ہمت، ولولہ، جوش اور طاقت کا دوسرا نام ہے، نوجوان قوموں کے عروج اور ترقی میں ان کابہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ پاکستان کی 75ویں سالگرہ پر جائزہ لیتے ہیں کہ نوجوانوں نے پاکستان کی آزادی سے لے کر آج تک اس ملک کی تعمیر و ترقی میں کیا کردار ادا کیا اور کیا کر رہے ہیں۔ اپنا محاسبہ کرنے کے لئے آئینہ بہترین ہوتا ہے۔ اپناماضی دیکھیں اس آئینے میں۔ یہ تحریک پاکستان کا زمانہ ہے۔ جب برصغیر کے مسلمانوں کو دینی سماجی، سیاسی اور انسانی حقوق سے محروم کئے جانے کی وجہ سے ان میں پاکستان کے حصول کی تحریک پیدا ہوئی، جس میں محمد علی جناح کی قیادت میں ہر طبقے کے لوگوں نے حصہ لیا۔
جن میں نوجوان طلبہ بھی شامل ہیں۔ یہ نوجوان ہر دشواری کا مقابلہ ہمت اور بہادری سے کر رہے ہیں۔ 2نومبر 1945ء کو قائداعظم محمد علی جناح فرما رہے ہیں ’’ہمیں ہر حالت میں پاکستان حاصل کرنا ہے۔ہماری بقا اور زندگی پاکستان ہے‘‘۔ قائد نے نوجوانوں میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ اتحاد، تنظیم اور یقینِ محکم کے اصولوں پر قائم رہنے کا درس دے دیا ہے تاکہ نوجوانوں کی قوت عمل اور سرگرمیوں کو کارآمد تعمیری راہ پر ڈالا جاسکے۔ قائد کہہ رہے ہیں کہ ’’مسلمان محض ایک اقلیت نہیں ہیں بلکہ ایک قوم ہیں‘‘۔ ان کی اس آواز پر نوجوانوں نے لبیک کہا ہے اور وہ متحد ہورہے ہیں۔
علامہ اقبال نے ایک الگ ملک کا تصور پیش کر دیا ہے اور چوہدری رحمت علی نے اس کا نام پاکستان تجویز کر دیا ہے۔ دیکھیں تمام نوجوان قائد کی قیادت میں مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہوکر آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہوگئے ہیں۔ دیکھیں ان طلباء کا جوش و جذبہ نہ کوئی بدزبانی اور نہ ہی مار دھاڑ ۔یہ دیکھیں 23مارچ 1940ء آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں قراردادِ پاکستان پیش اورمنظور کی جارہی ہے۔ نوجوان ہر اول دستے کا کردار ادا کررہے ہیں۔ دیکھیں قائداعظم نوجوانوں سے مخاطب ہیں وہ کہہ رہے ہیں نوجوانو! زمانہ طالب علمی میں اپنی ذہنی اور اخلاقی صلاحیتوں اور قوتوں کو بڑھائو تاکہ آگے چل کربہترین شہری بن سکو اور دیکھیں نوجوان قائد کے فرمان پر عمل بھی کر رہے ہیں۔
قائد نے اپنے خطاب میں فرمایا ’’تعمیر پاکستان کی راہ میں مصائب اور مشکلات کو دیکھ کر نہ گھبرائیں۔ اقوام کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے، جس میں قوموں نے محض قوت ارادی، توانائی عمل اور عظمتِ کردار سے کام لے کر خود کو بلند کیا۔ آپ بھی فولادی قوت ارادی کے مالک اور عزم و ارادے کی دولت سے مالا مال ہیں۔ سنیں قائد نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ ’’مجھے پورا یقین ہے کہ قوم کا مستقبل آپ لوگوں کے ہاتھوں میں محفوظ ہے۔ایک دوسری جگہ خطاب میں قائد فرما رہے ہیں ’’آپ کا اولین فرض علم کا حصول ہے جو آپ کی ذات، والدین اور پوری قوم کی طرف سے آپ پر عائد ہوتا ہے۔ آپ جب تک طالب علم ہیں اپنی توجہ صرف تعلیم کی طرف مرکوز رکھیں۔ اگر آپ نے یہ قیمتی وقت ضائع کردیا تو یہ کھویا ہوا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا۔ طلبہ ان کی بات سن بھی رہے ہیں اور اپنے اندر جذب بھی کر رہے ہیں۔
آگے بڑھنے کے جذبے سے سرشار، متحد ہوکر ملکی تعمیر و ترقی کے لئے جدوجہد کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اس تحریک میں طلبہ کے ساتھ ساتھ طالبات بھی بھرپور حصہ لے رہی ہیں۔ قائداعظم ڈھاکہ میں نوجوان طلباء سے خطاب کر رہے ہیں۔ ’’میرے نوجوانوں دوستو! میں آپ کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کسی سیاسی جماعت کے آلۂ کار بنیں گے تو یہ آپ کی بڑی غلطی ہوگی۔ یاد رکھیں ایک انقلابی تبدیلی رونما ہوچکی ہے۔ ہم ایک آزاد اور خود مختار ملک کے مالک ہیں۔
اس کی تعمیر و ترقی میں حصہ لیں۔ لُٹے پٹے مہاجرین پاکستان پہنچ رہے ہیں۔ کیمپوں میں تمام لوگوں کے ساتھ طلباء اور طالبات بھی ان کی امداد اور دیکھ بھال میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کے کھانے پینے اور علاج وغیرہ کا بندوبست کیا جارہا ہے۔ دامے درمے سخنے سب مدد کرنے میں مصروف ہیں۔ تحریک پاکستان میں نوجوانوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ قائد نے نوجوانوں کی طاقت کو منظم کیا اور یوں پاکستان حاصل ہوا۔
نوجوان معاشرے کا وقار اور سماج کا آئینہ ہوتے ہیں۔ اب آیئے اس دوسرے آئینے کی طرف یہ میرا ’’حال‘‘ ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے برائے تعمیر و ترقی UNDPکے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا 64فیصد حصہ 30برس سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے، جبکہ ان میں 29فیصد نوجوان غیر تعلیم یافتہ ہیں۔ جبکہ صرف 6فیصد نوجوان 12تعلیمی سال سے آگے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ دیکھیں اس آئینے میں ایک طرف تو یہ چمکتے روشن چہرے والے نوجوان ہیں جن کی تعداد تو بہت زیادہ نہیں پر انہوں نے تعلیم، کھیل، سائنس، فنون لطیفہ، طب، صحت انجینئرنگ کمپیوٹر اور آئی ٹی کے شعبوں میں دنیا میں نام کمایا ہے۔ اور ملک کی پہچان بن کر وطن کا روشن چہرہ دنیا کو دکھا دیا ہے۔
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں نظر آئی ہے ان کی اپنی منزل آسمانوں میں ہیں اور اس آئینے میں دوسری طرف دیکھیں تو مایوس، بے زار، ذہنی طورپر منتشر ایک ہجوم نظر آتا ہے۔ یہ دیکھئے بے راہ روی کا شکار نوجوان ہیں ۔ نامساعد حالات اور ناآسودگی کی وجہ سے مین پوری، گٹکا اور صمد بانڈ جسے چھوٹے موٹے نشے بھی کرتے ہیں۔ ادھر دیکھیں یہ اسکول، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے وہ طلباء ہیں جو بھاری فیس ادا کرکے بڑے تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں۔ یہ سگریٹ نوشی، شیشہ، ہیروئن اور اس کا نشہ تقریباً شروع کرتے ہیں اور پھر اس نشے کی دلدل میں دھنس جاتے ہیں۔ اور انہیں دیکھیں یہ وہ نوجوان ہیں جن کا منہ ہر وقت اپنے اسمارٹ فون کی جانب رہتا ہے۔
دوسرے براعظموں میں رہنے والوں سے تو باخبر ہیں مگر اپنے گھر والوں ، دوستوں اور رشتہ داروں حتیٰ کہ برابر بیٹھے ہوئے لوگوں سے بھی بے خبر ہیں، جنہیں گفتگو کے آداب معلوم نہیں۔ تُندخوئی اور بدزبانی ان کا طرۂ امتیاز ہے جنہیں معلوم نہیں کہ عزت اور احترام کیا چیز ہے۔ یہ وہ نوجوان ہیں جو گھنٹوں سوشل میڈیا کا منفی استعمال کرتے ہوئے اپنا قیمتی وقت برباد کر رہے ہیں، جو موبائل گیمز، کمپیوٹر گیمز پر مصروف ہوکر دنیا سے بے خبر ہو جاتے ہیں، یا پھر TikTokبناتے ہیں۔ یا پھر واٹس اپ اور ٹوئٹر پر دوسروں پر کیچڑ اچھال کر گالی دے کر اور بدزبانی کرنا اپنی شان سمجھتے ہیں اور اپنی تربیت کا ثبوت بھی پیش کرتے ہیں۔
یہ وہ نوجوان ہیں جو تعلیمی اداروں میں وقت گزاری کے لئے جاتے ہیں ،جنہیں ملکی حالات کا ذرا برابر احساس نہیں، جنہیں ملک سے اور یہاں کے لوگوں سے محبت نہیں۔ سچ ہے نوجوان معاشرے کے معمار بھی بن سکتے ہیں اور یہ اسے مسمار بھی کرسکتے ہیں۔ آج کا نوجوان صرف یہ سوچتا ہے کہ پاکستان میں میرا مستقبل کیا ہے۔ ملک کے حالات اچھے ہوں یا خراب۔ بھوک ہو غربت ہو یا تعلیم کی کمی، صحت و صفائی کے مسئلے ہوں یا ملاوٹ اور آلودگی کے، نوجوان ان سے نالاں تو نظر آتے ہیں مگر ایک لمحے کو نہیں سوچتے کہ آج جب پوری قوم اپنے حکمرانوں اور سیاستدانوں سے مایوس اور بے زار ہوچکی ہے تو ان کی آس، امید اور روشنی تو صرف میرے ملک کے نوجوان ہیں۔ ان ہی نوجوانوں نے کل اس ملک کی باگ دوڑ سنبھالنی ہے۔ اس ملک کو جو آج کل مسائلستان بنا ہوا ہے کیا ان مسائل کا حل ملک سے باہر جانے کی کوشش کرکے فرار کا راستہ اختیار کرنا ہے یا یہاں رہ کر ان حالات اور معاملات کو سدھارنے کی کوشش کرنا ہے۔ نوجوانو! آپ ہی نے ملک کو آگے لے کر جانا ہے اور اقوام عالم میں سر اٹھا کر جینا ہے۔
تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
دوستو! آپ نے یہاں کے لوگوں کو غربت افلاس اور جہالت سے نجات دلانا ہے اب باہر سے کوئی نجات دھندہ نہیں آئے گا بس نوجوانوں کو خود کو اس کام کے لئے تیار کرنا ہے۔ اس کام کا بیڑا اٹھانا ہے اگر ہمیں حکمرانوں اور سیاستدانوں میں خامیاں نظر آتی ہیں تو ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے اندر ان خامیوں اور کمیوں کو پنپنے نہ دیں۔ اس کے لئے ہمیں اپنے اندر قائدانہ صلاحیتیں پیدا کرنا ہوں گی۔ ایک لیڈر بننا ہوگا۔ لیڈر صرف ملک کا حکمران، وزیر یا مشیر ہی نہیں ہوتا۔ جس بھی انسان میں قائدانہ صلاحیتیں ہوتی ہیں وہ زندگی کے ہر شعبے میں ہر جگہ خود کو منوا سکتا ہے۔ ہاں وہ حکمراں، وزیر اور مشیر بھی بن سکتا ہے کیونکہ اسے قیادت کرنا آتی ہے۔
وہ صرف وفا نہ ہونے والے وعدے اور سبز باغ نہیں دکھاتا بلکہ ہر کام عملی طور پر کرکے دکھاتا ہے اور اپنے آپ کو منواتا ہے۔ ایک لیڈر بننا یا اپنے اندر قائدانہ صلاحیتیں پیدا کر تھوڑا سا مشکل مگر ناممکن ہرگز نہیں ہے۔ ایک لیڈر کی صفات میں مثبت سوچ، مثبت عمل، بصیرت، اعتماد، علم، انصاف پسندی، راست بازی، وفاداری، بے غرضی، ہمت حوصلہ بھروسہ مندی برداشت، حسنِ اخلاق ہمدردی، قوت فیصلہ جوش اور ولولہ اور پراثر خطابت شامل ہیں۔ یہ بھی درست کہ قائدانہ صلاحیتیں قدرت کا تحفہ ہوتی ہیں۔ ہر انسان قائد نہیں ہوتا مگر ہر انسان اپنے اندر قائدانہ صلاحیتیں پیدا کرنے کی سعی تو کرسکتا ہے میرے نوجوان ملک کا قیمتی سرمایہ ہیں۔
معاشرے کی نشو ونما، معاشرے کی بقا، اس کی صلاح اور فلاح اس کا مستقبل انہی کے دم سے وابستہ ہے۔ اگر نوجوان گمراہ ہو جائیں تو معاشرہ گمراہ ہو جاتا ہے اگر طلباء کا ذہن روشن نہ ہو توملک اور معاشرہ کبھی روشن نہیں ہوسکتا۔ معاشرے کی ذہنی نشو و نما اور فکری ارتقاء کا دارومدار اور ملک کی تابناکی کا دارومدار صرف نوجوانوں پر ہے۔ پاکستان میں آبادی اور ناخونداگی کی نسبت ہمارا تعلیمی بجٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ بجٹ 2022-23ء میں تعلیم کے لئے 109ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ حکومت نے تعلیمی بجٹ میں 1.5فیصد کمی کا فیصلہ کیا ہے۔ افسوس کہ تعلیم حکومتی اداروں کی ترجیحات میں دنیا کی طرح شامل نہیں ہے۔ میرے ملک میں نوجوانوں کی بڑی تعداد خصوصی تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت سے محروم ہے۔ مایوسی اور وسائل میں کمی کے باعث ان میں شدید مایوسی اور احساس محرومی جنم لے رہا ہے۔
دنیا کی ترقی یافتہ اقوام اپنے معاشرے کی ترقی، استحکام اور امن کے قیام کے لئے اپنے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے لئے خصوصی اقدامات کرتی ہیں۔ کیونکہ نوجوان درست راستے سے ہٹ جائیں تو معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور ترقی کی رفتا رک جاتی ہے۔ پاکستان میں نوجوانوں کے مسائل کے حل کے ساتھ ان کے لئے واضح منصوبہ بندی کی کمی رہی ہے جس کی وجہ سے وہ درست سمت کا تعین نہیں کر پا رہے۔ ضروری ہے کہ تعلیم یافتہ، زیر تعلیم، بےروزگار اور برسرروزگار نوجوانوں کے مسائل کے حل کے لئے کوششیں کی جائیں ان کی ہنرسیکھنے کے سلسلے میں رہنمائی اور مدد کی جائے۔ بے روزگاری کم علمی اور افلاس کو جنم دیتے ہیں۔ پاکستان کے مستقبل کا تعین کسی نہ کسی انداز میں وہی لوگ کریں گے جن کی عمریں آج 29-15سال کےدرمیان ہیں۔
میرا دشمن مجھے کمزور سمجھنے والا
مجھ کو دیکھے کبھی تاریخ کے آئینے میں
میں نے ہر عہد میں توڑا ہے رعونت کا طلسم
میں نے ہر دور میں اک باب نیا لکھا ہے
میرا دشمن کہ حقیقت نہ فراموش کرے
مجھ کو میدان میں پسپائی کی عادت ہی نہیں
آئینے اس تیسرے آئینے کی طرف یہ نوجوانوں کے ’’مستقبل‘‘ کا آئینہ ہے۔ آیئے آگے بڑھیں اس میں روشن زندگی کے خوشگوار رنگ بھرتے ہیں۔ تمیز، تہذیب، تحمل، تدبر، ترکیب اور توازن کے۔ یہ رنگ ہیں تعلیم صحتمند جسم اور ذہن، ہنر مندی، اعتبار اور اعتماد کے۔
دیکھیں یہ میرے نوجوان اپنی صلاحیتوں اور ہنر کے اعتبار سے معاشرے کی خدمت کرتے ہوئے اپنے حصے کا چراغ روشن کر رہے ہیں۔ تاکہ اس ملک کا مستقبل تابناک بناسکیں۔
آج بھی نوجوان متحد ہو جائیں اور قائد کے فرامین کی روشنی میں جدوجہد کریں تو پاکستان ایک عظیم ملک بن جائے گا۔ انشاء اللہ