قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلمانانِ ہند کے لیے ایک آزاد خودمختار ریاست کے قیام کے لیے بےپناہ جدوجہد کی۔ انھوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے 23مارچ 1940ء کو برطانوی سامراج کے سامنے فیصلہ کن موقف اختیا کرتے ہوئے برطانیہ کو مجبور کیا کہ وہ دو قومی نظریے کو تسلیم کرے۔ 14اگست 1947ء کو جب آزاد مملکت ’پاکستان‘ حاصل تو بانی پاکستان کے کاندھوں پر اس ریاست کو چلانے اور اس کے لوگوں کی فلاح و بہبود کی بھاری ذمہ داری آن پڑی۔
تعمیرِ وطن کے لیے قائداعظم نے شب و روز یوں محنت کی کہ نہ دن کا ہوش رہا اور نہ رات کی فکر۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی کرشماتی شخصیت، خوش لباسی، یورپی قانون کی تفہیم اور طرزِ حیات کسی بھی انگریز کے مقابلے میں کم تر نہ تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد انھیں حیات کا بمشکل ایک سال ملا، تاہم انھوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کےآئینی خدوخال اور بین الاقوامی دوستانہ سفارتی تعلقات میں یہ واضح کردیا کہ پاکستان کے تمام شہریوں کے حقوق مساوی ہوں گے۔
بطور گورنر جنرل پاکستان
15اگست1947ء کو قائداعظم نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کا حلف اٹھایا۔ حلف برداری کی تقریب میں سفید شیروانی زیب تن کیے بانی پاکستان کو 31بندوقوں کی سلامی دی گئی۔ اگلے مرحلے میں پاکستان کی پہلی کابینہ نے حلف اٹھایا اور نوابزادہ لیاقت علی خان کو ملک کا پہلا وزیراعظم بنایا گیا۔ ابراہیم اسماعیل چندریگر کو صنعت و پیداوار، ملک غلام محمد کو خزانہ، سردار عبدالرب نشتر کو مواصلات، راجا غضنفر علی خان کو خوراک، زراعت و صحت، جوگندرا ناتھ منڈل کو قانون اور محنت جبکہ میر فضل الرحمٰن کو داخلہ، معلومات و تعلیم کی وزارت کا قلمدان سونپا گیا۔
قیام پاکستان کے بعد جناح کی پہلی سالگرہ
25دسمبر1947ء کو پاکستان میں قائد اعظم کی پہلی سالگرہ کا اہتمام وزیرِ اعلیٰ سندھ سر غلام حسین ہدایت اللہ کی جانب سے دھوم دھام سے کیا گیا، جہاں سندھ ویمن نیشنل گارڈ کی آفیسر پاشا ہارون نے قائد اعظم کی شان میں لاہور کے ایک شاعر کی طرف سے لکھی گئی
نظم گائی:
ملت کے لیے غنیمت ہے آج تیرا دم، اے قائداعظم
شیرازہ ملت کو کیا تونے فراہم، اے قائد اعظم
قائد اعظم کا ریڈیو خطاب
فروری1948ء میں امریکی عوام سے ریڈیو کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا،’’پاکستان کے لیے قانون ابھی پاکستانی اسمبلی نے بنانا ہے، مجھے یہ بات معلوم نہیں کہ قانون کی اصل وضع کیا ہوگی، لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ جمہوری قسم کی ہو گی، جس میں اسلام کے بنیادی اصول بھی شامل کئے جائیں گے۔ آج بھی یہ قوانین ایسے ہی قابل عمل ہیں، جیسےکہ1300سال قبل تھے۔ اسلام اوراس کے نظریے نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے۔ یہ ہمیں انصاف، مساوات اور دوسروں سے اچھائی کا درس دیتا ہے۔ ہم ان اقدار کے وارث ہیں اور مستقبل کے پاکستانی قانون کو بنانے کی مکمل ذمہ داری کا احساس رکھتے ہیں‘‘۔
اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینا
مشرقی پاکستان کے وزیرِ اعلیٰ خواجہ ناظم الدین تھے، اس وقت وہاں کے لوگوں نے مطالبہ کیا کہ ریاست کی قومی زبان اردو نہیں بلکہ بنگالی ہونی چاہیے۔ حالات کو قابو کرنے کے لیے قائداعظم ڈھاکہ تشریف لے گئے اور24مارچ 1948ء کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے سالانہ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو صوبے کی زبان اپنی مرضی سے اختیار کرنے کا حق حاصل ہے لیکن پورے ملک میں رابطے کی ایک ہی زبان ہونی چاہیے ۔ اُردو کو ہی قومی زبان کا درجہ حاصل ہونا چاہیے کیونکہ ملک کی تمام اکائیاں اردو سے بخوبی واقف ہیں۔
نوابی ریاستوں کا پاکستان سے الحاق
قائد اعظم کی مدبرانہ قیادت میں مسلم امّہ اکٹھی ہوئی۔ پاکستان میں موجود تمام نوابی ریاستوں نے قائد اعظم کی کرشماتی شخصیت اور سیاسی تدبر کو دیکھتے ہوئے پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔ حیدرآباد دکن، جونا گڑھ اور جموں و کشمیر کی عوام کے پاکستان میں شمولیت کی خواہش کے برعکس بھارت نے وہاں غاصبانہ قبضہ کر لیا۔ پاکستان میں واقع ریاستوں کے نوابین سے ملاقات کے لیے قائد اعظم نے طوفانی دورے کیے۔ آزادی ہند1947ء قانون کے تحت برطانیہ کی برصغیر سے واپسی پر سینکڑوں نوابی ریاستیں برطانوی راج کے ساتھ کیے گئے معاہدوں سے مکمل آزاد ہو گئیں۔
نو آزاد ریاستیں بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کرنے کے لیے آزاد تھیں، بصورت دیگر ان کو یہ اختیار بھی تھا کہ وہ دونوں ممالک سے الحاق کے بغیر خود مختار ریاست کے طور پر رہیں۔ والی سوات، مینگل عبد الودود اگست 1947ء میں پاکستان سے الحاق کرنے والے پہلے حکمران بنے۔ خاندان کے آخری والی مینگل جہانزیب1969ء تک مکمل حکمرانی کرتے رہے، پھر پاکستان نے مقامی بدامنی کے بعد سوات کا انتظام سنبھال لیا۔
خیرپور کے حکمران عامر علی مراد دوم نے 3اکتوبر 1947ء کو پاکستان سے الحاق کیا۔ اس کے علاوہ5اکتوبر 1947ء کو بہاولپور کے نواب، صادق محمد خان پنجم نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا، یوں وہ پاکستان سے الحاق کرنے والے تیسرے حکمران بنے۔ مہتار چترال مظفر الملک نے ویسے تو 15 اگست 1947ء کو پاکستان سے الحاق کا اعلان کر دیا تھا،تاہم رسمی طور پر الحاق 6اکتوبر 1947ء تک مؤخر کر دیا گیا تھا۔18 نومبر 1947ء کو نگر، جو کشمیر کے شمال میں ایک اور چھوٹی وادی ریاست تھی، جس میں ہنزہ کی زبان اور ثقافت مشترک تھی، نے پاکستان سے الحاق کر لیا۔31دسمبر 1947ء کو نواب امب، محمد فرید خان نے پاکستان سے الحاق کر لیا۔ 1969ء تک امب پاکستان کے اندر ایک خود مختار ریاست کے طور پر قائم رہی۔ نواب کی وفات کے بعد اسے شمال مغربی سرحدی صوبہ (موجودہ خیبر پختونخوا) میں شامل کردیا گیا۔
ریاست دیر کے نواب جہان خان نے 1947ء میں پہلی کشمیر جنگ میں پاکستان کی حمایت میں اپنی افواج کو بھیجا تھا، لیکن پاکستان سے الحاق 18فروری 1948ء کو عمل میں آیا۔ امب کے قریب ’پھلرا‘ ایک چھوٹی نوابی ریاست تھی، جس کی آبادی 1947ء میں7 ہزارافراد پر مشتمل تھی۔ اسے شمال مغربی سرحدی صوبہ (موجودہ خیبر پختونخوا) میں شامل کیا گیا۔ خانیت قلات15اگست 1947ء سے 27مارچ 1948ء تک آزاد ریاست کے طور پر قائم رہی اور اس کے بعد اس نے پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیا۔ 21مارچ 1948ء کو خاران، مکران اور لسبیلہ کے حکمرانوں نے اعلان کیا کہ وہ سب پاکستان کے ساتھ الحاق کر رہے ہیں۔ یہ تمام کامیابیاں قائد اعظم کی وجہ سے ہی ممکن ہوئیں۔
بینک دولت پاکستان کا افتتاح
یکم جولائی 1948ء کو قائد اعظم محمد علی جناح نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کیا۔ 30 دسمبر 1948ء کو برطانوی حکومت نے برصغیر کے ریزرو بینک آف انڈیا کے اثاثوں کا 70فیصد ہندوستان کو دیا جبکہ پاکستان کے حصے میں محض30فیصد آیا۔ اس وقت ریزرو بینک آف انڈیا کی طرح اسٹیٹ بینک آف پاکستان بھی ایک نجی بینک تھا۔