• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقبال کی ضرب ِ کلیم میں شامل نظم شام و فلسطین کا یہ شعر توخاصا معروف ہے :

ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق

ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا؟

فلسطین کے موضوع پر اقبال کے چند اور اشعار بھی معروف ہیں۔ اقبال نے ہمیشہ فلسطینیوں کی حمایت کی ، چاہے وہ شاعری ہو، تقریریں ہوں یا خطوط۔

٭پنجۂ یہود اور لیگ آف نیشن

اقبال کو فلسطین کے مسلمانوں سے گہری ہمدردی تھی کیونکہ ان کاعقیدہ تھا کہ اسلام نسل، علاقوں اور سرحدوں سے ماورا ہے۔ اقبال کا انتقال ۱۹۳۸ء میں ہوا اور اسرائیل ۱۹۴۸ء میں وجود میں آیا لیکن اس سے قبل مشرقِ وسطیٰ میں ہونے والی تبدیلیوں پر اقبال گہری نگاہ رکھے ہوئے تھے۔ مغربی ممالک ان تمام وعدوں کو روندتے ہوئے، جو انھوں نے پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد مسلمانوں سے مذاکرات میں کیے تھے، یہودیوں کو فلسطین میں زمینیں دینے پر تُلے ہوئے تھے۔ 

بشیر احمد ڈار نے اپنی کتاب ’’انوار ِ اقبال‘‘ میں لکھاہے کہ لاہور کے موچی دروازے پر ۳۰؍دسمبر ۱۹۱۹ء کو ایک جلسہ ہوا جس میں ایک قرارداد پیش کی گئی۔ اقبال نے یہ قرارداد پڑھ کر سنائی اورجس میں برطانوی حکومت کو یاد دلایا گیا تھا کہ اس نے سلطنت ِ عثمانیہ اور ترکی سے متعلق مسلمانوں سے وعدے کیے تھے لیکن پیرس کی صلح کانفرنس میں ان سے متعلق کیے گئے فیصلے قابلِ اطمینان نہیں ہیں۔ اس قراداد میں مطالبہ کیا گیا کہ ’’سلطنت ِ عثمانیہ کے کسی حصے پر صراحتاً یا اشارۃً کسی دوسری سلطنت کا قبضہ نہیں ہونا چاہیے ۔‘‘

پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد جب پیرس صلح کانفرنس منعقد ہوئی تو عالمی امن کو برقرار رکھنے کے لیے ایک عالمی تنظیم کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چنانچہ لیگ آف نیشنز (League of Nations) کے نام سے ۱۹۲۰ء میں ایک تنظیم بنائی گئی۔ 

یہ تنظیم ایک طرح سے اقوام ِ متحدہ کی پیش رو تھی۔ لیکن افسوس کہ اس تنظیم پر بڑے ملکوں کی اجارہ داری تھی اورلیگ آف نیشنزوہ کچھ کرنے کی حقیقی قوت نہیں رکھتی تھی جس کے لیے وہ وجود میں لائی گئی تھی۔ طاقت ور ملکوں کے سامنے وہ بے بس تھی۔

پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کیا گیا اس پر اقبال بڑے مایوس ہوئے۔ بلکہ لیگ آف نیشنز کی تخلیق کو بھی وہ استعماری قوتوں کی سازش سمجھتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ یہ تنظیم انگریزوں اور فرانسیسیوں نے محض مسلمان ملکوں کے حصے بخرے کرکے آپس میں بانٹنے کے لیے بنائی ہے۔ اس تنظیم پر اقبال نے ’’پیام ِ مشرق‘‘ میں ’’جمیعت الاقوم‘‘ کے عنوان سے طنزیہ کہا:

برفتد تا روشِ رزم دریں بزمِ کہن

دردمندانِ جہاں طرحِ نو انداختہ اند

من ازیں بیش ندانم کہ کفن دُزدے چند

بہرِ تقسیمِ قبور انجمنے ساختہ اند

گویا اقبال کے خیال میں لیگ آف نیشنز کفن چوروں کی انجمن تھی جو قبروں کی تقسیم کے لیے وجود میں لائی گئی تھی۔ لیگ آف نیشنز کا مرکزی دفتر جنیوا (سوئٹزر لینڈ) میں تھا اور برطانیہ یہودیوں کی حمایت کررہا تھا۔ چنانچہ اقبال نے ضرب کلیم میں شامل اپنی نظم ’’فلسطینی عرب سے ‘‘میںفلسطینیوں سے اشارۃً کہا:

تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں

فرنگ کی رگ ِ جاں پنجۂ یہود میں ہے

٭برطانیہ کی یہود نوازی اور اقبال

اقبال برطانیہ کی یہود نوازی کے سخت مخالف تھے۔ محمد رفیق افضل نیاپنی کتاب ’’ گفتارِ اقبال‘‘ میں اخبار ’’انقلاب ‘‘کے شمارہ ۱۰؍ ستمبر ۱۹۲۹ء کے حوالے سے لکھا ہے کہ ۷؍ ستمبر ۱۹۲۹ء کو لاہور میں ایک جلسہ بیرونِ دہلی دروازہ منعقد ہوا جس میں فلسطین کے بارے میں برطانیہ کی یہود نوازحکمت ِ عملی کے خلاف صداے احتجاج بلند کی گئی۔ اقبال نے اس جلسے کی صدارت کی اور اپنی تقریر میں کہا:

’’یہودی یورپ کی تمام سلطنتوں میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔مسلمانوں نے یورپ کے ستائے ہوئے یہودیوں کو نہ صرف پناہ دی بلکہ انھیں اعلیٰ مناصب پر فائز کیا۔ ترک یہودیوں کے ساتھ غیر معمولی رواداری کا سلوک کرتے رہے۔

یہودیوں کی خواہش پر انھیں مخصوص اوقات میں دیوار براق کے ساتھ کھڑے ہوکر گریہ و بکا کرنے کی اجازت عطا کی۔ اسی وجہ سے اس دیوار کا نام ان کی اصطلاح میں دیوار ِگریہ مشہور ہوگیا۔ شریعت ِ اسلامیہ کی رو سے مسجد ِ اقصیٰ کا سارا احاطہ وقف ہے۔

جس قبضے اور تصرف کا یہود اب دعویٰ کرتے ہیں قانونی اور تاریخی اعتبار سے اس کا حق انھیں ہرگز نہیں پہنچتا۔ سوائے اس کے کہ ترکوں نے انھیں گریہ کرنے کی اجازت دے رکھی ہے ‘‘۔

علامہ اقبال نے لندن ۱۹۳۱ء میں منعقدہ دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ اُنھیِں دنوں یروشلم میں موتمر ِ عالم ِ اسلامی کے زیر اہتمام ایک کانگریس کا انعقاد ہورہا تھا تاکہ صیہونی خطرے پر غور کیا جاسکے۔ اقبال لندن کی گول میز کانفرنس کوادھورا چھوڑ کر یروشلم چلے گئے تاکہ اس کانگریس میں شریک ہوسکیں۔

نومبر ۱۹۳۲ء میں اقبال تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے۔وہاں ان کی ملاقات مس مارگریٹ فرکہرسن (Miss Margerate Farquharson) سے ہوئی۔ مس فرکہرسن ایک تنظیم نیشنل لیگ کی رہنما تھیں۔ اس تنظیم کا ایک مقصد برعظیم پاک و ہند اور مشرقِ وسطیٰ کے مسلمانوں کو انصاف کے حصول میں مدد دینا بھی تھا۔

اس تنظیم کو فلسطینیوں سے بھی ہمدردی تھی۔ مس فرکہرسن نے لندن میں ۲۴؍ نومبر ۱۹۳۲ء کو اقبال کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا۔ اس موقعے پر اقبال نے کہا کہ برطانیہ کو چاہیے کہ عالم ِ اسلام کے ساتھ تعلقات استوار کرے اور یہ جبھی ممکن ہے کہ فلسطین سے برطانوی اقتدار ختم کرکے اسے عربوں کے حوالے کردیا جائے۔

مس فرکہرسن کے نام اپنے ایک انگریزی میں لکھے گئے خط بتاریخ ۲۰؍ جولائی ۱۹۳۷ء میں اقبال نے بعض اہم باتیں لکھیں۔ شیخ عطاء اللہ نے ’’اقبال نامہ ‘‘میں اس خط کا اردو ترجمہ درج کیا ہے۔ اس میں سے کچھ اقتباسات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال آخرِ عمر میں بھی باوجود بیماری کے مسلمانوں، فلسطین اور عالم ِاسلام کے معاملات و مسائل کے بارے میں کتنے متفکر رہتے تھے ۔ لکھتے ہیں:

’’میں بدستور بیمار ہوں اس لیے فلسطین رپورٹ پر اپنی رائے اور وہ عجیب و غریب خیالات اور احساسات جو اُس نے ہندستانی مسلمانوں کے دلوں میں بالخصوص اور ایشائی مسلمانوں کے دلوں میں بالعموم پیدا کیے ہیں یا کرسکتی ہے تفصیل سے تحریر نہیں کرسکتا۔ 

میرے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ نیشنل لیگ آف انگلینڈ وقت شناسی کا ثبوت دے اور اہلِ برطانیہ کو عربوں کے خلاف جن سے برطانوی سیاست دانوں نے اہلِ برطانیہ کے نام سے حتمی وعدے کیے تھے ناانصافی کے ارتکاب سے بچالے‘‘۔

اسی خط میں آگے چل کراقبال نے لیگ آف نیشنز یا جمیعت الاقوام کے بارے میں وہ بھی لکھا جو وہ’’ پیام ِ مشرق‘‘ میں بزبان ِ شعر کہہ چکے تھے ۔ لکھتے ہیں: ’’ ہمیں یہ کبھی بھی فراموش نہ کرنا چاہیے کہ فلسطین انگلستان کی کوئی ذاتی جائیداد نہیں۔ فلسطین پر یہودیوں کا کوئی بھی حق نہیں۔ یہودیوں نے تو اس ملک کو رضامندانہ طور پر عربوں کے فلسطین پر قبضے سے بہت پہلے خیر باد کہہ دیا تھا۔ ‘‘

٭اقبال کا خط قائد اعظم کے نام

دیگر کئی مواقع پر بھی اقبال نے فلسطینیوں کی حمایت کی۔ اس سلسلے میں اقبال کے ایک خط بنام قائد اعظم محمد علی جناح کا ذکر ضروری ہے۔ بشیر احمد ڈار کی کتاب Letters of Iqbal میں وہ خط بھی شامل ہیں جو اقبال نے قائداعظم کو لکھے تھے (قائد اعظم کے نام اقبال کے خطوط کا مختصر مجموعہ الگ سے بھی شائع ہوا ہے اور اس کا دیباچہ بھی قائد اعظم نے لکھا تھا)۔ 

اقبال نے یہ خط ۷؍ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو قائد اعظم کے نام لکھا تھا ، یعنی اپنی وفات سے چھے سات ماہ قبل ،اور بیماری کے عالم میں بھی فلسطین کے لیے اقبال کا جذبہ دیدنی ہے۔ یہ خط انگریزی میں ہے اور اس کا لب لباب یہ ہے کہ اقبال اسرائیل کے قیام کو مشرق کے دروازے پر مغربی اڈے کا قیام سمجھتے تھے اور اس عمر اور بیماری کی حالت میں بھی مسئلہ فلسطین پر جیل جانے کو تیار تھے۔

… شام و فلسطین…

رندان فرانسيس کا ميخانہ سلامت

پر ہے م ے گلرنگ سے ہر شيشہ حلب کا

ہے خاک فلسطيں پہ يہودی کا اگر حق

ہسپانيہ پر حق نہيں کيوں اہل عرب کا

مقصد ہے ملوکيت انگليس کا کچھ اور

قصہ نہيں نارنج کا يا شہد و رطب کا

……٭٭……٭٭……

…فلسطینی عرب سے…

زمانہ اب بھی نہيں جس کے سوز سے فارغ

ميں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود ميں ہے

تری دوا نہ جنيوا ميں ہے، نہ لندن ميں

فرنگ کی رگ جاں پنجہ يہود ميں ہے

سنا ہے ميں نے، غلامی سے امتوں کی نجات

خودی کی پرورش و لذت نمود ميں ہے

……٭٭……٭٭……

…دام تہذیب…

اقبال کو شک اس کی شرافت ميں نہيں ہے

ہر ملت مظلوم کا يورپ ہے خريدار

يہ پير کليسا کي کرامت ہے کہ اس نے

بجلی کے چراغوں سے منور کيے افکار

جلتا ہے مگر شام و فلسطيں پہ مرا دل

تدبير سے کھلتا نہيں يہ عقدہ دشوار

ترکان ’جفا پيشہ‘ کے پنجے سے نکل کر

بيچارے ہيں تہذيب کے پھندے ميں گرفتار