نشست سنبھالی ہے، سونا عجیب وغریب انداز میں برتاو کررہا ہے۔ میرے لیے یہ بہت عجیب بات ہے۔ سونے کے نرخوں میں پہلے بھی اُتار چڑھاؤ آتا تھا، لیکن اس کی کوئی ترتیب ہوتی تھی، مگر اب کوئی ترتیب سمجھ میں نہیں آرہی۔ دوم، یہ کہ پہلےنرخ میں اتنا زیادہ فرق اتنی تیزی سے نہیں آتا تھا۔
اس تیزی سے اور اتنا زیادہ اُتار چڑھاؤ آنے کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے اس کاروبار میں ہاتھ ہلکا کرلیا ہے۔ یعنی وہ بہت محتاط انداز میں خرید و فروخت کررہے ہیں۔
یہ ہی حال چھوٹے خریداروں کا ہے۔ دوسری جانب اس وقت بڑے سرمایہ کار اچھی طرح کھیل رہے ہیں اور کسی کسی دن وہ لاکھوں کروڑوں روپے چند گھنٹوں میں کما لیتے ہیں۔ لیکن انہیں بھی ہر وقت نقصان کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ دراصل اب یہ کھیل چھوٹے کھلاڑیوں کے بس کی بات نہیں رہا ہے‘‘۔
درجِ بالا الفاظ کراچی میں سونے کے ایک تاجر کے ہیں، جن سے اس نمائندہ ’’جنگ‘‘ نے سونے کے نرخوں میں حالیہ ہوش ربا اضافے کے تناظر میں بات کرنے کے لیے یکم اکتوبر کو رابطہ کیا تھا۔
حالیہ دنوں میں پاکستان سمیت پوری دنیا میں سونے کے فی تولہ نرخوں میں یومیہ کئی، کئی ہزار روپے کا اُتار چڑھاؤ دیکھنے میں آیا ہے۔ بعض کاروباری اور عام افراد اس اُتار چڑھاؤ سے خوش نظر آتے ہیں، لیکن اکثر اس سے پریشان اور کسی حد تک خائف بھی نظر آتے ہیں۔
خوش ہونے والوں کا موقف ہے کہ اس سے انہیں بہت کم وقت میں اپنے سرمائے پر بہت زیادہ منافع مل جاتا ہے۔تاہم وہ اس ضمن میں بڑے خطرات کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ پریشان اور خائف ہونے والے زیادہ تر چھوٹے تاجر، سرمایہ کار اور عام لوگ ہیں جو یاتو تھوڑے سرمائے کے ساتھ کاروبار کرتے یا بچوں کی شادی یا بُرے وقت کے لیے تھوڑا، تھوڑا سونا خرید کر رکھتے رہتے ہیں۔
اُتار چڑھاؤ، نیا کیا ہے؟
سونے کے نرخوں میں ہر دور اور ہر طرح کے حالات میں اُتار چڑھاؤ آتا رہا ہے،کیوں کہ اس کی عالمی طلب اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے۔ مثلا،2001میں سونے کے ایک اونس کی قیمت 260امریکی ڈالرزسے بڑھ کر ستمبر 2011میں 1921 ڈالرز کے قریب پہنچی اور پھر گر کر 1230 ڈالرز پر چلی گئی تھی۔ پاکستان میں دسمبر 2022 میں اس کی فی تولہ قیمت165000روپے ہوئی۔
پھر 8مئ 2023کوفی تولہ سونے کی قیمت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح، یعنی دو لاکھ26ہزارنو سو روپے پر پہنچ گئی تھی ۔ پھر19دسمبر ، 2024کو ملک میں سونے کی قیمت میں فی تولہ 2600 روپے کمی واقع ہوئی اور فی تولہ نرخ 2 لاکھ 73 ہزار 300 روپے پر پہنچا اور یکم اکتوبر2025 کو قیمت4لاکھ 10 ہزار 278 روپے فی تولہ تھی۔
آل پاکستان جیمز اینڈ جیولرز ایسوسی ایشن کی 30 ستمبر 2025کی رپورٹ کے مطابق فی تولہ سونے کا بھاؤ رواں سال کے نومہینوں میں1لاکھ34ہزار روپے بڑھا ہے۔ دسمبر 2024ء میں سونے کا بھاؤ 2لاکھ72ہزار 600 روپے فی تولہ پر بند ہوا تھا جو ستمبر 2025ء کے اختتام پر 4 لاکھ 6 ہزار 778روپے ہو گیا۔
اس دوران 10 گرام سونے کا بھاؤ رواں سال کے9مہینوں میں 1لاکھ 15ہزار 35روپے بڑھا۔ 10گرام سونے کا بھاؤ سال کے آغاز پر 2 لاکھ 33 ہزار 711روپے تھا جو بعد میں بڑھ کر 3 لاکھ 48 ہزار 746 روپے تک جاپہنچا تھا۔ ۔دوسری جانب عالمی بازار میں جنوری سے ستمبر تک فی اونس سونے کا بھاؤ 1 ہزار241ڈالرز بڑھا۔
حالیہ اُتار چڑھاؤ کے بارے میں اس شعبے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت اس کی وجہ عالمی اقتصادی بے یقینی، ڈالر کی کم زور قدر، مرکزی بینکس کی جانب سے سونے کی خریداری اور تجارتی جنگوں کے خطرات ہیں۔ اور ایسے میں سرمایہ کار سونے کو محفوظ اثاثے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
عالمی اقتصادی حالات عدم استحکام کا شکار ہیں جس کی وجہ سے اس کی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔روپے کی قدر میں کمی اور عالمی سطح پر ڈالر کی قدر میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے بھی سونے کی قیمت بڑھ رہی ہیں۔
سیاسی عوامل کے ضمن میں تجارت اور ٹیرف کی جنگیں سونے کے نرخ میں اضافے کی راہیں ہم وار کررہی ہیں۔ امریکا اور دیگر ممالک کے درمیان تجارتی تناؤ اور ٹیرف کے بڑھنے سے عالمی معیشت غیر مستحکم ہو گئی ہے جس نے سرمایہ کاروں کو ڈالر سے ہٹا کر سونے کی طرف مائل کیا ہے۔ جغرافیائی سیاسی تناؤ،بین الاقوامی سیاسی تنازعات اور جنگوں کے امکانات بھی اس میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔
موجودہ حالات میں دنیابھر کے مرکزی بینکس، خصوصاً چین اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کی جانب سے سونے کی بڑھتی ہوئی خریداری بھی سونے کی قیمتوں کو بلند کر رہی ہے۔ پھر یہ کہ سرمایہ کار، اقتصادی عدم استحکام کے دوران اپنے اثاثوں کو محفوظ کرنے کےلیے کاغذی کرنسی کے بجائے سونے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اس رجحان کے باعث مارکیٹ میں سونے کی طلب بڑھ گئی ہے اور اس کی فراہمی نسبتاً کم ہے۔
سونے میں سرمایہ کاری
سونا کرہ ارض کی قیمتی دھاتوں میں سے ایک ہے جس کا سکّہ پوری دنیا میں چلتا ہے۔ جہاں کھڑے ہوجائیں یہ فوراً فروخت ہوجاتا ہے اور نقد رقم اسی وقت ہاتھ میں آجاتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بہت سے افراد اپنے اثاثوں کو منہگائی یا غیر مستحکم حکومتوں سے بچانے کے لیے سونے میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ سونے میں سرمایہ کاری کے بہت سے فوائد میں سے کچھ درجِ ذیل ہیں:
1۔ منہگائی کے خطرات کے خلاف آپ کی دولت کی حفاظت کرتا ہے۔ سونے میں سرمایہ کاری کا بنیادی فائدہ یہ ہے کہ یہ آپ کو منہگائی کے خطرات سے محفوظ رکھتاہے۔ لہذا آپ کو اس میں سرمایہ کاری کرنے پر کبھی پچھتاوا نہیں ہوگا۔
2۔ آپ کی مختلف طریقوں سے سرمایہ کاری کرنے میں مدد کرتا ہے۔سونااسٹاک مارکیٹ میں اتار چڑھاو سے متاثر نہیں ہوتا ہے۔چوں کہ سونا اپنی قدر کو بانڈز اور اسٹاکس کی طرح تبدیل نہیں کرتا، لہذا یہ آپ کی سرمایہ کاری کو متنوّع بنانے کا ایک بہترین طریقہ ہوسکتا ہے۔
3۔ اس کی قیمت میں اکثر استحکام رہتا ہے۔ مارکیٹ میں دیگر اثاثوں کے برعکس، سونے کی قیمت عموما مستحکم رہتی ہے اور بحران کے وقت بھی بڑے مارجن سے نیچے نہیں جاتی ہے۔ درحقیقت، جب بھی مالیاتی منڈی میں کوئی بحران آتا ہے، لوگ سونے میں سرمایہ کاری کا انتخاب کرتے ہیں، اور قیمتیں کچھ ہی دیر میں بڑھ سکتی ہیں۔
4۔ اس کی زیادہ مانگ ہے۔ چین اور بھارت جیسی ابھرتی ہوئی معیشتوں اور بازاروں نے سونے کی مانگ میں اضافہ کیا ہے۔ عام طور پر، اس قیمتی دھات کو اس قسم کے ممالک کی ثقافت میں زیادہ نمایاں مقام حاصل ہے۔
5۔ آپ مختلف طریقوں سے سونے میں سرمایہ کاری کرسکتے ویں۔ جب سونے میں سرمایہ کاری کی بات آتی ہے، تو زیادہ تر لوگ سلاخوں یا سِکّوں کی شکل میں سونا رکھنے کے بارے میں سوچتے ہیں۔ لیکن سونے میں سرمایہ کاری کے دیگر طریقے بھی ہیں۔
6۔ سونا خراب نہیں ہوتا۔ جائیداد میں سرمایہ کاری کے مقابلے میں، سونا خراب نہیں ہوتا ہے۔ یہ وقت کی وجہ سے اپنی قیمت نہیں کھوتا۔ درحقیقت پرانے سونے کے زیورات کی قیمت نئے سونے کے زیورات جیسی، بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوجاتی ہے۔ اس وجہ سے، سونے میں سرمایہ کاری کرنے سے آپ کو طویل مدت میں اچھا منافع اور تحفظ مل سکتا ہے۔
کراچی کے ایک مشہور و معروف جیولرکے مطابق ’’اس وقت مارکیٹ میں کام نہیں اور جیولرز کے پاس سونے کے زیورات بنانے کے آرڈر کم ہیں جس کی وجہ سے کام شدید متاثر ہوا ہے۔ تاہم دوسری جانب سونے کی طلب زیادہ ہے کیوںکہ لوگ اب بسکٹ کی صورت میں زیادہ سونا خرید رہے ہیں‘‘۔
دوسری جانب کراچی کے ایک رہائشی، عدنان مسعود جوجائیداد کی خرید و فروخت کے کاروبار سے وابستہ ہیں،کہتے ہیں کہ انہوں نے تین ماہ قبل ایک قطعہ اراضی فروخت کرنے کے بعد تقریباً بیس تولے سونا خرید لیا تھا کیوں کہ جائیداد کی خرید و فروخت کا کاروبار کافی عرصے سے مندی کا شکار ہے۔
سیمنٹ اور سریے کے منہگا ہونے کی وجہ سے تعمیراتی سرگرمیاں بھی سست روی کا شکار ہیں اورجائیدادوں کے نرخ بھی اچھے نہیں مل رہے۔ عدنان مسعود کے مطابق ان حالات میں انہوں نے سونا خریدنے کا جو فیصلہ کیا تھا اس سے تین ماہ میں انہیں تقریبا دس لاکھ روپے کا فائدہ ہوچکا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس وقت سونے میں سرمایہ کاری ہی سب سے بہتر انتخاب ہے کیوں کہ دوسرے شعبوں میں سرمایہ کاری اتنی منافع بخش نہیں ہے۔ تین ماہ میں سونے میں سرمایہ کاری سے جو منافع انہیں مل چکا ہے اتنا منافع اس وقت کسی اور سیکٹر میں نظر نہیں آرہا۔
ماہرینِ معیشت کے بہ قول پاکستان میں سونے میں سرمایہ کاری اس لیے بھی پُرکشش سمجھی جاتی ہے کہ اس کی خریداری پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ کوئی بھی بازار میں جا کر جتنا سونا خریدنا چاہے خرید سکتا ہے۔ دراصل رسمی طور پر پاکستان مرکنٹائل ایکسچینج میں دیگر دھاتوں کے علاوہ سونے کی بھی خرید و فروخت ہوتی ہے، تاہم سونے میں سرمایہ کاری زیادہ تر غیر رسمی اور انفرادی سطح پر ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق سونے میں سرمایہ کاری کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں معیشت دستاویزی نہیں اور لوگوں کے پاس نقدی کی صورت میں بہت زیادہ پیسہ موجود ہے اور جب سونے کا نرخ ہر روز بڑھ رہا ہو تو ان کے لیے سب سے زیادہ پُرکشش سرمایہ کاری سونے کی صورت میں ہوتی ہے جہاں وہ نقدرقم میں کام کر کے منافع کما سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سونے میں سرمایہ کاری کوپُرکشش اور محفوظ سمجھنا ایک مخصوص ذہنیت ہےجو عالمی سطح پر موجود ہے۔
سونے کی قیمت میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ اس کی طلب میں اضافہ بتایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ روپے کی قدر میں کمی نے بھی قیمت میں اضافہ کیا۔ سونے کی قیمت عالمی سطح پر بین الاقوامی مارکیٹ اور ڈالرکے نرخ سے منسلک ہے۔ اس وقت ملک میں سونے کی قیمت میں اضافے کی ایک اور بڑی وجہ ڈالر کی شرح تبادلہ ہے۔
کچھ عرصہ قبل ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کے سبب سونے کی قیمت پینتالیس دنوں کے مختصر عرصے میں40ہزار روپے فی تولہ اضافے سے جنوری 2023کے آخر تک دو لاکھ ساڑھے 10ہزار روپے تک پہنچ گئی تھی۔پاکستانی کرنسی کی قدر کو گرتا دیکھ کر پہلے لوگوں نے ڈالر میں سرمایہ کاری شروع کی،پھر جب غیرملکی کرنسی مارکیٹ سے غائب ہوئی تو سونا خریدنے لگے۔تاہم عالمی مارکیٹ میں2022کے دوران سونے کی قیمت کم و بیش مستحکم رہی۔
ایک تحقیق کے مطابق 2022 کے دوران سونے میں سرمایہ کاری دیگر تمام شعبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ منافع بخش ثابت ہوئی۔2022میں سونے کی قیمت41فی صد اضافے کے ساتھ ایک لاکھ 8 ہزار200روپے فی10گرام سے بڑھ کر ایک لاکھ 52 ہزار 700 ہوگئی تھی۔2021میں سونے کی قیمت میں 11فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ بلیک مارکیٹ میں ڈالر کے بڑھتے ہوئے نرخ کے مطابق مقامی صرافہ مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں اضافہ ہوا۔ ان حالات میں ملک میں سونا سرکاری قیمت کے بجائے بلیک مارکیٹ کے نرخوں کے مطابق فروخت ہوتا رہا۔
عالمی ماہرینِ اقتصادیات کے مطابق سونے کی قیمت میں اتنی تیزی سے اضافے کی بنیادی وجہ امریکا کا دنیا میں تجارتی جنگ شروع کرنا ہے۔ امریکی ڈالر کی قدر میں بھی اس وجہ سے کمی دیکھی جا رہی ہے۔لوگ اب سرمایہ کاری کے لیے ڈالر کے علاوہ دوسرے ذرائع ڈھونڈ رہے ہیں۔ پہلے ڈالر میں سرمایہ کاری محفوظ سمجھی جاتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے اور امریکی معیشت پر وہ اعتماد نہیں رہا ہے۔
اس لیے سونے میں سرمایہ کاری ہو رہی ہے جس سے سونے کی قیمتیں بڑھی ہیں۔دوسری وجہ امریکا کے قرضوں کا حجم ہے جو بڑھ کر 36 کھرب ڈالرز تک پہنچ گیا ہے اور واشنگٹن کو ابھی اندازہ نہیں ہے کہ یہ قرضے کیسے اداکیے جاسکیں گے۔
سونے کی عالمی منڈی
سونے کی عالمی منڈی اس بازار کو کہتے ہیں جہاں بڑے پیمانے پر ایسے سونے کی خرید و فروخت ہوتی ہے جو زیور کی شکل میں نہیں ہوتا۔ دنیا کے بہت سے مالیاتی ادارے (ETF Funds) لوگوں کو سونے کی خریداری پر رقم کے عوض کاغذ کی رسید دیتے ہیں کہ آپ کا اتنا سونا ہمارے پاس محفوظ ہے جسے آپ جب چاہیں ہم سے لے سکتے ہیں۔
چونکہ اصلی سونے کے مقابلے میں ان رسیدوں کی حفاظت کرناآسان ہوتاہے اس لیے مغربی ممالک میں یہ رسیدیں کافی مقبول ہیں۔ لیکن مشرقی ممالک میں زیادہ تر لوگ ان رسیدوں پر اعتبار نہیں کرتے اور خریداری پراصل سونے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
عالمی سطح پرقیمت کا تعیّن
عالمی سطح پر سونے کی قیمتیں حقیقی سونے کی خرید و فروخت سے طے نہیں ہوتیں بلکہ کاغذی سونے(گولڈ فیوچر) کی خرید و فروخت کے لحاظ سے طے کی جاتی ہیں جو کئی ہزار ارب ڈالرز کی مارکیٹ ہے اور لندن اور نیویارک سے کنٹرول کی جاتی ہے۔ کاغذی سونا خریدنا دراصل سونے کے شیئر خریدناہے اور جس طرح اسٹاک مارکیٹ میں نفع نقصان ہو سکتا ہے اسی طرح کاغذی سونے میں بھی ہو سکتا ہے۔
مغربی ممالک میں سونے کی قیمتوں پر کومکس (Comex) اور لندن بلین مارکیٹ کی اجارہ داری ہے۔ نیویارک میں واقع کومکس (comex) دنیا کی سب سے بڑی سونے کی مارکیٹ ہے اور پوری دنیا میں سونے کی قیمت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ لیکن یہاں خرید و فروخت ہونے والا 99.999 فیصد سونا اصلی نہیں بلکہ کاغذی ہوتا ہے۔
اصلی سونا فزیکل گولڈ کہلاتا ہے جبکہ گولڈ فیوچر، گولڈ آپشن، گولڈ فنڈز، مِنی آپشن وغیرہ کاغذی سونے کی چند مثالیں ہیں۔ ایک فیوچر کانٹریکٹ کا مطلب 100 اونس (2835 گرام) سونا ہوتا ہے۔ فیوچر کانٹریکٹ کی میعاد پوری ہونے پر حقیقی سونے ، چاندی کی وصولی ایک پے چیدہ اور منہگاسودا ہے اور ’’کیش سیٹلمنٹ‘‘ بہت آسان اور منافع بخش رہتا ہے۔
اس لیے بیش تر گاہک کیش سیٹلمنٹ کو ہی ترجیح دیتے ہیں اور کبھی اپنا اصلی سونا طلب نہیں کرتے۔ اس طرح سونے کا ایک ہی ٹکڑا کئی گاہکوں کو بیچا جاتاہے۔ہر گاہک کے پاس صرف سونے کے کلیم کی کاغذی رسید ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کومکس میں حقیقی سونے کے ہر اونس کو دو سو سے زیادہ گاہکوں کو بیچا جا چکا ہے۔
اپریل 1982ء سے لندن بلین مارکیٹ میں کاغذی سونے (گولڈ فیوچر کانٹریکٹ) کی خرید و فروخت شروع کی گئی۔ کومکس کے برخلاف لندن بُلین مارکیٹ ایک ایکسچینج نہیں ہے بلکہ سونے کے بڑے بڑے ڈیلرز اور بینکس کا ایک گروپ ہے جو آپس میں تجارت کرتا ہے یا اپنے گاہکوں کی طرف سے خرید و فروخت کرتا ہے۔
یہاں ہر کاروباری دن میں لگ بھگ1000ٹن سونا خریدا اور بیچا جاتا ہے جو کومکس کے مقابلے میں سات یا آٹھ،گنا زیادہ ہے۔ اس ہزار ٹن سونے کا99فی صد کاغذی سونا ہوتا ہے اور ایک فی صد، یعنی دس ٹن حقیقی سونا ہوتا ہے۔ کومکس میں کم سے کم تین کلو سونے کا کاروبار ہوتا ہے۔
لندن بلین مارکیٹ میں بڑے خریدار سونا ٹنوں میں خریدتے اور بیچتے ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2001ء سے 2017ء کے دوران سونے کی قیمت گرانے کے لیے امریکا کو اپنے سونے کے ذخائر میں سے 2340 ٹن سونا برآمد کرنا پڑا۔ اسی مدت میں 3490ٹن سونا برطانیہ سے سوئٹزرلینڈ برآمد کیا گیا جہاں سے وہ ایشیائی ممالک کو چلا گیا۔
سب سے زیادہ سونے کے ذخائر رکھنے والے ممالک
دنیا کے تمام ممالک سنہری دھات، یعنی سونے کو اپنے مرکزی بینکس میں جمع کرتے ہیں جسے گولڈ ریزرو یعنی سونے کے ذخائر کہا جاتا ہے۔19جنوری ، 2024 کو ورلڈ گولڈ کونسل کی جانب سے جاری شدہ اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ سونے کے ذخائر رکھنے والا ملک امریکا تھا جس کے پاس 8133 ٹن سونا تھا۔
اس فہرست میں جرمنی 3352 ٹن سونے کے ذخائر کے ساتھ دوسرے، اٹلی 2451 ٹن کے ساتھ تیسرے، فرانس2436ٹن کے ساتھ چوتھے، روس 2332 ٹن کے ساتھ پانچویں، چین2191ٹن کے ساتھ چھٹے، سوئٹزرلینڈ1040ٹن کے ساتھ ساتویں، جاپان 845 ٹن کے ساتھ آٹھویں، بھارت800ٹن کے ساتھ نویں اور نیدرلینڈز612ٹن سونے کے ذخائر کے ساتھ دسویں نمبر پر تھا۔
ورلڈ گولڈ کونسل کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان اس وقت64 ٹن سونے کے ذخائر کے ساتھ فہرست میں 46 ویں نمبر پر تھا۔ رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں سونے کے ذخائر 2023ء کی دوسری سہ ماہی سے 2023ء کی تیسری سہ ماہی تک 64.66 ٹن پر برقرار رہے تھے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیاتھا کہ پاکستان میں سونے کے ذخائر 2000ء سے 2023ء تک مجموعی طور پر 64.82 ٹن تھے۔
سونے کے ذخائر کی اہمیت
دنیا کے تمام ممالک سونے کو بُرے وقت میں اپنی مالی مشکلات پر قابو پانے کے لیے ذخیرہ کرتے ہیں۔ ماضی میں سونے کے ذخائر نے کئی ممالک کی کرنسی کی قدر کو سہارا دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس لیے کچھ ممالک آج کے دور میں بھی سونے کے ذخائر کو اپنی کرنسی کی قدر کو برقرار رکھنے کے ذریعے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
سونا ایک ٹھوس اثاثہ ہے اس لیے کوئی بھی ملک اسے اپنے ذخائر میں شامل کرکے اپنے ملک کو مالی طور پر مستحکم بنا سکتا ہے، کیوں کہ سونے کو مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاسکتا ہے اس لیے یہ کسی بھی ملک کے دیگر اثاثوں کی قدر میں اتار چڑھاؤ سے وابستہ خطرات کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔
سونا کی قیمت کا تعلق ڈالرکے ساتھ ہوتاہے، یعنی جب ڈالر کی قیمت کم ہوتی ہے تو سونے کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے اور جب ڈالر کی قیمت بڑھتی ہے تو سونے کی قیمت میں کمی آتی ہے۔ اس لیے موجودہ دور میں سونے کے ذخائر کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے، کیوںکہ اس طرح دنیابھرکے مرکزی بینکس کو مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کے دوران اپنے ذخائر کی حفاظت کرنے میں مدد ملتی ہے۔
علاوہ ازیں، سونے کے ذخائر کابین الاقوامی تجارت میں بھی اہم کردار ہے۔ اس لیے دنیا بھر میں تجارتی عدم توازن کا مسئلہ حل کرنے یا قرضوں کے لیے ضمانت کے طور پر بھی سونے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یوں سونے کے ذخائر کی موجودگی کسی بھی ملک کی ساکھ کو بڑھا سکتی ہے اور عالمی اقتصادی نظام میں اس کی حیثیت کو برقرار رکھ سکتی ہے۔
دنیا میں کل کتنا سونا ہے؟
سونا چھ ہزار برسوں سے نکالا جا رہا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ آپ کسی طریقے سے دنیا میں موجود تمام سونا حاصل کر کے اسے پگھلا کر ایک مکعب کی شکل دینا چاہتے ہیں۔ اس مکعب کے اطراف کی لمبائی کتنی ہو گی؟ سیکڑوں میٹر؟ ہزاروں؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس مکعب کا حجم آپ کے اندازے سے کہیں کم ہو گا۔وارن بفٹ کا شمار دنیا کے امیر ترین افراد میں ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ دنیا بھر سے تمام سونا اکٹھا کرنے سے ایسا مکعب بنے گا جس کے اطراف صرف 20 میٹر لمبے ہوں گے۔ یعنی یہ ایک کنال سے کم رقبے میں سما جائے گا۔ لیکن بفٹ کو اس تمام سونے کی مقدار کیسے معلوم ہوئی؟ اصل میں ٹامسن روئٹرز جی ایف ایم ایس نامی ایک ادارہ ایسا ہے جو دنیا بھر کے سونے کا حساب رکھتا ہے۔
اس ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں171,300ٹن سوناموجود ہے۔ اگر اس سونے کا مکعب بنایا جائے تو اس کا حجم وہی بنے گا جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔تاہم تمام ماہرین اس ادارے کے تخمینے سے متفق نہیں ہیں اور بعض اندازوں کے مطابق یہ مقدار155244سے لے کر 25 لاکھ ٹن تک ہو سکتی ہے۔