• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان 15 اور 16 اکتوبر کو شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کی میزبانی کررہا ہے۔ پاکستان کے لیے اس اجلاس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے انتظامات کو حتمی شکل دینے کے لیے چند یوم قبل وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں اجلاس ہوا جس میں رکن ممالک سے آنے والے سربراہانِ حکومت یا ان کے نمائندوں کے استقبال اور اجلاس میں زیر غور آنے والے امور کے بارے میں تفصیلات طے کی گئیں۔

پاکستان کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم میں شرکت بہت اہم موڑ تھا جسے پاکستان اپنے حق میں استعمال کر سکتا ہے۔ اور اب کہا جارہا ہےکہ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کا پاکستان میں انعقاد ہماری کام یاب خارجہ پالیسی کا عکاس ہے۔ 

بین الاقوامی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایس سی او کے سربراہی اجلاس سے ہم بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ہمیں عمدہ سفارت کاری، بہتر انتظامات اور بھرپور تیّاری کے ساتھ رابطہ کاری کرنا ہوگی جس کے بعد ہی ہمیں رکن ممالک سے تعلّقات مزید مستحکم کرنےنئے تجارتی مواقعے حاصل کرنے اور اقتصادی تعاون کا دائرہ بڑھانے میں بہت مدد فراہم ہوسکتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان وسط ایشیا کے لینڈ لاکڈ ممالک کو گوادرکی بندرگاہ تک رسائی دے کر تین ارب لوگوں کو آپس میں جوڑ سکتا ہے اور ایس سی او کے فورم کو خطے میں تجارت، سیاحت، تعاون اور کئی دیگر شعبوں کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ دوسری جانب بعض ماہرین کے خیال میں پاکستان کا شنگھائی تعاون تنظیم میں کوئی اہم کردار نظر نہیں آتا، تاہم بعض تجزیہ کار مغرب نواز پالیسیوں کے باوجود اسلام آباد کے لیے مواقعے دیکھتے ہیں۔

عالمی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین کا موقف ہے کہ ایس سی او ان ممالک پر مشتمل ہے جن کے مفادات مغرب سے دور ہو رہے ۔تاہم بعض ماہرین کاکہنا ہے کہ تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستان کی ایس سی او میں موجودگی کی وجہ سے اس کے لیے اچھے مواقعے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔مثلا پاکستان ایس سی او میں شامل لینڈ لاکڈ وسطی ایشیائی ریاستوں کو سمندر تک راستہ مہیا کر کے علاقائی رابطوں کے سلسلے میں تنظیم کے اندر ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

اُدہر ہمارے دفتر خارجہ کےمطابق اسلام آباد، شنگھائی تعاون تنظیم کو رکن ممالک کے ساتھ گہرے تاریخی اور ثقافتی روابط کو مزید بڑھانے کے لیے ایک اہم بین العلاقائی کثیر الجہتی فورم کے طور پر دیکھتا ہے، جو ان تعلقات کو مضبوط اقتصادی بنیاد فراہم کرتا ہے اور پاکستان کو علاقائی تجارت اور ٹرانزٹ کوریڈور کے طور پر فروغ دیتا ہے۔

دوسری جانب بعض ماہرین بین الاقومی امور کا کہنا ہے کہ چین اور روس جیسی مغرب مخالف طاقتیں بین الاقوامی نظام میں اپنی حیثیت کی وجہ سے ہر موڑ پر پاکستان کی مدد نہیں کر سکتیں۔ پاکستان کو معیشت سمیت کئی پے چیدہ چیلنجز درپیش ہیں جن کا احاطہ شنگھائی تعاون تنظیم یا غیرمغربی ریاستوں کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اس لیے پاکستان کو اسی نظام میں رہنا پڑے گا۔

پاکستان ریلی وینٹ (Relevent) رہنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے، جس سے مراد مغربی نظام سے منسلک رہنا ہے۔تاہم پاکستان کو اس وقت جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ مغرب اور دیگر عالمی طاقتوں کے درمیان توازن پیدا کرنا ہے۔

اس سلسلے میں ہمارے پاس ہمارے پڑوسی ملک کی مثال موجود ہے جو ایسا ہی توازن قائم رکھے ہوئے ہے۔ تاہم شنگھائی تعاون کی تنظیم کا فورم پاکستان کے لیے قابل ذکر ضرور ہے، کیوں کہ یہ ایک اہم علاقائی تنظیم ہے اور پاکستان دہشت گردی، انتہا پسندی اور اقتصادی بدحالی کا شکار ہے۔تاہم عسکریت پسندی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے علاقائی نقطہ نظر پاکستان کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔اس کے علاوہ پاکستان خطے میں رابطوں اور ماحولیاتی تبدیلی کے میدان میں کردار ادا کر کے ایس سی او میں اپنی اہمیت ثابت کر سکتا ہے۔

توقع کی جا رہی ہے کہ دنیا کے تین براعظموں پر پھیلی ہوئی یہ تنظیم دنیا کی سلامتی، امن اور ترقی پر گہرے اور دور رس اثرات مرتب کرے گی۔ ایس سی او کےچارٹر کے آرٹیکل ایک کے مطابق اس تنظیم کے قیام کا مقصد رکن ممالک کے درمیان مضبوط رشتے قائم کرنا ہے، جس میں باہمی اعتماد، دوستی اور اچھے تعلقات کو مضبوط کرنا شامل ہیں۔

چارٹر کے مطابق اچھے تعلقات ایک طرف دہشت گردی کے خاتمے پر مبنی ہیں تو دوسری طرف اس کا ایک مقصد تجارت اور معیشت کے ذریعے موثر علاقائی تعاون کو فروغ دینا ہے۔ اس ضمن میں پاکستان اوربھارت کے تعلقات میں بہتری لائے بغیر تجارت اور معیشت جیسے اہم معاملات میں علاقائی پیش رفت مشکل دکھائی دیتی ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کچھ بہتری لانے کی امید رکھنا شاید غلط نہ ہو، لیکن اس حوالے سے کچھ پیش رفت ہونا شاید فوری طور پر ممکن نہیں ہے۔

اجلاس میں کیا ہوگا

اس دوروزہ اجلاس کے آغاز میں وزیراعظم پاکستان شہباز شریف افتتاحی خطاب کریں گے جس کے بعد دیگر سربراہان حکومت اجلاس سے خطاب کریں گے۔

سفارتی ذرائع کے مطابق ایس سی او کے 30 کے قریب میکنزم ہیں جس میں سب سے اوپر سربراہان مملکت کےاجلاس کا میکنزم ہے۔ یاد رہےکہ سربراہان مملکت کےاجلاس میں نئے آئیڈیاز کے بارے میں بات کی جاتی ہے۔پاکستان میں 15 اور 16 اکتوبر کو ہونے والا اجلاس سربراہان حکومت کا اجلاس ہے جس میں صرف رکن ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون بڑھانے اور تجارت کے بارے میں بات چیت ہو گی۔

دفتر خارجہ کی بریفنگ کے مطابق اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت سمیت رکن ممالک سے آنے والے تمام سربراہان حکومت اور مندوبین کی آمد کی تصدیق ہوچکی ہے۔ اسی اجلاس میں شنگھائی تعاون تنظیم کی سربراہی پاکستان سے روس کے حوالے کردی جائے گی جہاں تنظیم کا اگلا اجلاس ہو گا۔

یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جیسا کہ پاکستان اور بھارت دونوں ایس سی او کے رکن ہیں لیکن اس پلیٹ فارم پر دوطرفہ تنازعات جیسے کہ مسئلہ کشمیر پر بات نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک کثیر الجہتی فورم ہے جہاں رکن ممالک باقی تمام اراکین کے ساتھ مخصوص موضوعات پر بات چیت کر سکتے ہیں۔

سفارتی ذرائع کے مطابق اجلاس کے شرکا اگر پاکستان کے وزیراعظم یا صدر مملکت سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کریں گے تو اسےسفارتی چینلز کے ذریعے وضح کردہ طریقہ کار کے تحت طے کیا جائے گا۔

اس اجلاس کی اہمیت نہ صرف پاکستان بلکہ باقی رکن ممالک کے لیے بھی ہے۔ پاکستان حالیہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنے بڑے ایونٹ کی میزبانی کرنے جا رہا ہے۔واضح رہے کہ برسوں سے پاکستان میں اس سطح کا اجلاس نہیں ہوا تھا۔ اس سے پہلے 2020 اور آئی سی سی کا اجلاس ہوا تھا۔

پاکستان کے لیے کیا موقع ہے؟

جہاں تک اس اجلاس سے پاکستان کو پہنچنے والے فائدے کا تعلق ہے توسب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ پاکستان کے مثبت کردار کی تصدیق کرے گا۔پاکستان اس مرتبہ بہت سےملکوں کی سیاسی قیادت کو خوش آمدید کرنے جارہا ہے اور پاکستان ثابت کرے گا کہ وہ دنیا سے الگ تھلگ ملک نہیں بلکہ دنیا کا اہم حصہ ہے۔

اُدہرشنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے وزرائے تجارت کے 23 ویں اجلاس سے بارہ ستمبر کوخطاب میں ہمارے وزیر تجارت جام کمال خان کا کہنا تھا کہ اجلاس کی میزبانی پاکستان کے لیے اعزاز ہے۔ انہوں نے شرکا پر زور دیا کہ ایس سی اوکے رکن ممالک درپیش عالمی مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے باہمی یکجہتی کو فروغ دیں۔ ایس سی او کے رکن ممالک کے وزرائے تجارت کے23ویں اجلاس سے افتتاحی خطاب میں ان کہنا تھاکہ اسلام آباد،ایس سی او ممالک کے ساتھ نئے تجارتی مواقع اور اقتصادی تعاون تلاش کرنے کا خواہش مند ہے۔

واضح رہے کہ اسلام آباد میں منعقدہ اس اجلاس میں ایس سی او ممالک کے تجارت اور بیرونی امور سے متعلق وزرا شریک ہوئے جس کی صدارت پاکستانی وزیر تجارت جام کمال خان نے کی۔انہوں نے اپنے افتتاحی خطاب میں پاکستان کی حکومت اور عوام کی جانب سے ایس سی او کے رکن ممالک کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ایس سی او ممالک کے ساتھ نئے تجارتی مواقع اور اقتصادی تعاون تلاش کرنے کا خواہش مند ہے۔

حالیہ برسوں کے دوران پاکستان نے ملک میں کاروباری ماحول کی بہتری اور صنعتی ترقی کے فروغ کے ساتھ ساتھ تجارتی سہولتوں کی فراہمی کے لیے اہم اصلاحات متعارف کرائی ہیں۔ اس وقت ہم اپنے بنیادی ڈھانچے کو جدید خطوط پر استوار کرنے، ریگولیٹری فریم ورکس کی بہتری اور کاروبار دوست ماحول کی فراہمی کے لیے جامع حکمت عملی کے تحت اقدامات اٹھارہے ہیں۔

وزیر تجارت کا کہنا تھا کہ اس وقت عالمی سطح پر مختلف اقتصادی مسائل اور غیر یقینی صورت حال کاسامنا ہے۔ ایس سی اوکے رکن ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے باہمی یکجہتی کو فروغ دیں۔

یاد رہے کہ پاکستان ایس سی او کے وزرائے اعظم کی کونسل کا موجودہ چیئرمین ہونے کی حیثیت سے ان اجلاسوں کی میزبانی کر رہا ہے، جو ایس سی او کا دوسرا سب سے بڑا فورم ہے اور تنظیم کے تمام اقتصادی، تجارتی، سماجی، ثقافتی اور انسانی امور کے ساتھ ساتھ بجٹ سے متعلق معاملات کو دیکھتا ہے۔ 

اجلاس سے قبل دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا تھا کہ ایس سی اوکے وزرا اپنی بات چیت میں علاقائی تعاون کو فروغ دینے کے طریقوں پر توجہ مرکوز کریں گے تاکہ تجارت کو بڑھایا جا سکے، پائیدار ترقی کو فروغ دیا جا سکے اور خطے میں اقتصادی خوش حالی کو بڑھانے کے لیے ایس سی اوکےرکن ممالک کے درمیان روابط کو بہتر بنایا جا سکے۔مزید کہا گیاتھا کہ اس وزارتی اجلاس میں ہونے والی گفتگو اور اس کے نتائج پر بحث اور منظوری آئندہ ماہ 16-15 اکتوبر کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والے وزرائے اعظم کی کونسل کے اجلاس میں دی جائے گی۔

دفتر خارجہ کا کہنا تھاکہ اس فریم ورک کے تحت تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانا، مشترکہ چیلنجز سے نمٹنے اور خطے کے بے پناہ اقتصادی مواقعے سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے۔ پاکستان ایس سی او وزرائے اعظم کی کونسل کے میزبان اور چیئرمین کی حیثیت سے، اس پلیٹ فارم کو خطے میں اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کے لیے استعمال کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

اپنے جغرافیائی محل وقوع اور بڑھتی ہوئی تجارتی صلاحیت کے ساتھ، پاکستان ایس سی اوکے رکن ممالک کے عوام کے مشترکہ فائدے کے لیے خطے کی تجارت اور شراکت داری کے مستقبل کو تشکیل دینے میں سہولت کار کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔

دو اہم مسائل پر بات ہوگی؟

پاکستان کے افغانستان اور بھارت سے تعلقات کشیدہ ہیں، لیکن غالباًاس اجلاس میں اس ضمن میں کوئی بات نہیں ہوگی۔ اس کی ایک وجہ تو افغانستان کی عدم شرکت ہوگی ،کیوں کہ اسلامک ریپبلک آف افغانستان ایس سی او کا رکن تھا، لیکن موجودہ امارت اسلامیہ افغانستان ایسی سی او کا رکن نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس پلیٹ فارم پر دوطرفہ تنازعات پر بات نہیں ہو سکتی۔

بھارت کی وزارت خارجہ نے اس بات کی تو تصدیق کی کہ اس کے وزیر خارجہ، سبرامینم جے شنکر 15-16 اکتوبر کو ایس سی او اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان جائیں گے۔ تاہم وزارت نے یہ نہیں بتایا کہ کیا وہ کسی پاکستانی راہ نما سے ملاقات کریں گے یا نہیں۔ اُدہر جے شنکرکا کہنا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)کے اجلاس میں شرکت کے لیے جب وہ پاکستان کے دورے پر جائیں گے تو دو طرفہ تعلقات پر چیت نہیں کریں گے۔یاد رہے کہ یہ تقریباً ایک دہائی میں اپنی نوعیت کا پہلا دورہ ہے۔

نئی دہلی میں ہونے والی ایک تقریب میں جے شنکر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مجھے توقع ہے کہ اس تعلق کی نوعیت کی وجہ سے میڈیا کی دل چسپی بہت ہوگی۔ لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ (دورہ) کثیر جہتی اجلاس کے لیے ہوگا۔ 

میں انڈیا، پاکستان کے تعلقات پر بات چیت کرنے کے لیے وہاں نہیں جا رہا ہوں۔یاد رہے کہ پاکستان نے اگست کے اواخر میں بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کو اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت بھیجی تھی، لیکن نئی دہلی کی طرف سے اس پر باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا تھا۔

سیاسی مبصرین کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں وقتاً فوقتاً بہتری آتی رہی ہے، لیکن 2019 کے بھارتی اقدام کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ سفارتی تعلقات میں سرد مہری کے بعد سے دو طرفہ تعلقات زیادہ تر جمود کا شکار ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کشیدہ رہے ہیں اور جوہری طاقت کے حامل جنوبی ایشیا کے دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ 

تاہم گاہے بہ گاہے پاکستان کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ دنیا کی ایک چوتھائی آبادی والے خطے، جنوبی ایشیا کی ترقی کے لیے پڑوسی ممالک کے درمیان پرامن اور اچھے تعلقات ضروری ہیں۔ پاکستان اوربھارت کے تعلقات میں کشیدگی کی ایک بڑی وجہ مسئلہ کشمیر ہے، جس کا ایک حصہ پاکستان اور دوسرا بھارت کے زیرانتظام ہے۔ 

پاکستان مسئلہ کشمیر کا حل وہاں کی آبادی کی خواہش اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق چاہتا ہے، لیکن بھارت اسے اپنے ملک کا حصہ تصور کرتا ہے اور اس نے اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کے ذریعے اس کا از خود الحاق اپنے ساتھ کر لیا تھا۔

اگرچہ بھارت ایس سی او کا رکن ہے، لیکن امریکا کے ساتھ بڑھتے ہوئے اتحادی تعلقات اور لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجہ سے اس کی تنظیم میں دل چسپی تقریباختم ہو گئی ہے۔بھارت کو تنظیم میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر بھی تشویش ہے۔ اس کے علاوہ اس کے مغربی اتحادی تنظیم میں توسیع سے پریشان ہیں، خاص طور پر ایران اور بیلاروس کے مستقل رکن بننے کے بعد سے۔

دوسری جانب پاکستان کئی مواقع پریہ عندیہ دے چکا ہے کہ کم از کم باہمی سطح پر ہی سہی وفود کا تبادلہ اور تعاون بحال ہونا چاہیے۔اس کے برعکس بھارت دہشت گردی کا راگ الاپتے ہوئے پاکستان کی طرف سے مبینہ دہشت گرد سرگرمیوں کی حمایت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ بات چیت کا عمل بحال کرنے سے انکاری ہے۔

ان حالات کے باوجود مئی 2023 میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ، بلاول بھٹو زرداری نے ایس سی کے او وزرائے خارجہ کونسل کے دو روزہ اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت کا دورہ کیاتھا۔اس اجلاس کے دوران انہوں نے اور ان کے بھارتی ہم منصب نے اپنے بیانات میں ایک دوسرے پر سنگین الزامات عائد کیےتھے۔

پھر بھارت نے چار جولائی 2023 کو ایس سی او کے سربراہانِ مملکت کی آن لائن ہونے والی کانفرنس کی میزبانی کی۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف نےبھارت کے معاندانہ رویے کے باوجود کانفرنس میں شرکت کی۔یہ عمل اسلام آباد کی نئی دہلی کے ساتھ رابطے پر آمادگی کو ظاہر کرتا ہے، حالاں کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پلوامہ حملے اور 2019 میں بھارتی آئین کی دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد سے برقرار ہے۔

بھارت نے پاکستان کو نظرانداز کرنے کی حکمت عملی اپنا رکھی ہے جس سے یہ تاثر دینامقصود ہےکہ وہ اپنے مغربی ہم سائے کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ ابھی گزشتہ مہینے ہی بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے کہا کہ بھارت موجودہ صورت حال کے برقرار رہنے، یعنی تعطل سے مطمئن ہے۔

میری رائے میں پاکستان کے ساتھ بلا تعطل بات چیت کا دور ختم ہو چکا۔ اقدامات کے نتائج ہوتے ہیں اور جموں و کشمیر کے معاملے میں، میرے خیال میں دفعہ 370 کا قصہ ختم ہو چکا ہے۔واضح رہے کہ وہ 2004 سے 2008 تک بھارت اور پاکستان کے درمیان تسلسل کے ساتھ بات چیت کا ذکر کر رہے تھے۔

ایس سی او، مغربی دنیا کی متبادل

ستمبر 2022میں ماسکو نےکہا تھاکہ شنگھائی تعاون تنظیم کاسربراہی اجلاس مغربی دنیا کے متبادل کے طور پر نظر آئے گا۔اس اجلاس میں پاکستان وزیراعظم شہباز شریف، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، روسی صدر ولادی میر پوتن، چینی صدر شی جن پنگ، ترک صدر رجب طیب اردوان اور دیگر ایشیائی راہ نماوں نے شرکت کی تھی۔ یہ اجلاس ازبکستان کے شہر سمرقند میں ہواتھا۔

فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق چین، روس، بھارت، پاکستان اور چار سابق سوویت وسطی ایشیائی ممالک پر مشتمل شنگھائی تعاون تنظیم 2001 میں مغربی اداروں کے مقابلے میں ایک سیاسی، اقتصادی اور سلامتی کی تنظیم کے طور پر قائم کی گئی تھی۔

اس وقت روس کی خارجہ پالیسی کے مشیر یوری اوشاکوف نے ماسکو میں صحافیوں کو بتایا تھاکہ شنگھائی تعاون تنظیم مغربی تنظیموں کا متبادل پیش کرتی ہے۔ انہوں نے اس سربراہی اجلاس کوبڑے پیمانے پر جغرافیائی سیاسی تبدیلیوں کے پس منظر میں قرار دیتے ہوئے کہاتھاکہ شنگھائی تعاون تنظیم کے تمام ارکان انصاف پر قائم عالمی نظام کے حامی ہیں۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی تنظیم ہے اور اس میں ہمارے سیارے کی نصف آبادی شامل ہے۔

دوسری جانب بعض ماہرین بین الاقوامی امور کا موقف ہے کہ روس اور یوکرین کی جنگ نے مغرب اور ایس سی اوکےرکن ممالک کے درمیان خلیج کو مزید وسیع کر دیا ہے، بلکہ دنیا کودو بلاکس میں تقسیم کر دیا ہے۔ 

’’SCO‘‘تنظیم کا جنم ’’شنگھائی فائیو‘‘ میکانزم سے ہوا تھا

شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (SCO) ایک علاقائی تنظیم ہے، جو اس خطے کے سیاسی، اقتصادی اور سلامتی کے منظر نامے کے لیے بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ بین الحکومتی تنظیم 2001ء میں قائم ہوئی تھی جو اپنے رکن ممالک کے درمیان سیاسی، اقتصادی اور سلامتی سے متعلق تعاون کو فروغ دیتی ہے۔ ایس سی او میں چین، روس، پاکستان، بھارت اور کئی وسطی ایشیائی ممالک شامل ہیں۔ اس تنظیم کا جنم ’’شنگھائی فائیو‘‘ میکانزم سے ہوا تھا۔ 

یہ گروپ 1996ء میں چین، روس، قازگستان، کرغستان اور تاجکستان نے تشکیل دیا تھا۔ اس گروپ نے ابتدائی طور پر سرحدی تنازعات کو حل کرنے اور فوجی معاملات میں باہمی اعتماد کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کی لیکن جلد ہی یہ علاقائی تعاون کے لیے ایک وسیع پلیٹ فارم کی شکل اختیار کر گیا۔ 2001ء میں ازبکستان اس گروپ میں شامل ہوا اور شنگھائی میں ایس سی او کے باقاعدہ قیام کا اعلان کیا گیا۔ 

تنظیم کے مینڈیٹ میں سیکورٹی، اقتصادی اور ثقافتی تعاون کا احاطہ کیا گیا، جو خطے کے پیچیدہ جغرافیائی سیاسی ماحول میں باہمی انحصار کی عکاسی کرتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم نے اپنے قیام سے لے کر اب تک کئی اہم اقدامات کیے، جنہوں نے اس اتحاد کو ایک ڈھیلے سیکورٹی اتحاد سے ایک کثیر جہتی تنظیم میں تبدیل کردیا ہے۔

اس وقت اس اتحاد نے اقتصادی تعاون، سیاسی استحکام، دہشت گردی، انتہا پسندی اور علیدگی پسندی سے نمٹنے میں مشترکہ کوششوں کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے۔ ہمارے خطے میں اس کی اہمیت اس وقت بڑھ گئی جب 2017ء میں بھارت اور پاکستان کو شامل کرنے کے لیے رکنیت کی توسیع کی گئی، جس نے عالمی سطح پر اس تنظیم کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو اجاگر کیا۔

میڈیا کوریج کے لیے انتظامات

اسلام آباد میں ہونے والے اس اجلاس کی کوریج کے لیے پاک چائنا فرینڈشپ سینٹر میں میڈیا سینٹر بنایا گیا ہے جہاں سے صحافیوں کو اطلاعات تک رسائی دی جائےگی۔ اجلاس کی کارروائی بہ راہ راست نشر نہیں ہوگی بلکہ اسے کلوزرکھا جائے گا۔ اجلاس کی کوریج کے لیے رکن ممالک سے 150کے قریب غیر ملکی صحافی پاکستان آنے کی اطلاعات ہیں۔

ایس سی او، قیام، مقاصد اور ڈھانچا

شنگھائی تعاون تنظیم ( Shanghai Cooperation Organisation ایک یوریشیائی سیاسی، اقتصادی اور عسکری تعاون کی تنظیم ہے جسے شنگھائی میں 2001ء میں چین، قازقستان،کرغیزستان، روس، تاجکستان اور ازبکستان کے رہنماؤں نے قائم کیاتھا۔ یہ تمام ممالک شنگھائی پانچ (Shanghai Five) کے اراکین تھے، سوائے ازبکستان کے جو اس میں 2001ء میں شامل ہوا۔ تب اس تنظیم کا نام بدل کر شنگھائی تعاون تنظیم رکھا گیا۔ 10 جولائی 2015ء کو اس میں بھارت اور پاکستان کو بھی شامل کیا گیا۔

پاکستان 2005ء سے شنگھائی تعاون تنظیم کا مبصر ملک تھا، جو تنظیم کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرتا رہا اور 2010ء میں پاکستان کی جانب سے شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت کے لیے درخواست دی گئی۔ تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہان نے جولائی 2015ء میں اوفا اجلاس میں پاکستان کی درخواست کی منظوری دی اور پاکستان کی تنظیم میں باقاعدہ شمولیت کے لیے طریقہ کار وضح کرنے پر اتفاق کیا۔ 

پاکستان کی شمولیت سے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی تعداد آٹھ ہو گئی تھی۔ پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت کے حوالے سے ذمے داریوں کی یادداشت پر دستخط کیے، جس کے بعد پاکستان تنظیم کا مستقل رکن بن گیا۔9 جون 2017ء کو پاکستان اور بھارت کو تنظیم کی مکمل رکنیت مل گئی۔

چوں کہ آبادی کے لحاظ سے دو بڑے ممالک ، بھارت اور چین اس تنظیم کے رکن ہیں اس لیے یہ تنظیم دنیا کی کل آبادی کے 40 فی صد کا ایک فورم ہے۔

ایس سی او کے رکن ممالک کی تین اقسام ہیں، جن میں آٹھ مستقل اراکین کے علاوہ ایران، افغانستان، بیلاروس اور منگولیا کو آبزرورز کی حیثیت حاصل ہے۔ آرمینیا، آذربائیجان، کمبوڈیا، نیپال، سری لنکا اور ترکی ڈائیلاگ پارٹنرز ہیں۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے اہم مقاصد میں رکن ممالک کے درمیان باہمی اعتماد اور اچھے پڑوسی والےتعلقات کو فروغ دینے کے علاوہ علاقائی امن، سلامتی اور استحکام کو تقویت دینااور سیاسی میدان، تجارت، معیشت، ثقافت، سائنس اور ٹیکنالوجی، تعلیم، توانائی، نقل و حمل اور رابطے، سیاحت اور ماحولیاتی تحفظ میں موثر تعاون کے لیے ایک فریم ورک تیار کرنا شامل ہیں۔

تنظیم کی باضابطہ زبانیں چینی اور روسی ہیں۔ ان ہی دو زبانوں میں تنظیم کا سرکاری نام ہے۔ دیگر زبانوں میں ہندی و اردو شامل ہیں جو بالترتیب بھارت و پاکستان میں بولی جاتی ہیں۔

سربراہان مملکت کی کونسل شنگھائی تعاون تنظیم میں سب سے بڑا فیصلہ سازی کا حصہ ہے۔ کونسل شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کا انعقاد، رکن ممالک کے دار الحکومتوں میں سے کسی ایک میں، ہر سال کرتی ہے۔