• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذہانتیں اور فنی مہارتیں ٹھہریں ان کی کامیابی کی ضمانتیں

امریکا کے معروف جریدے ’’فوربز‘‘ نے 2024ء میں دنیا کے طاقت ور ممالک کی فہرست جاری کی ہے، جس کو مرتب کرنے میں اس ملک کی قیادت، سیاسی اثرات، معیشت اور عسکری قوت کے علاوہ عالمی اتحادات طاقت ور ممالک کی درجہ بندی میں شامل ہیں، فہرست میں 55 ممالک شامل ہیں، جن میں امریکا سرفہرست ہے، جب کہ چین دوسرے، روس تیسرے، جرمنی چوتھے، برطانیہ پانچویں نمبر پر ہے۔ جنوبی کوریا، فرانس، جاپان، سعودی عرب اور امارات بالترتیب چھٹے سے دس ویں نمبر پر ہیں۔ 

فہرست کے مطابق اسرائیل کو دنیا کا 11واں‘ بھارت کو 12واں ‘کینیڈا 13واں‘یوکرین 14‘ترکی 15‘ اٹلی 16‘ آسٹریلیا 17‘ ایران18‘ برازیل 19 اور اسپین کو 20واں طاقتور ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔ طاقتورترین ممالک کی فہرست میں389ارب ڈالر جی ڈی پی اور 18075ڈالر فی کس آمدنی کے ساتھ 18ویں نمبر پر ایران براجمان ہے۔ فہرست میں بنگلہ دیش 40ویں نمبر پر ہے جس کی جی ڈی پی 460ارب ڈالر اور فی کس آمدنی 7395ڈالر ہے ۔ سری لنکا 53درجے پر ہے۔ اس کی جی ڈی پی 74.4ارب ڈالر جبکہ فی کس آمدنی 14405ڈالر ہے۔

فہرست طویل ہے۔ ذیل میں ’’ٹاپ 13‘‘ ممالک کے بارے میں ملاحظہ کریں اور جانیے کہ انہیں یہ نمبر کیوں ملے۔

امریکا نمبر ون ہے: امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلی بار ’’امریکا پہلے‘‘ کا قومی نعرہ دیا۔ یہ 50سے زائد ریاستوں پر مشتمل ریاستوں کی یونین ہے۔ دارالخلافہ واشنگٹن ڈی سی، رقبہ 92 لاکھ مربع کلو میٹر جب کہ آبادی 34 کروڑ 70 لاکھ سے کچھ زیادہ ہے۔ یہ بین الاقوامی کلچر پر مشتمل ملک ہے، جہاں دنیا کا تقریباً ہر ملک کا باشندہ آباد ہے۔ اس کی فی کس آمدنی تقریباً 60 ہزار ڈالر ہے، جب کہ مجموعی سالانہ آمدنی 28.76 ٹریلین ہے۔ امریکا دنیا کی مستحکم جمہوری روایات، آزادی اظہار اور بنیادی انسانی حقوق کا پاسدار ملک سمجھا جاتا ہے۔ 

اس کے صنعتی، زرعی، معاشی، تعلیمی، تحقیقی، سماجی اور سیاسی شعبے مستحکم اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہیں۔ قانون کی بالادستی ہے۔ امریکی قانون میں ٹیکس چوری کی سزا عمر قید ہے، اس کو قتل سے بھی بڑا جرم تسلیم کیا جاتا ہے۔ قانون کے بعد ہر ریاست اپنا بجٹ خود بناتی ہے اور آمدنی کے ذرئع تلاش کرکے کاروبار سیاست چلاتی ہے۔ سیکورٹی، خارجی اور دفاعی معاملات دیکھنا وفاق کی، جب کہ تعلیم، صحت عامہ، بلدیاتی امور اور پولیس کے محکمے ریاست کی ذمے داری ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا بحری بیرہ امریکا کا ہے اور 600 سے زائد فوجی اڈے دنیا بھر میں موجود ہیں۔

چین: دس طاقت ور ممالک کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے۔ گزری صدی کے آخری عشرے میں چین نے صف اول کے ممالک میں اپنی نمایاں جگہ بنائی۔ اس کی ترقی ناقابل یقین ہے۔ ایک ارب 41 کروڑ آبادی کے حامل اس ملک کو دنیا کی سب سے بڑی بری فوج رکھنے کا اعزاز حاصل ے۔ چینی مصنوعات کی دنیا بھر میں مانگ ہے۔ سب سے بڑا درآمدکنندہ ہے۔ سالانہ مجموعی آمدنی 18.53 ٹریلین ڈالر، جب کہ سالانہ فی کس آمدنی 19 ہزار ڈالر سے زائد ہے۔ چین کا نیا ہدف ون روڈ ون روٹ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ 

اس پروجیکٹ میں دیگر ممالک شامل ہوتے جارہے ہیں۔ اس کا اہم مقصد معاشی ترقی اور تجارت کو آگے بڑھانا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ 2050 تک چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔ گوادر پورٹ پروجیکٹ سب سے اہم تجارتی مرکز بن کر ابھرے گا۔ اس سے پاکستان کو بھی ترقی کے نئے مواقع میسر آئیں گے۔ چین نے دنیا کے مختلف ممالک سے سرمایہ کاری کے معاہدے کیے ہیں۔ اس حوالے سے چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور عسکری بن جائے گا۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی قدم جمارہا ہے، خصوصاً مصنوعی ذہانت اور 3.5 ٹیکالوجی میں لیڈر بن جائے گا۔

روس: قدرتی وسائل، فوجی طاقت اور مغربی ممالک کو مختلف معاملات میں نیچا دکھانے الا یہ ملک فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔ رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک کئی ممالک کے ساتھ مشترکہ سرحدیں رکھتا ہے۔ یہ ایک بڑی عسکری طاقت ہے۔ اس کی اقتصادی طاقت پیٹرول اور کوئلے کے ذخائر ہیں۔ اس نے اپنے قدرتی وسائل کو کیپٹلائز کیا ہے اور دنیا کی امیر ترین قوموں سے ایک بن گیا ہے۔ ایک سال میں سب سے زیادہ دفاع پر خرچ کرنے والا روس تیسرے نمبر پر ہے۔

روس اپنے وسیع قدرتی وسائل اور فوجی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے عالمی جغرافیائی سیاست میں بھی اہم کردار ادا کررہا ہے۔ اپنے خلائی پرگرام پر بھی توجہ مرکوز رکھتا ہے، جس میں آنے والے سالوں میں کئی مشن لانچ کرنے کا منصوبہ ہے یعنی Uenera-D-Lander ان مشنوں کا مقصد چاند اور دیگر سیاروں کو تلاش کرنا ہے۔

جرمنی: عالمی سطح پر جرمنی کا کردار ہر گزرتے برس کے ساتھ اہمیت اختیار کرتا جارہا ہے۔ وفاقی جمہوری جرمنی یونین کا اہم ترین ملک اور دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے۔ یہ دوسری عالمی جنگ پوری طرح تباہ ہوچکا تھا، مگر جرمن قوم کی محنت، لگن اور صلاحیتوں سے اس نے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف اول میں نمایاں جگہ بنالی۔ جرمنی کی مجمومی آمدنی 4.1 ٹریلین ڈالر جبکہ فی کس سالانہ آمدنی 48 ہزار ڈالر کے قریب ہے۔ جدید انفرااسٹرکچر اور نقل و حمل کی بنیادی سہولتوں کی وجہ سے جرمنی کا صنعتی شعبہ بہت مستحکم اور ترقی یافتہ بن گیا۔ سوشل اکنامی، سرمایہ کاری، اعلیٰ ٹیکنالوجی، جدت طرازی، ترقی کی لگن اور صفر کرپشن اس کی ترقی اور بڑی معیشت کا راز ہے۔ 

پانچ سو سے زائد صنعتی، سرمایہ کاری اور تجارتی ادارے جرمنی کی اقتصادی قومت ہیں۔ جرمن قوم کا معیار زندگی بلند تر ہے۔ تعلیم، صحت عامہ، میونسپل ادارے، جمہوری روایات، بنیادی حقوق کی پاسداری، تحمل مزاج اور اظہار آزادی معاشرے کا اثاثہ ہیں۔ جرمنی کی صنعتی ترقی میں موٹر کاروں کی صنعت، الیکٹرونکس، ادویات، کیمیکل کی صنعت، مشنری اور سولر انرجی نمایاں ہیں۔ معیشت کے ساتھ جرمنی نے انسانی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے بھی بھرپور توجہ دی۔ 

تعلیم، تحقیق، طبی سہولتیں، صحت و صفائی، میونسپل ادارے، امن عامہ، انصاف کی فراہمی، انسانی حقوق، اظہار رائے کی آزادی اور جمہوری روایات معاشرے کا خاصا ہیں۔ جرمن قوم نے انسانیت کی فلاح اور ترقی میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ تعلیم، تحقیق، فنون لطیفہ، طب اور سائنس کے شعبے اور ادب عالیہ جرمنی کا قیمتی اثاثہ سمجھے جاتے ہیں۔

برطانیہ: برطانیہ طاقت ور ممالک کی فہرست میں پانچواں نمبر، یورپ کی سب سے بڑی فوجی طاقت اور دنیا کی پانچویں بڑی معیشت کا اعزاز اسے حاصل ہے۔ سالانہ مجموعی آمدنی2.9ٹریلین ڈالر، فی کس سالانہ آمدنی چوالیس لاکھ ڈالر سے کچھ زائد ہے۔ یہ ملک سترہویں صدی کے بعد دنیا کی سب بڑی قوت بن کر ابھرا نوآبادیاتی دور میں اس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا مگر دوسری عالمی جنگ کے بعد اس کو نوآبادیات سے ہاتھ دھونا پڑا اور امریکہ سپرپاور بن کر ابھرا۔ 

برطانیہ کی معیشت تقریباً ستاون ارب پتی خاندانوں کے ہاتھوں میں ہے۔ آبادی چھ کروڑ اسی لاکھ سے تجاوز کررہی ہے۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کی اولین تحریکیں یہاں سے ابھریں اس حوالے سے برطانیہ کو مدر آف ڈیموکریسی بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں جمہوریت شفاف اور اس کی جڑیں گہری ہیں۔ برطانیہ یہ میں پہلا صنعتی انقلاب رونما ہوا۔ 

اس کا صنعتی شعبہ بہت مستحکم اور وسیع ہے جدید لڑاکا طیاروں سے لے کر کاغذ کی پن تک تیار ہوتی ہے۔ ٹیکسٹائل، ادویات، کیمیکل کمپیوٹر، مشنری، بحری جہاز، بینکاری کے شعبے ترقی یافتہ ہیں۔ ماہی گیری کی صنعت پرافی اور وسیع ہے۔ سیاحت، تعلیم و تربیت کے لئے ہزاروں افراد برطانیہ آتے ہیں۔ یہ جدید دنیا اور قدیم روایات کا حسین مجموعہ ہے۔ بادشاہت قائم ہے مگر جمہوریت سب سے زیادہ مستحکم ہے یہ واحد ملک ہے جس کا آئین تحریری نہیں ہے۔

جنوبی کوریا: فوربز کی فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے۔ طاقت کے لحاظ سے اس کی معیشت دنیا میں 11ویں نمبر پر ہے۔ یہ متعدد سرکردہ ٹیک کمپنیوں کا گھر ہے، جو عالمی معیشت میں مضبوط پوزیشن میں ہے۔ اب یہ سبز توانائی کے اقدامات کو فروغ دینے کے لئے قابل تجدید توانائی کے ذرائع بھی اپنا رہا ہے۔ شمالی کوریا سے کشیدگی کے باعث جنوبی کوریا کو عالمی بڑی طاقتوں میں فوجی اور سیاسی معاونت ملتی رہتی ہے جو اسے ایک اہم ملک بناتی ہے۔

فرانس: یہ یورپی تہذیب، تمدن اور فنون لطیفہ، ادب اور موسیقی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ دنیا کی چھٹی بڑی معیشت اور یورپ کی دوسری بڑی عسکری طاقت ہے۔ سالانہ مجموعی آدنی 2.8 ٹریلین ڈالر ہے فی کس سالانہ آمدنی 44 ہزار ڈالر ہے۔ آبادی چھ کروڑ نوے لاکھ کے قریب ہے۔ یہاں بھی دنیا کے ہر ملک کا باشندہ آباد ہے خاص طور پر مشرق وسطی اور افریقہ کے باشندے سے اکثریت میں ہیں۔ 

فرانس تعلیم، تحقیق، صنعت عامہ کے شعبوں کی ترقی کے لئے بڑی رقم خرچ کرتا ہے۔ نیٹو اتحاد کا اہم رکن ہے۔ فرانسیسی بحریہ، فضائی قوت اور بڑی افواج جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہے خاص طور پر فوجی لڑاکا طیاروں کی ترقی نمایاں ہے۔ زرعی طور پر بھی خوشحال ملک ہے۔

کاروں، مشینری، کیمیکل، ادویات، جدید مواصلات، پارچہ بانی، جدید ہتھیاروں اور زرعی آلات کے شعبہ جدید اور ترقی یافتہ ہیں۔ فرانس میں انقلاب فرانس کے بعد جمہوریت کی تحریک زور پکڑتی رہی اب فرانس جمہوری اقدار، انسانی حقوق، مساوات، آزادی اور جدیدیت کا علمبردار ہے۔ فرانس نے ادب عالیہ، موسیقی، مصوری اور دیگر فنون میں نام پیدا کیا۔

یونسکو کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی سیاحت کا سب سے بڑا ملک ہے اور فرانس نے انسانی تہذیب و تمدن کو آگے بڑھانے کے لئے اہم کردار کیا۔ پیرس فرانس کا دارالخلافہ ہے اپنی تعمیر اور شہریات میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے اور خوبصورت ترین شہروں میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ فرانس خاص طور پر پیرس کی سڑکیں رات میں بھی دن کا سماں پیش کرتی ہیں۔

جاپان: ٹیکنالوجی کے لحاظ سے سرفہرست چند ممالک میں سے ایک ہے۔ دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل ہی سے جاپان جدید ترقی کی دوڑ میں شامل ہوچکا تھا مگر دو عالمی جنگوں نے جاپان کی کمر توڑ دی۔ مگر جاپانی قوم نے اپنی مسلسل محنت لگن اور قومی جذبہ سے سرشار ہوکر جاپان کی ازسرنو جدید خطوط پر تعمیر کی اور پھر صف اول کی اقوام میں اپنی نمایاں جگہ بنالی۔ رقبہ 377915؟؟ کلو میٹر ہے، جب کہ مجموعی سالانہ آمدنی تقریباً پانچ ٹریلین ڈالر اور فی کس سالانہ آمدنی چھیالیس ہزار ڈالر ہے۔ جاپان کی صنعتی، سائنسی، خلائی شعبوں میں خاص ترقی کی ہے جبکہ روبوٹس ٹیکنالوجی بھی بہت ترقی یافتہ ہے۔

جاپان تعلیم اور تحقیق کے شعبوں میں دنیا میں سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ جامعات اور تحقیقی سائنسی اداروں میں آٹھ لاکھ سے زائد محققین، ماہرین، سائنس دان اور اساتذہ کام کررہے ہیں۔ صنعتی طور پر جاپان کاروں، مشنری، کمپیوٹرز، ٹیکسٹائل، ادویات، روبوٹس اور خلائی شعبوں میں بہت نمایاں ہے۔ انسانی فلاح و بہبود اور معاشرتی ترقی کے حوالے سے بھی بہت نمایاں ہے۔ انسانی حقوق، قانون کی بالادستی، اظہار رائے کی آزادی، تحمل مزاجی اور جمہوری روایات، معاشرے میں بہت مستحکم ہیں۔ 

جاپانی صحت، صفائی اور انسانی احترام کو بہت اہمیت دیتے اس لئے جاپان کو خوشحال، مہذب اور صاف ستھرے معاشرے کے طور پر صف اول میں شمار کیا جاتا ہے۔ جدید ترقی اور قدیم روایات کا امتزاج بھی جاپانی معاشرہ کا حصہ ہے۔ جاپان کو طوفانوں اور زلزلوں کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے۔ دفاعی طور پر بھی مستحکم ہے۔ جدید ہتھیاروں کی صنعت بھی بہت ترقی یافتہ ہے۔ امریکہ نے اپنا بحری بیڑہ جاپان میں رکھا ہے۔ جاپان سیاحت کے شعبے کو بہت اہمیت دیتا ہے سالانہ تقریباً پندرہ لاکھ سیاح دنیا بھر سے جاپان کی سیر کرتے ہیں۔

سعودی عرب:یہ دنیا کی 10طاقت ور ترین ریاستوں میں شامل ہوگیا ہے۔ فہرست میں پہلی مرتب سعودی عرب نے جگہ بنائی ہے، جسے 9واں نمبر دیا گیا ہے۔ طاقت کی بنیاد اس کی معیشت، تیل کی پیداوار اور خلیجی خطے میں جغرافیائی و سیاسی اثرورسوخ ہے۔ اس کا شمار دنیا کے تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے، جس کے باعث عالمی منڈی میں اس کا اہم مقام ہے۔ کئی ممالک کو برآمد بھی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اقتصادی میدن اور بین الاقوامی تعلقات میں بھی اہم کردار ادا کررہا ہے۔ 

یہ خلیجی تعاون کونسل کا ایک فعال رکن ہے، اس نے کئی بین الاقوامی معاملات میں ثالثی کا کردار ادا کیا ہے۔ حالیہ برسوں میں سماجی اور اقتصادی اصلاحات کے تحت کئی اہم اقدامات کئے ہیں، جس میں خواتین کے حقوق میں بہتری بھی شامل ہے۔ خام تیل کی دولت سے مالا مال مشرق وسطی کے امیر اور طاقت ور ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ جب کہ اسے امریکا، برطانیہ اور دیگر مغربی اقوام کا قریبی اتحادی بھی سمجھا جاتا ہے۔

متحدہ عرب امرات (یو اے ای) :سلحہ درآمد کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے، جب کہ تجارتی اہمیت کے باعث اسے عالمی سیاست میں اہم مقام حاصل ہے۔عالمی تیل کی صنعت میں بھی ایک اہم کھلاڑی ہے، عالمی معثیت میں اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات دنیا کے طاقتور ترین پاسپورٹوں کی فہرست میں بھی 12ویں نمبر پر ہے 2013 کے بعد سے یو اے ای کے ویزا فری اسکور میں 107 مقامات کا اضافہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں گزشتہ دس سالوں میں یہ 56 سے 12ویں مقام پر آگیا ہے۔ یہ سات امارتوں کی آئینی وفاق ہےاور سیاسی ومعاشی طور پر مستحکم ملک ہے ،نیز دس سب سے بڑی ڈونر ریاستوں میں سے ایک ہے۔ 200 سے زائد قومیتوں کی میزبانی کرتا ہے، جو کاروبار کرتے ہیں۔

اسرائیل:طاقت ور ممالک کی فہرست میں 11 واں نمبرہے۔اس کی جی ڈی پی 522 ارب ڈالرز اور فی کس آمدنی ساڑھے 49 ہزار ڈالرز ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ، اسرائیل کی طاقت کے پیچھے مغربی دنیا خاص طور پر امریکا کا بڑا ہاتھ ہے۔امریکااسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک ہے۔ اس کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات دوسری عرب اسرائیل جنگ کے تناظر میں مزید مضبوط ہوئے۔ اسرائیل بنیادی طور پر سپر پاور کی حمایت سے وجود میں آیا، جس نے اسرائیل کو با اختیار بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کا فوجی اور تکنیکی غلبہ مغرب کی وجہ سے ممکن ہوا۔

اسرائیل نےسائنس وٹیکنالوجی ، معیشت اور فوج کے حوالےسے دنیا میں مضبوط پوزیشن بنائی۔ جدید ہتھیاروں، سائبر سیکورٹی ، فضائی دفاع ،میزائل سسٹم اور انٹلیجنس آپریشنز پر توجہ مرکوز کی۔ امریکا کے ساتھ تعلقات اور سرمایہ کاری نے اسرائیل کو عسکری اور اقتصادی طور پر فائدہ پہنچایا۔ اس کی کامیابیوں میں سے ایک اس کا زرعی شعبہ ہے، جس سے وہ زرعی ریاست سے ہائی ٹیک اقتصادی نظام میں تبدیل ہوگیا۔ 

ملک نے جدید آب پاشی نظام کے ذریعے صحرا میں مختلف اقسام کی فصلیں اُگانے میں کامیابی حاصل کی۔ 60 ءکی دہائی میں ایٹمی طاقت بن گیا۔ یہ مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک کے درمیا ن ایک چھوٹا سا ملک ہے اور یہ واحد ملک ہے جو صرف مذہب کی بنیاد پر شہریت دیتا ہے، چاہے یہودی دنیا کے کسی بھی حصے سے ہوں۔ اس کو طاقت ور اور آگے بڑھانے میں امریکا کااہم کردار ہے۔

بھارت: دنیا کی بڑی معیشت اور دوسری بڑی آبادی والا ملک ہے۔ جی ڈی پی 3-39 ٹریلین ڈالر اور سالانہ فی کس آمدنی 8379 ڈالرز ہے۔ اس کا شماردنیا کی قدیم تہذیبوں میں ہوتا ہے۔ ساٹھ فیصد کے قریب آبادی غریب اور پسماندگی کی زندگی گزار رہی ہے۔ بھارت کے دفاعی اخراجات اور اعلیٰ سطح پر کرپشن کی وباء نے عوام کی غربت اور مسائل میں اضافہ کیا ہے۔ تاہم بھارتی تارکین وطن جو امریکہ ، یورپی یونین اورخلیجی ریاست میں ملازمت کرتے ہیں وہ سالانہ تقریباً ستر ارب ڈالر زرمبادلہ بجھواتے ہیں جو معیشت کا اہم ستون ہے۔

بھارتی معیشت کے بارے میں کیا جاتا ہے کہ، تجارتی شعبوں میں ایک سو سے زائد خاندانی آباد ہیں جو آزاد معیشت کے نام پر معیشت کا استحصال کررہے اور امیرامیر تر، غریب مزید غریب ہورہا ہے ۔آبادی میں بے ہنگم اضافےاور دیہی علاقوں میں بنیادی سہولتوں کی کمی کے سبب زرعی ترقی شدید متاثر ہورہی ہے۔ جنوبی ہند کے بیشتر علاقے خشک سالی کا شکار ہیں۔

بھارت کی تیزی سے ترقی کرتی کاروں کی صنعت بھی شدید مندی کا شکار ہے لیکن اس سب کے باوجود طاقتور ممالک کی فہرست میں 12 ویں نمبر پر ہے۔ آئی ٹی اور فارما کے شعبے کام کررہے اور مستحکم ہیں ۔بھارت اور چین نے نئے تجارتی معاہدہ پر دستخط کئے ہیں۔ اس سے یقیننا بھارتی معشیت میں بہتری آئےگی۔

کینیڈا:شمالی امریکہ کا بڑا شمالی ملک ہے جس کی مکمل زمینی حد امریکہ سے ملتی ہے، جب کہ مشرق میں شمالی بحراوقیانوس اور مغرب میں بحرالکاہل کے ساحل ہیں۔ رقبہ کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ آبادی پونےچار کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ کینیڈا دنیا کی دسویں بڑی معیشت ہے۔ مجموعی سالانہ آمدنی 1.51 ٹریلین اور فی کس آمدنی چھیالیس ہزار ڈالر ہے۔ اس کی صنعتی بنیاد بہت وسیع اور گہری ہے، مگر کان کنی اور سروسز کے شعبے ترقی یافتہ اور فعال ہیں۔ 

یہاں تیل اور قدرتی گیس سمیت دیگر قیمتی معدنیات وافر مقدار میں موجود ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے سالانہ تیس ارب کینیڈین ڈالر سالانہ خرچ کیے جارہے ہیں۔ تعلیم، صحت عامہ اور سماجی بہبود کے شعبے وسیع اور فعال ہیں۔ حکومت سالانہ بجٹ کا بڑا حصہ ان شعبوں پر صرف کرتی ہے۔ تعلیم کا اوسط 96فیصد ہے۔ دنیا کی بہترین جامعات، تحقیقی مراکز اور جدید لائبریریز بہت نمایاں ہیں۔ 

کینیڈا کا بڑا حصہ جنگلات، پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ برف باری دس ماہ جاری رہتی ہے۔ قطب شمالی اور گرین لینڈ کے برفانی تودے موسم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ کینیڈا دو لسانی ریاست ہے۔ شمالی حصہ کیوبک میں فرانسیسی زبان بولی جاتی ہے ،باقی حصے میں انگریزی کا راج ہے۔ کینیڈا کے چودہ نوبل انعام یافتہ شخصیات نے کیمیا، طبعیات اور طب میں نمایاں خدمات سر انجام دی ہیں، سائنسی تحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔ خلائی تحقیق، راکٹ سازی، سیٹلائٹ اور ایئرو اسپیس میں کینیڈا کی کاوشیں نمایاں ہیں۔ 

خلائی تحقیق اور خلائی شیٹل کی تیاری میں کینیڈین سائنس دان اور ماہرین نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔سماجی اور معاشرتی طور پر کینیڈا مثالی معاشرہ ہے۔ انسانی معیار زندگی بلند ہے۔ رہاشی سہولتیں، جدید انفرااسٹرکچر، تعلیم اور صحت، سماجی بہبود کے شعبے سرکاری نگرانی میں فعال ہیں، امن و امان، بنیادی حقوق، اظہار رائے کی آزادی، مذہبی رواداری، اعتدال پسندی، قانون کی بالادستی اس کا طرۂ امتیاز ہے۔ جگہ جگہ مساجد، گردوارے، مندر اور کلیسا نظر آتے ہیں۔ معاشرے میں انسانیت کا احترام پایا جاتا ہے یہ کینیڈا کا اثاثہ ہے۔

جمہوری پارلیمانی نظام رائج ہے۔ برطانیہ کی طرح ملکہ برطانیہ ملک کی علامتی سربراہ ہیں۔ کینیڈا اب بھی برطانیہ کو اپنا ملک اور سربراہ تسلیم کرتا ہے۔ اسے اعتدال پسند اور انسان دوست ملک کہا جاتا ہے۔ چند سال قبل مشرق وسطیٰ اور افریقی تارکین وطن کی حمایت کرتے ہوئے تقریباً دس لاکھ پناہ گزینوں کو کینیڈا میں پناہ دی تھی، جس پر امریکی صدر نے کینیڈا سے احتجاج کیا تھا، کیوں کہ تقریبا نوے فی صد پناہ گزیں مسلمان تھے۔ صحت عامہ، میونسپل کا نظام بہت اعلیٰ ہے۔ 

حکومت انسانی فلاح و بہبود پر کثیر رقم صرف کرتی ہے۔ قانون کی بالادستی، اظہار رائے کی آزادی، انسانی بنیادی حقوق کا احترام، پڑوسیوں سے دوستانہ تعلقات، صفائی ستھرائی اور لبرل ازم کینیڈا کا طرہ امتیاز ہیں۔ ان تمام حوالوں سے کینیڈا ایک مثالی ملک ہے۔ اس کا شمار طاقت ور، مہذب معاشروں میں ہوتا ہے۔