• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب ۱۴؍ اگست ۱۹۴۷ء کو سورج نے افق سے سر نکال کر جھانکا ہوگا تو اسے بڑی حیرت ہوئی ہوگی کیونکہ برعظیم پاک و ہند کا نقشہ ہی بدلا ہواتھا۔ اور یہ تبدیلی صرف سیاسی فضا یا جغرافیائی سرحدوں تک محدود نہ تھی بلکہ آنے والے برسوں اور عشروں میں جو سماجی، تہذیبی ، ادبی اور لسانی تبدیلیاں آنی تھیں اس کے اثرات فضا میں محسوس ہورہے تھے ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ انیس سو سینتالیس سے پہلے جو حالات و واقعات پیش آچکے تھے انھوں نے اردو ادب کی تخلیق اور تشکیل پر گہرے اثرات ڈالے تھے اور قیامِ پاکستان جیسے تاریخی اور تاریخ ساز واقعے کے اثرات و نتائج کا ادب پر مرتب ہونا لازمی تھا۔کیونکہ ادب اور معاشرے کا تعلق دوطرفہ ہے، ادب معاشرے سے اثر پذیر بھی ہوتا ہے اور اس پر اثر انداز بھی ہوتا ہے۔ 

اردو ادب جو قیام ِ پاکستان کے بعد یہاں تخلیق ہوا وہ یہاں کے معاشرے کے مخصوص حالات سے اثر پذیر ہوا اور اس پر اثر انداز بھی ۔ اسی لیے پاکستان کا اردو ادب آزادی کے بعد ہندوستان میں تخلیق کیے گئے اردو ادب سے کئی لحاظ سے مختلف اور منفرد ہے۔ سب سے بڑا فرق تو قیام ِ پاکستان سے یہ پڑا کہ اردو ادب جو پہلے متحدہ ہندوستان میں تخلیق ہورہا تھا اب وہ دو الگ اور آزاد و خود مختار ملکوں میں تخلیق ہونا تھااور ان ملکوں کے سیاسی ، سماجی اور تہذیبی عوامل و محرکات کو ان کے ادب کا پس منظر بننا تھا۔ گزشتہ پچھتر سال کے اردو ادب کو دیکھیں تو ہندوستان اور پاکستان کے مخصوص حالات اور پس منظر دونوں ملکوں کے اردو ادب میں واضح طور پر جھلکتے ہیں۔اس کا اندازہ زیرنظر مضمون پڑھ کر بخوبی ہوجائے گا۔

ابتدائی دور کی ادبی تحریکیں

قیام ِ پاکستان کے وقت ترقی پسند ادبی تحریک افق پر چھائی ہوئی تھی ۔ کمیونزم کے زیر اثر چلنے والی اس تحریک کے حامی چونکہ مذہبی بنیادوں پر کسی ملک کے قیام کو نہیں مانتے تھے لہٰذا بیش تر ترقی پسند لکھنے والے روزِ اول ہی سے پاکستان کے مخالف تھے۔ فیض احمد فیض نے اگست انیس سو سینتالیس میں صبح ِ آزادی کے عنوان سے جو نظم لکھی اس میں آزادی کو ’’داغ داغ اُجالا‘‘ اور ’’شب گزیدہ سحر ‘‘ کہا۔ قیام ِ پاکستان کے وقت جو لوگ ہجرت کرکے اور اپنا سب کچھ لٹا کر ، اپنے پیاروں کو کھو کراور ایک آگ کا دریا عبور کرکے اپنے خوابوں کی سرزمین پاکستان پہنچے تھے ظاہر ہے ان کے لیے یہ بات انتہائی اذیت کا باعث تھی۔

لیکن دوسری طرف پاکستان کے حامی ادیب اور مفکر بھی تھے۔مثلاًقیام ِ پاکستان سے قبل ہی ڈاکٹر محمد دین تاثیر اور محمد حسن عسکری نے نئی ریاست پاکستان سے(حکومت سے نہیں ) ادیبوں کی وفاداری کا سوال اٹھایا تھا۔ تاثیر نے یہ سوال بھی اٹھایاکہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستانی اہل قلم کا نقطۂ نظر کیا ہوناچاہیے ۔پاکستان بننے کے بعد اسی لیے حسن عسکری نے پاکستانی ادب پر زور دینا شروع کیا اور اس سلسلے میں ممتاز شیریں، صمد شاہین اور بعض دیگر لکھنے والے ان کے ساتھ تھے۔ ان کی یہ فکر ایک طرح سے پاکستانی ادب کی تحریک بن گئی۔ اس تحریک کی خاصی مخالفت بھی کی گئی۔

دوسری ادبی تحریک جو قیام ِ پاکستان کے بعد یہاں چلی اسلامی ادب کی تحریک تھی۔اس زمانے میں بعض اہل قلم نے کہاکہ چونکہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور اس کا نظام بھی اسلامی اصولوں کے تحت چلنا چاہیے لہٰذا اس کا ادب بھی اسلامی ادب ہونا چاہیے۔اسی خیال کے پیش ِ نظر نعیم صدیقی اور بعض دیگر اہل قلم نے تحریکِ ادب ِ اسلامی کا آغاز کیا ۔ اس تحریک سے وابستہ لوگوں میں سے کئی کا تعلق جماعت ِ اسلامی سے تھا۔ اس موضوع پر خاصی بحثیں بھی ہوئیں کہ اسلامی ادب کیا ہے۔اس کی حمایت بھی کی گئی اور اس کی مخالفت میں بھی لکھا گیا۔مخالفت میں ظاہر ہے کہ ترقی پسند پیش پیش تھے۔بعض ناقدین مثلاً تحسین فراقی کا یہ خیال ہے کہ ابتدا کے بعد حسن عسکری نے اسلامی ادب اور پاکستانی ادب کی بحث کو ایک طرح سے گڈ مڈ کردیا۔ 

پاکستانی ادب کی تحریک اور اسلامی ادب کی تحریک کے خلوص سے انکار نہیں کیا جاسکتالیکن یہ کہنا پڑتا ہے کہ ترقی پسند تحریک کے برعکس یہ تحریکیں ایک بھی ایسا تخلیق کار پیدا نہیں کرسکیں جس کے کسی کام کو ادبی شاہکار کہا جاسکے۔دوسری طرف ترقی پسندوں نے بعض نہایت اہم اور خوب صورت ادبی تخلیقات شعر و نثر میں اردو کو دیں جو اردو ادب میں مستقل اضافہ ثابت ہوئیں۔ البتہ پاکستانی ادب کی تحریک نے اردو کو حسن عسکری جیسا نقاد دیا۔ 

عسکری نے اردو کو ایک فکری رجحان دیا جو دبستان ِ روایت کے نام سے معروف ہوا اوربہت بعد میں بھی جاری و ساری رہا ۔ عسکری صاحب نے ترقی پسندوں کے حقیقت پر مبنی ادب اور عام آدمی اور اس کے مسائل کی عکاسی کے نظریے کو نعرے بازی کے مترادف قرار دیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ترقی پسندوں نے بھی عسکری صاحب کے اسلامی اور پاکستانی ادب کے خیالات کو ادب کی بجائے نعرے بازی سے تعبیر کیا۔

۱۹۵۰ء کا عشرہ

قیام ِ پاکستان سے قبل اور اس کے ابتدائی سات آٹھ برسوں تک ترقی پسند عروج پر تھے (کسی زمانے میں توخیر ترقی پسند کہلانا فیشن میں داخل تھا) لیکن انیس سو چو ّن میں کمیونسٹ پارٹی اوف پاکستان پر پابندی لگ گئی اور فیض احمد فیض ، احمد ندیم قاسمی اور سجاد ظہیر جیسے ترقی پسند اہل قلم کی گرفتاریوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ ان سب میں سب سے دل چسپ معاملہ سجاد ظہیر کا ہے۔ وہ بھارتی شہری تھے اور ان کے جواہر لال نہرو سے ذاتی روابط تھے۔ 

سجاد ظہیر خفیہ طور پر پاکستان میں داخل ہوئے ۔ بِالا ٓخر گرفتار ہوئے اور جب رہا ہوکر واپس ہندستان پہنچے تو کہا کہ میں اپنے وطن واپس آگیا ہوں۔ان کی طرح بہت سے پاکستانی ادیب و شاعر ایسے تھے جو پہلے ترقی پسند پہلے تھے اور پاکستانی بعد میں تھے۔البتہ کچھ ایسے بھی تھے جو پہلے پاکستانی تھے اور پھر ترقی پسند ، مثلاً احمد ندیم قاسمی۔

امریکا کی طرح اور غالباً امریکا ہی کے زیر ِ اثر پاکستان میں بھی ’’میکارتھی ازم ‘‘ (MacCarthyism) کے رجحان کا آغاز ہوگیا جس کے زیر اثر ترقی پسندوں اور کمیونسٹوں پر سختیاں شروع ہوئیں۔ رفتہ رفتہ ترقی پسندادبی تحریک کا زور پاکستان میں ٹوٹنے لگا ، اگرچہ اہل قلم کی بڑی تعداد پھر بھی اس تحریک سے وابستہ رہی اور ترقی پسند اپنے نظریات کے تحت ادب تخلیق کرتے رہے۔ کچھ اہل قلم ایسے بھی تھے جو ترقی پسند خیالات سے متاثر تھے لیکن اس کا اظہار بوجوہ نہیں کرسکتے تھے ، مثلاً سرکاری ملازمت کی پابندیوں کی وجہ سے انھیں محتاط رہنا پڑتا تھا۔ 

مثلاً ابن انشا نے اس دور کے بارے میں اشارۃً لکھا ہے کہ’’ ہمیں زندگی بھی عزیز تھی ، ہمیں حسن سے بھی لگائو تھا‘‘(حالانکہ جسے حسن یعنی نظریے سے لگائو ہوتا ہے اسے زندگی عزیز نہیں رہتی)۔ ترقی پسند وں پر داروگیر کی صعوبتوں کے بعد تحریک میں کچھ کم زوری کے آثار نمودار ہوئے۔ ساتھ ہی اسلامی ادب اور پاکستانی ادب کی تحریکوں کے جوش و خروش میں بھی کچھ کمی آگئی، شاید اس لیے کہ ایک مضبوط مخالف سے مقابلے کی فضا میں وہ شدت نہ رہی۔البتہ اسلامی ادب کی تحریک برابر جاری رہی اور آج بھی اس کے حامی و ہم خیال اہل قلم موجود ہیں۔

علامتیت

انیس سو اٹھاون میں ملک میں مارشل لا لگ گیا۔ مارشل لا کے نتیجے میں اظہار رائے کی آزادی پر کچھ قدغنیں عائد کی گئیں۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ ملک میں مارشل لا لگنے کے بعد ادب میں علامت نگاری کو فروغ ملا تاکہ پابندیوں میں رہتے ہوئے اپنی بات ڈھکے چھپے انداز میں کہی جاسکے۔ اسی طرح ادب میں دانستہ اِبہام کو بھی بالواسطہ انداز میں اپنی بات کہنے کا ایک ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔

کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ انیس سو ساٹھ اور انیس سو ستر کے عشرے میں بغیر پلاٹ کے افسانے لکھنے کا رجحان بھی مارشل لا کی دین تھا اور اس کا مقصد بھی اپنی بات گھما پھرا کر کہنا تھا۔ لیکن کچھ ناقدوں کا خیال ہے کہ علامت نگاری اور جدیدیت کو پاکستانی ادب میں بہرحال جھلکنا تھا اور یہ محض اتفاق ہے کہ علامتیت اور جدیدیت کے رجحانات پاکستانی ادب میں مارشل لا کے ساتھ یا اس کے چند برسوں بعد وارد ہوئے اوربقول ان کے درحقیقت جدیدیت اور علامتیت کا مارشل لا سے کوئی براہ ِ راست تعلق نہیں بنتا۔

جدیدیت

باقی دنیا کے مقابلے میں، جہاں جدیدیت بیسویں صدی کے آغاز سے مقبول اور انیس سو چالیس کے لگ بھگ کمزور پڑنے لگی تھی ، پاکستانی ادب میں جدیدیت بہت تاخیر سے وارد ہوئی لیکن انیس سوساٹھ کے لگ بھگ یہاں آتے ہی ادبی منظر پر چھاگئی۔ اس کے فروغ میں حلقۂ ارباب ِ ذوق نے اہم کردار ادا کیا۔اس حلقے کے ادبی نظریات جمالیاتی اقدار کو بڑی اہمیت دیتے تھے اور ’’ادب برائے ادب‘‘ کو بھی مانتے تھے لیکن ’’فارمولا ٹائپ ادب‘‘ کے قائل نہیں تھے۔ 

جبکہ ترقی پسند ’’ادب برائے زندگی‘‘ کے قائل تھے اور اسی لیے وہ حلقے اور اس کے ہم نشینوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے بلکہ ان کو اپنا بڑا مخالف اورانقلاب دشمن قوتوں کا آلۂ کار خیال کرتے تھے ۔حالانکہ حلقے نے نظریاتی بنیادوں پر کبھی ترقی پسندی کی بحیثیتِ تنظیم مخالفت نہیں کی (ادیبوں کے ذاتی نظریات یا انفرادی رویے کی بات اور ہے) اور کسی واضح سیاسی مسلک کا بھی اظہار نہیں کیا یا کم از کم ابتدائی دور میں نہیں کیا (اگرچہ بعد میں حلقے میں بھی اختلاف ہوگیا اور اس کا ایک ’’نظریاتی‘‘ دھڑا الگ بن گیا)۔

حلقے کی ادبی نشستوں میں ترقی پسند،جدیدیت پسند، اسلام پسند یا کسی بھی دبستان سے تعلق رکھنے والوں کے آنے پر کوئی پابندی نہیں تھی اور ان کی نشستوں میں ہر طرح کے اہلِ قلم واہلِ علم آتے تھے ۔لیکن حلقے سے باقاعدہ تعلق رکھنے والے بیشتر ادیب و شاعر عمومی طور پر ترقی پسندوں کے ادبی مسلک سے متفق نہیں تھے۔ بہرحال، حلقۂ اربابِ ذوق پاکستانی ادب میں ایک بڑی قوت اور رجحان ساز تنظیم رہی ہے اور اس نے ادب میں جدیدیت ، جمالیاتی اقدار اور وجودیت (existentialism) کو تقویت پہنچائی۔

نئی شاعری اور لسانی تشکیلات

نیا کہنے اور نئے انداز سے کہنے کی خواہش نے انیس سو ساٹھ میں لاہور میں ایک نئی ادبی تحریک کو جنم دیا جس کو نئی شاعری کی تحریک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ افتخار جالب، انیس ناگی ، زاہد ڈار اور بعض دیگر لکھنے والوں کی سربراہی میں اٹھنے والی اس تحریک نے نئے خیالات و موضوعات کو ’’نئی زبان‘‘ میں پیش کرنے کی ٹھانی۔ اسی لیے اسے لسانی تشکیلات کی تحریک کا نام بھی دیاگیا۔ لیکن اس تحریک کے بانیوں میں سے کوئی بھی عملی طور پر یعنی اپنی تحریروں کے ذریعے پوری طرح یہ ثابت نہ کرسکا کہ نئی زبان کیا ہے اور نئی لسانی تشکیلات کے ذریعے نئے خیالات کو کیسے پیش کیا جائے۔ 

البتہ ظفر اقبال نے بڑی کامیابی سے اپنی شاعری میں ایک نئی اور مختلف زبان متعارف کروائی اور اسی مختلف لفظیات اور اپنی تخلیقی قوت کے زور پر یہ دکھا یاکہ نئے خیالات کیسے پیش کیے جائیں۔ اگرچہ ان کی نئی زبان کے بعض الفاظ اور محاورے بعض لوگوں کے لیے صدمے کا باعث بھی بنے اور ان کے انداز کی خندہ آور تحریف یعنی پیروڈی بھی کی گئی لیکن پیروڈی مقبول چیز کی ہوتی ہے جس سے لوگ واقف بھی ہوتے ہیں اور پیروڈی ایک طرح سے اعتراف ِعظمت ہی ہوتی ہے۔ ظفر اقبال کی کتابیں بالخصوص ’’آب ِ رواں‘‘اردو شاعری اور اردو زبان کی تاریخ میں یادگار رہے گی،اگرچہ ظفر اقبال کی شاعرانہ عظمت کا ابھی پوری طرح اعتراف نہیں کیا گیا۔

ترقی پسندنقادوں نے خیال یا موضوع یعنی تھیِم (theme) پر زور دیا جبکہ حلقہ ٔ اربابِ ذوق سے وابستہ نقاد ہیئت یا فارم (form) کو اہمیت دیتے تھے۔ لسانی تشکیلات اور نئی شاعر ی کے ماننے والوں نے دونوں کو مسترد کردیا اور کہا کہ موضوع اور ہیئت کی یہ تقسیم غیر ضروری ہے اور لسانی تشکیلات کا نظریہ دونوں کو سمیٹ لیتاہے کیونکہ یہ ،بقول خود ان کے، ’’پوری سچائی ‘‘ کو پیش کرتا ہے۔ نئی شاعری اور لسانی تشکیلات سے وابستہ اہل قلم منطقی اثباتیت (logical positivism) سے متاثر تھے اور یہ ایک طرح سے مابعد الطبیعیاتی خیالات کو مسترد کرنے کا رویہ ہے۔ 

اگرچہ نئی شاعری کی تحریک کے حامیوں نے اسٹرکچرل ازم یعنی ساختیات پر بطور ِخاص زور نہیں دیا لیکن وہ ساختیات اور جدید لسانی نظریات اور تحریکات سے بخوبی واقف تھے اور اُن کے خیالات میں ساختیات اور جدیدیت کی گونج واضح طور پر سنائی دیتی ہے۔ اُنھوں نے جیمز جوائس اورجدیدیت کے حامی بعض دیگر لکھنے والوں کی طرح قواعد اور لغت سے انحراف کا بھی راستہ اپنایا۔ اس تحریک پر سررئیلزم اور تجریدیت کے اثرات بھی موجود ہیں ۔ اگرچہ یہ تحریک کچھ زیادہ عرصے نہیں چل سکی لیکن اس نے ہمارے ادب پر گہرے نقوش چھوڑے۔

پاکستانی کلچر کی بحث

اسلامی ادب اور پاکستانی ادب کے مباحث نے پاکستانی کلچر سے متعلق سوال کھڑے کردیے تھے۔ مثلاً یہ کلچر کیا ہے ؟اور اگر پاکستان کو ایک جغرافیائی اور سیاسی وحدت مانا جائے تو اس کے ذیلی کلچر کا کیا ہوگا کیونکہ پاکستان بہرحال ایک کثیر نسلی اور کثیر لسانی ملک ہے۔ یہ سوال بھی کیا گیا کہ اگر پاکستانی کلچر صرف اسلامی کلچر سے عبارت ہے تو موئن جودڑو اور ٹیکسلا کی قدیم تہذیبوں کا کیا ہوگا کیونکہ یہ بہرحال مسلم تہذیبیں نہیں تھیں لہٰذا ان کی تاریخ اور تمدن کا پاکستان کی تاریخ میں کیا حصہ ہوگا۔

اس پر مختلف آرا سامنے آتی رہیں کچھ سوال تشنۂ جواب رہ گئے اور آج بھی ہیں لیکن اس پر بعض دانش وروں نے بہت متوازن رویہ اختیار کیا، مثلاً احمد ندیم قاسمی نے کہا کہ ہمارا کلچر ہند اسلامی کلچر ہے اور اس پر اسلام کے بے شک اثرات ہیں لیکن ہمارا قدیم تاریخی اور تہذیبی ورثہ بھی ہمارے کلچر کا حصہ ہے۔ سجاد باقر رضوی نے کہا کہ ہمارا کلچر دوخصوصیات کی آمیزش سے وجود میں آیا ہے، ایک خصوصیت ارضی (یعنی مادّی) اور دوسری خصوصیت سماوی (یعنی روحانی یا مذہبی)ہے۔

ساختیات اور دیگر رجحانات

پاکستان کے اردو ادب میں جدید ادبی رجحانات اور تنقیدی نظریات پر بھی تسلسل سے اظہار ِ خیال کیاگیا۔ان رجحانات اور نظریات میں جدیدیت، مابعدِ جدیدیت، ساختیات ، پسِ ساختیات، ردِ تشکیل ، تانیثیت نیزحالیہ برسوں میں مابعد ِ نوآبادیات ، طلسماتی حقیقت نگاری ، اسلوبیاتی مطالعات اور فور گرائونڈنگ (یعنی لسانی انحراف)وغیرہ شامل ہیں۔

انیس سو ساٹھ کے بعد پاکستانی اردو ادب میں تو جدیدیت کا غلغلہ ہوا اور ادھر سرحد کے پار انیس سو ستر کے بعد اردو کے ہندوستانی نقادوں نے مابعد ِ جدیدیت کے مباحث چھیڑے۔ اردو ادب میں مابعد ِ جدیدیت کے مباحث کی گونج صحیح معنوں میں انیس سو اسی اورخاص طور پر انیس سو نوے کے بعد واضح طور پر سنائی دینے لگی۔ بعض ادبی رسالوں نے اس میں خاصا حصہ لیا۔

تانیثیت کا دور دورہ تو پہلے سے تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تانیثی نظریات کو فروغ ہوتا گیا اور خاص کر انیس سو نوے کے بعد بعض خواتین اہل قلم ، مثلاً کشور ناہید ، فہمیدہ ریاض اور فاطمہ حسن وغیرہ نے اس میں نمایاںحصہ لیا۔

خواتین اہلِ قلم

ایک اہم بات پاکستانی اردو ادب میں خواتین کا اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور اور خوب صورت اظہار ہے۔ نہ صرف یہ کہ کئی خواتین پاکستانی اردو ادب کے افق پر چمکیں بلکہ انھوں نے بعض میدانوں میں مَرد ادیبوں اور شاعروں کو بھی مات کردیا، خاص طور پر اردو ناول نگاری کے میدان میں بعض خواتین ناول نگار وں نے بہترین ادبی نمونے پیش کیے (واضح رہے کہ یہاں غیر معیاری اور غیر ادبی ناولوں کا ذکر نہیں ہورہا جنھیں بالعموم’’ گھریلو،رومانی، اصلاحی ‘‘ ناول کہا جاتا تھا اور جو خواتین کے رسالوں میں بھی شائع ہوتے رہے ہیں) ۔ 

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں لکھے گئے بہترین اردو ناولوں میں سے کئی خواتین کے قلم سے نکلے ہیں اور جمیلہ ہاشمی، رضیہ فصیح احمد، نثار عزیز بٹ ، خدیجہ مستور اور بعض دیگر لکھنے والیوں نے اردو ادب کو لافانی ناول دیے جن میں گہرا سماجی اور سیاسی شعور جھلکتا ہے۔ قرۃ العین حیدرکے عظیم ناول آگ کا دریا کا ذکر بھی ضروری ہے مگر ان کے ہجرت کرکے پاکستان آنے اور پھر واپس ہندوستان چلے جانے نے انھیں بعض حلقوں میں متنازع فیہ بنادیا ہے اور ان کے پاکستانی ہونے یا نہ ہونے پر بھی سوال اٹھتے رہے ہیں۔ نسائی احساسات کو شعری پیکر میں نفاست سے پیش کرنے کا کام پروین شاکر نے خوب کیا۔

حب الوطنی اور پاکستانیت

پاکستان کے اردوا دب میں پاکستانیت اور وطن سے محبت کے جذبات تو موجود رہے ہیں لیکن انیس سو پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ میں ادیبوں اور شاعروں نے جس بے مثال جذبے کا مظاہرہ کیا اور جیسے والہانہ انداز میں وطن سے محبت کا اظہار کیا اور مسلح افواج کو بھی خرا جِ تحسین پیش کیا وہ عسکری اور سیاسی تاریخ کے علاوہ ادب کی تاریخ کا بھی روشن باب ہے۔ اس جنگ نے صحیح معنوں میں پوری قوم کو متحد کردیا تھا اور حب الوطنی کے جذبات قوم کے دلوں اور اہل قلم کی تحریروں دونوں میں عروج پر تھے۔سوائے چند ترقی پسند لکھنے والوں کے سبھی نے وطن کی عظمت اور محبت کے گیت گائے۔

لیکن افسوس ، انیس سو اکہترمیں سقوط ِ مشرقی پاکستان کے دل خراش سانحے کی وجہ سے قوم آہوں اور سسکیوں میں ڈوب گئی۔ اہل قلم نے اس پر بھی تخلیقی انداز میں اظہار ِ خیال کیا، اظہار ِ تاسف بھی کیا اور تجزیہ بھی پیش کیا۔ کشمیر بھی پاکستانی ادیبو ں کی توجہ کا مرکز رہا اور کشمیر اور اس کی آزادی کے پس منظر میں اہم تخلیقات پیش کی گئیں۔ محمود نظامی کا رپور تاژکشمیر اداس ہے اس ضمن میں یادگار ہے ۔ فلسطین کا ذکر بھی اردو ادب میں ایک خاص تناظر اور فلسطینیوں کے لیے ہمدردی کے جذبات کے ساتھ موجود ہے۔

اصناف ِ ادب

اردو کی ادبی اصناف کو پاکستانی لکھنے والوں نے ثروت مند کیا اور بعض اصناف مثلاً افسانے اور ناول نے پاکستان میں نئی بلندیوں کو چھو لیا۔انتظار حسین کا نام اس ضمن میں نمایاں ہے۔ شاعری میں غزل کی صنف ہمیشہ مقبول رہی ہے لیکن بعض لکھنے والوں مثلاً جوش ملیح آبادی اور عندلیب شادانی نے غزل کی مخالفت کی۔ یہ اور بات ہے کہ وہ خود بھی غزل کہنے سے باز نہ رہ سکے۔ غزل کہنا ایک تو اس صنف کی مقبولیت کی وجہ سے مجبوری بن گئی تھی دوسرے غزل نے بھی حالات اور وقت کے تقاضوں کے تحت خود کو بدلا اورفیض احمد فیض اور ناصر کاظمی جیسے شعرا نے انیس سو پچاس اور ساٹھ کے عشرے میں جدید حسیت اور سیاسی و سماجی شعور کو غزل میں سمو کر اس کی زندگی میں اضافہ کردیا۔ بصورت ِ دیگر جدید نظم نے غزل کی صدیوں پرانی بادشاہت کے لیے خطرات پیدا کردیے تھے اورموجودہ دور میں بھی نئے شعرا نے جدید نظم میں جو حیرت انگیز کمالات دکھائے ہیں اس کے بعد غزل کی بلا شرکت ِ غیرے مقبولیت ایک بار پھر خطرے میں ہے۔

دیگر اصناف میں سفرنامے نے پاکستانی اردو ادب میں عروج اور مقبولیت حاصل کی اور ابن انشا اور مستنصر حسین تارڑ اس میدان میں بہت نمایاں رہے۔ البتہ ڈراما پہلے ریڈیو اور پھر ٹی وی تک مقبول رہا اور تحریری طور پر شائع کیے گئے ڈرامے ہمارے ہاں کچھ زیادہ مقبولیت حاصل نہ کرسکے، شاید اس لیے کہ ڈراما بنیادی طور پر دیکھنے اور سننے کی چیز ہے اور پڑھنے میں وہ تاثر باقی نہیں رہتا جو اسٹیج پر یا اسکرین پر محسوس ہوتا ہے۔ مزاح میں مشتاق احمد یوسفی واقعی یوسف ِ دوراں رہے اور کوئی یوسف ِ ثانی اب تک منظر ِ عام پر نہ آیا۔

پاکستانی ماحول کی عکاسی

اس بات پر اکثر افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے کہ اردو دب میں اور بالخصوص پاکستانی اردو ادب میں دیہات کے ماحول کی عکاسی کم ہے۔یہ بات بڑی حد تک درست ہے۔ دراصل ہمارے ادیبوں اور شاعروں کی اکثریت کا تعلق شہری علاقوں اور درمیانی طبقے سے ہے اور وہ ظاہر ہے کہ انھی موضوعات پر اظہار ِ خیال کرسکتے ہیں جو ان کے تجربے اور مشاہدے میں آئے ہوتے ہیںلیکن ہمارے بعض اہل قلم نے دیہات کی زندگی کے ذاتی تجربے سے فائدہ اٹھا کر اپنی تخلیقات میں بڑی خوبی اور خوب صورتی پیدا کی، مثلاً احمد ندیم قاسمی نے اپنے ابتدائی دور میں پنجاب کے دیہات کی بھرپور تصویر پیش کی ۔بعد کے دور میں ہمارے دیہی علاقوں کی زندگی کی شان دار عکاسی شوکت صدیقی نے اپنے ناول جانگلوس میں کی۔ جانگلوس میں پاکستانی کلچر، پاکستان کے عام لوگوں اور ان کے حالات کی جیسی تصویر کشی کی گئی ہے اس کی مثالیں کم ملیں گی۔ مجید امجد اور شیر افضل جعفری کی شاعری میں ہمارے پاکستانی دیہات کی پُر تاثیر عکاسی ہے۔ جمیلہ ہاشمی، غلام الثقلین نقوی اور عبداللہ حسین کے ہاں بھی ہمارا دیہات موجود ہے۔

شہری زندگی کو دیکھیں تو محمد خالد اختر، مجید لاہوری اور مشتاق احمد یوسفی نے ایک خاص دور کے کراچی کو مخصوص کرداروں کی مدد سے زندہ کردیا۔ اسد محمد خان نے کراچی کی ثقافتی رنگارنگی ،کثیر نسلی ماحول اور لسانی تنوع کو بہت کامیابی سے پیش کیا۔ انتظار حسین نے اپنے ناول آگے سمندر ہے میں کراچی کے نسلی اور سیاسی مسئلے کواپنے خاص اسلوب میں اجاگر کیا۔

منفرد خصوصیات

یہ ممکن نہیں کہ پاکستانی اردو ادب کی تمام خصوصیات اور تمام لکھنے والوں کااس تحریر میں ذکر کیا جائے کیونکہ پچھتر برسوں میں لکھنے والوں کی بہت بڑی تعداد نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے ہیں اور ان سب کا مختصر ذکر بھی یہاں نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ پاکستانی اردوا دب کی بعض نمایاں خصوصیات کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے جو اسے منفرد بھی بناتی ہیں اور ہندوستان کے اردو ادب سے مختلف بھی۔

مثلاًپاکستانی اردو ادب نے پاکستان کے سیاسی، سماجی اور تہذیبی حالات سے گہرے اثرات قبول کیے۔ قومی امنگیں ، قومی مسائل، قومی جنگیں، جغرافیائی خصوصیات، ثقافتی مظاہر، سماجی حالات، سیاسی واقعات، لسانی کشیدگی، مذہبی اختلاف،غرضے کہ سبھی کچھ پاکستانی اردو ادب میں موجود ہیں، کبھی ان کا ذکر محبت اور وارفتگی سے کیا جاتا ہے اور کبھی کچھ اہلِ قلم حالات سے دل برداشتہ ہوکر تلخ و ترش تجزیے بھی کرنے لگتے ہیں۔

ایک نئی پاکستانی اردو نے رفتہ رفتہ پاکستانی اردو ادب اور پاکستانی صحافت میں جلوہ دکھانا شروع کیا اور مقامی محاورے، مقامی زبانوں کے الفاظ اور مخصوص پاکستانی عوامی زبان یعنی سلینگ بھی پاکستانی اردو ادب میں نظر آتی ہے۔ اب یہ زبان ہندوستان کی اردو زبان سے خاصی مختلف ہوچلی ہے۔

پاکستانی اردو ادب کی ایک اہم خصوصیت اسلام اور اسلامی اقدار و اخلاقی روایات سے اس کی وابستگی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ بات بعض لوگوں کے نزدیک زیادہ پسندیدہ نہ ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہم بحیثیت ِ معاشرہ اپنی مذہبی جڑوں سے کبھی بھی الگ نہیں ہوئے اور یہ خاصیت ہمارے ادب میں بھی واضح طور پر موجود ہے۔ اسی طرح پاکستان اور پاکستانیت نے بھی ہمارے ادب میں گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔

افسوس کہ تفصیل میں جانا ممکن نہیں ، بقول ِ غالب :

وَرَق تمام ہوا اور مدح باقی ہے

سفینہ چاہیے اس بحر ِ بیکراں کے لیے