پاکستان اور افغانستان کے تعلقات گذشتہ پچھتر برسوں سے کشیدگی اورایک نوع کی مستقل بے چینی کے مظہر بنے رہے ہیں۔پاکستان کا قیام جن حالا ت میں ہوا ان میں اس امر کی گنجائش تو بہر حال موجود تھی کہ ہندوستان اور پاکستان فوری طور پرمعمول کے تعلقات قائم نہیں کرسکیں گے ، ہر چند کہ اس سمت میں بھی قائداعظم کا اپنا خیال تو یہ تھا کہ یہ دونوں ملک ویسے ہی دوستانہ تعلقات رکھ سکیں گے جیسے امریکہ اور کینیڈا کے درمیان پائے جاتے تھے،تاہم ہندوستان اور پاکستان جن حالات میں دو الگ ملکوں کی صورت میں نقشہ ٔ عالم پر نمودار ہوئے ، جس طرح تقسیم ہند فسادات اور خونریزی کے ماحول میں عمل میں آئی ، اور خون آلود سرحدوں پر جس طرح انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی۔
ان حالات کے تناظر میں بہر حال یہ گنجائش موجود تھی کہ ہندوستان اور پاکستان کو نفرتوں اور عداوتوں کے اس طوفان سے عہدہ برآ ہونے میں کچھ برس تو ضرور لگیں گے ۔لیکن قیام پاکستان کے وقت شاید یہ گمان کسی کو بھی نہ رہا ہو کہ پاکستان کے شمال مغرب میں واقع اس کا پڑوس بھی اُس کے لیے ایک مستقل آزمائش بنا رہے گا،نہ صرف یہ کہ افغانستان کی طرف سے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کی جاتی رہیں گی بلکہ خود پاکستان کی بھی مختلف حکومتیں افغانستان کے داخلی معاملات سے خود کو لاتعلق نہیں رکھ سکیں گی بلکہ ان میں کسی کردار کو اپنی ملکی سلامتی کے لیے کارآمد تصور کریں گی۔ اور یوں دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے اسباب میں اپنا حصہ بھی ڈالیں گی۔گذشتہ پچھتر سال پاکستان اور افغانستان کے درمیان کچھ اس کیفیت میں گزرے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ تو نہیں ہوئی لیکن ان کی سرحدوں پر مختلف آپریشنوں میں اُس سے زیادہ لوگ ہلاک ہوچکے ہیں جتنے پاکستان اور ہندوستان کی جنگوں میں بھی نہیں ہوئے تھے۔
افغانستان دنیا کا وہ واحد ملک تھا جس نے 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد نئی مملکت کے اقوام متحدہ کا رکن بننے کی مزاحمت کی تھی ۔قیام پاکستان کے بعد تقریباً تین عشرے پاکستان کو افغانستان کے ساتھ ایک ایسی سرد جنگ سے دوچار رہنا پڑا جس کا بنیادی سبب افغانستان کا یہ موقف تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان جو ڈیورنڈ لائن قائم کی گئی تھی وہ ایک غیر فطری سرحد تھی جس کا مقصد افغانستان اور پاکستان میں بسنے والے پختونوں کو تقسیم کرنا تھا۔ 2640 کلومیٹر (1640میل)طویل ڈیورنڈ لائن 12نومبر1893ء کو اس وقت کے افغان حکمران امیر عبدالرحمن خان اور سلطنت برطانیہ کے نمائندے سر مارٹیمر ڈیورنڈ کے درمیان ایک معاہدے کے نتیجے میں بچھائی گئی ۔اس سرحد کا مقصد ہندوستان اور افغانستان کے درمیان واقع سرحد کو پر امن بنانا تھا۔
برطانیہ دیکھ رہا تھا کہ اُس کی ہندوستانی نوآبادی اور روس کے درمیان واقع افغانستان کو ایک ’بفر‘ کے طور پر یقینی بنائے تاکہ ہندوستان اور روس کا آمناسامنا نہ ہو اور روس، ہندوستان میں برطانیہ کے استعماری مفادات کو زک پہنچانے کا خیال ذہن میں نہ لائے۔ جب تک انگریز ہندوستان میں موجود رہا بحیثیت مجموعی 1893ء کے اس معاہدے پر عمل جاری رہا۔ برطانوی استعمار بھی یک گونہ اطمینان سے باقی ماندہ ہندوستان پر حکمرانی کرتا رہا، افغانستان کو بھی ہندوستان کی طرف سے کسی خوف یا خطرے سے دوچار نہیں ہونا پڑا۔
البتہ تقسیم ہند کا فیصلہ ہواتو افغانستان کو اس خلش نے آن لیاکہ پختون آبادی پر مشتمل شمال مغربی صوبہ سرحدپاکستان کے حصے میں آجانے کے نتیجے میں پختون اب ہمیشہ کے لیے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تقسیم ہوجائیں گے۔افغانستان نے پشتونستان کا نعرہ بلند کیا اور اگلے پچیس تیس سال اس کو اپنی خارجہ پالیسی کا ایک اہم ستون بھی بنائے رکھا اور یوں پاکستان کے لیے ایک مستقل سفارتی چیلنج کی بنیاد بھی رکھ ڈالی۔اس طویل عرصے میں ظاہر شاہ افغانستان کے بادشاہ تھے۔ اُن کا یکسوئی کے ساتھ پشتونستان کے موقف پر قائم رہنا تاریخ نویسوں کے لیے ایک تحقیق کا دلچسپ موضوع بھی بنا رہا ہے۔ بہت سے تاریخ نویس یہ رائے رکھتے ہیں کہ بادشاہ ظاہر شاہ پشتونستان کے مسئلے کو اپنے اندرونی مسائل کے حل کے طور پر زندہ رکھنا چاہتے تھے۔
افغانستان کے اندر مختلف نسلی گروہ ، جن میں پختون ، فارسی بولنے والے ، تاجک اور دوسرے بڑی تعداد میں موجود تھے ۔ پختون نسل سے تعلق رکھنے والے ظاہر شاہ کے لیے ضروری تھا کہ حکومت پر پختونوں کی بالادستی کو قائم رکھنے کے لیے وہ یہ باور کراتے رہتے کہ ان کی قوم کا ایک بڑا حصہ انگریز کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے پہلے متحدہ ہندوستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے کا اور پھر تقسیم ہند کے بعد پاکستان کا حصہ بنادیا گیا۔پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے اور افغانستان کے درمیان 1980ء کے عشرے سے جن نئے سیاسی رجحانات نے جنم لیا وہ دونوں ملکوں کے لیے کہیں زیادہ نقصان دہ ثابت ہوئے۔1979ء میں افغانستان میں سوویت یونین کی عسکری مداخلت نے ایک نیا باب کھول دیا۔
بادشاہت تو وہاں 1975ء میں سردار دائود نے ہی ختم کردی تھی ،پھر سوویت یونین کی پشت پناہی سے افغانستان میں اشتراکی انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن پھر امریکہ ، یورپ اور ان کے اتحادی ممالک کے ایما پر افغانستان کی اشتراکی حکومت کے خلاف ایک انتہائی بھرپور عسکری مہم شروع کی گئی۔ کئی تنظیمیں تشکیل دی گئیں جو جہاد کے نام سے اور امریکی سی آئی کی براہ راست نگرانی میں افغانستان میں رزم آرا ہوئیں۔ پاکستان کی اُس وقت کی فوجی حکومت نے اپنے ملک کی زمین اور سرحدیں اس مہم کے لیے پیش کردیں۔
نتیجتاً ایک طرف پاکستان اگلے تیس چالیس برسوں کے لیے سیاسی و سماجی عدم استحکام اور داخلی بدامنی کا شکار ہو ا،تو دوسری طرف افغانستان کی دلدل میں پاکستا ن کچھ اس طرح پھنستا چلا گیاکہ اب اس کے لیے نہ وہاں کچھ بچا تھا اور نہ ہی وہاں سے نکلنے کی کوئی صورت اُس کو نظر آتی تھی۔2001ء میں نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکہ نے اُسی طرح افغانستان کو مسخر کرنا چاہا جس طرح ماضی میں سوویت یونین ایسا کرنے کی غلطی کرچکا تھا ۔پاکستان نہ ماضی میں اپنے آپ کو عالمی طاقتوں کی اس لڑائی سے خود کو دور رکھ سکا اور نہ ہی نائن الیون کے بعداُس نے ایسا کرنا قبول کیا۔
پاکستان کی افغانستان پالیسی بدقسمتی سے قومی مفادات کے عین برعکس مختلف حکومتوں کی امریکہ نوازی اور بہ رضا و رغبت افغانستان میں اپنی خدمات پیش کرنے کی پالیسی رہی ہے۔ گذشتہ چالیس سا ل سے اسی پالیسی کے نقصانات پاکستان برداشت کررہا ہے۔ بدقسمتی سے اب بھی حکومتی حلقوں اور فیصلہ سازوں میں ماضی کی اپنی غلطیوں کا کوئی اعتراف موجود نہیں۔ اور اگر یہ اعتراف موجود نہیں ہے تو آئندہ مزید ایسی غلطیاں نہ کرنے کا کوئی احساس بھی موجود نہیں ہوسکتا۔
افغانستان کی داخلی سیاست
افغانستان گذشتہ چالیس پینتالیس برس سے مستقلاً ایک بحران در بحران کی صورت حال سے دوچار چلا آرہا ہے۔2021ء میں وقوع پذیر ہونے والے واقعے کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ واقعہ اس بحران کے خاتمے کا مظہر ثابت ہوگا یا اس واقعے کے باوجود افغانستان کا بحران جاری رہے گا۔ امکانِ غالب یہی ہے کہ افغانستان کو مکمل امن کے قیام ،سیاسی استحکام او ر معاشی ترقی کی راہ پر لگنے میں ابھی وقت لگے گا۔
افغانستان کے طویل بحران کا اب تک کا آخری مرحلہ بیس سال قبل اس وقت شروع ہوا تھا جب امریکہ نے یہاں براہ راست طور پر فوجی مداخلت کا فیصلہ کیا تھا۔ نائن الیون 2001ء کو امریکہ میں نیویارک کے ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون پر دہشت گرد کاروائیوں کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ امریکہ اب افغان بحران میں دھنستا چلائے گا اور اس کو یہاں سے نکلنے میں بیس سال لگ جائیں گے۔
2020ء میں اُس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے طالبان کے ساتھ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بارے میں ایک معاہدہ کیا جس کی رو سے امریکہ کے سارے فوجی یکم مئی 2021ء کوافغانستان سے واپس بلائے جانے تھے ۔صدر جوبائیڈن نے منتخب ہونے کے بعد یہ اعلان کیا تھا کہ امریکہ 11ستمبر2021ء تک افغانستان سے اپنی فوجیں نکال لے گا۔امریکہ اور طالبان کا یہ معاہدہ اس لحاظ سے غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا کہ اس کے اندر امریکی ناکامی کااعتراف پوشیدہ تھا۔ امریکہ، افغانستان کو انتہا پسندوں اور دہشت گرد تنظیموں سے نجات دلانے، وہاں ایک جدید معاشرہ قائم کرنے اور ایک جمہوری مملکت کی بنا رکھنے کے دعووں کے ساتھ داخل ہوا تھا لیکن اب وہ کچھ اس طور وہاں سے رخصت ہورہا تھا کہ اس نے وہاں قائم اپنی حمایت یافتہ حکومت کو بھی اعتماد میں نہیں لیا۔
چنانچہ جہاں ایک طرف طالبان بیس سالہ جنگ کے فاتح قرار پائے وہیں دوسری طرف افغانستان میں موجود حکومت جو امریکی پشت پناہی ہی سے قائم تھی ، بے بنیاد اور بے اختیار قرار پائی ۔جیسے جیسے امریکی انخلاء کی تاریخ قریب آتی گئی، افغانستان کے مختلف صوبوں پر طالبان کے جتھوں کا قبضہ ہوتا چلا گیا، مقامی گورنر اور دوسرے عہدیدار یہاں تک کہ وہاں موجود پولیس اور فوج کے دستے بھی جب کابل میں اپنی حکومت کو چند روز میں منہدم ہوتا ہوا دیکھ رہے تھے ، تو ان کے لیے طالبان کی چڑھائی کے آگے بند نہ باندھنے بلکہ ان کے سامنے سرنگوں ہوجانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔
15گست2021ء کو کابل طالبان کے ہاتھوں فتح ہوا۔امریکی حکومت بمشکل اپنے شہریوں کو وہاں سے نکالنے میں کامیاب ہوئی۔ ایک عالمی طاقت کی یہ ایک عبرت ناک شکست تھی مگر صدر جوبائیڈن نے امریکی انخلاء کو ’غیر معمولی کامیابی‘قرار دیا۔ یہ سب کچھ اس کے باوجود ہوا کہ امریکہ نے دو عشروں میں افغانستان میں 2.3ٹریلین ڈالر خرچ کیے تھے جو تقریباً تین سو ملین ڈالر یومیہ بنتے ہیں۔ امریکہ کو افغانستان میں جانی نقصان بھی بہت ہوا۔تقریباً ڈھائی ہزار امریکی فوجی اور چار ہزار امریکی سویلین بشمول امریکی ٹھیکہ دار جان سے گئے۔ اس عرصے میں ایک لاکھ ستر ہزار کے قریب افغانیوں کی جان گئی۔
افغانستان میں امریکہ کا یہ انجام ایک طویل بحران کا پس منظر رکھتا ہے۔یہ بحران 1970ء کے وسط میں افغانستان میں ہونے والی تبدیلیوں کے وقت سے شروع ہوا اور اس نے بعد ازاں تقریباً پینتالیس سال خون آشامی کے دیکھے ۔اس بحران کو سمجھنے کے لیے افغانستان کے تین بنیادی حقائق کا ادراک ضروری ہے۔ ان میں ایک تو افغانستان کا قبائلی معاشرہ ہے جس کی عصبیتیںوی سے تو تاریخی طور پر چلی آرہی ہیں لیکن گذشتہ چار پانچ عشروں میں ان میں غیر معمولی اضافہ ان وجوہ سے بھی ہوا ہے کہ قبائل کو اس دوران مختلف درجوں میں سیاسی طاقت کا تجربہ بھی ہوا ہے، غیر قانونی اسلحے کی بھی ریل پیل ہوئی ہے جس کے نتیجے میں بے شمار قبائلی سردار اور دوسرے موثر قبائلی افراد جنگجو اور وار لارڈ بھی بنتے رہے ہیں۔
یہی نہیں بلکہ غیر قانونی سرمائے کی ریل پیل نے بھی ان کی طاقت میں اضافہ کیا ہے۔ دوسری طرف افغانستان کی ریاست ہے جوبڑی حد تک جدید ریاستوں کے بنیادی اوصاف سے محروم ہے۔ گذشتہ چالیس پچاس برسوں میں ریاست کا ڈھانچہ جو پہلے ہی کمزور تھا،مستقل شکست و ریخت کا شکار ہوتا رہا ہے۔اس کی کمزوری کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ طالبان کے طوفان کے سامنے اس کی فوج کہیں بھی ٹھہر نہیں سکی۔
فوجیوں نے ہتھیار ڈالے یا طالبان سے مل گئے ۔جب فوج کا یہ عالم تھا تو سول اداروں کے عہدیداروں اور بیوروکریسی نے کون سے مختلف کردار کا مظاہرہ کرنا تھا؟افغانستان کے حالات کی تفہیم کے لیے جس تیسرے عنصر کو سمجھنا ضروری ہے وہ عالمی طاقتوں اور پڑوسی ممالک کے افغانستان کے حوالے سے پیوستہ مفادات(vested interests) ہیں جو افغانستان کے غیر معمولی طور پر اہم محل وقوع کا نتیجہ ہیں ۔ہم ان تینوں بنیادوں کو پیشِ نظر رکھ کر افغانستان کے ماضی کا ایک مختصر جائزہ لیں گے۔
افغانستان کا تلخ ماضی
پہلی جنگ ِعظیم کے بعد جب برطانیہ تیسری اینگلو افغان جنگ میں ناکامی سے دوچار ہوا تو افغانستان کو خود مختاری حاصل ہوئی ،برطانیہ نے افغانستان کی آزادی کو تسلیم کو کیا، اور معاہدہ راولپنڈی میں طے پایاکہ برطانیہ درہ خیبر سے آگے نہیں جائے گا، ڈیورنڈ لائن بین الاقوامی سرحد کے طور پر قائم کردی گئی اور میر امان اللہ خان نے اپنی بادشاہت قائم کر لی۔لیکن کوئی دس سال بعد مخالفین کی مزاحمت او ر بغاوت کے نتیجے میں وہ ملک سے فرار ہو گئے جس کے بعد ظاہر شاہ چالیس سال تک بادشاہ رہے۔ 1973ء میں ظاہر شاہ کے کزن دائود خان نے ان کا تختہ الٹ کر بادشاہت کا خاتمہ کر دیا اور خود صدر بن گئے۔ انہوں نے افغانستان کو جمہوریہ قرار دیا۔
سوویت سے تعلقات میں قربت پیدا کی، ملک کو نیا آئین دیا،اور خواتین کے حقوق تسلیم کرنے کی شروعات کیں۔سردار دائود کے یہ اقدامات ابھی ابتدائی مرحلے ہی میں تھے کہ افغانستان میں کمیونسٹ انقلاب آگیا اور نور محمد ترہ کی صدر اور ببرک کارمل وزیرِ اعظم بن گئے۔ انہوں نے اصلاحات کے عمل کو منضبط کرنے کی کوشش کی مگر ایک جانب افغانستان کا روایتی معاشرہ جو برسہا برس سے ایک خاص ڈگر پر چل رہا تھا اور جس میں مقامی سطح پر اختیارات قبائلی سرداروں کے پاس ہوتے تھے، خواہ وہ زمینوں سے متعلق ہوں یا پانی سے، یا پھر عدالت اور انصاف سے متعلق، اس روایتی معاشرے کے لیے مرکز کی طرف سے متعارف کردہ اصلاحات سے ہم آہنگ ہونا آسان نہیں تھا۔
دوسری طرف بر سرِ اقتدار گروپ کے اندر شدید اختلافات بھی پائے جاتے تھے، چنانچہ ترہ کی اور حفیظ اللہ امین کے شدید اختلافات ترہ کی کے قتل پر منتج ہوئے۔ کچھ عرصہ اختیارات حفیظ اللہ امین کے پاس رہے، لیکن دسمبر 1979ء کے اواخر میں سوویت یونین براہِ راست افغانستان میں داخل ہو گیا اور ببرک کارمل کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔
سوویت یونین کے افغانستان میں داخل ہونے پر جہاں بہت سے قبائل کی مزاحمت تیز ہوئی اور افغان مہاجرین کی پاکستان اور ایران آمد کا سلسلہ شروع ہوا، وہیں دوسری طرف امریکہ، برطانیہ، دوسرے یورپی ممالک اور سعودی عرب کی پشت پناہی سے پاکستان میں موجود افغان مہاجرین میں سے مجاہدین کے گروپ تشکیل دیے گئے، جنہیں جدید ترین امریکی اسلحے سے لیس کیا گیا اور ان کی تربیت کے لیے پاکستان کی سرزمین کو استعمال کیا گیا۔
1979ء میں افغانستان سے سوویت یونین نے اپنی افواج کے انخلا کے اعلان کے بعدا مریکہ کے ساتھ مستقبل کے لائحہ عمل پر غور کے لیے سلسۂ جنبانی شروع کیا اور جنیوا میں امریکہ، سوویت یونین، پاکستان اور افغانستان کے درمیان معاہدہ طے پایا جس کے نتیجے میں سوویت افواج کا افغانستان سے انخلا شروع ہوا اور سوویت یونین ہی کے حمایت یافتہ ڈکٹر نجیب اللہ افغانستان کے صدر بن گئے۔
ضیاء الحق کی حکومت مجاہدین کی سرپرستی کرتی رہی ، پاکستان کی یہ پالیسی اگست 1988ء میں جنرل ضیاء الحق کی ایک ہوائی حادثے میں ہلاکت کے بعد بھی جاری رہی ۔چنانچہ 1992ء میں مجاہدین کے گروپ کابل کو فتح کرنے میں کامیاب ہوئے اور ڈاکٹر نجیب اللہ کو اقوام متحدہ کے دفتر میں پناہ لینا پڑی ۔ اس پورے عرصے میں مجاہدین کے گروپ آپس میں لڑتے بھی رہے اور کابل مسلسل کشت و خون کا مرکز بنا رہا۔
طالبان کا طوفان اور نائن الیون
1995ء میں طالبان کا ظہور ہوا اور وہ افغانستان کے دور دراز علاقوں میں مقامی وار لارڈز پر قابو پاتے اور امن کے داعی بن کر بالآخر کابل تک پہنچ گئے۔ انہوں نے مجاہدین کے گروپوں کے کردار کو بڑی حد تک کمزور کیا، سرکاری اداروں کو اپنے کنٹرول میں لے کر آئے، اپنے فہم اسلام کے مطابق سخت گیر قوانین کو نافذ کرنے کی کوشش کی، سرِ عام پھانسیاں دینے کا سلسلہ شروع کیا، خواتین کی تعلیم اور ملازمت کو بڑی حد تک ختم کر دیا۔1997 ء میں نجیب اللہ کو اقوام متحدہ کی عمارت سے نکا ل کر پھانسی دے دی گئی۔
اس پورے عرصے میں طالبان کو ان گروہوں کی تائید بھی حاصل رہی، جو اب القاعدہ نامی تنظیم کے تحت جمع تھے جس کی قیادت اسامہ بن لادن کر رہے تھے اور جو دنیا کے مختلف ملکوں میں اپنا نیٹ واک پھیلا چکی تھی۔ 11 ستمبر 2001ء کو چار ہوائی جہازوں کے ذریعے امریکہ کے تجارتی و عسکری اعصابی مراکز پر حملے کیے گئے، نیویارک کا ورلڈ ٹریڈسنٹر، اور واشنگٹن میں پینٹاگون کا مرکز ان حملوں کے ہدف بنے۔
امریکہ نے اسامہ بن لادن اور القاعدہ کو ان حملوں کا ذمہ دار قرار دیا اور پاکستان کو دھمکی دی کہ وہ عالمی دہشت گردی کے خلاف امریکی مہم میں اس کا ساتھ دے ورنہ خود اس کو سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے فوراً آمادگی ظاہر کر دی اور آ ئندہ دنوں میں افغانستان میں امریکی فوجی کارروائی کی نہ صرف زبانی حمایت کی بلکہ اس کا عملاً ساتھ دیا۔ پاکستان نے امریکہ کو اپنی سرزمین سے کارروائیاں کرنے کی اجازت دی، اپنے چندہوائی مستقر امریکہ کے حوالے کر دیے اور اپنی فضائی حدود کو افغانستان پر حملے کرنے کے لیے فراہم کردیا۔
اگلے دس پندرہ برسوں میں دہشت گرد کاروائیاں پاکستان میں بھی پھیلتی چلی گئیں۔ تحریکِ طالبان پاکستان ایک بڑی دہشت گرد قوت بن کر پاکستان کے دور افتادہ علاقوں میں پھیل گئی اوراس نے عام شہریوں کے لیے عرصہ ٔ حیات تنگ کردیا۔
طالبان کے وہ جتھے جو افغانستان کے اندر مصروفِ کار تھے وہ پہلے تو کابل سے نکلے اور انہوں نے جنوب میں واقع قندھار میں پناہ لی لیکن 2001ء کے اواخر تک انہیں قندھار کو بھی چھوڑنا پڑا اور بالکل آخر میں انہیں زابل کے صوبے کو بھی سرینڈر کرنا پڑا۔ بظاہر طالبان افغانستان میں شکست کھا چکے تھے۔ امریکہ کی حمایت سے پختون لیڈرحامد کرزئی افغانستان کی عبوری حکومت کے صدر بنا دیے گئے۔ وہ امریکہ کے حمایت یافتہ تھے اور کئی سال پاکستان میں رہ چکے تھے ۔
جون 2002ء میں حامد کرزئی نے ایک لویا جرگہ کے ذریعے خود کو منتخب کروایا اور اپنی ایک کابینہ مقرر کی لیکن وہ باوجود مکمل امریکی سیاسی و عسکری پشت پناہی کے افغانستان میں امن قائم نہیں کرسکے ۔2003ء تک نیٹو بھی افغانستان میں دہشت گرد کاروائیوں کے خلاف جاری مہم کا حصہ بن چکا تھا۔ لویا جرگہ ہی کے زریعے جنوری 2004میں ایک نیا آئین اختیار کیا گیا جس کی رو سے صدر اوردو نائب صدورکے عہدے تشکیل دیے گئے۔ اکتوبر 2004ء میں صدارتی انتخاب منعقد ہوا۔
سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ڈیڑھ کروڑ افغان ،ووٹرز کی حیثیت سے رجسٹرڈ تھے جنہیں اٹھارہ امیدواروں میں سے صدر کا انتخاب کرنا تھا۔ان متنازعہ انتخابات میں عبوری صدر کرزئی سرکاری اعلان کے مطابق پچپن فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے۔ باوجود ان تمام کوششوں کے افغانستان میںامن بحال نہ ہوسکا۔ طالبان کی مسلّح کاروائیاں مسلسل جاری رہیںاور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں شدت بھی آتی چلی گئی۔
کم و بیش یہی زمانہ تھا جب 2011میں امریکہ نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو تلاش کرلیا اور ایک انتہائی ڈرامائی کاروائی کرتے ہوئے امریکی میرینزاس کو قتل کرکے اس کی لاش ہیلی کاپٹروں کے زریعے اپنے ساتھ لے گئے ۔اس بڑی کامیابی کے باوجود جہاں امریکہ افغانستان میں مشکلات سے نکل نہیں پارہا تھا وہیں امریکی رائے عامہ رفتہ رفتہ اس مہم جوئی سے تنگ آتی جارہی تھی۔ بالآخر امریکی حکومت نے مئی 2014ء میں افغانستان میں اپنی فوج کی تعدادکم کرنے کا اعلان کیا۔ نیٹو نے اپنے دستے واپس بلالیے ۔امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد نئے صدر نے ’پہلے امریکہ ‘ا نعرہ لگایا ۔اس کا مقصد یہ تھا کہ ہم اپنے ملک کے حالات کو اولیت دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ وہ افغانستان سے اپنی افواج مکمل طور پر نکال کر وہاں دہشت گردوں کے لیے کوئی خلاء تو پیدا نہیں کریں گے لیکن تدریج کے ساتھ اپنی فوج کو واپس بلانے کا عمل شروع کریں گے۔ اسی دوران امریکہ کے طالبان کے ساتھ براہ راست شروع ہوئے۔ دوہا میں ہونے والے یہ مذاکرات غیر معمولی اہمیت کے حامل تھے۔ان مذاکرات کے زریعے جہاں ایک طرف یہ پیغام گیا کہ امریکہ نے طالبان کو ایک فریق کی حیثیت سے تسلیم کرلیا ہے دوسری طرف یہ بھی پیغام گیا کہ افغانستان کی حکومت امریکہ کی نظروں میں افغانستان کی واحد سیاسی قوت نہیں تھی۔
یہ افغان حکومت پر امریکہ کے عدم اعتماد کی بھی مظہر صورت حال تھی۔یہی نہیں بلکہ امریکہ کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی دعوت طالبان کے لیے غیر معمولی تقویت کا باعث تھی۔ کئی ماہ چلنے والے یہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوئے اور امریکہ نے افغانستان سے اپنے فوجی واپس بلانے کا سلسلہ شروع کردیا۔ جوبائیڈن نے صدر منتخب ہونے کے بعد اعلان کیا کہ و ہ نائن الیون 2021ء تک افغانستان سے اپنی فوجوں کا انخلا ء مکمل کرلیں گے۔
افغانستان پر طالبان کا دوسرا قبضہ
یہ انخلاء ابھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ طالبان نے مختلف صوبوں پر قبضہ کرنا شروع کردیا اور 15اگست کو افغان حکومت اس وقت منہدم ہوگئی جب صدر اشرف غنی خاموشی سے ملک سے فرار ہوگئے۔ افغان فوج کے دستوں نے مختلف علاقوں میں ہتھیار ڈالنے شروع کردیے۔ بعض جگہ وہ طالبان کے ساتھ مل گئے۔ طالبان ایک مرتبہ پھر افغانستان پر قابض ہوچکے تھے۔ اگلے چند دنوں میں افغانستان شدید افراتفری کا شکار رہا۔ طالبان کے ماضی کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے ملک میں سراسیمگی پھیلی ہوئی تھی۔
خواتین خاص طور سے غیر یقینی کا شکار تھیں اور نظر آرہا تھا کہ ماضی کی وہی سخت گیر غیر انسانی پالیسیاں ایک مرتبہ پھر ان پر ناروا پابندیاں لگانے کا سبب بن جائیں گی۔سینکڑوں افغانیوں نے ملک سے فرار کا راستہ اختیار کی یہاں تک کہ لوگ ایئر پورٹ سے اڑنے والے جہازوں کے پروں اور پہیوں سے لپٹ کر فرار ہونے کی کوشش میں گِر گِر کر ہلاک ہوتے رہے اور دنیا نے یہ اذیت ناک مناظر ٹیلی وژن کی اسکرینوں پر دیکھے۔
افغانستان کی ابتر صورت حال اور مستقبل کے چیلنجز
افغانستان ایک مرتبہ پھر طالبان کے کنٹرو ل میں آچکا ہے۔ کابل پر قابض ہونے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ افغانستان کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ گذشتہ بیس بائیس برسوں میں افغانستان میں جو تھوڑی بہت آزادیوں کی فضابہم ہوئی تھی اور خواتین نے معمول کی زندگی گزارنا شروع کی تھی یا اظہار کی جو تھوڑ ی بہت آزادیاں میسر آئی تھیں وہ سب اب ختم ہورہی ہیں۔ابتدا میں طالبان نے تاثر دیا تھا کہ وہ ماضی کے مقابلے میں مختلف رویوں کا مظاہرہ کریں گے لیکن افغانستان سے آنے والی خبریں اس تاثر کی نفی کررہی ہیں۔
طالبان نے ملک پر قبضہ تو کرلیا ہے اور بڑی حد تک ملک کے زیادہ تر صوبے ان کے مکمل کنٹرول میں ہیں لیکن نسلی اور علاقائی تضادات اتنے گہرے ہیں کہ ان کو نہ تو کسی نظریے اور نہ ہی اسلحے کے زور پر قابو میں کیا جاسکتا ہے ۔طالبان سے امریکہ نے یہ شرط منوائی تھی کہ وہ افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت قائم کریں گے لیکن ایسی کسی حکومت کے قیام کا امکان نظر نہیں آتا۔
طالبان کو جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ ملک کی اقتصادی صورت حال ہے۔ افغانستان کا جو بھی انفراسٹرکچر تھا وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے۔پڑھے لکھے اور ہنر مند لوگ ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں ۔باہر سے کوئی آنے کو تیار نہیں۔ معاشی نظام کو چلانے کے لیے بیرونی امدادکی طرف نظریں گڑھی ہوئی ہیں۔ امریکہ اور دوسرے یورپی ملکوں کا رویہ عدم تعاون کا ہے ۔مسلم ممالک بھی کسی غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کررہے کہ سب اپنے اپنے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ ایسے میں چین کی طرف سے افغانستان میں اقتصادی منصوبے شروع کرنے کا اعلان طالبان کی حکومت کے لیے تقویت کا باعث بنا ہے۔ روس ، ترکی اور پاکستان بھی افغانستان کے اقتصادی استحکام کے نہ صرف خواہشمند ہیں بلکہ اس کے لیے عملی تعاون کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔
افغانستان اس ساری صورت حال سے ایسے وقت دوچار ہوا ہے جبکہ اس کا ریاستی ڈھانچہ تقریباً غیر موثر ہوچکا ہے۔ فوج اور پولیس جن کی تعمیر کے بڑے دعوے امریکہ کی طرف سے کیے گئے تھے، طالبان کے ہاتھوں کابل کے سقوط سے پہلے ہی اپنی وفاداریاں بدل چکے تھے۔ بہت سے ماہرین بیرونِ ملک جاچکے ہیں۔ تجربے کاربینکر، استاد ،انجینئر اور ڈاکٹر باہر کے ملکوں میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں ۔ایک عام افغان شہری زندگی کی بنیادی سہولتوں مثلاً بجلی اور پانی کی سپلائی سے محرومی کا شکار ہیں۔
افغانستان جو ابتلا کی ایک طویل تاریخ کا سفر طے کرتے ہوئے یہاں تک پہنچا ہے، اب بھی کسی روشن مستقبل کا صرف خواب ہی دیکھنے کی پوزیشن میں ہے۔ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا یہ خواب کب تک محض خواب رہے گا۔