افواج پاکستان کے سربراہ قمر جاوید باجوہ کے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے جو اٹھتا ہے ان کے بارے میں دریدہ دہنی شروع کر دیتا ہے ۔میں یہ سطور لکھتے وقت سخت حیران ہو رہا ہوں کہ کیا کبھی ایسا وقت بھی آنا تھا کہ پاکستان کے کسی جنرل کو اس طرح موضوعِ گفتگو بنایا جا سکے، جیسے وہ جنرل نہ ہو جنرل مرچنٹ ہوں۔
دراصل میں یہ بات بہت عرصے سے محسوس کر رہا ہوں کہ کبھی فوج کے حوالے سے کہی گئی ذرا سی بات پر بندہ ہی غائب ہو جاتا تھا یا اس کی اچھی خاصی دھلائی کی جاتی تھی بلکہ بطوریاد گارپیٹ میں دو تین بلٹس بھی رہنے دی جاتی تھیں تاکہ سند رہیں بوقت ضرورت کام آئیں۔
ابھی چند روز پیشتر فوجی ہیلی کاپٹر حادثے میں ہمارے نہایت قیمتی جوان شہید ہوئے جس کا شدید دکھ میرے علاوہ پوری قوم کو تھا، ان سے کسی کا کوئی خونی رشتہ نہیں تھا مگر وہ ہمارے لیے اپنا خون بہانے والوں میں سے تھے، اس دردناک قومی سانحہ پر چند بدبختوں نے سوشل میڈیا پر یقیناً ایسی کوئی یاوہ گوئی کی ہو گی جس پر فوج کی طرف سے سخت ردعمل آیا۔
بتایا گیا کہ ان کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے مگر اس میں حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ نوجوان زندہ سلامت اور بقائمی ہوش وحواس ٹی وی پر پیش کیاگیا جس نے اپنی سیاسی وابستگی بتائی اور اپنی حرکت پر شرمندگی بھی ظاہر کی ۔ ظاہر ہے وہ نوجوان اس وقت اپنے گھر پر اپنے اہلخانہ کے ساتھ بخیرو عافیت گپ شپ کر رہا ہو گا۔
میری اٹھک بیٹھک عامل صحافیوں کے ساتھ بہت کم ہے، آئی ایس پی آر سے بھی رابطہ نہیں۔ آئی ایس آئی کے کسی افسر یا کلرک سے بھی علیک سلیک نہیں سوشل میڈیا پر صرف فنی قسم کی پوسٹس دیکھتا ہوں۔ ان رابطوں سے کچھ نہ کچھ ضرور پتہ چل جاتا ہےکہ آخر بات کیا ہوئی کہ صدرِ مملکت کو شہیدوں کے جنازے میں جانے سے روک دیا گیا؟
ملزم کو زندہ سلامت ٹی وی پر بھی پیش کیا گیا تاہم اس کے ساتھ شدید غم و غصہ والا بیان ضرور جاری کیا گیا۔دوسری طرف میں دیکھتا ہوں کہ جنرل باجوہ کی ٹیم کھل کر 2018کے الیکشن میں عمران خان کے ساتھ کھڑی ہوئی مگر جب (غالباً)مطالبات حد سے بڑھے تو غیر جانبداری کی روش اپنائی گئی۔
عمران خان نے اس پر سخت غم وغصہ کا اظہار کیاکہ اب کچھ لوگ نیوٹرل ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں بقول عمران خان نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے انسان تو حق کے ساتھ ہوتا ہے، اپنے حق پر ہونے کا فیصلہ انہوں نے خود کیا اور یہ بھی نہیں سوچا کہ ادارے نیوٹرل ہی ہوتے ہیں۔
انہوں نے نیوٹرل ہونے کا حلف اٹھایا ہوتا ہے اب آپ سوچیں کبھی یہ گمان بھی کیا تھا کہ کسی آرمی چیف کے بارے میں اول فول بکا جائے اور فوج کے جذبات مجروح نہ ہوں، مورچوں میں ہماری جانوں کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالنے والے نوجوانوں کے دلوں پر کیا بیتتی ہو گی جب وہ اپنے جنرل کے بارے میں اس طرح سے گستاخی ہوتے دیکھتے ہوں گے ؟
آپ یقین کریں میں نے کئی بار سوچا تھا کہ پاک فوج کی اس طرح تو ہین کرنے والوں کے بارے میں کچھ لکھوں جب ریٹائرڈ فوجی بھی جتھے کی صورت میں بالواسطہ طور پر پی ٹی آئی کی حمایت میں نکل آئے تومیں سوچتا تھا کہ یہ لوگ پی ٹی آئی کے دوست ہیں یا دشمن جو اس جماعت کی مقبولیت کو کسی کا ’’دان‘‘ قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں مگر میں نے اس وقت بھی اپنا قلم اپنے اصل مزاج یعنی طنزو مزاح کے مضامین پر ہی مرکوز رکھا لیکن اب حد ہو گئی ہے۔
خان صاحب فوج کو بھی دھمکاتے ہیں عدلیہ کو بھی دھمکیاں دیتے ہیں انتظامیہ کو بھی ’’تڑیاں‘‘ لگاتے ہیں اور شرفاء کی پگڑیاں اچھالنا تو ان کا روز مرہ کا معمول ہے ۔یہ موضوع بہت نازک ہے میں چاہتا تو اس پر بہت کچھ لکھ سکتا تھا مگر
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا
اس کے باوجود میں یہ کہنے کی جسارت ضرور کروں گا کہ پاکستان کا اس سے بڑا دشمن اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا جو ہماری سیسہ پلائی، دنیا کی بہترین فوج میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کرے ۔
ہم سب نے ایک دن یہاں سے چلے جانا ہے مگر پاکستان نے یہیں رہنا ہے اور ہمارے بچے دنیا کے سب سے خوبصورت ملک پاکستان کو پہلے سے زیادہ نکھاریں گے پہلے سے زیادہ سنواریں گے۔
اور اب آخر میں پاکستان کے حوالے سے میرے چند اشعار
پاکستان کے لئے ایک نظم
میرے وطن، اے میرے سپنے، تیرے سپنے دیکھوں
آنکھ کھلے تو قریہ قریہ رنگ بکھرتے دیکھوں
گھر سے سینہ تان کے نکلیں تیرے چھیل چھبیلے
چاروں جانب ہنستی آنکھیں، ہنستے چہرے دیکھوں
میرے ہر اک سانس میں تیرے نام کے گھنگرو باجیں
آنکھیں بجھتے، بجھتے تیرے خواب جزیرے دیکھوں
گھنے درختوں، گہری چھائوں، سبز ہوائوں والے
میں تیری دہلیز پہ بیٹھا تیرے رستے دیکھوں