قیام پاکستان کی جدوجہد بہت مشکل کام تھا، جان تسل، اعصاب شکن، جرأت، ہمت اور حوصلہ طلب، مسلم لیگ کی قیادت نے اسے ہمیشہ پر امن رکھنے کی بھرپور کوشش کی جس میں وہ بڑی حد تک کام یاب بھی رہی، لیکن جب قیام پاکستان ناگزیر ہوگیا تو ہندوئوں اور سکھوں نے ہجرت کرنے والے مسلمانوں کو خون جس انداز سے بہایا وہ بہت خوں چکاں داستان ہے۔ نئے وطن کے باسی پاکستان ملنے کی خوشی میں ابھی ہجرت کی تلخ یادیں بھلانے کی کوشش کررہے تھے کہ لیاقت علی خان کو شہید کردیا گیا۔
ان کے اصل قاتلوں کے چہروں سے کبھی بھی پردہ نہیں اٹھ سکا لیکن اس سانحے کے بعد دوسرا بڑا سانحہ یہ ہوا کہ پاکستان میں ممتاز سیاسی اور سماجی شخصیات کا وقتاً فوقتاً قتل ہوتا رہا اور ان میں سے اکثر کے اصل قاتلوں کا چہرہ کبھی بھی پوری طرح قوم کے سامنے نہیں آیا۔ قائد ملت، جنرل ضیاء الحق اور بے نظیر بھٹو، ان کی دنیا سے رخصتی، شکوک، شبہات اور تحفظات کے پردے میں لپٹے ہوئی داستان ہے۔ باقیوں کی کیا بات کی جائے۔
ذیل میں چند ممتاز سیاسی شخصیات کے قتل کے بارے میں مختصراً ملاحظہ کریں۔
قائد ملت کی شہادت
لیاقت علی خاں کی شہادت16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں واقع ہوئی،جمہوریت کا چراغ اس دن بجھ گیا اور نوکر شاہی کے لیے آگئے بڑھنے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کا راستہ کھل گیا۔جب قائد ملت کو شہید کردیاگیا
قائد ملت 16 اکتوبر کی صبح راولپنڈی پہنچے۔ ان کو ایک جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا۔ بقول بیگم رعنا لیاقت علی خان،اس جلسہ عام میں انتخابات کا ا علان کرنا تھا،لیکن ایسا نہ ہوسکا، جیسے ہی قائد ملت تقریر کرنے کے لیے اٹھے اور ابھی دو الفاظ ’’برادران اسلام‘‘ ہی کہےتھے کہ دو گولیاں چل گئیں ایک ان کے سینے میں پیوست ہوگئی اور دوسری نے ان کے قاتل کو ڈھیر کردیا یعنی موقع پر ہی بانس کے کٹ جانے سے بانسری کے بجنے کا خطرہ نہیں رہا۔
قتل کی تفتیش کا کام مرکز کے ایک پولیس افسر کے سپرد ہوا وہ بدقسمت افسر کچھ دستاویزات لے کر کراچی آرہا تھا کہ اس کا ہوائی جہاز کراچی پہنچنے سے چند منٹ پہلے گر کر تباہ ہوگیا۔ افسر مرگیا تفتیش کے کاغذ جل گئے۔
شہید کی بیوہ کے بین نے طوالت پکڑی تو اس کو سفارت دے کر ملک سے ہی باہر بھیج دگیا گیا۔
یہ خونین ڈرامہ اگر امریکا جیسے ملک میں ہوا ہوتا تو اس پر کم ازکم کئی ایک ڈیٹکٹو فلمیں بن جاتیں مگر یہاں دستور کے مطابق سارا بوجھ قدرت کے سر تھوپ دیا گیا اور اگر کوئی انکوائری ہوئی بھی تو اس کی رپورٹ عوام کے سامنے نہیں آئیں۔ حساب دوستان در دل!!
بہرحال قائد ملت جیسا وزیراعظم جوپاکستان کو صحیح جمہوری ملک بنانے کی صلاحیت رکھتا تھا اور قائداعظم کے بعد تنہا ملک کی امیدوں کا سہارا تھا بغیر کچھ کہے یا وصیت کیے یا آخری پیغام دیے ایک بیوی، دو کمسن بچے اور دو چار سگریٹ لائٹروں پر مشتمل جائداد چھوڑ کر ہم سے رخصت ہوگیا۔
خالی ہاتھ آیا تھا اور خالی ہاتھ چلا گیا۔ اپنوں سے اپنی عمر بھر کی خدمات کا یہ صلہ پاکر!
ڈاکٹر خان صاحب
9؍مئی 1958ء کو مغربی پاکستان کے سابق وزیراعلیٰ ، ری پبلکن پارٹی کے بانی اور صدر ڈاکٹر خان صاحب کو ایک سابق پٹواری عطا محمد نے لاہور میں قتل کردیا۔
ڈاکٹر خا ن، جن کا پورا نام عبدالجبار خان تھا، ان دنوں لاہور آئے ہوئے تھے اور اپنے بیٹے سعد اللہ خان کے گھر مقیم تھے۔
9؍مئی کی صبح ، عطا محمد نے ان سے ملاقات کی ۔عطا محمد کو دو برس پہلے اس کے عہدے سے برطرف کردیا گیا تھا۔ اس نے ڈاکٹر خان صاحب سے کہا کہ وہ اس کی بحالی کے سلسلے میں اپنا اثرورسوخ استعمال کریں۔ ڈاکٹر خان نے کہا کہ وہ حصول انصاف کے لئے متعلقہ حکام سے جاکر ملے وہ اس کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ جانے کے تھوڑی دیربعد عطا محمد اچانک بنگلے میں دوبارہ داخل ہوا اوراس نے چاقو سے پے درپے وار کر کےڈاکٹر خان کو شدید زخمی کردیا،ا نہیں فوراً میو ہسپتال لے جایاگیا جہاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انہوں نے دم توڑ دیا۔ ان کی میت ایک خصوصی طیارے کے ذریعے پشاور لے جائی گئی اوراتمان زئی کے مقام پر سپردخاک کر دیا گیا۔ ڈاکٹر خان کے قاتل عطا محمد کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس پر مقدمہ چلا اور 10؍فروری 1961ء کو اسے پھانسی دے دی گئی۔
شاہد علی ،مشرقی پاکستان اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر
1958ء میں مشرقی پاکستا ن میں سیاسی بحران اپنے نقطہ عروج پر رہا۔ مارچ 1958ء سے اکتوبر 1958ء تک، چار مرتبہ صوبائی حکومتیں تشکیل پائیں اور ٹوٹیں۔ دومرتبہ ابوحسین سرکار نے وزرات سازی کی جب کہ دو مرتبہ عطا الرحمن کو اقتدار نصیب ہوا۔ اسی دوران مشرقی پاکستان میں دو ما ہ تک گورنر راج بھی نافذ رہا۔ ستمبر1958ء میں مشرقی پاکستان اسمبلی میں دونوں مخالف جماعتوں کی آویزش اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ صورتحال یہ تھی کہ حکومت تو عوامی لیگ کی تھی مگر اسپیکر عبدالحکیم کرشک سرامک پارٹی کےتھے۔ دوسری جانب ڈپٹی اسپیکر شاہد علی عوامی لیگ کے طرف دار تھے۔20ستمبر1958ء کوعوامی لیگ نے اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنی چاہی مگر اسپیکر نے اسے خلاف ضابطہ قرار دے دیا اس پر اسمبلی میں ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی۔ اسپیکر اس صورتحال سے گھبرا کر عقبی راستے سے فرار ہوگئے اور ڈپٹی اسپیکر نے قرارداد عدم اعتماد کو منظور قرار دینے کا اعلان کردیا۔
تین دن بعد ڈپٹی اسپیکر کی صدارت میں اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو حزب اختلاف کے ارکان نے ان کے خلاف ہلڑ بازی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسپیکر عبدالحلیم نے فرارہوتے ہوئے اجلاس برخواست کرنے کا اعلان کیا تھا اس لئے ان کی عدم موجودگی میں ان کے خلاف جو قرارداد عدم اعتماد منظور ہوئی وہ غیر آئینی تھی کیونکہ اس وقت اسمبلی کا اجلاس جاری ہی نہیں تھا۔ چنانچہ ڈپٹی اسپیکر شاہد علی نے جب ایوان کی کرسی صدارت سنبھالنا چاہی تو حزب اختلاف نے زبردست احتجاج کیا، جلد ہی اس احتجاج نے ہنگامے کی صورت اختیار کرلی۔ اسی دوران کسی نے ایک سخت چیز ڈپٹی اسپیکر پر پھینکی جو ان کے سر پر لگی ، وہ بے ہوش ہوگئے اور پھر ہوش میں نہ آسکے ، دو دن بعد عالم بے ہوشی میں 25ستمبر 1958ء کو انتقال کرگئے۔
حسن ناصر کی شہادت
13؍نومبر1960ء کو لاہور کے شاہی قلعے کے عقوبت خانہ میں پولیس تشدد سے پاکستان کے نامور انقلابی رہنما حسن ناصر کو شہید کردیاگیا۔ حسن ناصر کا تعلق حیدر آباد (دکن) کے ایک ممتاز قوم پرست گھرانے سے تھا۔وہ 2؍اگست 1928ء کو پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے حیدرآباد سے سینئر کیمبرج اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔
قیام پاکستان کے بعد حسن ناصر کراچی آئے، جہاں وہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان سے وابستہ ہوگئے۔ اس سلسلے میں انہوں نے کئی مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں ۔ 1955ء میںایک سال کے لئے جلاوطنی کی سزا بھی برداشت کی۔1956ء میں جلاوطنی ختم ہونے کے بعد دوبارہ پاکستان آئے اور پارٹی کی ہدایت پر نیشنل عوامی پارٹی کے تنظیمی کاموں میں مصر وف ہوگئے۔1958ء میں ملک میں مارشل لاء نافذ ہوا۔ ملک کے طول و عرض میں جبر و تشدد کا بھرپور دور شروع ہو گیا چنانچہ حسن ناصر انڈرگرائونڈ ہو گئے لیکن ایک غدار کی مخبری پر 9؍اگست 1960ء کو ا نہیں گرفتار کرکے شاہی قلعہ لاہورکے عقوبت خانے میں قید کردیا گیا،بالآخر اذیتوں کے ہاتھوں وہ 13؍نومبر 1960ء کو جان کی بازی ہار گئے۔
حسن ناصر کی شہادت کو پولیس نے خود کشی قرار دیا لیکن بائیں بازو کے سیاسی رہنما میجر (ر) اسحاق محمد نے نامور وکیل محمود علی قصوری کے ذریعے مغربی پاکستان ہائی کورٹ میں جس کے سربراہ جسٹس ایم آرکیانی مرحوم تھے حسن ناصر کو عدلت میں پیش کرنے کی درخواست دائر کردی۔ جسٹس کیانی نے اس درخواست کو فوری طور پر سماعت کے لئے منظور کر لیا گیا جب پولیس شہید حسن ناصر کو عدالت میں پیش کرنے سے قاصر رہی تو سب کو علم ہوگیا کہ حسن ناصر کو شاہی قلعے کے عقوبت خانے میں اذیتیں دے کر شہید کردیاگیا ہے۔
نواب آف کالا باغ
26نومبر1967ء کومغربی پاکستان کے سابق گورنر نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان کو پراسرار طور پر قتل کردیا گیا۔ نواب آف کالا باغ، ایوب خان کی حکومت کے ایک اہم ستون تھے۔ وہ ایک ایماندار، کھرے اور سادہ مزاج انسان تھے، مگر ان کی انتظامیہ پرگرفت اتنی ہی سخت تھی، وہ پرانے فیوڈل لارڈز کا ایک مثالی نمونہ تھے۔
نواب آف کالا باغ ،آکسفورڈ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل اورپرانے پارلیمنٹیرین تھے۔ مغربی پاکستان کے گورنر بننے سے پہلے پی آئی ڈی سی اور خواک و زراعت کمیشن کے چیئرمین رہ چکے تھے۔
یکم جون 1960ء کو انہوں نے مغربی پاکستان کے گورنر کا عہدہ سنبھالا۔ اس عہدے پر وہ 18ستمبر 1966ء تک فائزرہے۔ 1962ء اور 1965ء کے انتخابات میں ایوب خان کی کامیابی میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کے رعب اوردبدبے کا یہ عالم تھا کہ وہ خود مسلم لیگ کے رکن نہیں تھے لیکن کسی بھی نشست کے لئے مسلم لیگ کا ٹکٹ ان کی مرضی کے بغیر جاری نہیں ہو سکتا تھا۔
گورنری سے مستعفی ہونے کے بعد وہ اپنی جاگیر پر واپس چلے گئے جہاں 26نومبر1967ء کو انہیں قتل کردیاگیا۔ اس قتل کا الزام ان کے بیٹے ملک اسد پر لگایا گیا مگر اس الزام کو ثابت نہ کیا جا سکا۔
عبدالمنعیم خان
13؍اکتوبر 1971ء کو مشرقی پاکستان کے سابق گورنر عبدالمنعیم خان کو دو نامعلوم افراد نے ان کے گھر میں گھس کر فائرنگ کرکے شدید زخمی کر دیا۔ انہیں فوری طور پر ہسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوگئے۔
عبدالمنعیم خان 1902ء میں ہمایوں پور ضلع میمن سنگھ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق آل انڈیا مسلم لیگ سے تھا۔ وہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے رکن بھی رہے ۔ ایوب خان کے عہد حکومت میں وہ پہلے مرکزی وزیرصحت اور پھر مشرقی پاکستان کے گورنر کے منصب پر فائز ہوئے۔ اس عہدے پر انہوں نے 28؍اکتوبر 1962ء سے 22؍مارچ 1969ء تک خدمات انجام دیں۔ وہ پاکستان کے شدید حامیوں میں شمار ہوتے تھے، ان کا یہی ’’جرم‘‘ ان کے قتل کا سبب بن گیا۔
ڈاکٹر نذیر احمد
8؍جون 1972ء کوجماعت اسلامی پنجاب کے نائب امیر اور رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نذیر احمد کو ڈیرہ غازی خان میں ان کے کلینک میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
ڈاکٹر نذیراحمد 12؍فروری 1929ء کو ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے ۔ قیام پاکستان کے بعد ڈیرہ غاز ی خان میں آباد ہوئے پیشے کے لحاظ سے ہومیو پیتھک ڈاکٹر تھے۔ وہ ایک درویش صفت انسان تھے۔ غریبوں کا مفت علاج کرتے، ادویات لے کر مضافات میں نکل جاتے اور مریضوں کی خدمت کرتے۔ ڈاکٹر نذیر احمد سے عوام جس قدر محبت کرتے تھے یہ اسی کا کمال تھا کہ وہ جاگیرداروں اور زمین داروں کے ضلع ڈیرہ غازی خان کے روایتی سیاسی خاندانوں کے امیدواروں کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ڈاکٹر نذیر احمد کا قتل بھٹو کے دور کا پہلا سیاسی قتل تھا۔
خواجہ محمد رفیق
20دسمبر1972ء کو ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کی پہلی سالگرہ کے موقع پر حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے اس دن کو یوم سیاہ قرار دیتے ہوئے ایک جلسہ منعقد کیا، جلسے کے اختتام پر ایئرمارشل (ر) اصغرخان کی قیادت میں ایک جلوس نکالاگیا، جب یہ جلوس پنجاب اسمبلی کے عقب میں پہنچا تو بعض نامعلوم افراد نے جلو س پر فائرنگ کردی جس کی زد میں آکر پاکستان اتحاد پارٹی کے قائد خواجہ محمد رفیق جاں بحق ہو گئے۔
خان عبدالصمد خان اچکزئی
2؍دسمبر 1973ء کواچکزئی ہائوس کوئٹہ میں نامعلوم افراد نے روشن دان کے ذریعے دو دستی بم پھینکے جن کے پھٹنے سے اس کمرے میں سوئے ہوئے پختونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے صدر اور بلوچستان اسمبلی کے رکن، خان عبدالصمد خان اچکزئی جاں بحق ہو گئے۔خان عبدالصمد خان اچکزئی کی عمر کا ایک بڑا حصہ سیاسی جدوجہد میں گزرا ۔ 1954ء میں انہوں نے درور پشتون کے نام سے ایک سیاسی جماعت تشکیل دی تھی جو ان چھ سیاسی جماعتوں میں شامل تھی جن کے ادغام سے 1956ء میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کا قیام عمل میں آیا تھا۔
خان عبدالصمد خان اچکزئی، ون یونٹ کے خاتمے کے بعد بلوچستان میں ایک پشتون صوبے کے قیام کے حامی تھے۔ اپنے اسی مطالبے کے پیش نظر انہوں نے نیشنل عوامی پارٹی سے علیحدگی اختیار کرکے پشتونخواہ نیشنل عوامی پارٹی کی داغ بیل ڈالی اور 1970ء کے عام انتخابات میں اسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
1973ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے نیپ اور جمعیت کی مخلوط حکومت کو برطرف کیا تو خان عبدالصمد خان اچکزئی نے ان کے اس عمل کی اعلانیہ حمایت کی اور غالباً بھٹو کی یہ حمایت ہی ان کے قتل کا سبب بن گئی۔
نواب محمد احمد خان قصوری
یہ 10؍ اور11نومبر1974ء کی درمیانی رات تھی۔ قومی اسمبلی کے رکن احمد رضا قصوری اپنے والد نواب محمد احمد خان والدہ اور اپنی خالہ مسز ایم مہدی کے ساتھ شادمان کالونی لاہور میں ایک شادی میں شرکت کے بعد اپنے گھر شاہ جمال واپس جا رہے تھے کہ اچانک ایک موڑ پر ان کی کار پرفائرنگ شروع ہوگئی،جس کے نتیجے میں نواب محمد احمد خان شدید زخمی ہوگئے۔ احمد رضا قصوری اپنے باپ کو لے کر امریکن ہسپتال (گلبرگ) گئے، جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وفات پاگئے۔
احمد رضا قصوری نے فوری طور پر اچھرہ تھانے میں ایف آئی آر درج کروائی، جس میں انہوں نے بتایا کہ ان پر یہ فائرنگ سیاسی وجوہات کی بناء پر کروائی گئی ہے کیونکہ وہ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے رکن اور حکومت کے شدید نقاد تھے۔ حکومت پنجاب نے لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس شفیع الرحمن کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی ٹریبونل قائم کیا۔ اس ٹریبونل نے 26فروری1975ء کو اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کی، لیکن حکومت نے رپورٹ منظر عام پر نہیں ا ٓنے دی اور اکتوبر 1975ء کوپولیس نے اس مقدمہ کو عدم سراغ یابی کی بناء پر داخل دفتر کردیا۔
1977ء میں جب ملک میں مارشل لاء نافذ ہوا تو یہ مقدمہ دوبارہ زندہ ہوا اور اسی مقدمے میں ذوالفقارعلی بھٹو تختہ دار پر چڑھا دیئے گئے۔
حیات محمد خان شیرپائو
8؍فروری 1975ء کو پشاور یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ کی ایک تقریب میں صوبہ سرحد کے سینئر وزیر حیات محمد خان شیرپائو ایک بم دھماکے کے نتیجے میں ہلاک کردیئے گئے۔
حیات محمد شیرپائو، وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے بااعتماد ساتھی تھےاور وہ پاکستان پیپلزپارٹی کے بنیادی ارکان میں سے تھے۔ دسمبر 1967ء میں وہ پیپلزپارٹی، صوبہ سرحد کے صدر منتخب ہوئے اس حیثیت میں انہوں نے صوبہ سرحد میں پیپلزپارٹی کی تنظیم میں بڑا فعال کردار ادا کیا تھا۔
دسمبر1970ء کے عام انتخابات میں و ہ سرحد اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور مرکز پیپلز پارٹی کی حکومت کے قیام کے بعد صوبہ سرحد کے گورنر مقرر ہوگئے۔2؍مئی 1972ء کو وہ مرکزی کابینہ میں شامل ہوئے اور تقریباً دو برس کابینہ رہے۔ 4جون کو انہیں سحد کی صوبائی کابینہ میں سینئر وزیر کے طور پر شامل کرلیا گیا۔
حادثے کے وقت وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو امریکا کے دورے پر تھے وہ وہاں سے فوراً لوٹے اور انہوں نے فوری طور پر صوبہ سرحد میں حزب اختلاف کے رہنمائوں کو گرفتار کرکے نیشنل عوامی پارٹی کوخلاف قانون قراردے دیا۔
چودھری ظہور الٰہی
۲۵ دسمبر ۱۹۸۱ کومسلم لیگ کے ممتاز رہ نما اور سابق وفاقی وزیر چودھری ظہور الٰہی کو ماڈل ٹاؤن لاہور میں قتل کردیا گیا۔ ان کے ساتھ کار میں لاھور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین بھی تھے جو معمولی زخمی ہوئے۔ چوہدری ظہور الہی کا تعلق گجرات پنجاب سے تھا۔ وہ 1962 میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اور کنویشن مسلم لیگ میں شامل ہوکر اس کی پارلیمانی پارٹی کے سیکرٹری منتخب ہوئے ۔وہ کونسل مسلم لیگ میں شامل ہو کر 1970 کے انتخاب میں ایک بار پھر منتخب ہوئے ۔بھٹو دور میں انہوں نے حزب اختلاف کو متحد کیا تھا جس پر انہیں 1974 میں بھٹو حکومت نے ساڑھے چار برس کی سزا سنائی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اصل ھدف مولوی مشتاق تھے مگر مارے ظہور الہی گئے۔
ارباب سکندر خان خلیل
8 مارچ 1982 کو صوبہ سرحد کے سابق گورنر ا نیشنل عوامی اور نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے ممتاز رہ نما ،ارباب سکندر خلیل پشاور کے نواح میں قتل کر دیے گئے۔ ان کا قاتل ایک مذہبی جنونی شخص تھا ۔ارباب خلیل 1943 تک کانگریس کے ساتھ تھے مگر پھر مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور قیام پاکستان کے لیے کام کیا۔ وہ علی گڑھ سے فارغ التحصیل تھے، 1949میں پیر مانکی شریف کی عوامی مسلم لیگ میں شامل ہوئے جو غالباََ حزب اختلاف کی پہلی پارٹی تھی جس میں حسین شہید سہروردی بھی شامل تھے۔ 1956 میں عوامی مسلم لیگ اور نواب ممدوٹ کی جناح مسلم لیگ نے مل کر عوامی لیگ بنائی جس میں ارباب خلیل شامل ہوئے اور پھر نیشنل عوامی پارٹی کے ساتھ رہے۔
ظہور الحسن بھوپالی
ارباب سکندر کے قتل کے صرف 6 ماہ بعد مجلس شوریٰ کے رکن ظہور الحسن بھوپالی کو 13 ستمبر 1982 کو ان کےاپنے دفتر میں قتل کردیا گیا۔
ظہور الحسن بھوپالی صرف 36 برس کے تھے۔چوبیس سال کی عمر میں 1970 کے انتخاب میں سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے ۔ وہ پاکستان قومی اتحاد کی تحریک میں بھٹو حکومت کے خلاف سرگرم رہے۔ 1981 میں جنرل ضیاءالحق نے انہیں مجلس شوریٰ کا رکن بنایا۔ ان کے قتل کا الزام ایک نوجوان ایاز سمّوں پر لگایا گیا جو ایک مزدور رہ نما اور پیپلزپارٹی کا جیالا تھا، آخر وقت تک اس کے خلاف ناکافی شواہد تھے لیکن جون 1983 میں ایاز سمّوں کو پھانسی دے دی گئی۔
فاضل راہو
عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر نائب صدر فاضل راہو کو 17 جنوری 1987 کو بدین کے قریب گولارچی کے مقام پر کلہاڑی کے وارکر کے قتل کر دیا گیا ،بعد ازاں قاتل فضل چانگ کلہاڑی سمیت خود تھانے پہنچ گیا اور پرانی دشمنی کی بنیاد پر قتل کا اعتراف کیا لیکن اے این پی کا کہنا تھا کہ حکومت نے منصوبہ بنا کر فاضل راھو کو راستے سے ہٹایا ہے۔ فاضل راہو سندھ کے ہاریوں کے بڑے ہم درد رہ نما تھے انہوں نے سندھ میں ایوب خان کے دور حکومت میںسبک دوش فوجی افسروں کو دی جانے والی اراضی کے خلاف " نیلام بند کرو " تحریک چلائی اور ون یونٹ کے خلاف بھی جدوجہد کی۔ وہ ایک قوم پرست اور سوشلسٹ فکر کے حامل تھے
سردار غوث بخش رئیسانی
26؍مئی 1987ء کو بلوچستان کے رئیسانی قبیلے کے سردار اور سیاسی رہنما سردار غوث بخش رئیسانی کو ان کے پانچ محافظوں سمیت گولی مارکر ہلاک کردیا گیا۔
سردار غوث بخش رئیسانی 6؍ستمبر1924ء کو پیدا ہوئے تھے۔1945ء میں انہوں نے فوج میں کمیشن حاصل کیا تاہم 1948ء میں فوج سے ریٹائرمنٹ لے کر اپنے قبیلے کی سرداری سنبھال لی۔ سیاسی زندگی کا آغاز مسلم لیگ سے کیا 1966ء میں پہلی مرتبہ مغربی پاکستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔1970ء کےعام انتخابات میں بلوچستان اسمبلی کے رکن بنے۔ 1971ء میں پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور 29؍دسمبر 1971ء سے 2؍اپریل 1972ء تک بلوچستان کے پہلے سول گورنر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ،بعدازاں انہیں وفاقی کابینہ میں شامل کر لیا گیا۔1977ء کے انتخابات میں وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایک مرتبہ پھر بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور محمد خان باروزئی کی کابینہ میں سینئر وزیر کے عہدے فائز ہوئے۔1977ء کے مارشل لاء کے نفاذ کے بعدکچھ دنوں نظر بند رہے ۔ 1983ء کے بلدیاتی انتخابات میں ان پر اپنے مخالف رند قبیلے کے آٹھ افراد کے قتل کا الزام عائد کیاگیا جس کے پیش نظر انہوں نے کچھ عرصہ افغانستان میں جلاوطنی میں گزارا 1986ء میں غلام مصطفی جتوئی کی نیشنل پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کی اور اس پارٹی کی بلوچستان شاخ کے صدر بن گئے۔26مئی 1987ء کو وہ کوئٹہ جا رہے تھے کہ ایک قاتلانہ حملے میں انہیں ان کے مخافظوں سمیت گولی مارکر ہلاک کردیا گیا۔
جنرل(ر) فضل حق
3؍اکتوبر 1991ء کو صوبہ سرحد کے سابق گورنر اور سابق وزیراعلیٰ جنرل (ر) فضل حق کو پشاور میں قتل کردیا گیا۔ وہ صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے بعد اپنے گھر واپس جا رہے تھے کہ گھات میں بیٹھے ہوئے حملہ آوروں نے ان کی پجیرو پر اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ان کی گاڑی بے قابو ہو کرنالے میں جاگری۔ جنرل (ر) فضل حق موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے جبکہ ا ن کا ڈرائیور اور حفاظتی گارڈ شدید زخمی ہوئے۔
جنرل (ر) فضل حق، جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں سرحد کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، گورنر اور وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز رہے۔ صوبہ سرحد کے مردآہن کہلاتے تھے۔ وہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے اور سرحد اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے سیاست میں سرگرم عمل تھے۔
عظیم احمد طارق
یکم مئی 1993 کو کراچی میں ر مسلح افراد نے ایم کیو ایم کے چیئرمین عظیم احمد طارق کو فیڈرل بی ایریا میں گھر میں گھس کر قتل کر دیا۔ اس وقت ایم کیو ایم شدید بحران کا شکار تھی کیونکہ قائد تحریک الطاف حسین ملک سے جا چکے تھے اور اطلاعات آرہی تھیں کہ عظیم طارق غالباً الطاف حسین سے الگ ہو کر ایک اور دھڑا بنانے والے تھے،لیکن اس سے قبل قتل کردیئے گئے۔
غلام حیدر وائین
29ستمبر1993ء کو پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ مسلم لیگ پنجاب کے صدر اور قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 123کے امیدوار جناب غلام حیدر وائین کو میاں چنوں کے راستے میں کلاشنکوف کا برسٹ مار کر قتل کردیاگیا۔
غلام حیدر وائین اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں چند ساتھیوں کے ہمراہ میاں چنوں سے نصرت پور جا رہے تھے کہ تلمبہ کے مقام پر ایک شخص نے ان کو پجیرو جیپ روکنے کا اشارہ کیا، جونہی ان کی جیپ رکی، اس نے کلاشنکوف کا برسٹ مارکر غلام حیدر وائین کو قتل کردیا۔یہ قتل ایک پرانی دشمنی کا شاخسانہ تھا۔ پولیس کے ذرائع کے مطابق ان کے قتل میں ملوکا قوم کا ہاتھ تھا، جن کا خیال تھاکہ ان کی برادری کے ایک ملزم جہانگیر ملوکا کو جو ڈکیتی کے جرم میں ملوث تھا اسے غلام حیدر وائین نے قتل کروایا تھا۔
میر مرتضیٰ بھٹو
20ستمبر1966ء کو پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے صاحبزادے اوراس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کراچی میں ایک سیاسی میٹنگ میں شرکت کے بعد گھر واپس لوٹ رہے تھے کہ ان کے گھر کے نزدیک پولیس کے مسلح اور مورچہ بند افراد نے انہیں رُکنے کا اشارہ کیا۔ پولیس مرتضیٰ بھٹو کے ان محافظوں کو گرفتار کرنا چاہتی تھی جن پر غیرقانونی اسلحہ رکھنے اور دہشت گردی کے بعض واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات تھے مگر جونہی میر مرتضیٰ بھٹو کا قافلہ روکا گیا، ان کی پولیس افسر کے ساتھ تکرار ہوگئی۔ میر مرتضیٰ بھٹو کے محافظوں نے مشتعل ہو کر فائرنگ شروع کر دی جس کے جواب میں پولیس نے بھی فائرنگ کی جس کے نتیجے میں میر مرتضیٰ بھٹو اور اوران کے 6 ساتھی ہلاک ہوگئے۔
میر مرتضیٰ بھٹو کی اس ناگہانی موت کا دکھ ملک بھر میں محسوس کیاگیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور شاہنواز بھٹو کی ناگہانی اموات کے بعد یہ تیسرا سانحہ تھا جو بھٹو خاندان پرگزرا تھا۔حکومت نے اس سانحہ کی تحقیقات کے لئے ایک تین رکنی ٹریبونل تشکیل دیا جس کے سربراہ جسٹس ناصر اسلم زاہد تھے اور ارکان میں جسٹس امان اللہ عباسی اور جسٹس ڈاکٹر غوث شامل تھے۔ اس ٹریبونل نے کئی ماہ اتک گواہان کے بیانات قلمبند کئے، لیکن تاحال قتل کا معمہ حل نہ ہوا۔
بلور خاندان کے قتل
تین اپریل 1997 کوسابق ریلوے وزیر غلام احمد بلور کے اکلوتے صاحب زادے کو قتل کردیاگیا۔ وہ وزیر باغ پشاور کےایک پولنگ بوتھ پرتھے کہ فائرنگ کا نشانہ بنیں۔ یاد رہے کہ نومبر 1996 میں فاروق لغاری کے ہاتھوں بے نظیر کی حکومت کی برطرفی اور اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات ہورہے تھے۔ قتل ہونے والے شبیر احمد بلور کے والد غلام احمد بلور عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہ نما تھے، انتخاب لڑ رہے تھے۔
اس قتل کے پندرہ سال بعد دسمبر 2012 میں غلام احمد بلور کے چھوٹے بھائی بشیر بلور 68 برس کی عمر ایک خودکش حملے کا شکار ہوگئے۔ وہ 2008 کے انتخابات میں صوبہ سرحد کی صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھےا ور دوبار عوامی نیشنل پارٹی کے قائم مقام صدر بھی رہ چکے تھے۔
2018 میں عام انتخابات سے صرف دو ہفتے قبل بشیر بلور کے صاحب زادے جواں سال ہارون بلور ایک خودکش حملے میں مارے گئے۔ وہ عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار تھے اور پاکستان کے سابق صدر غلام اسحاق خان کی پوتی کے خاوند تھے۔
اس طرح بلور خاندان کے پہلے قتل ہونے والے فرد شبیر بلور ، دوسرے بشیر بلور اور تیسرے ان کے صاحب زادے ہارون بلورتھے۔
زہیر اکرم ندیم
4؍جولائی 1998ء کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابق رکن قومی اسمبلی اور سابق صوبائی وزیر زہیر اکرم ندیم کوکراچی میں فائرنگ کرکے ہلاک کردیاگیا۔
زہیر اکرم ندیم بابائے اُردو مولوی عبدالحق کے دست راست حکیم اسرار احمد کریوی کے فرزند تھے۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں وہ کراچی کے ایک حلقے سے سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ،بعدازاں مسلم لیگ میںشامل ہوگئے۔ وہ کچھ عرصے تک صوبائی کابینہ کے رکن بھی رہے۔
1988ء کے عام انتخابات میںانہوں نے اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا مگر وہ ایم کیو ایم کے امیدوار ڈاکٹر فاروق ستار سے شکست کھا گئے۔
1993ء میں ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کی وجہ سے وہ قومی اسمبلی کے رکن بننے میں کامیاب ہوئے، مگر جب انہوں نے ایم کیو ایم کی مذاکراتی ٹیم سے بات چیت کرنے کیلئے پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹیم میں شمولیت اختیار کی تو مسلم لیگ (ن) نے ان پر سے اپنا دست عنایت ہٹالیا۔ زہیر اکرم ندیم کراچی میں گلشن اقبال کے قبرستان میں آسودئہ خاک ہیں۔
حکیم محمد سعید
17؍اکتوبر1998ء کو صوبہ سندھ کے سابقگورنر ،پاکستان کے نامور طبیب، مصنف اور صنعت کار حکیم محمد سعید کراچی میں قتل کر دیئے گئے۔
حکیم محمد سعید 9؍جنوری 1920ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد حافظ عبدالمجید نے 1906ء میں ہمدرد دواخانہ کی بنیاد ڈالی تھی۔ کم سنی میں والد کا سایہ سرسے اٹھنے کے بعد ان کے بڑے بھائی حکیم عبدالحمید نے ان کی تعلیم و تربیت کی۔
1939ء میں انہوں نے طبیہ کالج دہلی سے طب کا اعلیٰ امتحان پاس کیا اور ہمدرد دواخانہ کے کاموں میں اپنے بڑے بھائی کا ہاتھ بنانے لگے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ کراچی میں آگئے اور انہوں نے یہاں ہمدرد دواخانہ کی ازسر نو بنیاد رکھی جو دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کا ایک عظیم طبی، علمی، ادبی، تعلیمی، اشاعتی اور اسلامی ادارہ بن گیا۔ حکیم محمد سعید نے ہمدرد دواخانہ کے علاوہ اور بھی کئی ادارے قائم کئے جن میں مدینۃ الحکمت کا نام سرفہرست ہے۔ حکیم محمد سعید صدر پاکستان کے طبی مشیر اور صوبہ سندھ کے گورنر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ انہوں نے کئی جریدے جاری کئے اور لاتعداد تصانیف تخلیق کیں۔ حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر1966ء میں انہیں ستارئہ امتیاز اور 2000ء میں نشان امتیاز عطا کیا تھا۔ حکیم محمد سعید کراچی میں مدینۃ الحکمت کے حاطے میںآسودئہ خاک ہیں۔
مولانا اعظم طارق
6؍اکتوبر 2003ء کو رکن قومی اسمبلی اور تنظیم ملت اسلامیہ کے سربراہ مولانا اعظم طارق اسلام آباد میں اپنے چار ساتھیوں سمیت دہشت گردوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہوئے۔
مولانا اعظم طارق 28؍مارچ 1967ء کو چیچہ وطنی ضلع ساہیوال میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے مڈل تک مروجہ تعلیم حاصل کی اور پھر جامعہ اسلامیہ بنوری ٹائون کراچی سے فارغ التحصیل ہونے کی سند حاصل کی۔ بعدازاں انہوں نے وفاق المدارس سے عربی اور اسلامیات میں ایم اے کے امتحانات پاس کئے اور جامع صدیق اکبر نارتھ کراچی سے خطابت کاآغاز کیا۔ 6؍ستمبر1985ء کو جب انجمن سپاہ صحابہ کا قیام عمل میں آیا تو وہ اس تنظیم میں شامل ہوگئے اور مختلف مناصب پر فائز ہونے کے بعد 1991ء میں اس تنظیم کے نائب سرپرست اعلیٰ اور 1996ء میں سرپراست اعلیٰ مقرر ہوئے۔2002ء میں وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ جھنگ میں جامعہ محمودیہ میں حق نواز جھنگوی کے پہلو میں آسودئہ خاک ہیں۔
بے نظیر بھٹو
27؍دسمبر2007ء کو پاکستان پیپلزپارٹی کی تاحیات چیئرپرسن، پاکستان کے سابق صدر اور وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی صاحبزادی ملک میں دوبارہ وزارت عظمیٰ کے لئے منتخب ہونے والی سیاسی قائد، عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو 27؍دسمبر2007ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کے بعدواپس جا رہیں تھیںایک سفاک دہشت گرد کی گولی کا نشانہ بن گئیں۔ انہیں راولپنڈی جنرل اسپتال لے جایا گیا لیکن وہ زخموں سے جانبر نہ ہو سکیں ۔محترمہ بے نظیر بھٹو 21جون 1953ء کوکراچی میں پیداہوئی تھیں۔ انہوں نے کراچی، آکسفورڈ اور ہارورڈ یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔4؍اپریل 1979ء کو جب ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دی گئی تو پاکستان پیپلز پارٹی کی شریک چیئرپرسن بن گئیں۔
فوجی قیادت نے کئی سال تک انہیں نظر بند رکھا اور پھر جلاوطن کردیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جلاوطنی میں اپنی پارٹی کی قیادت کرتی رہیں۔ ملک سے مارشل لاء کے خاتمے اور سیاسی حکومت کے قیام کے بعد 10اپریل 1986ء کو وہ وطن واپس آگئیں۔ 18دسمبر1987ء کو ان کی شادی آصف علی زرداری سے ہوئی۔ 16نومبر 1988ء کو ملک میں عام انتخابات منعقد ہوئے جن میں پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی اکثریتی پارٹی کے طور پر سامنے آئی۔ انہوں نے مہاجر قومی موومنٹ، فاٹا اور چند آزاد امیدواروں کے تعاون سے مخلوط حکومت بنانے میں کامیابی حاصل کی اور یوں 2؍دسمبر1988ء کو پاکستان کی وزیراعظم بن گئیں۔
وہ عالم اسلام کی پہلی خاتون تھیں جو اس عہدے پر فائز ہوئی تھیں۔ ان کی یہ حکومت 20ماہ تک جاری رہی۔ 6؍اگست 1990ء کو صدرغلام اسحاق خان نے بدعنوانی کا الزام عائد کرکے انہیں وزارت عظمیٰ سے برطرف کردیا۔ 1990ء سے 1993ء تک قائد حزب اختلاف کا فریضہ انجام دیتی رہیں اور 1993ء میں منعقد ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں وہ ایک مرتبہ پھر وزیراعظم منتخب ہوگئیں۔ 6؍نومبر 1996ء کوانہیں کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر پاکستان سردار فاروق احمد لغاری نے ان کی حکومت کو برطرف کر دیا۔ 1997ء کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کو ملک کی تاریخ کی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 15؍اپریل 1999ء کو لاہور ہائی کورٹ نے انہیں نواز شریف حکومت کے قائم کردہ مقدمات میں پانچ سال کی سزا سنائی۔ اس وقت وہ دبئی میںمقیم تھیں اس لئے ان سزائوں سے محفوظ رہیں۔ 2002ء کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے نام سے انتخابات میں حصہ لیا اور ملک میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے تاہم ان کی پارٹی کی نشستوں کی تعداد پاکستان مسلم لیگ (ق) کی نشستوں سے کم تھی۔ اس لئے انہوں نے حزب اختلاف میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اس دوران مستقل دبئی میں ہی مقیم رہیں۔ 14مئی 2006ء کو انہوں نے ملک میں آمریت کے خاتمے اور جمہوریت کے قیام کے لئے میاں محمد نوازشریف کے ساتھ میثاق جمہوریت کے معاہدے پر دستخط کئے۔ 18؍اکتوبر2007ء کو آٹھ برس بعد وطن واپس لوٹیںتو ان کے جلوس پر ایک خودکش حملہ ہوا جس کے بعد وہ ایک مرتبہ پھر دبئی واپس چلی گئیں۔ 3؍نومبر 2007ء کو ملک میں ہنگامی حالات کے نفاذ کے بعد وہ وطن واپس آئیں۔ وہ جنوری 2009ء میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں (جو ان کی شہادت کے بعد ملتوی ہوگئے تھے) اپنی پارٹی کی قیادت کا فریضہ انجام دے رہی تھیں اور ملک کے مختلف شہروں میں جلسہ عام سے خطاب کر رہی تھیں کہ راولپنڈی میں منعقد ہونے والے جلسہ عام کے بعد ان پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ جان کی بازی ہار گئیں۔ اگلے روز انہیں آہوں و سسکیوں میں ان کے والد اور بھائیوں کے پہلو میں گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں سپردخاک کردیاگیا۔
ڈاکٹر عمران فاروق
16؍ستمبر2010ء کو متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق لندن میں قتل کردیئے گئے۔
ڈاکٹر عمران فاروق 14جون 1960ء کوکراچی میں پیدا ہوئے ۔1978ء میں جب کراچی میں مہاجر طلبا کی تنظیم آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا قیام عمل میں آیا تو وہ اس تنظیم میں شامل ہوگئے۔1982ء میں اس تنظیم کے مرکزی سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے ۔1984ء میں جب تنظیم کو مہاجر قومی موومنٹ کی شکل دی گئی تو وہ اس کے بھی سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے۔ 1988اور 1990ء کے عام انتخابات میں کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ، انہوں نے قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے پہلے پارلیمانی لیڈر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
جب ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین لندن چلے گئے تو تنظیم کو چلانے کی تمام ذمہ داری ڈاکٹر عمران فاروق نے سنبھال لی۔ ڈاکٹر عمران فاروق 1999ء سے زیر زمین رہے اور 1999ء میں لندن میںمنظر عام پرآئے۔ اسی برس انہیں ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کا کنوینر مقرر کیا 2009ء کے بعد سے ڈاکٹر عمران فاروق سیاسی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہو کر اپنے کاروباری معاملات میں مصروف تھے۔
سلمان تاثیر
4؍جنوری 2011ء کو پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو وفاقی دارالحکومت کی کوہسار مارکیٹ میں ان کے سرکاری محافظ ملک ممتازقادری نے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔
سلمان تاثیر اپنے ایک دوست کے ساتھ کوہسار مارکیٹ کے ایک ریستوران میں لنچ کرکے جونہی ریستوران سے باہر نکلے، ان کی حفاظت پر مامور ایلیٹ فورس کے ایک جوان ملک ممتاز قادری نے ان پر اپنی سب مشین گن کا پورا برسٹ فائر کیا۔ سلمان تاثیر کو 24گولیاں لگیں، انہیں زخمی حالت میں فوری طور پر پولی کلینک پہنچایاگیا مگر وہ جانبر نہ ہو سکے۔ ملک ممتاز قادری کو فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا ۔
سلمان تاثیر 31مئی 1944ء کو شملہ میں پیداہوئے ۔ ان کے والد ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر اردو کے صف اوّل کے شعراء میں شمار ہوتے ہیں۔والدہ بلقیس تاثیر فیض احمد فیض کی خواہر نسبتی تھیں ،یوں فیض احمد فیض سلمان تاثیر کے سگے خالو تھے۔
سلمان تاثیر پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک پرانے کارکن تھے۔ 1988ء کے عا م انتخابات میں وہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 2007ء میں نگراںکابینہ میں دو وزیر صنعت و پیداوار کے منصب پر فائز ہوئے۔ 15مئی 2008ء کو انہوں نے پنجاب کے گورنر کا منصب سنبھالا۔ وہ ایک اچھے بزنس مین بھی تھے اور ورلڈ کال گروپ کے مالک تھے۔ انگریزی روزنامے ڈیلی ٹائمز اور اُردو روزنامے آج کل کے مدیر اعلیٰ اور ناشر بھی تھے۔سلمان تاثیر لاہور میں کیولری قبرستان میں آسودئہ خاک ہیں۔
شہباز بھٹی
2؍مارچ 2011ء کو پاکستان کے وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور اور مسیحی رہنما شہباز بھٹی کو مسلح افراد نے اسلام آباد میں فائرنگ کرکے قتل کر دیا۔
شہبازبھٹی کے قتل کی ذمہ داری طالبان نے قبول کرلی اور اس کا سبب یہ بتایا کہ شہباز بھٹی مبینہ طور پر گستاخ ِ رسول ؐتھے۔
شہباز بھٹی 9؍ستمبر1966ء کو خوش پور (سمندری) میں پیدا ہوئے تھے۔1985ء میں انہوں نے آل پاکستان مینارٹیز سیکٹر کے قیام میں فعال حصہ لیا اور اس کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ وہ کرسچن لبریشن فرنٹ کے بھی سربراہ تھے۔
2002ء میں وہ پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے 2002ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 2؍نومبر 2008ء کو وہ صوبائی وزیر کے منصب پر فائز ہوئے۔
6؍مارچ 2010کو فیصل آباد کے قریب ان کے آبائی گائوں خوش پور (سمندری) میں سپردخاک کردیاگیا۔