• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر کا استعمال عام ہوا تو مشرق اور مغرب کے بہت سے ماہرین کی یہ رائے سامنے آئی تھی کہ آئندہ دنوں میں کمپیوٹر ہماری زندگی کا مرکز و محور بن جائے گا۔ یہ بات پوری طرح حقیقت کا روپ دھارتی کہ اس سے پہلے سیل فون سامنے آگیا۔ اس وقت بھی کچھ اسی قسم کی باتیں کی جارہی تھیں جو کمپیوٹر کے ضمن میں کی گئی تھیں ۔لیکن اس کے بعد ٹیکنالوجی نے ایک اور جست لگائی اور اینڈرائیڈفون سامنے آگیا تو لوگوں نے اسے آئندہ زندگی کا مرکز و محورقرار دینا شروع کردیا۔ لیکن ترقی کی ریل کی رفتار روز بہ روز بڑھتی ہی جارہی ہے۔

اب ایسی خبریں آرہی ہیں کہ کلائی پر باندھنے والی گھڑی کی مانند آلہ بنانے کے ضمن میں کافی پیش رفت ہوچکی ہے ، جس میں نہ صرف مذکورہ تمام ایجادات والی خصوصیات ہوں گی بلکہ بہت سی نئی سہولتیں بھی متعارف کرائی جائیں گی جو ہمارے روزمرہ کے بہت سے معمولات میں بڑی حد تک ہماری مدد کیا کریں گی۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ انسان کے جسم میں سیل فون کی چِپ کی مانند چپ یا سینسر لگادیا جائے گا جس کی مدد سے انسان اس قابل ہوجائے گا کہ بہت سے کام صرف آنکھ کے اشاروں سے ہوجایا کریں گے۔

آدمِ خاکی کا عروج

معلوم انسانی تاریخ میں ایسا پہلی بار نہیں ہورہا۔ کاغذ،گن پاوڈر، پہیے، ریڈیو، ٹی وی، کیمرے، ٹیلی فون ، موٹر گاڑی، کوئلے سے چلنے والے ریل کے انجن، دخانی جہاز وغیرہ جیسی ایجاد ات سامنے آنے پر بھی بہت سے افراد نے یہ سمجھنا شروع کردیا تھا کہ شایدیہ ترقی کی انتہا ہے اور اب یہ اشیا ہی قیامت تک انسانی زندگی کا مرکز و محور رہیں گی۔

لیکن دوربیں افراد اس وقت بھی یہ سمجھتے تھے کہ یہ تو آدمِ خاکی کے عروج کی ابتدا ہے۔ قیاس ، خیالات اور امکانات کا کینوس وسیع رکھنے والے افراد آج بھی دماغی صلاحیتوں کے ذریعے مستقبل میں جھانکتے رہتے ہیں۔ اسی لیے وہ آج بھی یہ ہی کہتے ہیں کہ یہ تو مٹی کے مادھو کے عروج کی ابتدا ہے۔ ایسے میں یہ سوال سر اٹھاتا ہے کہ یہ ابتدا ہے تو انتہا کیا ہوگی؟جواب یہ ہے کہ ابھی تو انسان اپنے دماغ کا صرف دس فی صد سےکچھ ہی زیادہ استعمال کررہا ہے، خود اندازہ لگالیں کہ جب یہ شرح بڑھے گی تو کیا ہوگا۔

ہمارے پاوں کی بیڑیاں

لیکن پاکستان پر نظر ڈالیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم لوگ پتھر کے زمانے کے انسان کی طرح اپنے دماغ کا شاید ایک آدھ فی صد ہی استعمال کررہے ہیں۔ لیکن سرحدوں کے پاریہ صورت حال ہرگز نہیں ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کو تو چھوڑیں بہت سے ترقی پذیر ممالک بھی اب ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ہمارا پڑوسی ملک بھارت اس کی واضح مثال ہے۔ چین تو خیر بہت ہی آگے جاچکا ہے۔

آخر ہمارے پیروں میں ایسی کون سی بیڑیاں پڑی ہوئی ہیں کہ ہم آگے جانے کے بجائے پیچھے کی جانب سفرکررہے ہیں؟اس کا جواب طرزِ حکم رانی ہے۔ آج دنیا بھر میں طرزِ حکم رانی بہتر سے بہتر بنانے پر توجہ دی جارہی ہے،لیکن یہاں اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ دنیا ای گورنینس اور ای گورنمنٹ کو فروغ دے رہی ہے، مگر یہاں طویل عرصے سے اس نام پر عوام کو بے وقوف بنانے اور سرکاری مال ٹھکانے لگانے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوا ہے۔

چند یوم قبل یہ خبر ذرایع ابلاغ کی زینت بنی کہ اقوامِ متحدہ کے ای گورنمنٹ ڈیولپمنٹ انڈیکس (ای جی ڈی آئی) میں پاکستان چودہ درجے بہتری کے ساتھ 136 ویں نمبر پر آ گیاہے اورای گورنمنٹ ڈیولپمنٹ انڈیکس میں پاکستان پہلی مرتبہ اعلیٰ کیٹیگری میں آیا ہے،تو خیال گزرا کہ ہم نے ایسا کیا کرلیا ہے جو ہماری درجہ بندی بہتر ہوگئی ہے؟

خبر کے مطابق 2022ء میں پاکستان کا ای گورنینس انڈیکس150تھا،لیکن اب پاکستان اقوامِ متحدہ کی ای پارٹی سپیشن انڈیکس میں88ویں نمبر پر آگیا ہے، جہاں دو برس قبل پاکستان106ویں نمبر پر تھا۔ اب پاکستان کی ای پارٹی سپیشن ویلیو0.36سے بڑھ کر 0.49 پر پہنچ گئی ہے۔

ای آفس پروجیکٹ

پاکستان کے سرکاری امور کی انجام دہی، اداروں کے درمیان رابطوں اور فیصلہ سازی کے لیے فائلوں کا نظام رائج ہے۔روایتی طریقہ کار میں طبع شدہ کاغذ کو ایک فائل میں لگا کر باضابطہ اسے نمبر دیا جاتا ہے اور وہ فائل ایک میز سے دوسری میز اور ایک دفتر سے دوسرے دفتر کے چکر لگاتی ہے۔ اور اس وقت تک محو سفر رہتی ہے جب تک وہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ کر داخلِ دفتر نہیں کر دی جاتی۔ اس عمل میں دن، مہینے ، سال اور کئی برس بھی لگ سکتے ہیں۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ فائل کس نوعیت کی ہے۔ اس کا مشاہدہ آپ نے سرکاری دفاتر میں اپنے کسی کام یا سرکاری فیصلہ سازی کے دوران کیا ہو گا۔

سرکاری دفاتر میں اکثر یہ بات سننے کو ملتی ہے کہ فلاں فائل، فلاں افسر کی میز پر ہے۔ جب آپ اس افسر کے پاس پہنچیں تو ممکن ہے کہ پتا چلے کہ فائل گم ہو گئی ہے یا فائل کو فلاں افسر کی منظوری درکار ہے۔ لیکن فائل کو وہاں تک پہنچنے کے لیے ’’پہیے‘‘ لگانے پڑیں گے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ ایک سرکاری افسر اپنے اسٹاف کو اہم فائل تھما کر کسی دوسرے افسر کو دینے کاکہے اور وہ راستے میں فائل کھول کر دیکھے، تصویر بنائے اور اسے کسی ایسےفرد تک پہنچادے جس سے اس فائل کے ذریعے کیے جانے والے فیصلوں سے بہ ظاہر نقصان پہنچ رہا ہو، پھر وہ لابی متحرک ہو جائے اور وہ فائل کسی ایک افسر کے پاس دب جائے۔

یہ سب اس لیےہوتا ہے کہ پاکستان میں صدیوں پرانا سرکاری دفتری نظام فائلز کے ذریعے چلتا ہے۔ فائلز کے اس نظام کے گورکھ دھندے کی وجہ سے فائل کئی کئی سو صفحات تک پہنچ جاتی ہے جس سے کاغذ اور وقت کازیاں ہوتا ہے اور قومی خزانے کے اربوں روپے ان فائلز پر خرچ کر دیے جاتے ہیں۔ 

فائل کو ایک وزارت سے دوسری وزارت تک بھیجنے کے لیے رائیڈر، گاڑی یا موٹر سائیکل اور اس کے لیے پیٹرول کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے وزارتوں کا بہت سا بجٹ تو ان کاموں میں خرچ ہو جاتا ہے۔ سرکاری امور کی انجام دہی کے لیے اس فائلز کے نظام کو بدلنے کی کوشش تو ایک عرصے سے ہو رہی ہے،لیکن تاحال اس میں مکمل کام یابی نہیں ہوسکی ہے۔

چار نومبر2002 کو اس وقت کے وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ،ڈاکٹر عطاء الرحمان نے وفاقی حکومت کے تمام امور کو فائلوں سے نکال کر کمپیوٹر پر منتقل کرنے کے سلسلے میں قائم ’’الیکٹرانک گورنمنٹ ڈائریکٹوریٹ‘‘ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ای گورنینس حکومت کی کرپشن کے خلاف مہم کو نئی جہت دے گی، کیوں کہ اس سے حکومتی امور میں شفافیت آئے گی۔

یہ آئیڈیا انہوں نے2000 میں اس وقت کے ملک کے چیف ایگزیکٹیو، جنرل پرویز مشرف کو حکومتی اصلاحات کے سلسلے میں دیا تھا جس پر دو سال بعد عمل درآمد کا آغاز ہوا۔ لیکن بیس برس گزر جانے کے بعد منزل قریب دکھائی دی ،بلکہ پہلے زینے پر قدم رکھ دیا گیا ہے۔

مسلم لیگ ن کی حکومت نے ’’ڈیجیٹل پاکستان پالیسی‘‘ میں ای آفس اور ای گورنینس کے ذریعے سرکاری امور کو شفاف، کرپشن فری بنانے اور عوام کے سامنے جواب دہ اور احتساب کے عمل کو یقینی بنانے کےلیے پاکستان کے ہر ادارے کو ڈیجیٹل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ 

وزیراعظم آفس سمیت مختلف اداروں میں ای آفس کا نظام اسی دور میں متعارف کرایا گیا تھا۔ مسلم لیگ ن نے انوشہ رحمان کی تجویز پر2014میں ’’پاکستان کمپیوٹر بیورو‘‘ اور’ ’الیکٹرانک گورنمنٹ ڈائریکٹوریٹ‘‘ کو ضم کرکے’ ’نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ‘‘ (این آئی ٹی بی) تشکیل دیا تھا۔

اسی طرح کے احکامات سابق وزیراعظم عمران خان کے آفس سے تمام وزارتوں اورڈویژنز کو بھی جاری ہوتے رہے۔ جس کے بعد جن وزارتوں میں سابق دور حکومت میں ای آفس کا نظام متعارف کرایا گیا تھا وہاں پہلے مرحلے میں اسے فعال بنا دیا گیا۔ تاہم ان کی حکومت کے اختتام تک ای آفس پر منتقلی کا کام آخری مراحل میں تھا۔ جسے دوبرس قبل کی حکومت نے پایہ تکمیل تک پہنچایا تھا۔

اس ضمن میں اس وقت ،یعنی انیس جون 2022 کو اس وقت کے این آئی ٹی بی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر، سید حسنین کاظمی کا کہنا تتھاکہ2021کے وسط میں انہیں چارج ملا اور کابینہ کی ای آفس سے متعلق کمیٹی کا اجلاس ہوا تو معلوم ہوا کہ ای آفس منصوبے کی مدت ختم ہو چکی ہے اور ای آفس کا کام ابھی مکمل نہیں ہواہے۔ان کے مطابق اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس سے پہلے حکومت کو کوئی اچھا سافٹ ویئر نہیں ملا تھا، ہم نے دوبارہ ٹینڈر کیا، نیا سافٹ ویئر خریدا اور اب جا کر اسےچالیس وزارتوں میں نافذ کیا ہے جس میں چودہ وزارتیں لیول فور تک پہنچ چکی ہیں۔

ان کا کہنا تھاکہ لیول فور کا مطلب ہے کہ ان کا تمام کام ای آفس پر منتقل ہو چکا ہے اور باقی بہ تدریج اسی طرف جا رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق وفاقی وزراتوں میں ای آفس نظام کے پہلے ماڈیول کے آپریشنل ہونے سے کاغذ کا بل کم از کم نصف حد تک کم ہو چکا ہے۔

لیکن رواں برس مئی کے مہینے میں بھانڈا پھوٹا کہ وزیراعظم آفس کی طرف سے وزارتوں، ڈویژنز کو ای آفس پر منتقلی کے احکامات نظر انداز کردیے گئے اورپانچ وزارتوں میں تاحال ای آفس استعمال نہیں ہورہا۔پنا حلا کہ وزیراعظم آفس کی جانب سے وزارتوں، ڈویژنز کو ای آفس پر منتقلی سے متعلق جاری کردہ احکامات کو نظر انداز کرنے پر وزارت آئی ٹی نے وزارتوں اور ڈویژنز میں ای آفس کے استعمال سے متعلق رپورٹ وزیراعظم آفس کو ارسال کردی ہے۔

اطلاعات کے مطابقپیٹرولیم ڈویژن، پاور ڈویژن اور فنانس ڈویژن میں ای آفس تاحال استعمال نہیں ہورہا ہے۔ لا اینڈ جسٹس، ریونیو ڈویژن میں بھی ای آفس بلکل استعمال نہیں کیا جارہا۔ مجموعی طور پر بارہ وزارتوں اور ڈویژنز میں پچاس فی صد سے بھی کم ای آفس کا استعمال ہورہا ہے۔ہاؤسنگ اینڈ ورکس میں ایک فی صد، دفاع ڈویژن میں تیرہ اور نارکوٹکس کنٹرول میں چودہ فی صد ای آفس استعمال کیا جا رہا ہے۔ 

نیشنل ہیلتھ سروسز میں بیس فی صد، وزارت اوورسیز پاکستانیز میںاکیس فی صد، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں ای آفس کا استعمال چالیس فی صد استعمال کیا جارہا ہے۔وزارت آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام پچّاسی فی صد ای آفس کا استعمال کررہی ہے۔ وزارت مذہبی امور، قومی ثقافت اور ورثہ، غربت کے خاتمے کے لیے قائم بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) میں سو فی صد ای افس استعمال ہورہا ہے۔

یاد رہے کہ10مئی کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ وزیراعظم شہباز شریف نے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کو تمام وزارتوں، ڈویژنز کو مینوئل فائلنگ سے ای آفس پر منتقل کرنے کی ہدایت کی ہے۔

خامیاں

رواں برس اگست کے مہینے تک یہ صورت حال تھی کہ چالیس وفاقی وزارتوں کے درمیان کاغذ کے بغیر کام کرنے اور فیصلہ سازی کی جگہ کے لیے ای آفس پروجیکٹ میں پچھلی دو دہائیوں میں بہتری کے آثارنظر نہ آنے پر وزیر اعظم کے دفتر نے نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (این آئی ٹی بی) کی جانب سے ای آفس کو نافذ کرنے کی تازہ ترین کوششوں میں بڑی خامیوں کی نشان دہی کی۔ پی ایم آفس نے ای آفس کو نافذ کرنے میں غیر ضروری تاخیر کا سنجیدگی سے نوٹس لیا اور یہ پایا کہ کچھ بڑی خامیاں موجود ہیں۔

وزیراعظم کو بتایا گیا کہ پروجیکٹ کی جانچ پڑتال سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سافٹ ویئر کا یوزر انٹرفیس (یو آئی) متعدد خصوصیات کے ساتھ ڈیزائن کیا گیا ہے، لیکن یو آئی کو صرف دو سے تین آپشنز کے ساتھ تیار کیا جانا چاہیے تھا۔ ضرورت سے زیادہ آپشنز نے الجھن کو جنم دیا۔ اتنے سالوں کے بعد وزارتوں اور سرکاری افسران کے کاغذ سے چھٹکارا پانے میں ہچکچاہٹ کی ایک وجہ ای آفس کا الجھا ہوا یو آئی ہے۔ ای آفس سسٹم میں صارف پر مبنی نقطہ نظر کا اطلاق نہیں کیا گیا ہے کیوںکہ صارفین کی طرف سے رائے کا کوئی عنصر نہیں ہے۔ کسی بھی ای آفس سسٹم کے لیے سرچ فنکشن ضروری ہے۔

موجودہ نظام تلاش کی جدید صلاحیتیں فراہم نہیں کر سکتا، جس کے لیے صارفین کو ہر فائل کو اس کے مواد کو تلاش کرنے کے لیے کھولنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ الیکٹرانک ٹرانزیکشن آرڈیننس2002کی عدم تعمیل ہے ۔ ای آفس ای ٹی او 2002کے معیارات پر عمل نہیں کرتا ہے۔ چھیڑ چھاڑ اور قانونی تعمیل کے لیے منظور شدہ دستاویزات کو ای سائننگ اور ای سیلنگ (ڈیجیٹل سرٹیفیکیشن) سے گزرنا چاہیے۔ 

یہ ایک سنگین تشویش ہے اور اسے فوری طور پر حل کیا جانا چاہیے، کیوں کہ یہ ایک اہم خصوصیت سے سمجھوتا کرتا ہے اور ہماری حکومت کو مقامی اور بین الاقوامی معیارات کے مطابق نہیں بناتا ہے۔ مزید تحقیق کے بعد یہ پتا چلا کہ ای آفس سسٹم مختلف قسم کے مسائل سے دوچار ہے، جس کی شروعات ایک ناقص ڈیزائن اور حد سے زیادہ پےچیدہ یوزر انٹرفیس سے ہوتی ہے جو صنعت کے معیار سے کم ہے۔ 

کسی بھی پیشہ ورانہ نظام کے لیے ایک بنیادی ضرورت یہ ہے کہ یہ سادہ اور موثر ہونا چاہیے، پھر بھی ای آفس اس معیار پر پورا اترنے میں ناکام ہے۔ ٹیکنالوجی کو اپنانے کا بین الاقوامی معیار تقریباً 80 سے 85فی صد ہے۔ صارفین نے سسٹم کو استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔

تاہم ای آفس 50 فی صد سے زیادہ صارفین کو متوجہ کرنے میں ناکام رہا،جو خراب عمل، خراب فعالیت، اور خراب یو آئی کے بارے میں بھی شکایت کرتے ہیں۔ وزیراعظم ای آفس کی ترقی کی سست رفتاری اور معیار پر برہم ہیں۔ اس کے جواب میں انہوں نے وزارت آئی ٹی کو ہدایت کی کہ یا تو مسائل کو فوری طور پر درست کیا جائے یا سسٹم کو مکمل طور پر بند کیا جائے۔

اس ہدایت کے بعد وزارت نے نظام کا جائزہ لینے کے لیے صنعت کے ماہرین کی خدمات حاصل کیں اور نظام کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اہم شراکت داروں کے ساتھ کام کیا۔ اگرچہ ان ماہرین نے مبینہ طور پر زیر التواء کاموں میں سے بہت سے کام مکمل کر لیے، لیکن سیکریٹری کی سطح پر تبدیلی کی وجہ سے یہ منصوبہ ایک اور رکاوٹ کا شکار ہوگیا۔ 

جس کے نتیجے میں یہ منصوبہ ایک بار پھر غفلت اور نااہلی کا شکار ہو گیا ہے۔ اہم شراکت دار اور ذیلی ٹھیکے دار ،بہ شمول پراجیکٹ کاعملہ، این آئی ٹی بی کے سی ای او کی جانب سے ناقص یا کوئی جواب نہ ملنے کی شکایت کرتے ہیں، جو نہ فیصلے کرتے ہیں اور نہ ہی وینڈرز اور پروجیکٹ کے عملے کے ساتھ اپنے تحریری یا زبانی وعدوں کو پورا کرتے ہیں۔

ماضی سے حال کی جانب

پاکسان میں ای گورننس کا نظام لانے کے بارے میں پہلا سراغ جنرل مشرف کے دور میں وزیر اعظم رہنے والے شوکت عزیز کے بیان سے ملتا ہے۔ اس وقت یہ خبر آئی تھی کہ شوکت عزیز حکومت کی کارکردگی بہتر بنانے اور اس کی رفتار تیز کرنے کے لیے یہ نظام قائم کرنے اور سرکاری اداروں کو مربوط و منظم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

پھر جنوری 2016 میں صوبہ سندھ میں اس نام پر ایک قدم اٹھایا گیا۔اس وقت سندھ کے باسیوں کے لیے خوشی سے مرجانے کے مترادف یہ خبرسامنے آئی تھی کہ صوبائی محکموں سے بدعنوانی ختم کرنے اور سرکاری امور میں تاخیرکی شکایت پر وزیر اعلیٰ خود رابطہ کریں گے۔ شکایت ایس ایم ایس کے ذریعے درج کرائی جا سکے گی۔

اس ضمن آنے والی خبر میں بتایا گیا تھا کہ صوبےکی حکومت نے عوام کی بہتری کے لیے یہ منصوبہ شروع کرنے کی ٹھانی ہےجس کی منظوری وزیر اعلی سندھ سید قائم علی شاہ نے دےدی ہے۔ ابتدائی طور پر 4امور ، یعنی جائیداد کی رجسٹریشن، موٹر رجسٹریشن، پینشن کی ادائیگی اور طبّی اخراجات کی ادائیگی سے متعلق شکایات کا ازالہ کیا جائے گا۔ 

درخواست دینے والوں کو فورا وزیر اعلیٰ سندھ کی آواز میں پہلے سے ریکارڈ کی گئی ٹیلی فون کال موصول ہو گی،جس میں شکایت کنندہ کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ وزیر اعلیٰ مطلع کریں گے کہ آپ کی درخواست موصول ہوگئی ہے۔ اگر اس سلسلے میں کوئی پریشانی یا دشواری ہوئی ہو یا کسی نے رشوت طلب کی ہو تو درخواست دہندہ کچھ دیر میں 9515 سے موصول شدہ ایس ایم ایس کے جواب میں شکایت درج کرا سکتا ہے۔ 

روبوٹک کال اینڈ ایس ایم ایس سروس کے لیے کال سینٹر محکمہ خزانہ سندھ میں قائم کیا گیا ہے۔ خبر میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اتوارکو تعطیل ہونے کے باوجود وزیراعلیٰ نے محکمہ خزانہ اورمنصوبہ بندی وترقیات کے افسران کے اجلاس کے دوران روبوٹک کال کے لیے اپنی آواز ریکارڈکرائی۔ تاہم خبر میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں تھا کہ اس منصوبے کی شفافیت اور غیر جانب داری کو یقینی بنانے کے لیے کس نوعیت کے اقدامات کیے گئے ہیں۔

ملک میں طویل عرسے سے سرکاری سطح پر عوام کو یہ تاثردینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہاں بھی عوام کی سہولت کے لیے ای گورنینس یا ای گورنمنٹ کے منصوبوں پرتیزی سے کام جاری ہےاور جلد ہی عوام کی مشکلات بہت کم ہوجائیں گی۔ لیکن حقیقت میں اس نام پر لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی اور سرکاری رقوم ڈکاری جارہی ہیں۔

اس کہانی کا آغاز کب ہوا تھا یہ بات شاید ہی کسی کو معلوم ہو۔اتنا اشارہ ضرور ملتا ہے کہ وفاقی سطح پر ای آفس سسٹم رائج کرنے کا منصوبہ 30اپریل2007ء کو پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کے تحت شروع کیا گیا تھا، لیکن بعض مسائل کی بناء پر یہ بروقت مکمل نہیں ہوسکا تھا۔ ای گورنینس کے منصوبے کے بارے میں تحقیق کے دوران ہمیں اس ضمن میں پہلا سراغ جولائی 2009کے پہلے ہفتے کی ایک خبرمیں ملا۔ دراصل 6جولائی کو اس وقت کےصدرِ مملکت ،آصف علی زرداری کی زیرِ صدارت ایک اجلاس منعقد ہوا تھاجس سے متعلق خبر سرکاری طورپر جاری کی گئی تھی۔

اس خبر میں کہا گیا تھا کہ صدر ،آصف علی زرداری نے وسیع تر شفافیت کے لیے اراضی کے ریکارڈز کمپیوٹرائزڈ کرنے اور اہم سرکاری خدمات، مالیاتی دستاویزات اور دیگر ریکارڈ تک عوام کی آسان رسائی یقینی بنانے کے لیے آزمائشی طور پر ای گورنینس پروگرامز وضح کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے یہ بات ایک اجلاس کے دوران کہی تھی جس میں محبوب الحق ڈیولپمنٹ سینٹر کی چیئرپرسن، ڈاکٹر خدیجہ حق نے جنوبی ایشیا میں انسانی ترقی کی رپورٹ 2008ءپیش کی تھی۔ رپورٹ میں پاکستان میں ٹیکنالوجی، ای گورننس اور انسانی ترقی کے تعلق کو اجاگر کیا گیا تھا۔

اس کے پانچ برس بعد یعنی جون 2015میں اس وقت کے صدر مملکت ،ممنون حسین نے کیا کہا وہ بھی ملاحظہ فرمالیں۔ 28جون 2015کو اسلام آباد میں احتساب اور اچھے نظم ونسق کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے اخراجات میں کمی اور عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر ای گورننس متعارف کرانے پر زور دیا تھا۔ 

اُنہوں نے کہا تھا کہ ای گورنینس سے شفافیت کو یقینی بنایا جاسکے گا۔بدعنوانی میں ملوث افراد کو سخت سزا دینے کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اپنے اخراجات کم کرنے اور عام آدمی کو درپیش مسائل کے جلد حل کیلئے ای گورنینس بھی متعارف کرانا چاہیے۔

یعنی ایک صدر مملکت نے آزمائشی طور پر ای گورنینس کے پروگرامز وضح کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا اور دوسرے نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر ای گورنینس متعارف کرانے پر زور دیا تھا۔ یعنی پانچ برس بعد بھی معاملہ ’’زور‘‘ دینے سے آگے نہیں بڑھا تھا۔ مگر اس دوران کاغذی اور زبانی سطح پر بہت کچھ ہوتا دکھائی دیتا ہے۔